ایک بھائی نے بعض متاخرین علما کی چند عبارات پیش کرکے یہ استدلال کیا ہے کہ اشاعرہ کے برعکس ماتریدیہ اشیا میں تاثیر (یعنی سیکنڈری کازیلٹی) کے قائل ہیں جسے یہ بھائی “تاثیر بالعرض” کہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک پیش کردہ عبارات یا غیر متعلق و لائق توجیہہ ہیں اور یا ائمہ و اصول ماتریدیہ کی رو سے ان کا ظاہری معنی غیر معتبر ہے (اس پر الگ سے بات ہوسکتی ہے)۔ ان عبارات پر براہ راست تبصرہ کرنے سے پہلے ضروری بات متعلقہ دعوے کی تنقیح ہے کہ ماتریدی اصولوں میں اس کا مطلب کیا ہے تاکہ بامعنی گفتگو ہوسکے۔ چنانچہ سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جسے “تاثیر بالعرض” کا نام دیا گیا، اس ترکیب میں تاثیر کا معنی کیا ہے؟
تاثیر کا معنی اور متعلقہ سوالات
تاثیر کا تصور دو طرح قابل فہم ہوتا ہے: (1) عدم سے وجود دینے میں، اور (2) یا کسی وجود کے بقا یا استمرار میں (کہ جب وہ شے وجود میں آگئی تو اب وجود پر باقی رہنے کی صلاحیت سے متصف ہے)۔ ان دو کے سوا تاثیر کا کوئی تیسرا معنی قابل فہم نہیں (ان دو میں سے تاثیر کا کونسا مفہوم معتبر ہے، اس باب میں متکلمین و فلاسفہ کا موقف الگ ہے)۔
پھر پہلی قسم یعنی عدم سے وجود کی تاثیر:
- یا بطریق قدرت ہوتی ہے (کہ ایک فاعل چاہے تو فعل سے اثر ظاہر کرے اور چاہے تو نہ کرے)،
- یا بطریق طبع (کہ ایک شے ہے ہی ایسی کہ جب وہ ہوگی تو اس کی وجہ سے دوسری کا وجود بھی ہوگا)،
- اور یا بطریق تولد (یعنی کسی فعل سے غیر مباشر یا متاخر کچھ امور کا ظاہر ہونا جیسے پتھر پھینکنے پر اس کا لڑھکنا، کسی جسم کو مکا مارنے پر جسم میں درد ہونا)
چنانچہ زیر بحث گفتگو میں ثانوی علت کی بات کرنے والے ماتریدی دوست تاثیر کو کس مفہوم میں مراد لے رہے ہیں؟
الف) کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ بعض چیزوں میں بعض کو وجود دینے کی تاثیر رکھ دی جاتی ہے، کہ مثلاً جب آگ کے پاس روئی جاتی ہے تو دھویں و راکھ کی صورت جو امور عدم سے ظاہر ہوتے ہیں وہ آگ میں ودیعت شدہ طبع کا نتیجہ ہے؟ اگر یہی کہنا چاہتے ہیں کہ آگ و روئی کے اقتران کے ساتھ روئی کا جلنا اور راکھ پیدا ہونا خدا کی جانب سے ودیعت کردہ “جلانے کی تاثیر” کی وجہ سے ہے جسے خدا چاہے تو سلب کرسکتا ہے، تو اسے “تاثیر بالطبع” کہتے ہیں، یعنی حقائق میں کوئی ایسی حقیقت (“جلانے کی صلاحیت”) بھی ہے جس کا کسی شے سے ملاپ ہوتے ہی کچھ امور ظاہر ہونا لازم ہیں، خدا کی قدرت (یعنی ایجاد کا فعل) نتیجتاً ظاہر ہونے والے ان امور سے متعلق نہیں ہوتی بلکہ صرف اس صلاحیت کی ایجاد سے متعلق ہوتی ہے۔
ب) یا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بعض چیزوں میں بقا کی تاثیر رکھ دی جاتی ہے؟
ج) یا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مثلاً آگ واقعی گرم ہوتی ہے اور آگ کے پاس جب روئی لائی جائے تو ایک اور شے مثلاً دھواں و راکھ جنم لیتا ہے؟ لیکن اسی پر تو سوال ہے کہ آگ و روئی کے اقتران سے جو راکھ ظاہر ہوتی ہے، اس “عدم سے وجود” کی نسبت کیا آگ کی تاثیر کی جانب ہے؟ اگر نہیں، تو آگ کی تاثیر چہ معنی دارد؟ صرف یہ کہنا کہ “آگ واقعی گرم ہے”، اس سے کیا ثابت ہوا اور اس کا انکار کس نے کیا ہے؟ اسی کو تو “قادر کی عادت” کہتے ہیں کہ وہ ان کے اقتران کے ساتھ ایک اور شے کو وجود بخشتا ہے۔
د) اور یا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خدا نے آگ میں تاثیر تو رکھی ہے مگر یہ تاثیر خدا کی قدرت سے مؤثر ہوتی ہے؟ یہاں مدعی کو بتانا چاہئے کہ قدرت سے اس نے کیا مراد لی؟ قدرت کا معنی ایجاد ہے، یعنی عدم سے وجود دینا (یاد رہے کہ متکلمین کے نزدیک قدرت کا تعلق بقا سے نہیں ایجاد سے ہے)۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ آگ کی تاثیر بذریعہ قدرت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی قدرت سے راکھ عدم سے وجود میں آتی ہے، تو آگ کی تاثیر چہ معنی دارد؟ اور اگر وہ آگ میں ودیعت شدہ تاثیر سے وجود میں آتی ہے، تو راکھ کا عدم سے وجود میں آنا بذریعہ خدا کی قدرت ہونا چہ معنی دارد؟ اگر کوئی کہے کہ قدرت بھی کام کرتی ہے اور آگ کی تاثیر بھی، تو اسے ایک شے کی دو علتیں مقرر کرنا کہتے ہیں جو محال ہے اور اس کیفیت میں کم از کم ایک علت غیر مؤثر ہوتی ہے، یہ قول دو مختلف تصورات تاثیر کو خلط ملط کرکے ناقابل فہم تلفیقی ماڈل تیار کرنا ہے۔
الغرض سب سے پہلے ہمارے ان دوستوں کو یہ بتانا چاہئے کہ جس چیز کا نام انہوں نے تاثیر رکھا اس کا مطلب کیا ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ ماتریدی اصول اس تصور کو قبول کرسکتے ہیں، محض مبہم طور پر کوئی تصور بیان کرکے بعض متاخر ماتریدیہ کی عبارات پیش کردینا کوئی مؤثر استدلال نہیں۔
ہماری رائے میں ماتریدی نکتہ نگاہ سے :
- کیس (الف) اس لئے غلط ہے کہ یہ عموم قدرت کے ان کے اصول کے خلاف ہے۔ ماتریدیہ کا اصول ہے کہ خدا کی قدرت تمام حوادث سے متعلق ہے،
- کیس (ب) اس لئے غلط ہے کہ یہ “العرض لایبقی زمانین “کے ماتریدی اصول کے خلاف ہے،
- کیس (ج) اشاعرہ ہی کی بات ہے ،
- کیس (د) بے معنی چیز کانام تاثیر رکھنا ہے۔
پس یہ بات محل نظر ہے کہ اشیا میں ثانوی علل کے معاملے میں ماتریدیہ کا موقف اشاعرہ سے الگ ہے۔
جواب اور اس پر تبصرہ
ثانوی علل پر ماتریدیہ کے موقف کی وضاحت کے لئے جو تحریر لکھی، اس کے جواب میں ایک بھائی نے تحریر بھیجی جہاں تاثیر کے مفہوم کی تنقیح کرتے ہوئے فلاسفہ، اشاعرہ و ماتریدیہ کے مواقف بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمیں سردست صاحب تحریر کے بیان کردہ ماتریدی موقف پر کچھ کہنا ہے جو یوں بیان کیا گیا ہے:
“جب ایک بج کر ایک منٹ ایک سیکنڈ پر آگ پیدا ہوئی تو اسی وقت اللہ تعالی اس آگ کے ساتھ احراق کی قوت لازم کرتے ہیں یعنی آگ اور احراق میں لزوم پیدا کرتے ہیں اور پھر اسے آپس میں آزاد چھوڑتے ہیں۔ اب جب لکڑی آگ کے قریب ہوئی تو لکڑی میں اللہ جلنے کا اثر یعنی احتراق، آگ میں پہلے سے موجود قوت احراق یعنی جلانے کے ذریعے سے پیدا کرتے ہیں۔”
ہم نے پوچھا تھا کہ تاثیر کا مطلب بتایا جائے کہ یہ عدم سے وجود کا نام ہے یا وجود پر استمرار کا، نیز عدم سے وجود ہے تو ماتریدی سسٹم میں بطریق قدرت، بطریق طبع و تولد کے سوا کسی چوتھے معنی میں مفہوم ہے یا ان کے مجموعے کے طور پر؟ صاحب تحریر نے البتہ ان امور کا جواب نہیں دیا، ان کے درج بالا بیان میں بھی تاثیر و قدرت کے مفاہیم واضح نہ کرنے کے ساتھ ساتھ ماتریدی نظام فکر کے متعدد مقدمات کو بھی اگنور کردیا گیا ہے۔ پھر یہاں چار چیزیں ہیں: (1) آگ، (2) لکڑی، (3) احراق یعنی جلانے کی صلاحیت اور (4) احتراق یعنی جلنا۔ انہوں نے احتراق (لکڑی کے جلنے) کا مفہوم بھی واضح نہیں کیا کہ اس سے مراد لکڑی سے دھواں اٹھنا و راکھ بننا ہے یا کچھ اور (مثلا فلاسفہ کی “قوت قبولیت” جو قبولیت محضہ کی اس صلاحیت کی نمائندہ ہے جو ازل سے ھیولی میں مقدر ہے)۔ ہمارے فہم میں ائمہ ماتریدیہ کے ہاں اس کا مطلب دھواں و راکھ وغیرہ ہے، اس لئے ہم اسی پر گفتگو کریں گے۔ چونکہ بنیادی تصورات کی وضاحت نہیں کی گئی، اس لئے ہماری تحریر میں جو نکات موجود ہیں وہ صاحب تحریر کے درج بالا بیان پر جوں کے توں موجود ہیں:
1) بنیادی ابہام یہ ہے کہ آگ و لکڑی کے ملاپ سے جو دھواں اٹھا اور راکھ ظاہر ہوئی، یہ ایک شے کا عدم سے وجود ہے۔ اس کی نسبت کس کی جانب ہے؟ صاحب تحریر نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اگر ان امور کی نسبت آگ کی تاثیر کی جانب ہے، تو خدا کی قدرت ان امور سے وابستہ نہیں (یعنی وہ ان کا خالق نہیں) اور یہ “عموم قدرت” کے ماتریدی اصول کی خلاف ورزی ہے۔
2) اور اگر ان امور کی نسبت خدا کی قدرت کی جانب ہے، تو قدرت کہتے ہیں ایجاد کو۔ مطلب یہ بنا کہ یہ امور براہ راست خدا کی قدرت سے خلق ہوئے نہ کہ آگ کے ساتھ فرض کی گئی احراق نامی کسی تاثیر (یا عرض) سے۔ اس پر اگر کوئی یہ کہے کہ شے میں احراق کی تاثیر بھی موجود ہوتی ہے مگر وہ علت نہیں ہوتی بلکہ علت خدا کی قدرت ہی ہوتی ہے، تو ہم کہیں گے کہ آپ محض لفظی کھیل کھیل رہے اور شے میں کسی ایسے معنی کی نشاندہی نہیں کررہے جسے “تاثیر” کہتے ہیں۔ یہ قول ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ فلاں چیز علت ہے بھی اور نہیں بھی۔ اسی لئے ہم نے کہا تھا کہ پہلے تاثیر جیسے بنیادی تصور کا مطلب واضح کیا جانا چاہئے۔
3) اس سے بچنے کے لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں نے کام دکھایا، لیکن یہ ایک چیز کی دو علتیں مقرر کرنا ہے جو محال ہے، اس صورت میں یا دونوں علتیں نہیں ہوتیں اور یا کم از کم ایک غیر مؤثر ہوتی ہے۔ تاہم صاحب تحریر نے اس تضاد کو ایک خوبصورت عبارت کا روپ یوں دیا ہے:
“اب جب لکڑی آگ کے قریب ہوئی تو لکڑی میں اللہ جلنے کا اثر یعنی احتراق، آگ میں پہلے سے موجود قوت احراق یعنی جلانے کے ذریعے سے پیدا کرتے ہیں”!
اس عبارت میں “کے ذریعے” اور “اللہ کرتے ہیں” کو کھولنے کی ضرورت ہے، صاحب تحریر نے علت کے دو مختلف معانی (موجب اور موجد) کو ملا دیا ہے۔
اگر تکنیکی زبان میں بات کریں تو یوں ہے کہ احتراق کس چیز کا نام ہے؟ جواب ہے بعض اعراض کے بعض سے بدل جانے کے (مثلا لکڑی کا جسم جن اعراض سے عبارت ہے، وہ کچھ اور اعراض میں بدل جاتی ہیں جنہیں راکھ کہتے ہیں)۔ ماتریدی اصول یہ ہے کہ اعراض کو دو زمانوں میں بقا نہیں، خدا ہر لمحہ تجدید اعراض کرتا ہے۔ لکڑی آگ سے ملاپ پر جب راکھ میں بدلتی ہے، تو کچھ اعراض معدوم ہوجاتی ہیں اور کچھ نئی عدم سے وجود پزیر ہوتی ہیں۔ ان کا یہ وجود میں آنا کس کی جانب منسوب ہے؟ اس کا جواب جب ماتریدی اصول میں دیا جائے گا تو بات سمجھ آجائے گی۔
4) صاحب تحریر کو اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ وہ ایک عرض کو دوسری پر مؤثر بنا رہے ہیں اور یہاں سے ہمارا چوتھا نکتہ سامنے آتا ہے۔ اس کے لئے صاحب تحریر کی درج بالا عبارت میں “پہلے سے موجود قوت احراق” کی ترکیب پر توجہ کیجئے۔ ماتریدی اصول ہے کہ اعراض کو دو زمانوں میں بقا نہیں (اس کے لئے امام ماتریدی و امام ابو معین نسفی وغیرہ کا موقف دیکھا جاسکتا ہے)۔ جب 1:01:01 پر آگ میں احراق کی تاثیر پیدا ہوئی تو یہ ایک عرض کی تخلیق ہے جو نینو سیکنڈ کے بعد فی الفور ختم ہوجاتی ہے۔ یہاں دو امکان ہیں: احتراق کا عمل (یعنی راکھ وغیرہ کا ظہور) یا اس خاص لمحے کے بعد ہوگا اور یا اسی میں۔ اگر بعد میں ہوا، تو احراق کی جو صلاحیت 1:01:01 پر خلق ہوئی وہ 1:01:02 پر ہونے والے احتراق پر موثر نہیں ہوسکتی اس لئے کہ وہ نینو سیکنڈ کے بعد ہی معدوم ہوگئی۔ پس 1:01:02 منٹ والا احتراق اس پہلے سے موجود چیز کے ذریعے ہونا ممکن نہیں اس لئے کہ معدوم علت نہیں ہوتا (اس کے حل کے لئے یہاں یہ فرض کرنا ہوگا کہ معدوم بھی کوئی موجود یا ثابت شے ہے)، تاہم صاحب تحریر نے اس کا لحاظ رکھے بغیر لکھ دیا ہے: “پہلے سے موجود قوت احراق یعنی جلانے کے ذریعے سے پیدا کرتے ہیں”۔ اور اگر کہا جائے کہ مؤثر وہ تاثیر نہیں جو 1:01:01 پر ظاہر ہوئی بلکہ وہ تاثیر ہے جو بعد میں 1:01:02 پر عدم سے وجود میں آئی، تو یہ صرف دو امور کا اقتران ہے اور یہاں یہ کہنا ممکن نہیں کہ کون علت ہے اور کون معلول، اس لئے کہ دونوں ایک ساتھ عدم سے وجود میں آئے اور اس سے قبل دونوں معدوم تھے۔
الغرض درج بالا بیان اس ماتریدی موقف کا اظہار نہیں جسے ائمہ ماتریدیہ نے تشکیل دیا، یہ بعد کے ادوار کے تلفیقی ماڈلز کا بیان ہے۔
مشائخ ماتریدیہ اور ثانوی علل
اشیا میں تاثیر کو ماتریدی مشائخ کس نظر سے دیکھتے ہیں، اس کے لئے مسئلہ تولد میں ان کی آراء دیکھنا چاہئے۔ امام ابو معین نسفی (م 508 ھ) کا مرتبہ ماتریدی فکر میں کسی سے مخفی نہیں، آپ امام ابو منصور ماتریدی (م 333 ھ) کی آراء کے مفصل شارح ہیں۔ معتزلہ کا کہنا ہے کہ انسان سے جو افعال (مثلاً ہاتھ پیر کی حرکات وغیرہ) ظاہر ہوتی ہیں وہ اس قدرت کی تاثیر سے ہیں جو بندے میں (بطور عرض) حادث ہوتی ہے اور اس بنا پر ان کا کہنا ہے کہ خدا ان افعال کا خالق نہیں بلکہ وہ صرف اس قدرت کا خالق ہے جن سے بندہ یہ افعال سرانجام دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ان میں یہ اختلاف ہوا کہ بندے کے فعل سے غیر مباشر یا مؤخراً جو متولد افعال رونما ہوتے ہیں (جیسے پتھر پھینکنے پر اس کا لڑھکنا، برتن گرانے پر اس کا ٹوٹنا، جسم پر مکا مارنے پر جسم میں درد ہونا)، ان کی نسبت بندے کی جانب ہے یا خدا کی قدرت کی جانب؟ معتزلہ کی ایک جماعت کے مطابق وہ بندے کی قدرت کی تاثیر سے ہیں نہ یہ کہ وہ خدا کی قدرت سے خلق ہوئے۔ یہاں نوٹ کیجئے کہ ائمہ معتزلہ اس بات سے واقف تھے کہ ایک ہی اثر کی نسبت بندے کی قدرت کی تاثیر اور خدا کی قدرت کی تاثیر کی جانب نہیں کی جاسکتی کہ یہ دو علتیں مقرر کرنا ہے، اس لئے انہوں نے اپنا انتخاب ہم آہنگی کے ساتھ کیا۔
امام نسفی نے اس مسئلے پر تفصیلی کلام کیا ہے، یہاں صرف چند نکات کا خلاصہ دیا جاتا ہے:
1) متولد امور بندے کی جانب سے نہیں ہوتے، نہ بطریق خلق اور نہ ہی بطریق کسب، انہیں بندے کے فعل سے مخلوق سمجھنا معتزلہ کا مذہب ہے۔ ابراہیم النظام (م 221 ھ) کا کہنا ہے کہ متولد امور وجوبی طور پر خلق ہوتے ہیں، یعنی خدا جسم بناتا ہی ایسا ہے کہ جب اس پر مکا لگے تو خدا اس میں تکلیف پیدا کرے، یہی معاملہ برتن کے ٹوٹنے وغیرہ کا ہے۔ ابو العباس القلانسی (م 255 ھ ) کا کہنا یہ ہے کہ خدا یہ سب کچھ اشیا کے طبعی تقاضوں کے پیش نظر وجوبی طور پر کرتا ہے۔
2) ماتریدیہ کا موقف یہ ہے کہ یہ سب متولد امور خدا کی قدرت سے اس کا فعل ہیں۔ اس کے پیش نظر آپ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک درست بات یہ ہے کہ ان امور کا ان چیزوں کے بغیر ظاہر ہونا جائز ہے جنہیں “عرف میں سبب” کہا جاتا ہے، نیز ان امور کا ایک خاص طرز پر ہونا الله کی قدرت و اختیار سے ہے البتہ یہ خاص ترتیب خدا کی “اجرائے عادتٓ” سے ہے۔ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
خلو المحل عن هذه المعانی عند وجود مایعد من العرف سبباً لها جائز، والله تعالی لایجب علیه ان یفعل شیئا منها من المحل وما یفعل یفعل باختیاره غیر انه اجری العادة بان یفعل ذلک کله (تبصرة الادلة)
یہاں عبارت میں دو چیزیں قابل غور ہیں:
- “مایعد من العرف سبباً لها ” ۔۔۔۔۔ یعنی جنہیں سبب کہا جاتا ہے وہ انسانی عرف کی بات ہے
- “انه اجری العادة بان یفعل ذلک” ۔۔۔۔۔۔ ایک چیز کے ساتھ دوسری کا یہ اقتران الله کی عادت سے جاری افعال کا معاملہ ہے
یہی وہ بات ہے جسے امام اشعری (م 324 ھ) و اشاعرہ اشیا میں تاثیر کی نفی کرکے انہیں “امارات” کہتے اور ان کے اقتران کو “اجرائے عادت” کہتے ہیں اور امام ابو معین نسفی بھی “اجرائے عادت” کی وہی اصطلاح استعمال کررہے ہیں۔ امام صاحب نے اس نکتے کو معتزلہ کے دلائل پر تبصرہ کرتے ہوئے آگے جا کر بار بار واضح کیا ہے جسے ان کی کتاب میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
علامہ اسمندی حنفی (م 552 ھ) مزید صراحت سے لکھتے ہیں کہ ہر وہ دو امور جن میں سے ایک کا تصور دوسرے کے بغیر ممکن ہے جیسے مکا لگنے سے درد ہونا، تیر چلانے سے تیر کا آگے پہنچنا وغیرہ، تو ان میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ الله تعالیٰ ان دونوں میں سے ایک کو دوسرے کے بغیر پیدا کرنے پر قادر ہے، مگر اس نے عادت یوں جاری فرما دی ہے کہ ان میں سے ایک کے ساتھ دوسرا بھی پیدا فرماتا ہے۔ لہٰذا اس اقتران میں جو چیز پیدا ہوتی ہے وہ محض عادت کے طریقے سے پیدا ہوتی ہے، نہ یہ کہ وہ پہلی چیز کے اندر موجود کسی تاثیر سے متولد ہوتی ہے:
فلا جرم یقدر الله تعالی علی خلق احدهما بدون الاخر الا انه اجری العادة بخلق احدهما بدون الاخر، فانما یوجد بطریق العادة لا انه متولد من الاول (لباب الکلام)
علامہ صابونی ماتریدی (م 580 ھ) بھی اس باب میں کہتے ہیں کہ وہ آثار یا نتائج جو بندوں کے افعال کے بعد عادتاً پائے جاتے ہیں جیسے مارنے کے بعد درد ہونا یا تیر پھینکنے کے بعد اس کا آگے بڑھنا، یہ سب الله کے پیدا کرنے اور وجود میں لانے سے حاصل ہوتے ہیں، بندے کے فعل یا اس کے اکتساب سے نہیں۔ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
ان الآثار التی توجد عقیب افعال العباد بمجری العادة کالالم عقیب الضرب ومرور السهم بعد الرمی حاصلة بایجاد الله و احداثه لابفعل العبد واکتسابه (الکفایة فی الهدایة)
یعنی آپ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اشیا کا یہ اقتران قادر کی “اجرائے عادت” کی بات ہے۔
اسی طرح علامہ بزدوی حنفی (م 493 ھ) بھی اس تناظر میں اجرائے عادت کی اصطلاح ہی استعمال فرماتے ہیں:
ان الله تعالی هکذا اجری العادة ان السهم اذا رمی والحجر اذا دحرج یندحرج (اصول الدین)
الغرض مشائخ ماتریدیہ اس معاملے میں یکسو ہیں کہ یہ اقتران اجرائے عادت کے طریقے پر ہے نہ کہ اشیا میں ودیعت شدہ کسی تاثیر سے، مشائخ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اگر شے میں تاثیر مانی جائے تو اس کے بعد ان امور کا خدا کی قدرت سے ہونا بے معنی بات ہے۔ چنانچہ معتزلہ ہوں یا ماتریدیہ و اشاعرہ، وہ اپنے اپنے موقف اور اس کے مضمرات سے بخوبی واقف تھے۔ تاہم بعض متاخرین و جدید حضرات نے دو الگ نظاموں میں تلفیق کرلی ہے اور وہ اسے ہم آہنگی سے نبھا بھی نہیں پاتے۔
اس معاملے پر اس پہلو سے بھی غور کرنا چاہئے کہ ماضی میں ماتریدیہ و اشاعرہ کے مابین اختلافی امور کو واضح کرنے کے لئے متعدد کتب و رسائل لکھے گئے، کیا ان میں اس مسئلے کو نزاعی کہا گیا؟ مثلاً امام بزدوی نے کتاب “اصول الدین” میں اشاعرہ و ماتریدیہ کے مابین نزاعی مسائل گنوائے ہیں، اسی طرح علامہ کمال باشا (م 940 ھ) نے “مسائل الاختلاف بین الاشاعرة والماتریدیة” کے نام سے رسالہ لکھا، کیا ان میں اس مسئلے کے نزاعی ہونے کا ذکر کیا گیا ہے؟ علامہ عبد الرحیم شیخ ذادہ (م 1078 ھ) نے تردد سے کام لیتے ہوئے اپنے رسالے “نظم الفرائد و جمع الفوائد” میں اشاعرہ و ماتریدیہ کے مابین 40 نزاعی امور گنوائے ہیں، کیا اس میں اس نزاع کا ذکر موجود ہے؟
الغرض ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض جدید دوست ائمہ و مشائخ ماتریدیہ کے کلام سے سہو نظر کرتے ہوئے بعض متاخرین کے تلفیقی اقوال کو ماتریدیت قرار دینا چاہتے ہیں۔
کمنت کیجے