Home » قانون توہین رسالت ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ
تاریخ / جغرافیہ فقہ وقانون

قانون توہین رسالت ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ

31 اگست 2025 کو نیشنل لیڈرز پبلک سکول میں پروفیسر محمد نواز صاحب کے زیر سرپرستی ”قانون توہین رسالت ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ“ کے عنوان سے مجلس مذاکرہ کا انعقاد ہوا، جس میں پروفیسر رشید خیال صدر “معمار” نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ اور پروفیسر ساجد ہارون، مولانا اورنگزیب اعوان، مولانا زاہد صدیقی سمیت راقم الحروف نے گفتگو کی۔ جبکہ مولانا زاہد صدیقی صدر محفل بھی تھے۔
پروفیسر ساجد ہارون نے اپنے تحقیقی مقالہ میں قانون توہین کا تفصیلی تعارف کروایا، انہوں نے بتایا کہ دنیا کے مختلف مذاہب اور ممالک میں قدیم زمانے سے ہی یہ قانون مختلف نوعیتوں میں مسلمہ حیثیت کا حامل تھا۔ اس پس منظر کے بیان کے بعد انہوں نے اس پر بحث کی کہ برصغیر میں پہلے پہل قانون کب اور کیسے بنا؟ پھر مختلف ادوار میں اس میں کیا کیا ترمیمات ہوتی رہیں؟ تقسیم ہند کے بعد ملک پاکستان میں اس میں کیا کیا ترمیمات ہوئیں؟۔ انہوں نے قانون کے الفاظ کا تجزیہ کر کے قانون میں موجود سقم پر بھی بحث کی جس میں مختلف عدالتی حوالے بطور مثال پیش کیے گئے۔ پروفیسر ساجد ہارون صاحب کا پیش کردہ یہ تفصیلی مقالہ جلد پڑھنے کے لیے دستیاب ہوگا۔
مولانا اورنگزیب اعوان نے توہین رسالت و توہین مقدسات کے الزامات اور ان کے اسباب پر بحث کی، مولانا نے بتایا کہ برصغیر میں کس طرح سے معمولی اختلافات کو کفر و ایمان، نفاق و ایجنٹی کا مسئلہ بنایا جاتا رہا۔ انہوں نے ماضی قریب میں اس طرح کے پیش آمدہ واقعات میں سے تقریبا 23 اہم واقعات کی طرف توجہ دلائی، جو اپنے اپنے وقت کے جید علماء کرام کی شخصیات سے رونما ہوئے۔ مولانا نے 45 منٹ میں اپنے مقالے کا خلاصہ پیش کیا، جبکہ انہوں اس بات سے شرکاء کو آگاہ بھی کیا کہ تفصیلی مقالہ 200 صفحات سے زائد ہے، جو کمپوزنگ کے مراحل سے گزر رہا ہے اور ان شاء اللہ اس کی بھی جلد اشاعت کی امید ہے۔
مجلس اپنے موضوع اور نوعیت کی وجہ سے مختلف و منفرد ہونے کی بنا پر گفتگو کے بجائے زیادہ تر سوالات و جوابات اور مباحثہ پر مشتمل رہی۔ جس میں ہری پور شہر کے منتخب علماء کرام اور پروفیسرز شریک ہوئے۔ پروگرام کی میزبانی “معمار” تنظیم تنظیم نے کی اور پروگرام کے اختتام پر “معمار سکالرز ونگ” کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، جس کا عبوری انچارج و کنوینئر نوجوان عالم مفتی طلحہ صاحب کو بنایا گیا، جب کہ مولانا ساجد قیوم صدیقی، مولانا احسان عظیم، مولانا فاروق نے رہنمائی و سرپرستی کو قبول فرمایا۔ اسی طرح مفتی ظہیر عباس، مفتی توصیف احمد، مولانا افضال حسین شاہ نے بھی “معمار سکالرز ونگ” میں متحرک کردار ادا کرنے کا عزم کیا۔ مولانا مفتی فاروق صاحب ڈائریکٹر مکتب الفلاح سکندر پور نے اس سلسلے کی دوسری مجلس کی میزبانی کی آفر کی، جسے شرکائے مجلس کی اکثریت نے قبول کیا۔ ان شاء اللہ آئندہ مجلس ان کے ہاں ستمبر کے آخر میں منعقد ہونا متوقع ہے۔
اس مجلس کے انعقاد کی ابتداٸی مشاورت اور پروگرام کا نقشہ ”مفتی ہارون الرشید صاحب کے ہاں طے ہوا تھا۔ مفتی صاحب نے ” جرم توہین رسالت کی سزا علامہ ابن عابدین شامی اور امام ابن تیمیہ کے موقف کا تقابلی جاٸزہ “پش کرنا تھا۔ مگر افسوس کہ وہ دو دن پہلے شدید بیمار ہو گے جس کی وجہ سے مجلس میں شرکت نہ کر سکے۔
اس نشست میں مجھے اپنی گفتگو کے دوران درج ذیل گذارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔
موضوع: “برطانوی برصغیر میں توہین مذاہب کے مقدمات اور ان کا پس منظر”۔ برصغیر ہمیشہ سے ایک کثیر المذاہب خطہ رہا ہے۔ یہاں کے معاشرے میں مسلمانوں کی آمد کے بعد بڑی معاشرتی تبدیلی آئی، اور پھر مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ یہاں کچھ ٹرینڈ سیٹ ہوگئے۔ اس کے بعد جب انگریزوں نے یہاں اپنے قدم جمائے تو ایک دفعہ پھر ہندوستان میں کئی حوالوں سے سماجی و اقتصادی ترقیاتی اور تبدیلیاں آئیں۔ جس میں ایک اہم تبدیلی مختلف الخیال لوگوں میں آزادانہ مکالمے کا فروغ بھی ہے۔ اور اس زمانہ میں مکالمے کا مرکزی موضوع مذہب اور مذہبی شخصیات ہی تھیں۔
دوسری طرف حکومت کی بھی ضرورت تھی کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ لوگ باہمی مختلف امور میں الجھے رہیں اور حکومت کے لیے مسائل کھڑے نہ کریں۔ چنانچہ انہی اقدامات میں سے اہم اقدام مذہبی مباحثہ بھی تھا۔ جو کہ کثیر المذاہب معاشروں کو باہم الجھانے کے لیے ایک اہم ہتھیار تھا۔ یہاں کا مخصوص ماحول اس اقدام کے لیے سازگار تھا، جسے صرف ایک جذباتی رخ دکھانے کی ضرورت تھی۔
مذہبی مباحثے:
بر صغیر میں انگریزوں نے پہلے پہل مذہبی مباحثے کرائے۔ جن میں عیسائی، ہندو اور مسلمان شریک ہوتے تھے۔ انگریز کی کوشش تھی کہ یہ مباحثے یہاں کی مقامی آبادی کے باہم لڑنے کا باعث بنیں، جس میں وہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکا، اس لیے کہ ان مباحثوں میں مسلمانوں کی طرف سے ابتداء شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے تربیت یافتہ افراد شریک ہوتے تھے۔ جب کہ آگے چل کر مسلمانوں کی رہنمائی اور نمائندگی کی ذمہ داری مولانا محمد قاسم نانوتویؒ جیسے مدبر و حکیم و رہنما کو ملی۔ مولانا نے اپنی حکمت عملی سے ان مناظروں میں ماحول کچھ اس طرح کا بنا دیا کہ مسلمان اور ہندو باہم بحث مباحثے کے باوجود عیسائی پادریوں کے خلاف متحد رہے، جس کی وجہ سے پادری فنڈر جیسے اشخاص کو میدان سے بھاگنا پڑا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی ؒنے مولانا نانوتویؒ کی سوانح میں اس پہلو کو بطور خاص نمایاں کیا ہے۔
گو کہ انگریز اس مرحلے میں مکمل کامیاب تو نہ ہو سکا، البتہ ابتدائی کام اس نے کر لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں تحریک آزادی نے نئے رخ اختیار کرنا شروع کیے تو انگریز نے بھی اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ جن میں سے ایک اہم قدم آزادی رائے کے نام پر فتنہ پرور لوگوں کی سرپرستی بھی تھی۔ جس کے نتیجے میں یہاں مختلف مذاہب والوں کے درمیان نفرت کی فضا پروان چڑھی۔
یہاں چند اہم واقعات اور ان کے پس منظر کی طرف مختصر اشارہ کیا جاتا ہے۔
اس دور میں برصغیر کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے یہاں کی عوام آپس میں لڑنے لگی، جیسے کہ لکھنو میں محرم کا جلوس اور پھر جوابا مدح صحابہ کا جلوس ان دونوں کی تاریخ کو اگر پڑھا جائے تو عجیب انکشافات سامنے آتے ہیں کہ کیسے اہلسنت والجماعت اور شیعہ کو لڑایا گیا۔ اہلسنت اور شیعہ دونوں برصغیر میں پہلے سے موجود تھے، ان کے درمیان چپقلش بھی تھی، مگر اس دور میں اس چپقلش کو بڑھاوا ملا، اور باقاعدہ میدان سجے۔
اسی طرح گاندھی کی تحریک کے دوران “رنگیلا رسول کیس” اور “نتھورام ” کیس سامنے آئے۔ ان واقعات کے نتیجے میں جہاں قانون توہین مذہب بنا، وہی ان واقعات نے برصغیر کی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ مختلف سیاسی گروہوں نے ان واقعات کو اپنے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ اس سے گروہوں کو اپنی اپنی ساکھ مضبوط کرنے کا بھرپور موقع ملا اور انہوں نے خواب مساعی و جہود صرف کیں۔ حکومت نے بھی مختلف گروہوں کو بلیک میل کرنے اور ان سے ڈائیلاگ کرنے کے لیے ان واقعات کو بطور خاص استعمال کیا۔
چونکہ ان واقعات و قوانین کی بنیاد میں جو اسباب تھے، آج تک ان کے اثرات چلے آرہے ہیں، اس پر پھر کبھی ان شاءاللہ تفصیلی گفتگو ہو گی۔ آج میں چونکہ میزبان ہوں تو زیادہ دیر گفتگو کرنا مناسب خیال نہیں کرتا۔ آپ سے یہ گزارش ہے کہ مجلس لیکچر یا درس کی نہیں ہے، بلکہ مجلس مباحثہ و مکالمہ ہے، آج ہم باہم مذاکرہ کریں گئے، آپ کھلے دل و دماغ سے سوالات کریں، آنے والے مہمانوں کی گفتگو پر کمنٹس کریں، ادب کے دائرے میں باہم اختلاف کریں۔ کیونکہ علم اسی سے آگے پھیلاتا ہے، ہم اس طرح کی مجالس میں ایک دوسرے سے سیکھیں گئے۔ یہ اس سلسلہ کی پہلی مجلس ہے، ان شاء اللہ آئندہ بھی ایسی مجالس ہوتی رہے گی۔
مولانا احسان عظیم صاحب نے میری گفتگو میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا : توہین کے مسائل میں جہاں سیاسی ضروریات تھی، وہی ایک سبب مغربی این جی اوز کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان میں اس حساسیت کو ختم کرنا بھی ہے۔ مفتی طلحہ صاحب نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انگریز گورنمنٹ ہی انسداد توہین کا قانون بنا رہی ہے تو پھر وہ اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کیسے استعمال کر سکتی ہے؟ جوابا عرض کی کہ بالکل ایسے ہی جیسے کہ گورنمنٹ راتوں رات مسجد گراتی ہے اور پھر دوسرے دن اسی جگہ پر خود بنا کر دینے کا وعدہ کر کے دونوں فریقوں کو راضی کر لیتی ہے۔ دنیا کو اپنے ملک میں موجود انتہاء پسندی کا ایک ہوا بنا کر بھی دکھا دیتی ہے۔
مولانا محمد واجد معاویہ نے یہ سوال کیا کہ آپ کے بقول بر صغیر میں مختلف ادوار میں اس قانون کو سیاسی حلقوں نے اپنے عزائم کے لیے استعمال کیا ہے اور اسی روش کو پاکستان میں موجودہ مقتدر شخصیات اور اسٹیبلیشمنٹ بھی کئی بار دہرا چکی ہیں۔ اور مذہبی طبقہ مختلف گروہوں کی شکل میں مجرم کے استیصال کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ ہمیں ایسا کیا مؤثر اقدام کرنا چاہیے کہ آئے روز ایسے مرتکبین کا پیچھا کرنے کے بجائے مقتدر شخصیات پر ہی اس قانون کے نفاذ کا اطلاق کیا جائے تاکہ یہ دروازہ ہی بند ہو جائے؟
یہ سوال ایسا تھا کہ جواب دیتے ہوئے پر جلتے تھے سو جواب میں کہا گیا میں سوال نہیں سمجھا۔ انہوں نے پھر سوال کو مزید تفصیل سے دہرایا۔ جس پر میں نے عرض کی کہ خواہش اچھی ہے

مولانا وقار احمد

مولانا وقار احمد نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے درس نظامی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد سے علوم اسلامیہ میں ڈاکٹریٹ کی ہے۔ ہری پور میں ایک سرکاری کالج میں اسلامیات کی تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
waqar.iiu1984@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں