Home » نور العیون کا ترجمہ سرور المحزون
اردو کتب مطالعہ کتب

نور العیون کا ترجمہ سرور المحزون

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کا شمار برصغیر کی ان نمایاں مسلم شخصیات میں ہوتا ہے جن کو اسلامیان ہند میں مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ برصغیر کے باہر بھی مسلم اہل علم میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ جہاں شاہ ولی اللہ متعدد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ اس کے ساتھ انہوں نے امام ابنِ سید الناس کے رسالہ سیرت ‘نور العیون’ کا فارسی زبان میں ترجمہ ‘سرور المحزون’ کے نام سے کیا۔ ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی نے اس کا اُردو ترجمہ اپنے مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔ جس کو شاہ ولی اللہ اکیڈمی پھلت ، ضلع مظفر گڑھ یوپی نے شائع کیا ہے۔
امام ابنِ سید الناس کے رسالے کے علاوہ اس کتاب کی خاص بات ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب کا پیش لفظ اور مقدمہ ہے۔ جس کو پڑھنے کے بعد اس رسالے کے مطالعہ میں زیادہ مدد ملتی ہے۔
پیش لفظ میں ڈاکٹر صاحب نے فن سیرت پر گفتگو کرتے ہوئے اس کی ایک روایت اختصارات و تلخصیات کا ذکر کیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ امام ابن سید الناسؒ اور امام محب طبریؒ کی مختصرات کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
اپنے پیش لفظ میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ گوکہ شاہ ولی اللہ اپنے علمی مرتبہ میں امام ابنِ سید الناس سے آگے تھے مگر انہوں نے اپنے پیشرو کے اچھے کام کو عوام تک پہنچانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ شاہ صاحب کی اپنی قرآن وحدیث اور علوم اسلامیہ میں مہارت تھی۔ اس لیے انہوں نے فقط کتاب کا ترجمہ نہیں کیا۔ اس میں اضافے اور ترمیم بھی کی۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے شاہ ولی اللہ پر نقد بھی کیا ہے جس پر زیادہ تفصیل سے انہوں نے مقدمہ میں بات کی ہے۔پیش لفظ میں ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب نے لکھا کہ مترجم کا کام علمی دیانت کو مدنظر رکھتے ہوئے اصل بات کو جوں کا توں پیش کرنا ہے۔ اس کو متن میں تصرف نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ متن سے اختلاف نہیں کر سکتا مگر اس کی الگ سے وضاحت کی جانی چاہیے۔ میرے خیال سے ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب کی بات درست ہے۔ مترجم پر بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف ترجمہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لے اور پھر صاحب کتاب کی بات کو مکمل طور پر بغیر کسی کمی بیشی کے پیش کرے۔ اگر اس کو اختلاف ہے تو اس کی جگہ متن میں نہیں ہونی چاہیے اس کو حاشیہ یا الگ مضمون کی صورت میں پیش کیا جانا چاہیے تاکہ پڑھنے والے کے لیے دونوں میں تفریق کرنا آسان ہو اور وہ متن کے بارے میں اپنی رائے دینے میں آزاد ہو۔
ڈاکٹر صاحب نے مقدمہ پر شاہ ولی اللہ کے ترجمے پر زیادہ تفصیل سے گفتگو کی ہے اور ان کے لیے گئے اضافے و ترمیمات پر بے لاگ تبصرہ کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی چونکہ خود محدث تھے انہوں نے کئی روایات جو ان کے نزدیک موضوع تھیں کو ترجمہ میں شامل نہیں کیا۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے شاہ صاحب پر دو طرح سے نقد کیا ہے کہ انہوں نے کئی کمزور روایات کو شامل کیا ہے اور اس کے ساتھ چند مضبوط روایات کو بھی چھوڑا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ مقدمہ اس رسالے اور پھر شاہ ولی اللہ کے ترجمے پر ایک بھرپور تبصرہ ہے۔
مقدمہ کے شروع میں علم سیرت کی تدوین کے بارے میں کچھ قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ فن سیرت کے بنیادی طور پر دو مآخذ ہیں۔ ایک امام محمد بن اسحاق اور دوسرے امام واقدی ہیں۔ تیسرا نام موسی بن عقبہ کا بھی آتا ہے مگر امتداد زمانہ کے باعث اب یہ کتاب نہیں ملتی۔ لیکن ایسے کتب سیر موجود ہیں جن کا مآخذ موسی بن عقبہ کی سیر و مغازی ہیں مگر وہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پورا تناظر پیش نہیں کرتیں۔
تیسری صدی ہجری کے بعد عظیم الشان کتب سیرت لکھی گئیں۔ جہاں ان کتب کے شروح و حواشی مرتب ہوئے جس میں معلومات کی کثرت اور ندرت فکر کے باعث وہ خود ایک کلاسیک بن گئیں۔ ان میں سیرت ابنِ ہشام اور پھر اس کی شرح روض الانف کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہا سیرت نگاروں نے مختلف زاویوں سے سیرت کے گوشوں کا مطالعہ کیا اور اس موضوع پر عمدہ تصانیف سامنے آئیں جیسے کہ قاضی عیاض مالکی کی الشفاء اور علامہ ابن قیم الجوزیہ کی زاد المعاد وغیرہ۔
تیسری صدی ہجری میں جہاں شروح و حواشی کا رجحان پیدا ہوا تو ایک اور رجحان تلخیص نگاری کی سامنے آیا۔ اس کا بڑا فائدہ کم سے کم اوراق میں پوری سیرت نگاری کے منظر سے آگاہی تھی۔ اس رجحان سے سیرت کو محفوظ بنانے میں بھی مدد ملی۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ تلخیص نگاری میں بھی دو صورتیں نظر آتی ہیں۔ کچھ مختصرات سیرت اتنی ضخیم بن گئیں کہ انہوں نے مستقل کتاب کا روپ دھار لیا۔ جیسے کہ علامہ ابن عبدالبر قرطبیؒ ، علامہ ابنِ حزم اندلسیؒ اور علامہ ابن کثیر ؒ کی کتب سیرت ہیں۔
دوسری صورت چند اوراق میں پوری سیرت کو بیان کرنا۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ اس فن کی ابتداء کس نے کی البتہ امام احمد بن فارس کی کتاب کو اپنی نوعیت کی اولین تلخیص سیرت کہا جاتا ہے۔ مختصرات سیرت میں علامہ محب طبری کی خلاصتہ السیر کو خاصی مقبولیت ملی۔ اس کے علاوہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ نے بھی مختصر سیرت پر کتاب لکھی۔ اس کے ساتھ حافظ عبدالغنی المقدسی کی مختصر کو بھی کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے مقدمہ میں امام محب طبری اور حافظ عبدالغنی المقدسی کی مختصرات کا بھی تعارف پیش کیا ہے۔
امام ابنِ سید الناس نے جب اپنی مختصر سیرت ‘نورالعیون’ کو مرتب کیا تو ان کے سامنے اپنی مفصل کتاب سیرت ‘عیون الاثر’ اور پیشروں کی مختصرات سیرت موجود تھیں۔ امام ابن سید الناس نے’ نور العیون’ کو ‘عیون الاثر’ کی تلخیص قرار دیا۔ امام ابنِ سید الناسؒ سے پہلے امام ابن جوزیؒ نے اپنی مفصل کتاب سیرت کتاب ‘الوفا فی سیرۃ المصطفی’ کی تلخیص ‘خلاصتہ الوفاء ‘ کے نام سے پیش کی۔ مطلب کہ مصنف کا اپنی ہی کتاب کی تلخیص لکھنے کی روایت امام ابن سید الناس سے پہلے موجود تھی بعد میں حافظ مغلطائی حنفیؒ نے بھی اپنی مفصل کتاب کی تلخیص کی۔
ڈاکٹر صاحب نے مقدمہ میں ‘نور العیون’ اور ‘عیون الاثر’ کے مضامین کو سامنے رکھ کر اس کے تلخیص ہونے پر بحث کی ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بہ نور العیون میں بہت سی ایسی مباحث ہیں جو کہ عیون الاثر میں نہیں ہیں۔ عیون الاثر سیرتِ ابن اسحاق کے منہج پر ہے جبکہ نورالعیون کا طریقہ یکسر الگ ہے۔ پھر دونوں کے ابواب و فصول میں بھی کافی فرق ہے۔ عیون الاثر اور نور العیون میں مندرجات کی کئی جگہ تضاد بھی نظر آتا ہے جیسے کہ عیون الاثر میں مغازی و غزوات کی تعداد ستائیس جبکہ سرایا کی تعداد سینتالیس ہے جبکہ نورالعیون میں غزوات کی تعداد پچیس اور سرایا کی تعداد پچاس ہے۔
اگر عیون الاثر نور العیون کا اصل مآخذ نہیں تو پھر نور العیون کا اصل مآخذ کیا ہے؟ اس سوال پر بھی ڈاکٹر صاحب نے روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ نورالعیون کا بنیادی مآخذ امام محب طبری کی کتاب خلاصۃ السیر ہے۔ اپنے اس دعویٰ کے حق میں ڈاکٹر صاحب نے دونوں کتابوں میں عبارات کی یکسانیت پر روشنی ڈالی ہے۔ بالخصوص اخلاق و شمائل نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابواب میں نورالعیون کے جتنے جملے ہیں وہ سب خلاصۃ السیر میں پائے جاتے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے سرور المحزون میں ترجمہ تو بیشک نورالعیون کا کیا مگر انہوں نے جو اپنی تشریحات کا اضافہ کیا ہے ان کا بھی بنیادی مآخذ امام محب طبری کی خلاصتہ السیر ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ مقدمہ بہت جاندار ہے جہاں اس سے ایک طرف ہمیں اس کتاب کا تعارف ہو جاتا ہے اور شاہ صاحب کے ترجمے میں خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے وہاں مختصرات سیرت کی تاریخ کے حوالے سے بھی ڈاکٹر صاحب نے بہت قیمتی معلومات فراہم کی ہیں جو سیرت کے طلباء کے لئے کافی مفید ثابت ہو سکتی ہیں.
اس کتاب میں ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب کے مقدمے کے بعد امام ابنِ سید الناس کے رسالے نورالعیون کا عربی متن ہے۔ اس کے بعد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فارسی ترجمہ کا مکمل متن ہے اور اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کا اُردو ترجمہ ہے۔ عربی اور فارسی چونکہ میں جانتا نہیں اس لیے اس پر بات کرنا ممکن نہیں۔
شاہ ولی اللہ نے شروع میں لکھا کہ ان سے کچھ عزیز احباب اور کامل دانشوروں نے نور العیون کا ترجمہ کرنے کی درخواست کی جن کے حکم کا تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ حاشیہ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ ترجمہ مرزا مظہر جان جاناں شہید کی فرمائش پر کیا گیا۔ مرزا مظہر جان جاناں نقشبندی مجددی سلسلے کے بزرگ تھے ان کا سلسلہ نسب حضرت محمد بن حنفیہ رحمتہ اللہ علیہ سے ہوتا ہوا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔
رسالے کے آغاز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شجرہ نسب معد بن عدنان تک ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے اس لیے اس کو چھوڑ دیا ہے۔
سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا سے بھی کلاب بن مرہ تک نسب ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد آپ کا اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب مل جاتا ہے۔
ولادت کی تاریخ میں متعدد اقوال ذکر کیے ہیں جن میں دو ربیع الاول ، تین ربیع الاول اور بارہ ربیع الاول ذکر کی ہے۔ جبکہ عیون الاثر میں آٹھ ربیع الاول بھی ذکر کی ہے جبکہ خلاصۃ السیر کے مطابق بہت سے علماء کے نزدیک آٹھ زیادہ ثابت شدہ ہے۔
ولادت با سعادت کے وقت کسری کے محل پر لرزہ جاری ہونا اور کنگروں کا گرنا، آتش فارس بجھ جانے کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعی ماؤں کا ذکر کیا جن میں حضرت حلیمہ سعدیہ اور حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہم کا ذکر کیا ہے۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کا ذکر ہے کہ انہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے میراث میں پایا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین کی وفات کے بارے میں بھی متعدد اقوال کا ذکر کیا ہے۔ حضرت عبداللہ کے بارے میں مشہور قول تو ولادت باسعادت سے قبل وفات کا ہے جبکہ ایک قول کے مطابق آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام سات ماہ کے تھے تو ان کا انتقال ہوا جبکہ ایک قول کے مطابق آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اٹھائیس ماہ کی عمر تھی جب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بارے چھے سال کا قول زیادہ مشہور ہے جبکہ بعض نے چار سال کا ذکر کیا ہے۔ آٹھ سال کی عمر میں دادا حضرت عبد المطلب ہاشمی کا انتقال ہوا۔ اس کے بعد کفالت جناب ابو طالب نے کی۔
جناب ابو طالب کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفر شام اور بحیرہ راہب والے واقعے کو ذکر کیا ہے۔ دوسرا سفر شام ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام میسرہ کے ساتھ کیا۔ یہاں بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام ایک درخت کے نیچے فروکش ہوئے تو ایک راہب نے دیکھا اور کہا کہ اس درخت کے نیچے سوائے پیغمبر کے کسی نے قیام نہیں کیا۔
اس سفر کے بعد ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد میں آئیں۔ اس کے بعد ۳۵ سال کی عمر میں تعمیر کعبہ کا واقعہ پیش آیا۔ امام ابنِ سید الناس نے آغاز بعثت اور نزولِ وحی کو الگ الگ واقعات بتایا ہے جس کی ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب نے تائید بھی کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ بعثت کا آغاز ربیع الاول میں ہوا جبکہ نزول قرآن کا واقعہ رمضان میں ہوا۔
اس کے بعد کفار مکہ کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی مخالفت میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو شعب ابی طالب میں محصور کرنے کا ذکر ہے۔ اس میں مصنف نے لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے اہلبیت کے ساتھ محاصرہ کیا گیا ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ محاصرہ میں اہلبیت نہیں بنو ہاشم و بنو مطلب کے تمام مسلم و غیر مسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت کے سبب محصور ہوئے ماسوائے ابو لہب کے جو کفار کے ساتھ تھا۔
جناب ابو طالب اور پھر ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے وصال اور اس کے جنات کی جماعت کی حاضری اور اسلام قبول کرنے کے واقعے کے بعد معراج اور ہجرت کا ذکر کیا گیا ہے۔
مدنی زندگی پر گفتگو نہیں کی گئی بس اس میں غزوات و سرایا کا ذکر ہے اور حجتہ الوداع اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمرے کا ذکر کیا ہے۔مصنف کی تحقیق کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار عمرے ادا کیے۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک ، آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اسماء کا ذکر آیا ہے۔ اخلاق کے باب میں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام قرآن کے موافق غصہ کرتے اور قرآن کی خوشنودی کے مطابق خوش ہوتے ۔ اس کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جودو سخا ، حلم و حیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حسن سلوک ، اپنے خادموں پر کرم فرمانا، آداب سفر، آداب مجلس ، عیادت و مرحمت، خوش مزاجی ، اپنے کام خود کرنا اور نیک فال لینے کے عنوانات سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا مختصر نقشہ ذکر کیا ہے۔
اس کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسنون دعاؤں کا ذکر ہے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کوئی پسندیدہ چیز حاصل ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور جب کو ناپسندیدہ چیز سے سابقہ پڑتا تو بھی اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے۔
آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے آداب نشست کا ذکر کیا۔ آپ ذکر بہت فرماتے تھے مگر بیہودہ بات زبان سے کبھی نہ نکلتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز لمبی پڑھتے مگر خطبہ چھوٹا دیتے۔
اس کے بعد ایک باب خصائص نبوی کے نام سے ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف خصائص کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہدیہ و طعام کے بارے میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سنت یہ تھی کہ آپ ہدیہ قبول فرماتے مگر صدقہ نہیں کھاتے تھے۔ جو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت میں ہدیہ بھیجتا اس کو بھی اس سے بہتر ہدیہ بھیجتے۔ یہ پڑھا تو خیال آیا کہ وہ لوگ کتنے خوش قسمت ہیں جو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بارگاہ میں درود و سلام کا ہدیہ پیش کرتے ہیں، یقیناً اللہ تعالی ان کو انعامات سے نوازتا ہے۔ لہذا یہ سلسلہ بعد از وصال بھی جاری ہے۔
آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا لباس بالعموم اونی کپڑے کا ہوتا، نیا لباس پہننے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے۔ خوشبو پسند فرماتے۔ اثمد کا سرمہ استعمال کرتے۔ سر مبارک اور داڑھی مبارک پر تیل کا استعمال کرتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزاح بھی فرمایا کرتے اس بارے میں بھی اونٹنی کے بچے ،بوڑھی عورت کے جنت اور آنکھوں میں سفیدی والے واقعات کا ذکر کیا گیا۔
ازواج مطہرات کا بھی مختصر ذکر ہے۔ اس کے بعد ان خواتین کا بھی ذکر ہے جن کے ساتھ نکاح کے معاملات طے ہوئے مگر معاملہ مختلف صورتوں میں انجام تک نہ پہنچا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد اور پھر نواسے اور نواسیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچاؤں اور پھوپھیوں کا ذکر ہے۔ اس کے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے موالی، باندیاں ، خدام ، پاسبان ، سفیران ، کاتبین ، نجباء اور عشرہ مبشرہ کا ذکر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانوروں ، اسلحے ، ملبوسات ، ظروف کا بھی مختصر ذکر کیا گیا ہے۔
معجزات کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ۵۷ معجزات کا ذکر کیا ہے۔ جن میں مصنف نے قرآن مجید کو سب سے اول پر رکھا ہے۔ اس کے گزشتہ واقعات اور مستقبل کے واقعات کی خبر کے معجزے کے ساتھ ساتھ کئی امور جن میں مستقبل کی خبر دی گئی کا زیادہ ذکر ہے جو وقوع پذیر ہوئے جیسے عتبہ بن ابی لہب کی ہلاکت کی خبر دینا، سمندری جہاد کی پیش گوئی جس میں سیدہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا بھی ہوں گی، شجر و حجر کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی گواہی دینا، واقعہ معراج سمیت کئی معجزات ذکر کیے ہیں۔مصنف نے اختصار کو ملحوظ خاطر رکھا ہے، ورنہ ایک ایک معجزہ پر وہ تفصیل سے کلام کر سکتے تھے۔
معجزات کے بعد وصال نبوی کا ذکر ہے اور بتایا ہے کہ اس سانحے کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غم سے نڈھال تھے۔ صرف سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے بعد غسل اور تدفین کا ذکر کرنے کے بعد کتاب کا بھی اختتام کیا گیا ہے۔
امام ابنِ سید الناس نے مکی عہد کے متعدد واقعات کو چھوڑا ہے اور مدنی عہد کے بڑے حصے پر بات نہیں کی لہذا یہ تشنگی تو اس میں برقرار ہے مگر اس مختصر رسالہ میں سیرت طیبہ کی مختلف جہات پر جس طرح سے انہوں نے روشنی ڈالی ہے وہ اہم ہے۔ اس کے مطالعے سے ہم سیرت مقدسہ کی کئی کرنوں سے روشنی حاصل کر سکتے ہیں۔
مختصرات سیرت میں سے اس کتاب کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہم اس کتاب کو مختصرات کی امہات الکتب میں شمار کر سکتے ہیں جس کو اُردو قالب میں ڈھال کر ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب نے سیرت کے ان طالب علموں کو جو کہ عربی اور فارسی نہیں جانتے روشناس کرایا ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی خدمت کو قبول فرمائے

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں