مولانا ابوالاعلی سید سبحانی
ایک معروضی اور غیرجانبدارانہ علمی وتحقیقی سفر کے لیے ذہنی وسعت اور کشادہ ظرفی کی یک گونہ اہمیت ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی جانب سے حمد بن خلیفہ یونیورسٹی قطر میں منعقد ورکشاپ (Science, Hermeneutics, Tolerance: An Encounter of Western and Muslim Humanities) اس ضمن میں ایک اہم کوشش کہی جاسکتی ہے۔
مختلف مکاتب فکر کے حاملین کا یہ اجتماع میرے علمی سفر کا ایک اہم اور یادگار تجربہ ہے۔ مختلف مکاتب فکر، مختلف مسالک فقہ اور مختلف افکارونظریات کے حاملین کے ساتھ انٹرایکشن اور تبادلہ خیال کا یہ ایک شاندار موقع تھا۔ میرے لیے یہ خاص اس طور پر بھی رہاکہ ہندوپاک کے اہل علم ودانش کے درمیان مائنڈ سیٹ اور غوروفکر کے اندازمیں موجود فرق سے راست تعامل کا تجربہ حاصل ہوا۔ یہ فرق پہلے معلومات کی نوعیت کا تھا، اب اس کی حیثیت مشاہدہ اور تجربہ کی ہوگئی ہے۔
اسلامیات اور دینیات سے متعلق مباحثوں میں خواتین کا کردار عالمی سطح پر گزشتہ صدیوں میں بہت کمزور رہا ہے، برصغیر کی موجودہ صورتحال اس تناظر میں کافی حد تک تشویشناک کہی جاسکتی ہے، تاہم مدرسہ ڈسکورس کے اس پورے پروگرام میں طالبات کی نمائندگی امید افزا رہی، ورکشاپ کے دوران مختلف سیشنوں میں چھڑنے والے مباحث میں بھی ان کی شرکت اچھی رہی۔ یہ تجربہ اگر اسی طرح کامیابی کے ساتھ جاری رہا تو برصغیر کی علمی دنیا میں اس حوالے سے ان شاءاللہ ایک اہم پیش رفت ہوگی۔
اس دوران مختلف اہل علم اور اہل نظر، بالخصوص ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی، ڈاکٹر موسی ابراہیم، ڈاکٹر عمار خان ناصر، ڈاکٹر شیر علی اور یونیورسٹی کے دیگر پروفیسرز سے مستفید ہونے، ان کے ساتھ وقت گزارنے اور مختلف ایشوز اور موضوعات پر کھل کر تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ علامہ یوسف القرضاوی سے ملاقات کرنے اور ان سے دعائیں حاصل کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ معروف اسلامی دانشور ڈاکٹر مختار شنقیطی سے بھی اچھی ملاقات رہی۔ اس کے علاوہ مدرسہ ڈسکورسز سے وابستہ ہم ساتھیوں کا بھی آپس میں اخذواستفادہ کا اچھا سلسلہ رہا۔
اس ورکشاپ کے دوران ناچیز کا یہ خیال اور مضبوطی اختیار کرگیا کہ دلائل اور شواہد کی اپنی عظمت ہوتی ہے، ان پر شرح صدر آپ کو نہ کبھی کمزور پڑنے دیتا ہے اور نہ کبھی پندارعلم کا شکار بناتا ہے، نہ کچھ اہل علم اوربڑی شخصیات کا مخالف رائے رکھنا آپ کو کمزور کرتا ہے اور نہ کسی کا ہم خیال ہونا آپ کو تعلّی کی طرف لے جاتا ہے۔
بہرحال اس دوران بہت کچھ سیکھا، بہت اچھے علمی وفکری ماحول میں ایک اچھا وقت گزارا۔ سچ بات یہ ہے کہ ہفتہ گزرنے کے بعد بھی تشنگی جوں کی توں برقرار رہی۔
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
اصولی مباحث اور عملی مسائل پر بحث کے درمیان ایک فرق یہ ہوتا ہے کہ اصولی مباحث سے آپ بہت آسانی کے ساتھ گزرجاتے ہیں اور زیادہ الجھنوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن جب عملی مسائل پرآتے ہیں تو انہی اصولی مباحث کو اپلائی کرتے وقت ذہن کھلتا ہے، علمی سفر کو ایک رُخ ملتا ہے اور طرح طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔ اصولوں پر بحث سے گہرائی آتی ہے اور عملی مثالوں اور عملی مسائل پر بحث سے وضوح فکر حاصل ہوتی ہے۔ میرے خیال سے مدرسہ ڈسکورسز کے ساتھیوں کے درمیان ہونے والے مباحث میں اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ورکشاپ کے دوران مرتد کی سزا اور نظریہ ارتقاءسے متعلق ہونے والے ڈسکشن کو اس تناظر میں بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ کے تحت شائع ہونے والا لٹریچر اس سلسلہ میں جدید مسائل کے تناظر میں اچھی رہنمائی کرتا ہے۔
ناچیز کے خیال میں مدرسہ ڈسکورسز کی کلاسیز میں کچھ وقت موجودہ دنیا کے عملی مسائل پر بحث ومباحثہ کے لیے مختص کردینا چاہیے، تاکہ مختلف نئے اور عملی مسائل پربھرپور ڈسکشن ہوسکے، اور ذہنوں کوان حقیقی سوالات کی طرف متوجہ کیا جاسکے جو ہمیں سوسائٹی کے حقیقی مسائل اور حقیقی چیلنجز سے جوڑ سکیں۔ اگر ایسا ہوسکے تو یہ مدرسہ ڈسکورسز کے پروگرام کا ایک بڑاحاصل ہوگا، واللہ ولی التوفیق۔
کمنت کیجے