Home » وجود، عدم اور بننا (2)
شخصیات وافکار فلسفہ

وجود، عدم اور بننا (2)

عمران شاہد بھنڈر
فلکیات کے موضوع پر بحث کے صرف دو علمی مناہج ہیں: ایک فلسفیانہ و منطقی اور دوسرا سائنسی۔ سائنس سے قبل کائنات فلسفے کا موضوع تھا، فلسفے نے سائنس کو جنم دیا اور فلکیات کا مطالعہ عقلی مباحث سے تجربی مشاہدے کے تابع ہو گیا۔ سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود فلسفہ اس لیے متعلقہ ہے کہ منطق آج بھی فلسفے کی ایک شاخ ہے، منطق میں مزید گہرائی پیدا کرنا، اس کے اصولوں کی درستی فلسفیانہ تفکر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ منطق کے بغیر سائنسی مشاہدات یا سائنسی تھیوری کی درست تفہیم ناممکن ہے۔ منطق جتنی اعلیٰ ہو گی، سائنسی نتائج اتنے ہی درست ثابت ہوں گے۔ کائنات کو سمجھنے کا ایک تیسرا ”منہج“ہے جو گھڑا گھڑایا ہے، یہ”منہج“ انسانی تاریخ میں پائے جانے والے تمام اساطیر میں یکساں طور پر موجود ہے۔ اس میں صرف دیوتاؤں کے نام تبدیل ہوتے ہیں، باقی کچھ بھی نہیں بدلتا۔ جو خیالات ہزاروں برس قبل موجود تھے، ان ہی کو آج ”سچ“ مانا جاتا ہے۔ ان میں ایک ذرے برابراضافہ ہوتا ہے نہ کمی۔ یہ سچ نہیں بلکہ ”مطلق سچ“ تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان کی بنیاد علمی نہیں، مفروضاتی ہے۔ ان خیالات کے مطابق ایک دیوتا یا خدا ہے جو کائنات کو عدم سے تخلیق کرتا ہے۔ یعنی کائنات عدم ہے اور خدا وجود ہے۔مادہ جس کی موجودگی کا سائنس انکار کرتی ہے نہ فلسفہ، اس کو عدم میں دھکیل دیا جاتا ہے، اور جس کے بارے میں کسی کے پاس کوئی علم نہیں ہے اس کو ”وجود حقیقی“ تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ علم الکلام میں خدا کو صرف ”وجود حقیقی“ ہی نہیں بلکہ ”واجب الوجود“ بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
قطع نظر اس سے کہ وجود ہو یا عدم یا پھر ”واجب الوجود“ یہ عقلی مقولات ہیں جن کا تعلق اس کائنات سے ہے، یعنی یہ مقولات زمان و مکاں میں قابلِ فہم ہیں، نہ کہ ماورائے زمان و مکاں ان کے”وجود“ کو تسلیم کر لیا جائے۔ ماورائے زمان و مکاں عقل کوئی حکم نہیں لگا سکتی، چہ جائیکہ وہ ایک ”واجب الوجود“ تراش لے۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ کائنات ’عدم‘ سے پیدا نہیں ہوئی۔ اب ظاہر ہے کہ کائنات اگر عدم سے پیدا نہیں ہوئی تو پھر کسی وجود سے پیدا ہوئی ہو گی، مذہب پرست اس ’وجود‘ کو واجب الوجود مانتے ہیں۔ یعنی اس معاملے میں مذہب پرست ماورائے کائنات نہیں بلکہ قبل از کائنات ایک واجب الوجود تراش لیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کا مذہبی عقیدہ ہے نہ کہ منطقی قضایا کی اس حرکت کا نتیجہ جو مختلف مقولات کے درمیان رشتوں سے از خود مکشوف ہوتا ہو۔خدا مذہب کا موضوع ہے، نہ کہ منطق کا۔ منطق کا تعلق فکرِ محض کے ساتھ ہے، اور فکرِ محض کا معروض فکرِ محض خود ہے یعنی فکرِ محض کا being ہی اس کا معروض ہے۔ منطق میں دیکھا یہ جاتا ہے کہ فکرِ محض اپنی ”مطلق“ فعلیت سے وجود بطورِ منطقی مقولہ کے تشکیل کرتی ہے یا نہیں؟ اگر فکرِ محض اپنا being دریافت کرتی ہے تو اس کی ماہیت کیا ہے؟ میں اپنی نظروں سے کائنات کو ہٹا کر تفکر کروں تو مجھے صرف اپنی فکر کے ”ہونے“ کا شعور ہوتا ہے۔ میری فکر کا ’ہونا‘ ہی ا س کا being ہے۔ اس being کے مشمولات کیا ہیں؟ ان کو کیسے مکشوف ہونا ہے؟ ان کو کیسے جانا جائے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب فکرِ محض کو اپنی فعلیت سے فراہم کرنا ہے۔
مضمون کے پہلے حصے میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ اکیلا وجود ہمیشہ غیر معین ہی رہتا ہے، جیسا کہ روشنی کی عدم موجودگی میں اندھیرے کی صفت تلاش کرنا ناممکنات میں سے ہے، اسی طرح اندھیرے کے بغیر روشنی کو متعین نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے کہ متعینات سے مراد صفات ہیں، منطق میں ان ہی متعینات، صفات کو مقولات کہا جاتا ہے۔ جب کائنات نہیں تھی، تو مذہب کے مطابق خدا موجود تھا۔ لہذا یہاں ہمیں اس خدا سے آغاز کرنا ہے جو کائنات کی عدم موجودگی میں بھی ”موجود“ تھا۔ واضح رہے کہ ہم نے کسی مذہبی خدا کو فرض نہیں کرنا، بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ اگر ایک وجود ہو، اور ’دوسرا‘ وجود نہ ہو تو اس وقت ایک وجود کی ماہیت کو منطقی طور پر کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر دوسرا وجود (کائنات) بھی موجود ہو تو بآسانی مذہبی خدا کو کائنات کے کندھوں پر بٹھایا جا سکتا ہے۔ تاہم یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کائنات عدم تھی اور ایک وجود موجود تھا، نہ زمان و مکاں تھے، نہ ’دوسرا‘ اور نہ ’دوسرے‘ کی صفات۔ ایک بات، بہرحال طے ہے کہ کائنات کی عدم موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ وجود سے وہ شے وجود پذیر ہوئی جو عدم تھی۔ لہذا ہم جب مذہبی موقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ عدم سے وجود کا ظہور ہوا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کائنات عدم تھی، یعنی کائنات کا مکشوف ہونا عدم سے ہے۔ اس عدم کا وجود سے کیا تعلق ہے، اس نکتے کو ہمیں منطقی طور پر سمجھنا ہے۔ مذہبی طور پر اسے سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، اور نہ ہی علم الکلام کی آڑ میں فلسفیانہ مقولات کا استحصال کرکے کسی علت کو خدا کے نام سے ایک دم تبدیل کرنا مقصود ہے۔ یعنی علت کیا تھی؟ جواب یہ کہ علت خدا ہے۔ جب کہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر کائنات سے ”پہلے“ ہم ”پہلے“ کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے، اس لیے کہ ”پہلے“ کا تعلق زمان و مکاں کے ساتھ ہے تو ہم زمان و مکاں کے اندر جنم لینے والے کسی بھی مقولے کا اطلاق خدا پر بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ تمام فلسفیانہ و منطقی مقولات زمان و مکاں کے اندر ہی قابلِ فہم ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ جب کائنات موجود نہیں تھی، تو اس وقت نسبت کے مقولات جیسے فاعل و منفعل، علت و معلول اور عرض و جوہر فعال تھے۔ وجہ یہ کہ زمان و مکاں سے قبل وجود ’ایک‘ تھا، نہ کہ ایک سے زائد کہ کسی بھی طرح کی نسبت قائم کی جا سکے۔ لہذا ذہن میں یہ رہنا بہت ضروری ہے کہ ”نسبت“ کا مقولہ ماورائے کائنات یا کائنات کی عدم موجودگی میں قابل عمل نہیں ہے۔ میں اس بات پر بھی زور دوں گا کہ صرف ”نسبت“ ہی نہیں بلکہ کیفیت، کمیت، جہت وغیرہ سمیت ہر مقولہ غیر متعلق ہے۔
یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ مذہب کا واجب الوجود فلسفے کا ”وجودِ محض“ ہے، اور وجودِ محض وہ ہے جس کو ہم کسی بھی صفت کی تعیین سے قبل خیال میں لاتے ہیں۔ چونکہ وجودِ محض حسی یا تجربی نہیں ہے، اس لیے یہ محض ایک آئیڈیا ہے۔ یہ آئیڈیا کہاں سے آیا؟ یہ آئیڈیا انسان کی سوچ کا پیدا کردہ ہے۔ یہاں یہ نکتہ واضح رہے کہ ہم نے وجودِ محض، عدم اور ان کے بننے کا منطقی تجزیہ کرنا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں، میرا سوچنا میرا ’ہونا‘ ہے۔ میں کائنات کو نہیں سوچ رہا، بلکہ قبل از کائنات کو سوچ رہا ہوں۔ لہذا میری سوچ کا ’ہونا‘ موجود ہے۔ میری سوچ میں کوئی تعینات نہیں ہیں۔ میری فکر در اصل، فکرِ محض ہے، اور میری فکر کا ہونا میری فکر کا ”وجودِ محض“ ہے۔ یعنی میری فکر خالص فکر ہے، اور میری فکر کا ہونا میری فکر کا وجود ہے، چونکہ ابھی ہم نے منطقی تجریے کا آغاز نہیں کیا اس لیے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ میری فکر فقط ”ہے“، لیکن میری فکر کیا ہے؟ یہ بنیادی سوال ہے جس کا ہمیں جواب دینا ہے۔ منطق کے تحت میری فکر یا فکرِ محض ہی ”وجودِ محض“ ہے۔ یعنی میں کسی ایسی ”شے“ کو نہیں سوچ رہا جو کہ ”پہلے“ سے موجود ہے، بلکہ میں اپنی سوچ کے ’ہونے‘ کا تیقن حاصل کرتا ہوں۔ لہذا یہاں پر میری فکر یا سوچ ہی ”وجودِ محض“ ہے۔ چونکہ میں سوچ رہا ہوں اور سوچ کا ہونا سوچ کا وجودِ محض ہے، لہذا میری سوچ غیر متعین، خالی، غیر متفرق اور تجریدی ہے۔ سوچ کی تعیین کے لیے ”دوسرے“ کا ’ہونا‘ بہت ضروری ہے، اور آغاز میں ’دوسرا‘ نہیں ہے، اور جب تک ”دوسرا“ نہیں ہو گا اس وقت تک محض ’ہونا‘ کسی صفت کی عکاسی نہیں کرتا۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آغاز میں سوچ کا ’وجود‘ غیر متعین، خالی، غیر متفق اور تجریدی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میری سوچ یا میری سوچ کا وجود یا وجودِ محض، دراصل، کچھ بھی نہیں ہے۔ لہذا منطقی طور پر ہم یہ کہتے ہیں کہ میری سوچ کا وجود (being) کچھ بھی نہیں، یعنی عدم (not being) ہے۔ یہاں ہمیں منطقی طور پر دو مقولات حاصل ہوتے ہیں: ایک وجود، جو کہ سوچ کا وجود ہے، دوسرا عدم جو کہ اس کے تعینات کا نہ ہونا ہے۔ کیونکہ ہم نے واضح کر دیا ہے کہ آغاز وجودِ محض ہی سے ہوتا ہے اور وجود محض کی نفی سے عدم وجود حاصل ہوتا ہے۔ مذہبی مفاہیم میں ایک ”کامل“ دیوتا کو فرض کر لیا جاتا ہے، جس میں تمام صفات پائی جاتی ہیں، یہ عقیدہ تو ہے منطق نہیں۔ منطق میں صفات یا تعینات خود کو تدریجی طور پر ازخود ظاہر کرتی ہیں۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وجودِ محض (اے) جو کہ ’ہے‘، وہی وجودِ محض، عدم (ناٹ) ہے۔ تاہم جوں ہی وجودِ محض کی نفی (ناٹ اے) ہوئی، ہمارے سامنے چند منطقی مقولات ظاہر ہوئے۔ (ذہن نشین رہے کہ منطق میں ساری بحث مقولات پر مشتمل ہوتی ہے)۔ یہ مساوات دیکھیے:
اے (وجودِ محض) = ناٹ اے (عدم)۔ وجود ایک ہے دو نہیں، نفی وجود کی صفت ہے، اس سے باہر یا ماورا نہیں۔ واضح یہ ہوا کہ وجودِ محض ’ہے‘ بھی اور’نہیں‘ بھی۔ نفی کسی ’ہونے‘ کی نفی ہے،ہونا تعینات کا ہونا نہیں ہے، بلکہ جو ’ہے‘ وہ تعینات سے پہلے کا ’مرحلہ‘ ہے۔ ہمیں جو مقولات حاصل ہوئے ہیں وہ یہ ہیں: وجودِ محض اور عدم کے درمیان ”فرق“، وجودِ محض اور عدم کے درمیان ”تضاد“ کا موجود ہونا۔ فرق اور تضاد دونوں ہی منطقی مقولات ہیں۔ آغاز میں ہمارے پاس ”ایک“ وجود تھا، بعد ازاں ہمیں عدم منطقی طور پر وجودِ محض کے اندر سے حاصل ہوا، نہ کہ باہر سے، کیونکہ باہر تو موجود ہی نہیں ہے۔ تاہم وجود سے عدم حاصل ہونے کے بعد دونوں کو ممیز کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا ہے کہ اکیلا ’وجود‘ غیر معین ہی ہوتا ہے، اس کی تعیین ”دوسرے“ کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے متکلمین اپنے عقیدے کے تحت خدا کو ”واجب الوجود“ مان کر اسے کائنات کے کندھوں پر بٹھا دیتے ہیں، لیکن کائنات کی عدم موجودگی میں ان کے پاس صرف عقیدہ باقی رہتا ہے، جس کے تحت ایک جادوگر موجود ہے، جو عدم سے چیزوں کو وجود میں لاتا رہتا ہے۔ تاہم منطق میں ”دوسرا“ جو کہ عدم ہے، جسے ہم نے ناٹ اے بھی کہا ہے، وہ اپنے لزوم میں وجودِ محض کی نفی کرتا ہے، یعنی نفی کا مقولہ وجوبی طور پر خود کو ازخود ظاہر کرتا ہے۔
وجودِ محض سے عدم یعنی وجودِ محض کی نفی اور عدم کا مکشوف ہونا ”دوسرے“ کا موجود ہونا ہے۔ لہذا یہاں سے وجود اور عدم کی جدلیات کا عمل شروع ہوتا ہے، چونکہ اب ہمارے پاس وجود کا دوسرا (عدم، نفی) بھی موجود ہے۔ اب یہ غیر متفرق یا عدم امتیاز کا حامل نہیں ہے، بلکہ ان کو ممیز کیا جا سکتا ہے۔ یہ ”دوسرا“ خارجی نہیں ہے، بلکہ اس کا استخراج وجودِ محض سے ہوا ہے۔ یہ حسی یا تجربی معنوں میں ”دوسرا“ نہیں ہے، بلکہ یہ خالص خیال ہے، جس کی منطقی حرکت کے دوران یہ ازخود مکشوف ہوا ہے۔ یہاں ہم واضح طور پر یہ دیکھ سکتے ہیں کہ وجودِ محض(اے) عدم (ناٹ اے) ہے اور عدم (ناٹ اے) وجودِ محض (اے) ہے، کیونکہ آغاز میں ”اے“ ہی غیر متعین وجود ہے اور ناٹ اے اس کے مقولات کا استخراج ہے۔ ان معنوں میں وجودِ محض یا اے، عدم یا ناٹ اے ایک ہی ”شے“ کے مختلف پہلو ہیں۔
اب ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ ”واجب الوجود“ کسے کہتے ہیں؟ آغاز میں ہم نے یہ واضح کر دیا تھا کہ جس وجود کا تجزیہ کرنا مقصود ہے وہ حسی یا تجربی وجود نہیں ہے، کیونکہ حسی یا تجربی وجود وجودِ محض نہیں ہوتا، بلکہ ایک مخصوص (Particular) وجود ہوتا ہے جس کی صفات اس میں موجود ہیں اور قابلِ مشاہدہ ہیں۔۔ جب کہ سوچ کا being کُلی یا یونیورسل ہوتا ہے، یونیورسل میں صفات مستور ہوتی ہیں جو ”بننے“ کے دوران منطقی طور پر مکشوف ہوتی ہیں۔ ان صفات کی تعین سے قبل کُلی یا یونیورسل، تجریدی، خالی، غیر متفرق ہوتا ہے۔ لہذا ان معنوں میں سوچ کا being ہی واجب الوجود ہوتا ہے اور اس کے اندر جتنے بھی مقولات ’موجود‘ ہوتے ہیں وہ اپنے لزوم میں مکشوف ہوتے ہیں۔ لہذاوجود ِمحض ہی واجب الوجود ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا ’وجود‘ موجود ہی نہیں ہے (کم از کم آغاز میں موجود نہیں ہے جیسا کہ ہم نے واضح کر دیا ہے)۔ واجب الوجود کی نفی چونکہ اس کے اندر سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے یہ نفی واجب الوجود کی اہم صفت ہے۔ منطقی طور پر کوئی بھی وجود اس وقت تک واجب الوجود نہیں ہو سکتا جب تک وہ کُل کو محیط نہ ہو اور اپنی وضاحت خود نہ کر سکتا ہو اور کائنات کو سہارے کے طور پر استعمال نہ کرے۔ اگر کوئی وجود اس سے خارج میں موجود ہے تو نہ ہی وہ ”مطلق“ کہلا سکتا ہے، نہ واجب الوجود۔ دیوتا یا خدا کا ’ہونا‘ اور پھر اس کے ارادے کا ہونا، یہ سب مذہبی خرافات ہیں، جو غیر منطقی ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں