Home » شعبہ قانون اور اصولِ قانون میں مسلمانوں کی خدمات
اسلامی فکری روایت تاریخ / جغرافیہ فقہ وقانون

شعبہ قانون اور اصولِ قانون میں مسلمانوں کی خدمات

ظفر اللہ خان

مسلمانوں نے قانون (فقہ) اور اصول قانون (اصول فقہ) کے شعبوں میں بھی نمایاں اور قابل قدر خدمات انجام دیں۔ سابق تہذیبوں کے اپنے مخصوص طور طریقے ہی قانون ہوتے تھے۔ تاہم قانون اب بطور ایک سائنس (مجرد وجود اور قوانین و قواعد سے جداگانہ تشخص کی حامل) ہے جو اسلام سے پہلے موجود نہیں تھا۔ فقہ خالصتاً ایک مسلم دریافت ہے۔
روم، یونان، چین، ہندوستان اور عراق میں اسلام کی آمد سے بہت پہلے قانون کے کئی شعبے موجود تھے لیکن فقہ، حضرت امام ابو حنیفہؒ کی تصنیف کتاب الرائے سے شروع ہوئی۔ ان کے شاگرد حضرت امام ابو یوسفؒ نے کتاب الاصول لکھی اور حضرت امام شافعیؒ نے انسانی تاریخ میں پہلی بار اپنی کتاب الرسالہ فی اصول الفقہ میں اصول قانون، قانون سازی، تعبیر کے اصولوں وغیرہ پر باقاعدہ سیر حاصل بحث کی۔
مسلم فقہا نے تاریخ میں پہلی بار نیت (ارادہ) کی اہمیت واضح کی اور اس تصور پر مفصل بحث کی ہے۔ اس کے بنیادی الفاظ اس حدیث (صحیح بخاری، ج: ۱، رقم الحدیث: ۱) إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (اعمال کا دارومدار نیت پر ہے) سے ماخوذ ہیں۔ فقہا نے سخت مواخذے (       culpability         without criminal        intention) کی حوصلہ شکنی کی۔ یہ نظریہ نیت ہے اور یہ فوجداری اصول قانون میں ایک مسلمہ حقیقت رکھتا ہے کیونکہ قانون ایسے اقدام کوجرم نہیں مانتا جس میں ارادۂ جرم شامل نہ ہو۔
حضور نبی کریمﷺ نے ریاست مدینہ کے لیے اولین تحریری دستور دیا۔ یہ تحریری دستور جوآپﷺ نے تیار کرایا، باون (۵۲) شقوں پر مشتمل ہے۔ اس میں متعدد اصول طے کر دیئے گئے ہیں۔ مثلاً حکمران اور رعیت کے علیحدہ علیحدہ حقوق و فرائض، قانون سازی، انصاف کا قیام، نظام دفاع، غیر مسلم رعایا کے ساتھ سلوک، دو طرفہ بنیاد پر سماجی بیمہ کاری اور اس دور کے دیگر تقاضوں کا بندوبست وغیرہ۔
مسلمانوں نے ہی پہلی بارمختلف اقوام کے تقابلی قوانین کا باضابطہ مطالعہ کیا۔انہوں نے متنوع بیرونی قوانین کے بنیادی اصولوں کے اسلامی قوانین سے فرق و امتیاز پر بحث کی۔ نیز اسلام کے قانونی پہلوؤں کی مختلف تعبیرات کے مابین اصول فقہ کے لحاظ سے امتیاز کا بھی جائزہ لیا۔
عام طور پر جنگی حالات میں قانون معطل ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں کسی سے معقول اور منصفانہ رویہ اپنانے کی کم سے کم توقع کی جاتی ہے۔ اس لیے برسرپیکار ریاستوں کے فرمانرواؤں نے ہمیشہ اسے اپنا استحقاق سمجھا کہ وہ دشمن کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کریں۔ مسلمانوں نے پہلی بارعمومی بین الاقوامی قانون (Public        International        Law) کو ریاستی حکمرانوں کی متلون مزاجی پر مبنی قانون سے الگ کیا اور اسے خالصتاً قانونی بنیادوں پراستوار کیا۔ بین الاقوامی قانون کا ضابطۂ کار حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ایک استاد حضرت امام زید بن علی زین العابدینؒ نے اپنی تصنیف کتاب المجموعہ میں متعارف کرایا۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ایک شاگرد حضرت امام محمد الشیبانیؒ نے اس موضوع پر دو کتابیں کتاب السیر الصغیر اور کتاب السیر الکبیر لکھیں۔ جن کا انگریزی ترجمہ امریکن یونیورسٹی آف بیروت کے عیسائی پروفیسر مجید خدوری نے کیا اور دستیاب ہے۔ حضرت امام سرخسیؒ نے اس کتاب کی شرح چار جلدوں میں لکھی۔ یہ کتاب Oppenheim کی کتاب بین الاقوامی قانون (International        Law) سے بھی بڑی ہے۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ بین الاقوامی قانون پر پہلی باقاعدہ کتاب ولندیزی عالم ہوگوگروشئیش نے 1645ء میں لکھی تھی جس کا نام De         Jure        Belli        ac        Pacis        (Law of War and        Peace) ہے۔
مسلم فقہا نے حقوق اور فرائض کے باہمی تعلق کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اگر انسان کے حقوق و فرائض کو لازم و ملزوم نہ کیا جائے تو بنی نوع انسان ایک غارت گر جانور، بھڑیا یا شیطان بن جائے گا۔
اسلام قوانین کو فطرت انسانی کی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر استوار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اچھائی او ربرائی کے درمیان فرق و امتیاز کی تصریح کرتا ہے۔ قرآن پاک چند چیزیں لازماً کرنے (معروف) اور چند چیزوں سے لازماً اجتناب کرنے (منکر) کا حکم دیتا ہے۔ معروف کامطلب ہے کہ اچھائی وہ ہے جس کے اچھا ہونے کا علم ہر کسی کو ہے۔ اس لیے اس کا حکم دیاگیا ہے (یا اسے ترجیح دینے کے لیے کہا گیا ہے) جب کہ منکر کے معنی ایک ایسی چیز ہے جس کی ہر کوئی مذمت کرتا ہے اس لیے وہ ممنوعہ ہے۔ اسلا می قوانین کا بہت بڑا حصہ اسی نظرئیے پر استوار ہے۔
عمومی طور پر جو مادی ترغیبات یا موانع (sanctions) ایک قانون کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں، وہ اسلام میں بھی اسی طرح ہیں جیسے دیگر نظامہائے قانون میں ہوتے ہیں۔ تاہم پیغمبر اسلام حضور نبی کریمﷺ نے ان میں ایک زائد ترغیب شامل کردی ہے جو مادی ترغیب کی بہ نسبت شاید زیادہ موثر ہے اور وہ روحانی ترغیب ہے۔
اسلام نے انصاف کے نظام کے قیام کے لیے جملہ لوازم فراہم کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کے ذہنوں میں موت کے بعد قائم ہونے والے روز محشر، اللہ تعالیٰ کی عدالت کے فیصلوں اور دنیا میں کیے گئے اعمال کے نتیجے میں نجات یا جہنم کے فیصلوں کے تصورات راسخ کیے ہیں۔ اس طرح ایک مومن کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے فرائض پورے کرے جبکہ اسے اس حکم کی خلاف ورزی کرنے کا بھی پورا موقع دیا گیا ہے۔ حرام سے روکا گیا ہے باوجودیکہ حرام میں کئی ترغیبات ہیں۔ مادی جواز اورر وحانی جواز، ایک دوسرے کی اثر انگیزی کے لیے باعث تقویت بنتے ہیں۔ روحانی جواز قوانین کی زیادہ سے زیادہ پابندی کرنے اور کروا نے، حقوق و فرائض کا زیادہ سے زیادہ احترام کرنے اور کروانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
مسلمانوں کے لیے قرآن پاک وحی الٰہی ہے جو حضور نبی کریمﷺ پر نازل ہوئی۔ آپﷺ نے اس کے مقدس متن کی توضیح و تشریح فرمائی۔ ان توضیحات و تشریحات کو بطور حدیث قلم بند کرنے کی ہدایات دیں۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات نا قابل تنسیخ ہیں۔ یہ نظریاتی سختی (doctrinal        rigidity) نظریۂ اجتہاد کے تحت اس وقت نرم و لچکدار بن جاتی ہے جب انسانوں کو دِقت طلب واقعات و حالات سے توافق اختیار کرنے کی اجازت دے دیتی ہے۔ قوانین خواہ وہ کتاب الٰہی سے ماخوذ ہوں یا ارشادات نبویﷺ سے اخذ کئے گئے ہوں۔ وہ ہرگز یکساں درجے کے حامل نہیں ہیں۔ ان میں سے صرف چند ایک ہی بطور فریضہ (obligatory) عائد ہوتے ہیں جبکہ دیگر قوانین سفارشات کا درجہ (recommendatory) رکھتے ہیں جو افراد کو خاصی گنجائش دیتے ہیں۔ قانون کی تعبیر و توضیح کی جا سکتی ہے۔ تعبیرات و توضیحات ایسے امکانات پیدا کر دیتی ہیں کہ قانونِ خداوندی، خصوصی حالات سے موافقت پیدا کرلیتا ہے۔ اکثریت کوجب بھی اورجیسی بھی ضرورت ہو وہ اس کے لیے قانون سازی (legislation) کرسکتی ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ نے اس کے لیے قاعدہ وضع فرما دیا ہے:
لا تَجْتَمِعُ اُمَّتی علی ضلالَۃِ. (مشکوٰۃ المصابیح، ج: ۵، رقم الحدیث: ۳۱۷)
(میری امت کسی غلط رائے پر متفق نہیں ہوگی)
اسلام قانون سازی میں انسانی عقل پر اعتماد کرتا ہے۔ جب حضور نبی اکرمﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو فرمایا: جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے تو تم کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ پاک کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ مسئلہ سنت رسول (ﷺ) میں بھی نہ پاؤ اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا۔ حضور نبی کریمﷺ نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ جس نے اللہ کے رسول (ﷺ) کے قاصد (معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو اس چیز کی توفیق دی، جس سے رسول اللہ (ﷺ) راضی ہیں۔ (سنن ابوداؤد، ج: ۳، رقم الحدیث: ۱۹۹)
با الفاظ دیگر ایک فرد کی عقل عام پر مبنی کوشش نہ صرف قانون کے ارتقاء کاذریعہ ہے بلکہ وہ حضور نبی کریمﷺ کی دعائے برکات کا مستحق بھی بن جاتی ہے۔
اسلام شہریوں کے مختلف گروہوں کی قانونی خود مختاری کا احترام کرتا ہے۔ یہ ہر مذہبی گروہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ اس کی اپنی عدالتیں ہوں جن کی سربراہی ان کے منصفین کریں تا کہ ان کے انسانی معاملات پر ان کے اپنے دیوانی اور فوجداری قوانین کا اطلاق ہو۔
اسلام نے مسلمانوں کے مابین قیام انصاف کے لیے تزکیۃ الشہود کا تصور متعارف کرایا تا کہ گواہ کے قابل اعتبار ہونے کا تعین کیا جا سکے۔ مزید برآں قرآن پاک (سورۃ النور، آیت: ۴) میں ارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت کی عصمت سے متعلق کوئی الزام لگاتا ہے اور عدل کے تقاضوں کے مطابق اس کا ثبوت نہیں دیتا تو وہ نہ صرف سزا کا حق دار ہوتا ہے بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے عدالتوں کے سامنے گواہی دینے کے لیے بھی نا اہل قرار دے دیاجاتا ہے۔
اسلام نے عرف پر مبنی عام طور پر مقبول، معروف کی منظوری دے دی ہے۔ جس سے قانون کا دائرہ وسیع تر ہو گیا ہے۔ معروف کا تصور مسلمانوں کو ان رواجوں اورمعمولات سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتا ہے جن کا کسی گروہ (community) میں رواج رہا ہے تاکہ مشترکہ بھلائی کے کاموں کو فروغ مل سکے۔ اس جاذبانہ روئیے (assimilative         behaviour)نے اسلامی قانون کو خوبیوں سے مالا مال کر دیا ہے۔ اسی طرح قرآن پاک (سورۃ الانعام، آیات: ۸۴ – ۸۵) اعلان کرتا ہے کہ سابقہ انبیا و رسل؊ پر جو وحی الٰہی اترتی تھی وہ مسلمانوں کے لیے بھی جائز و بجا ہے لیکن اس کا دائرہ صرف اس وحی تک محدود ہے جس کا مستند ہونا شک و شبہے سے بالا تر ہو۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں