اخبار احاد سے ثابت بیان تفسیر، تخصیص و نسخ کو مشکوک بنانے کے لئے ایک شبہ یہ پیدا کیا جاتا ہے کہ نبیﷺ دین کا حکم کسی کے کان میں تھوڑی بتاتے تھے، گویا جس طرح مجمل و عام و ثابت حکم متواتراً پہنچا اسی طرح اس کی تفسیر، مخصص و ناسخ بھی آنا چاہئے تھا۔
یہ شبہ متعدد طرح کے خلط مبحث پر مبنی ہے، یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ منکرین سنت کی باتوں سے متاثر یہ شبہ پرانا ہے۔ قاضی ابوبکر باقلانی (م 403 ھ) نے قرآن و سنن متواترۃ کے اخبار احاد سے بیان جائز ہونے کی بحث میں اس پر مختصر مگر جامع تبصرہ کیا ہے اور یہی پہلو اصولیین کو آج کل کے خطابی نوعیت کے لکھاریوں سے جدا کرتا ہے۔ آپ نے جو لکھا اسے سمجھانے کے لئے ہم اسے کچھ پھیلا کر لکھتے ہیں (ان کے مدمقابل ظاہر ہے قانونی پہلووں کو سمجھنے والے تھے تو جواب دیتے ہوئے وہ ان کے فہم کی رعایت کرتے تھے)۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایسا ہونا جائز و معقول ہے کہ:
– شارع کے نزدیک کسی مجمل حکم کے ورود کا اعتقاد رکھنا بھی مکلف پر قطعی طور پر واجب ہو اور اس کا بیان بھی تواتر کے ساتھ منقول ہو (جیسے صلوۃ وغیرہ) تاکہ مکلف اس پر قطعی اعتقاد بھی رکھے نیز اس پر عمل کرنا بھی واجب ہو،
– شارع کو مجمل حکم کے ورود پر تو قطعی اعتقاد مطلوب ہو مگر اس کی تفصیل میں ظن رکھا جاتا ہے، یوں مکلف پر اس تفصیل کو فرض کے درجے میں ثابت مانے بغیر عمل کرنا واجب ہوتا ہے جبکہ مجمل حکم کے ورود پر یقین رکھنا اس پر فرض ہوتا ہے،
– اس لئے کبھی مجمل حکم کا ورود تو قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے مگر شارع علیہ السلام اس کی مراد کو ایک یا چند افراد کو بیان کرتے ہیں، پس جس نے نبی ﷺ سے براہِ راست یہ بیان سنا اس پر علم (قطعی اعتقاد) اور عمل دونوں لازم ہیں، جبکہ جن لوگوں تک وہ بیان اس ایک فرد کے ذریعے پہنچا ان پر عمل واجب ہے لیکن علم واجب نہیں۔ اس طرح معاملات میں مکلفین کے فرائض مختلف ہوجاتے ہیں اور شرع کے احکام بااعتبار افراد مختلف ہونا ایک عام و اتفاقی بات ہے (اس کی ایک آسان مثال یہ ہے کہ شارع علیہ السلام کی حین حیات بھی ایسا ہوتا تھا کہ مثلاً دور دراز کے لوگوں کو دین کے احکام سکھانے کے لئے آپﷺ ایک ہی شخص کو مبلغ مقرر کردیتے تھے اور ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کسی نئی آیت کے نزول کے ساتھ ہی آپﷺ ان کی طرف صحابہ کی ایک جماعت بھیج دیا کرتے کہ جو زندہ ہیں انہیں بطریق تواتر اس کا علم ہوجائے، یہی وجہ کہ بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ دین کا کوئی نیا حکم آگیا مگر ان لوگوں کو اس کا علم نہ ہوا اور وہ پرانے حکم پر ہی عمل کرتے رہے اور کئی لوگ نیا حکم معلوم ہونے سے قبل فوت ہوجاتے، پھر دور والوں کو بعد میں حکم کی تبدیلی کا علم ہوتا)۔
قاضی صاحب کہتے ہیں کہ علم یقینی کے بغیر صرف عمل کا مکلف کرنے میں شارع کی جانب سے بندوں کی مصلحت کا یہ پہلو ہوسکتا ہے کہ اگر سب بندوں سے یہ مطالبہ کیا جاتا کہ وہ ان امور میں بھی علم یقینی کے ساتھ عمل کریں تو یہ ایک بھاری ذمہ داری بن جاتی اس لئے کہ ہر ایک شخص علم و تحقیق کرکے ہر ہر مسئلے میں حصول یقین کے لائق نہیں ہوتا۔ پس اگر ان پر عمل کے ساتھ علمِ یقینی بھی لازم کیا جاتا تو وہ نہ صرف اس معاملے میں ناکام رہتے بلکہ اس ناکامی سے مایوس ہوکر دینی اطاعت کے دیگر پہلووں میں بھی کمزور پڑ جاتے۔ اسی لیے شارع نے ان کے لیے یہ آسانی رکھی کہ بعض احکام میں عمل لازم ہے لیکن یقینی علم کا حصول لازم نہیں تاکہ دین پر عمل ممکن اور اس معاملے میں وسعت رہے۔
چنانچہ جو لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حدیث سے اگر دین کا کوئی حکم ثابت ہوتا ہے تو شارع علیہ السلام پر واجب تھا کہ سب اخبار ایک ہی درجے پر پہنچانے کا اہتمام و بندوبست کرتے وہ بندوں کی تکلیف میں اضافے کے سوا کوئی قابل قدر علمی بات نہیں کہہ رہے۔ اگر ان کا مفروضہ یہ ہے کہ سب اخبار متواتراً پہنچ جانے سے اختلاف ختم ہوجاتا تو پھر قرآن سے ثابت احکام میں کوئی اختلاف نہ ہوتا۔ الغرض اخبار احاد سے ثابت بیان کی حجیت پر یہ اعتراض وقیع نہیں کہ نبیﷺ کسی کو دین کی بات خفیہ طریقے سے یا کان میں نہیں بتاتے تھے اور اس اعتراض سے مغلوب ہوکر احادیث کو بیان قیاس میں محدود کردینا شکست خوردہ منہج کو بڑھاوا دینا ہے۔




کمنت کیجے