دلچسپ بات یہ ہے کہ نیو ایتھسٹ سب سے زیادہ جانتے بوجھتے یاانجانے میں دو کام کرتے ہیں۔ ایک تو یہ لوگ اپیسٹیمک وائلنس کرتے ہیں اور دوسرا یہ لوگوں کو ابجیٹیکفائی کرتے ہیں۔ اس کی دو مثالیں لیتے ہیں:
-۱ نیو ایتھسٹس کے پسندیدہ ترین موضوعات میں سے ایک موضوع یہ ثابت کرنا ہے کہ کیسے مذہب “علم” نہیں ہے۔ اس کے لیے یہ نہایت سادگی سے بحث کرتے ہیں کہ مذہب عقیدہ ہے جبکہ سائنس ثبوت پر مبنی ہے۔ ایسا ہے کہ آپ سائنس کے جس بھی سکول کو اٹھا لیں مثلا پاپر کی فالسفیکیشن کو بنیاد بنا لیں۔ اس کے نتیجے میں ماسوائے سائنس کوئی بھی دوسرا “علم”، علم کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا مثلا فلسفہ۔ سو صرف سائنس ہی بچ جاتی ہے اور یہی سادگی فی زمانہ انہیں مقصود ہے۔ اس سادگی کے بہتیرے فوائد ہیں۔ ایک تو اس سادہ تقسیم سے آپ کو زیادہ تگ و دو کرنی نہیں پڑتی اور ہر وہ چیز جو مذہب کی طرف سے آ رہی ہے اس پر آرام لکیر پھیری جاسکتی ہے۔ پھرسائننس پر اگر کوئی مضمون نقد کر رہا ہے تو اسے غیر سائنس یا سوشیالوجی یا تاریخ کے کھاتے میں ڈال کے پہلو بچایا جاسکتا ہے۔ یوں سائنس کا بچوں کو پڑھانا اعلی قدر بن جاتی ہے جبکہ مذہب کو پڑھانا “چائلڈ ابیوز” بن جاتا ہے۔ بتائیے!
۲- دوسرا پسندیدہ کام تمام تر مذہبی لوگوں کو “خطرناک” بنا دینا ہے۔ مثلا اگر مدرسے میں کچھ برا ہوا ہے تو پورے سماج کی جانب توجہ کرنے کی بجائے یا ادارہ جاری اصلاحات کرنے کی بجائے مدراس کو بند کروا دیا جائے یا اس پوری کمیونٹی کو کم و بیش کم انسانیت سے کم تر دکھایا جائے۔
یہ کام نائن الیون کے بعد سے مغرب میں بہت ہوا ہے۔ اس وقت کی جاری بربریت میں اگر آپ ظالم ریاست کے بیانیے کا جائزہ لیں تو وہ بالکل اسی بیانیے کی پرچارک ہے۔ مہدی حسن کے سامنے بیٹھے ایرانی صاحب بھی یہی ثابت کرنے کی کوشش کر رہی تھے اور دلچسپ بات ہے کہ سیم ہیرس کا موقف بھی یہی تھا۔ ایسے میں اس بربریت کے حق میں ہمارے ملحدین اگر نرم گوشہ رکھیں تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
(یاد رہے کہ نیو ایتھسٹس میں ہچنز فسلطین کے حق میں بات کرنے والوں میں سے تھے جس طرح ڈیننٹ فلسفی تھی لیکن یہ ایک مجموعی تاثر ہے جس کا تذکرہ ہورہا ہے اور خاص طور یہ تاثر ہمارے ہاں ہونے والی ابحاث کا تجزیہ ہے)۔
سو ہوتا یہ ہے کہ آپ ایک پوری علمی روایت اور پوری کمیونٹی کو چند وجوہات کی بنا پر “خطرناک” قرار دے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کا بچے کو پڑھانا چائلڈ ابیوز قرار پاتا ہے کیونکہ آپ اس روایت کو خطرناک تسلیم کرتے ہیں۔جب کوئی سماج یا کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کو “خطرناک” بنا دیتا ہے تو وہ دو کام کرتا ہے:
الف) وہ اس خاص کمیونٹی کو اپنے سماج سے بے دخل کردیتے ہیں کہ یہ لوگ ہمارے سماج کے لیے خطرہ ہیں اور معمولی خطرہ نہیں ہیں۔ مثلا ہم چور کو سماج سے بے دخل نہیں کرتے، ہم اسے عدالت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اُن کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہاں سماج ایسے گروہ کو قابل اصلاح بھی نہیں سمجھتا اس لیے وہ انہیں سماج سے بے دخل کردیتا ہے کہ وہ اس لائق بھی نہیں ہیں کہ اصلاح کی جاسکے۔
ب) وہ اسے انسانیت سے نیچے گرا کر ہر برائی اس پوری کمیونٹی سے منسوب کردیتے ہیں یعنی ان سے سماج کے لیے خیر صادر ہو ہی نہیں سکتی۔
آپ اگر ظالم ریاست کا بیانیہ دیکھیے اور ہمارے ہاں نیو ایتھسٹس کا بیانیہ دیکھیے تو مسلمانوں سے متعلق یہ رائے مشترک ملے گی کہ یہ درندے ہیں اور ان سے خیر برآمد ہو نہیں سکتی پس یہ دنیا کے لیے خطرناک ہیں۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقف میں بھی جینڈر تھیورسٹ اور نیو ایتھیسٹ آمنے سامنے ہیں اور اس ظالم ریاست کی بربریت پر جہاں سیم ہیرس ریاست کو کمک فراہم کرتے رہے ہیں وہاں بٹلر جیسے لوگ اس کے خلاف بات کرتے رہے ہیں۔ اس مسئلے میں وہی تین تھیمز مستقل مسئلہ بنے ہوئے ہیں اور بار بار مظلوم کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں جبکہ نیو ایتھسٹ کی بڑی تعداد یا تو چپکی ہے یا پھر اس ریاست کے حق میں دلیلیں پیش کر رہی ہے۔
آبجیکٹیفکئشن کی اصطلاح بٹلر غالبا
Who is afraid of gender
میں استعمال کرتے ہیں۔
وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ کیسے حکومتیں کچھ افراد کو، یہ مثال بھی ان کی ہی دی ہوئی ہے، مثلا گوانتناموبے میں قید کچھ افراد کو “خطرناک” کی کیٹگری میں ڈال کر انہیں عدالت کے سامنے بھی پیش نہیں کرتی جیسے وہ انسانی سماج کاحصہ ہی نہیں ہیں۔ یعنی وہ اتنے خطرناک ہیں کہ انہیں اصلاح کا موقع دینا یا انہیں اپنی بات سماج کے سامنے رکھنے کا موقع بھی نہیں دیا جاسکتا۔ یہاں سے وہ کچھ گروہوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کیسے وہ اقلیتوں اور دوسرے کچھ گروہوں کو جن میں جینڈر کے لوگ ہیں”خطرناک” قرار دیتے ہیں۔ اس میں غالبا فلسطین کا تذکرہ بھی ہے۔
کمنت کیجے