مولانا ابو اعتصام الحق بختیار
یہ دنیا تغیر پذیر ہے۔ نظریہ ارتقاء کو کوئی مانے یا نہ مانے؛ لیکن دنیا اپنے وجود کے ساتھ ہر آن ہر سو متغیر ہورہی ہے۔ یہاں ہر چیز میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے، حتی کہ انسان کے سوچنے سمجھنے کے انداز اور طریقوں میں بھی تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہےاور ہم جانتے ہیں کہ اسلام دائمی اور ہمیشہ رہنے والا مذہب ہے۔ دنیا میں چاہے کیسی ہی تبدیلی واقع ہوجائے، لیکن اسلام ہر تبدیلی میں اپنے پورے وجود اور نظام کے ساتھ قائم رہنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے؛ البتہ ضرورت ہوتی ہے ایسے دماغوں کی، ایسے افراد کی جو جدید دنیا کے مطابق اسلام کو سمجھنے ، سمجھانے اورقابل عمل بتانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔بدلے ہوئے ذہنوں کو، سوچنے کے نئے انداز کے حامل افراد کو اسلام کی خوبصورت تصویر پیش کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔ موجودہ چیلنجز اور اسلام پر ہو رہی جدید یلغار کو سمجھنے اور موجودہ زبان اور انداز میں اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ الاسلام يعلو ولا يعلی عليہ کی ہر زمانہ میں نمائندگی کر سکتے ہوں۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں، کچھ اسی طرح کی جدوجہد اور اسی خواب کو عملی تعبیر دینے کی ایک کوشش کا نام مدرسہ ڈسکورسزہے۔
انہی مقاصد کے حصول کے لیے ہم بھی مدرسہ ڈسکورسز سے مربوط ہوئے اور ستمبر2019 سے دسمبر 2019 تک مختلف موضوعات پر آن لائن کلاسز ميں شریک ہوکر مستفید ہوئے۔ ان کلاسز کے لیے اہم اور مفید مواد اور نصاب کا انتخاب کیا گیا تھا۔ عربی ، انگریزی اور اردو تینوں زبانوں میں علمی متون کا مطالعہ کرایا گیا، نیز یہ متون بڑے علماء، مفکرین ، دانشوران، سائنسدان اور علم کلام کے اساطین کی تھیں۔ علم کلام کے بیشتر متون بنیادی مآخذ کی حیثیت سے تھے اور مجموعی طورپر پورے سمسٹر میں علم کلام کا رنگ غالب رہا؛ اگر چہ دیگر موضوعات پر بھی کافی مطالعہ اورمناقشہ ہوا ۔
اس کورس کی بہت سی خصوصیتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں مطالعہ کرنے کا انداز اور طریقہ بھی بتایا جاتا ہے جو کافی مفید ثابت ہوا۔ اس سے انکار نہیں کہ کسی کے پاس مطالعہ کا اس سے بھی بہتر طریقہ ہو، اسی طرح اس کورس کی یہ بھی خوبصورتی ہے کہ یہاں استاذ خود کم گفتگو کرتے ہیں اورمشارکین کو تبادلہ خیال اور مطالعہ کی روشنی میں اپنی رائے رکھنے کا زیادہ موقع دیتے ہیں، نیز چند استثناءات کے سوا کبھی کسی کی رائے کی سختی کے ساتھ تردیدنہیں کی جاتی اور نہ ہی کسی کی بے جا تائید۔
سمسٹر مکمل ہونے کے بعد طے شدہ پروگرام کے تحت ونٹر انٹیسو (Winter Intensive)کا قطر میں ایک ہفتہ کا پروگرام تھا ۔ ۲۴ دسمبر کی صبح کو وہاں کے وقت کے حساب سے سوا نو بجے ہم قطر کے حمد انٹر نیشنل ائیر پورٹ پہنچے۔انتظامیہ کی جانب سے قطر میں شرکاءکے لیے تمام انتظامات شاندار رہے۔ ہوٹل ، ناشتہ ،کھانا ، ٹرانسپورٹ اور جائے محاضرات سب سکون بخش اور فرحت آمیز تھے۔ تمام نشستیں جامعہ حمد بن خلیفہ کے کلیۃ الدراسات الاسلامیۃ میں منعقد کی گئیں۔ جامعہ کا یہ حصہ اسلامی اور ماڈرن طرز تعمیرکا شاہکار ہے، بہت دیدہ زیب، پرکشش اور خوبصورت عمارت ہے۔ سمندر کی سطح پر، آدھی پانی میں اور آدھی اس کے اوپر،آسمان کی طرف اپنی دم کو تانے، تیرتی ہوئی شارک مچھلی کے نقشہ پر کلیہ کی عمارت تعمیر کی گئی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں ایک وسیع وعریض مسجد بھی ہے ۔ ہماری نماز ظہر زیادہ تر وہیں ہوتی تھی۔
اس سات روزہ پروگرام میں مختلف موضوعات پر محاضرے پیش کیے گئے۔ ڈاکٹر شیر علی ترین ، ڈاکٹر عمار ناصر ، ڈاکٹر وارث مظہری ، ڈاکٹر ابراہیم موسی ،ڈاکٹر ادریس آزاد اور ڈاکٹر محی الدین علی قرہ داغی وغیرہ نے قیمتی محاضرات پیش فرمائے۔ اول الذکر تینوں حضرات کورس کے باضابطہ لیکچرارہیں اور تینوں ہی غضب کی صلاحیتوں کے مالک ہیں ، ڈاکٹر وارث مظہری کا مطالعہ وسیع ، فکر بلند اور نظر عمیق ہے ۔ جب وہ کسی نص پر کلام کرتے ہیں تو اس کے تمام گوشے چوپٹ کھل جاتے ہیں، اس نص کا فہم مشارکین کے لیے بالکل آسان ہوجاتا ہےاور ڈاکٹر عمار ناصر جب علم و تحقیق کی گرہیں کھولتے ہیں تو ان کے اندر سمندر جیسا ٹھہراؤ دکھائی دیتا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دور کسی سناٹے میں کوئی موسیقی کے تاروں کو چھیڑ رہا ہو ، نیز وہ کسی بھی نص کی تنقیح اس طرح کرتے ہیں کہ مشارکین کو لگتا ہے کہ اس متن کے تمام سرکش گھوڑوں کی لگام ہمارے ہاتھوں میں آچکی ہے۔
ڈاکٹر شیر علی کو اگر نابغہ روزگار اور عبقری کہا جائے تو شایدمبالغہ نہ ہو۔ موصوف بلا کی ذہانت اور حیرت انگیز صلاحیت کے مالک ہیں، نصوص کے مطالعہ کا ان کا انداز انوکھا ہوتا ہے، جب یہ نصوص میں غوطہ زن ہوکر نتائج کا استخراج کرتے ہیں تواہل فضل وکمال مشارکین وسامعین کا مجمع انگشت بدنداں رہ جاتاہے۔ ان کوکئی زبانوں پر عبور حاصل ہے؛ البتہ ان کی اردو میں تقریباً 60 فی صد عربی الفاظ وترکیبات کی آمیزش ہوتی ہےاوریہ بھی ان کی شخصیت کی ایک خوبصورتی ہے ۔
ڈاکٹر ابراہیم موسی اس علمی قافلہ کے روح رواں ہیں۔ سادگی، خورد نوازی، حوصلہ افزائی ان کی شخصیت کے نمایاں عناصر ہیں، ان کی باتوں کے دریچوں سے ان کے قلبی احساسات، تڑپ اور بے قراری کو بخوبی دیکھا جا سکتاہے۔ عربی، انگریزی اور اردو تینوں زبانوں میں بولنے اور لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
قطر کے پروگرام میں جتنے محاضرات پیش کیے گئے سب اپنی افادیت میں ممتاز تھے۔ سائنس ، علم کلام، تہذیب، فقہ اور علمیاتی معاییر جیسے اہم موضوعات پر محاضرات مشتمل تھے۔ ڈاکٹر شیر علی تارین نے بھی کئی محاضرے دیے، ان کے محاضرات بڑے دل چسپ اور انوکھے انداز کے ہوتے تھے ۔ جو نصوص ہم نے پڑھ رکھی ہیں، انہی نصوص کو جب وہ پیش کرتے ہیں، تو ان میں ایسے ایسے نکتے پیش کرتے ہیں ، جو سامعین کے لیے بالکل نئے ہوتے ہیں اور ان کا انداز بھی اچھوتا ہوتاہے۔ حضرت نانوتوی کے مباحثہ شاہ جہان پور کی نص پیش کی گئی اور اس میں اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی کہ وقت اور ماحول کا کتنا اثر حضرت نانوتوی کے کلام اور ان کی تعبیرات پر تھا، کیوں کہ امام نانوتوی نے اپنے اس مناظرہ میں بعض ایسی تعبیرات کا استعمال کیا ہے، جس سے ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارگی کو فروغ ہوتا ہے اور اس طرح کی تعبیرات دوسرے مناظروں میں ہمیں نہیں ملتیں۔ نیز حضرت نانوتوی کے مناظرے میں اور دیگر علماء کے مناظروں میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے ۔ نیزاس محاضرہ میں مشارکین کو چند سوالات دیے گئے تاکہ وہ اپنے مطالعہ کی روشنی میں اس کے جوابات دیں۔ مشارکین نے اس میں خوب حصہ لیا اور امام نانوتوی اور دیگر علماء کے مناظروں کے درمیان فرق کو واضح کیا۔
مفتی امانت علی قاسمی نے مناقشہ میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حضرت نانوتوی کا یہ مناظرہ اگر چہ ہندو اور عیسائی دونوں سے تھا؛ لیکن اس مناظرہ میں ہندو اور مسلم دونوں ہی مناظرکرنے والوں کے پیش نظر عیسائی مناظر کو ہزیمت دینی تھی؛ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت نانوتوی کو اس مناظرہ میں بڑی کامیابی ملی اور عیسائیت اور ہندوازم دونوں کے مناظر بے بس نظر آئے، تو اس کامیابی پر صرف مسلمان ہی نہیں؛ بلکہ ہندوؤں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی؛ کیوں کہ عیسائی پادری ہندوستان کے طول وعرض میں اسلام کے ساتھ ساتھ ہندوازم کوبھی چیلنچ کر رہے تھے، وہ پورے ملک کوعیسائیت کے رنگ میں رنگنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔
ڈاکٹر سہیرا صدیقی نے ایک محاضرہ علمیات (Epistemology)کے عنوان پر دیا ، جس میں بنیادی طور پر تین اہم عناصر پر بحث کی گئی : (1) معرفت کیا ہے؟ (2) ذرائع کیا ہیں؟ (3) معاییر کیا ہیں ؟نیز اس محاضرہ میں اس پر بھی اہم گفتگو کی گئی کہ مغرب میں علمیاتی معاییر میں کس قسم کی تبدیلی واقع ہوئی ہے؟
اسی طرح ایک بہت ہی پرمغز، مفید اور اطمینان بخش محاضرہ ڈاکٹر ادریس آزاد نےنظریہ ارتقاء کے شواہد (Evidences of Evolutionary Theory)کے عنوان سے پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا انداز تفہیم سادہ اور آسان تھا ، ان کی اس بحث سے سائنس کی بہت سی باتیں معلوم ہوئیں، نیز سائنس کے تئیں اشتیاق میں اضافہ ہوا ۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑے اچھے اندازمیں دنیا کی مخلوق میں ارتقائی مراحل کو سمجھانے کی کوشش کی ، بڑی اچھی مثالیں اور مضبوط شواہد پیش کیے۔ اسی سے ملتا جلتا ایک آن لائن محاضرہ ڈاکٹر رانا دجانی صاحبہ نے پیش کیا ، ان کے محاضرہ کا عنوان تھا : سائنس، ارتقاء اور اسلام (Science, Evolution and Islam)انہوں نے بھی اس عنوان پر انگریزی میں اچھا محاضرہ پیش کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نظریہ ارتقاء اسلام سے متصادم نہیں ہےاور بڑے پرجوش انداز میں قرآن کریم کی آیتوں کے حوالوں سے انہوں نے اپنا علمی محاضرہ پیش کیا۔ سوالات کے وقفہ میں مشارکین نے اپنے بہت سے خدشات، شبہات اور اعتراضات وسوالات کیے، میں نے بھی درج ذیل سوال کیا:
(1) ارتقاء کی وجہ سے بندر انسان بن گیا، تو سوال یہ ہے کہ بندروں کا ارتقائی مرحلہ انسان پر آکر کیوں رک گیا؟ اب ارتقاء کی وجہ سے بندرسے بننے والا انسان کوئی دوسری مخلوق کیوں نہیں بن رہاہے؟
(2) ہمارے زمانہ کے بندروں میں یا ہم سے قریب تر ماضی کے بندروں میں اب یہ ارتقاء کیوں نہیں ہورہا ہے، یعنی اب کے زمانہ کے بندر، انسان کیوں نہیں بن رہے ؟ کیا سابق میں جو بندر انسان بنے تھے، وہ مخصوص اوصاف کے حامل تھے، جو اوصاف ہمارے زمانہ کے بندروں میں نہیں پائے جاتے؟
ڈاکٹر صاحبہ نے اس کا کیا جواب دیا تھا، اب ذہن میں نہیں؛ لیکن ڈاکٹر ادریس صاحب نے ان دونوں سوالوں کا مختصر سا اور مشترک یہ جواب دیا تھا کہ ارتقائی مرحلہ کوئی ایک دن یا ایک سال میں طے نہیں ہوتا کہ ایک نسل اس کا ادراک کرسکے؛ بلکہ یہ ہزارہا ہزار سال کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔
اس محاضرہ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ انسانی زندگی کی پیش قدمی کے لیے ارتقائی نظریہ بہت ضروری ہے، محاضرہ کے بعد ہم نے ڈاکٹر ادریس صاحب سے شخصی ملاقات میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم بندر اور انسان کے قصہ کے علاوہ دیگر تمام چیزوں میں نظریہ ارتقاء کو مانیں، کیا اس نظریہ کو ماننےکے لیے ضروری ہے کہ ہم بندر اور انسان کی بنائی ہوئی کہانی کو بھی مانیں، جبکہ یہ اسلامی تصور سے صاف متصادم ہے؟ ڈاکٹر موصوف نے صراحت کے ساتھ کہا کہ بندر اور انسان کی کہانی کو مانے بغیر بھی نظریہ ارتقاء کو مانا جاسکتا ہے۔
اسی طرح ان نشستوں میں ایک بیش قیمت محاضرہ تنظم الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر علی محی الدین القرہ داغی کا تھا ۔ محاضرہ کا عنوان تھا “الفقہ الاسلامی بين النصوص والتراث والمعاصرۃ وفقا لفقہ الميزان“۔ ڈاکٹر صاحب کا محاضرہ بہت شاندار تھا، قرآن کریم کی آیات کی تفسیر ، لطائف، دقائق اور نکات کا استخراج حیرت انگیز تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے محاضرہ میں ایک نئی بات یہ ملی کہ انہوں نے تراث اور نص کے درمیان فرق قائم کیا، ان کے نزدیک تراث میں نصوص شرعیہ اور دینیہ داخل نہیں ہے، تراث ان سے الگ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نصوص شرعیہ یعنی تفسیر اور حدیث وغیرہ سے متعلق اہل علم کے جتنے اجتہادات اور آراء ہیں، ان پر تراث کا اطلاق ہوتا ہے، بلکہ تراث کا امتداد حضرت آدم سے لے کر اب تک کے علماء اور فقہاء تک ہے، تراث صرف امت محمدیہ کے اجتہادات میں منحصر نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا موضوع پر نہایت ہی وقیع محاضرہ پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اچھے محاضرے پیش کیے گئے، جن کی فہرست اور ان پر تبصرہ طویل الذیل ہے۔
مدرسہ ڈسکورسز کی انتظامیہ نے جہاں ہماری علمی سیرابی کا خوبصورت نظم کیا تھا، وہیں ذہنی تفریح ، تاریخی مقامات کی سیر اور قطر کے دل کش اور حسین وجمیل مناظر سے ہمیں محروم نہیں رکھا گیا۔ ہمارا پورا قافلہ قطر کے متعدد عجائب گھروں اور ساحل سمندر کے حسین نظاروں سے خوب محظوظ ہوا۔ سوق واقف کا تاریخی بازار بھی نظر نواز ہوا، جو صرف قطر کا بازار نہیں تھا، بلکہ وہاں قطر کی تقریباً تہذیب کا جامع تھا۔ سوق واقف میں ہی واقع ہوٹل دی ویلیج (The Village) میں عشائیہ تھا، جہاں ہمارے سامنے ایرانی اور انڈین کھانے پروسے گئے، گویا کہ یہ کھانا بزبان حال پکار رہا تھا “بضاعتكم ردت إليكم” تاہم کھانا بڑا مزیدار تھا، ایرانی کبابوں کا ذائقہ تو ہنوز زبان فراموش نہیں کرسکی۔
پیر کے دن دوپہر سے رات ساڑھے نو بجے تک اختتامی تاثراتی نشست تھی۔ درمیان میں لمبا وقفہ بھی تھا۔ یہ نشست پورے پروگرام کا خلاصہ تھی، اس میں مشارکین نے اپنے قیمتی تاثرات کا برملا اظہار کیا۔ بیشتر مشارکین کے تاثرات تین مرکزی عناصر میں محدود تھے: (1) مدرسہ ڈسکورسز پر ہونے والے اعتراضات کا جواب (2) اس کی افادیت۔ (3) اپنے تاثرات مشورے اور تجاویز۔ مجھے بھی تاثرات پیش کرنے کا موقع دیا گیا، میں نے اس کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے عرض کیا کہ فی زمانہ دنیوی تعلیم اور دینی تعلیم کے درمیان ایک خلیج قائم کردی گئی ہے، عام طور پر اِدھر کے حضرات اُدھر سے بے بہرہ رہتے ہیں اور اُدھر کے لوگ اِدھر سے۔ مدرسہ ڈسکورسز نے اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی ہے۔ یہ آخری نشست تھی، اس کے بعد سب کوجدا ہونا تھا؛ اس لیے بڑی جذباتی رہی؛ بالخصوص ڈاکٹر عمار ناصر اور ڈاکٹر ابراہیم موسی وغیرہ کی آنکھیں چھلک آئیں اور اس کے بعد چند منٹوں تک پوری مجلس میں سناٹا چھایا رہا۔
ان نشستوں اور کورس کے تعلق سے درج ذیل چند تاثرات اور مشورے پیش خدمت ہیں:
- مدرسہ ڈسکورسز کے روح رواں ڈاکٹر موسی ابراہیم کا نوجوان فضلاء اور حالات حاضرہ کے تئیں جذبہ قابل تقلید ہے۔
- مدرسہ ڈسکورسز کے تمام اساتذہ مسلکی، مذہبی غیر جانب داری اور اچھی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
- مدرسہ ڈسکورسزکا منتخب کردہ نصاب بہت مفید ہے۔
- ہمیں چار مہینے کے سمسٹر سے جتنا فائدہ ہوا، اس سے کہیں زیادہ آٹھ دن کے قطر کے پروگرام سے محسوس ہوا۔
- ڈاکٹر جوشوا لوپو کی خدمات اور ان کے اخلاق متاثر کن ہیں۔
- مطالعے کے لیے عربی یا انگریزی میں جونص دی جاتی ہے، اگر ان نصوص کے اصطلاحی اورمشکل الفاظ کا حل بھی ساتھ ہی میں فراہم کردیا جائے تو ہماری توانائی نص کے اصل مغز کوسمجھنے پر زیادہ خرچ ہوسکتی ہے؛ ورنہ ہم الفاظ کے پیچوں میں ہی الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
- کسی بھی مسلک کے بڑے عالم اور رہنما کا اگر ذکر آئے تو تمام مشارکین کو حتمی طور پر یہ التزام کرنا چاہیے کہ ان کے حوالے سے گفتگو کرتے وقت ادب کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں، بصورت دیگر مشارکین کے درمیان ہی بدمزگی پیدا ہوجانے کا قوی اندیشہ رہتا ہے۔
- محاضرہ پیش کرنے والی مسلم خواتین میں اگر ان کی اسلامی وضع قطع اور ہیئت کذائیہ کو ترجیحات میں رکھا جائے تو مناسب ہوگا۔
- ونٹر اینڈ سمر انٹینسو میں صرف اساتذہ کے محاضرات کے بجائے مشارکین کو پچھلی نصوص کی روشنی میں کسی موضوع پر مقالہ لکھنے اور انٹینسو میں پیش کرنے کا مکلف کیا جائے۔
- پختہ عمر کے ماہرین فن اور صلاحیتوں کے حامل افراد کی کثرت کے بجائے شرکاء کے انتخاب میں یونیورسٹی اور مدارس کے جدید فضلاء کو ترجیح دے کر ان کو تیار کرنا چاہیے۔
(صاحب تحریر، حیدر آباد انڈیا میں المعہد العالی للغۃ العربیۃ وآدابہا کے سربراہ اور عربی مجلہ الصحوۃ الاسلامیۃ کے رئیس التحریر ہیں)
کمنت کیجے