Home » جامعہ معظمیہ میں ’’تہذیب اسلامی کا احیاء’’ کے زیر عنوان سیمینار
احوال وآثار اسلامی فکری روایت مدارس اور تعلیم

جامعہ معظمیہ میں ’’تہذیب اسلامی کا احیاء’’ کے زیر عنوان سیمینار

 

اس وقت جو ایک ادھوری اور اتھلی حالت ہم پر مسلط ہے اس کو دیکھنے کےلیے نئی آنکھیں بنوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ارادہ وشعور کی نصب العینی کلیت کے ساتھ بڑے بڑے دینی مقاصد کو حاصل کرنے میں نا کام ہوچکے ہیں۔ اس ہمہ گیر تہذیبی بحران سے امت کو نکالنے کے لیے سیدی پیر محمد معظم الحق معظمی (زیب سجادہ خانقاہ مقدسہ معظمیہ معظم آباد شریف) ، پیر سید کرامت علی حسین شاہ شیرازی (زیب سجادہ خانقاہ مقدسہ علی پور سیداں شریف) اور دیگر علماء ومشائخ کے اشتراک عمل سے سیمینارز کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ۔جس کی آٹھویں نشست15 مئی 2022 جامعہ معظمیہ معظم آباد شریف میں منعقد ہوئی ۔سیمینار کا عنوان تھا

تہذیب اسلامی کا احیاء اور مسلم امہ کی ذمہ داریاں

جس میں علماء و مشائخ ، ملک کے مایہ ناز سکالرز اور مفکرین نے شرکت کی ۔ نشست کا آغاز دن 9 بجے جامعہ معظمیہ کے شعبہ حفظ کے مدرس قاری غلام فرید الدین احمد معظمی نے کلام مجید سے کیا ۔ محمد عزیر الحسن(متعلم :جامعہ معظمیہ معظم آباد شریف) نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیہ نعت پیش کیا ۔ بعد ازیں استاذ محترم مفتی عمر فاروق سدیدی( معلم:جامعہ معظمیہ معظم آباد شریف) نے “تہذیب اسلامی کے احیاء میں مدارس کا کردار” کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔

تہذیب لفظ عربی الاصل ہے جس کی جگہ پر ہمارے ہاں تمدن، ثقافت ،کلچر اور سیولائزیشن متبادل کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔لہذا ہم سب سے پہلے تہذیب وتمدن وغیرہ کا مفہوم سمجھتے ہیں تہذیب” سے مراد وہ نظریات وتصورات ہیں، جن کے مطابق کوئی جماعت یا قوم زندگی گزارے  اور اس کو اپنا مقصد بناۓ۔ یہ بنیادی عقائد اور بنیادی نظریات اتنے واضح ہوتے ہیں کہ ہر قوم دوسری قوم سے مختلف ومنفرد نظر آتی ہے چنانچہ تہذیب کسی قوم کی پہچان اور شناخت ہے۔  ہمارا ہر عمل اور فعل کسی نظریے اور عقیدے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پہلے ہم کسی کام کے بارے میں سوچتے ہیں اور پھر اس سوچ کے مطابق عمل کرتے ہیں۔  اس طرح “تہذیب” خیالات، تصورات اور افکار وعقائد کا نام ہے ۔ اور ان تصورات وافکار کے تحت جو افعال واعمال ظاہر ہوتے ہیں اور جو سیرت وکردار تشکیل  پاتے ہیں، انہیں “تمدن” کا نام دیا جاتا ہے۔ اس كا مطلب يہ ہے كہ  تہذیب وتمدن لازم وملزوم ہیں۔  کسی بھی تہذیب کے بنیادی طور پر چار عناصر ہوتے ہیں: (۱) اقتصادی ذرائع (۲) سیاسی نظام (۳) اخلاقی اقدار وروایات (۴) مختلف علوم وفنون پر گہری نظر، نیز جس طرح کسی بھی تہذیب کے آگے بڑھنے اور ترقی کے منازل طے کرنے کے متعدد عوامل ہوتے ہیں: کچھ جغرافیائی، کچھ اقتصادی اور کچھ نفسیاتی جیسے: مذہب، زبان اور اصول تعلیم وتربیت،

مدارس دینیہ نے ہر دور میں اس اسلامی تہذیب کے احیاء اور ابدی بقا کے لیے کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ دینی مدارس نے ہر دور میں امت کا فکری احیاء کیا ہے اور اسلامی آثار وعلامات کی محافظت کی ہے، جس سرمائے کو دنیا اور زمانے نے مجہول بنادیا، اسے معروف ومشہور کرنا اور عملی طور پر امت میں اسے زندہ کرنے کی کوشش ہمیشہ مدارس کی جانب سے کی گئی؛ خصوصاً اسلامی ثقافت کی نشانیوں کو زندہ وجاوید کرنے میں مدارس کے کردار کو ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ غور وتجزیہ کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے جتنے اہم تہذیبی علائم اور شعائر ہیں ان کی صحیح تر صورت اور زندہ شبیہ کے کسی قدر مشاہدہ کے لیے آج بھی مدارسِ دینیہ کا رخ کیا جاسکتا ہے، اسلامی اخلاقیات، معاشرت، لباس، گفتگو، نشست و برخاست، رکھ رکھاؤ، وضع قطع اور اسلامی تہذیب کی ہر وہ علامت جس پر اسلامی تشخص نشان زد ہے؛ وہ سب دینی مدارس میں زندہ ہیں۔

دینی مدارس کے اس احیائی عمل سے جہاں ان مدارس کو اسلامی کمین گاہوں کے نام سے موسوم کیاگیا، وہیں انھیں اسلام کی حفاظت کا آخری مورچہ بھی کہا گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں احساس ثقافت ختم ہونے کے باوجود اس آخری قلعہ کی حفاظت دل وجان سے کی جارہی ہے۔ دراصل دینی مدارس فقط اسلامی ثقافت کی محافظت پر ہی مامور نہیں ہیں؛ بلکہ اس کی اشاعت و فروغ کی ذمہ داری بھی بہ خوبی انجام دے رہی ہیں، جس کا عملی نمونہ علماء وطلبہ کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے، واقعی ہر جہت اور ہر پہلو سے دینی مدارس کی خدمات قابلِ تحسین اور مبارک باد ہیں۔

اگر ہم ماضی کے دریچوں میں جھانکیں اور طائرانہ نظر سے صرف ایک جامعہ کی صورتحال مشاہدہ کریں تو کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی ۔

شہر بغداد کے جامعہ نظامیہ کی سطوت سے کون واقف نہیں؟

دس ہزار سے زائد اس کی وسعتوں میں سماسکتے تھے دنیا کے ہرعلم وفن کے تشنگان کی سیرابی اسی جامعہ سے ممکن تھی

یہاں قرآن وسنت، فقہ وفلسفہ، ریاضی وہیئت اور ادب وتصوف کے ساتھ ساتھ اجنبی زبانوں یونانی ،عبرانی، لاطینی ،سنسکرت اور فارسی وغیرہ کی تعلیم وتعلم کا منظم انتظام موجود تھااس کے علاوہ گھڑ سواری ، تیغ زنی تیر اندازی اور ضرب وحرب کی تربیت کا مناسب انتظام موجود تھا اسی جامعہ کی کوکھ سے ہی امت کو غزالی وجیلانی رحمھما اللہ جیسے رجال کار نصیب ہوئے حتی کہ ایک مشرقی مورخ ول ڈیوران یہ لکھنے پہ مجبور ہوا جغرافیہ دانوں مورخوں منجموں فقیہوں محدثوں طبیبوں اور فلسفیوں کے ہجوم کے باعث بغداد کی سڑکوں پر چلنا دشوار نظر آتا۔

بعد ازاں مفتی سہیل احمد سیالوی (مؤسس تفھیم الاسلام فاؤنڈیشن) نے تہذیب کی تعریف اس کے بنیادی عناصر بیان کرتے ہوئے کہا

تہذیب کا لغوی معنیٰ ہے” کھجور کے درخت سے زائد شاخوں کی کانٹ چھانٹ کرنا ” تہذیب کی اصطلاحی تعریف کی ہم بات کریں تو ابھی ماہرین علم عمرانیات اس کی کوئی جامع مانع تعریف نہیں کرپائے لیکن ان کی بیان کردہ تعریفات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم اس کو یوں معرف بنا سکتے ہیں کہ جس طرح ہر فرد کا اپنا مزاج اور تشخص ہوتا ہے اسی طرح ہر قوم بھی اپنا ایک خاص مزاج رکھتی ہے اسی قومی مزاج کو تہذیب کہا جاتا ہے۔ آخر میں آپ نے فرمایا کہ تہذیب اسلامی کو اس کی بنیادی اقدار سے منحرف کرنی کی ایک منظم کوشش کی جارہی ہے جیساکہ ہمارے

  1. اخلاقی اقدار کی پستی
  2. ظلم و ستم
  3. ذہنی غلامی

بعد ازیں پروفیسر ابرار حسین صاحب نے” تہذیب اسلامی کے احیاء میں سماجی کے کردار” کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

اس وقت سماجی علوم ہوں یا نیچرل سائنسز اگرچہ ان دونوں کا موضوع مختلف ہے لیکن ایک نکتہ ان میں مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ علوم اسلامی تہذیب کے احیاء میں نہ صرف کوئی کردار نہیں ادا کر سکتے بلکہ کی رکاوٹ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر علم اپنی کچھ بنیادیں رکھتا ہے جو غیر علمی ہوتیں ہیں۔یا یوں کہہ لیں کہ ہر علم کی بنیاد میں کچھ مفروضات ہوتے ہیں۔ سماجی علوم کے یہ بنیادی مفروضات اسلامی تصورات سےمتضاد ہیں۔ تصور انسان کو ہی لیجیے 19 ویں صدی تک مغرب یہ مانتا تھا کہ انسان ایک عقلی وجود ہے لیکن بعد ازیں اس کا بھی انکار کردیا گیا۔ فرانسیسی فلسفی مشل فوکو  کہتا ہے  کہ انسان محض Bio Product (مادہ) ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔گویا انسان کو جبلت سے بھی نیچے گرا کر مادے کا ڈھیر تصورکیا جا رہا ہے روح ،جبلت ،عقل ،عقائد سب کا انکار اس کے تحت آجاتا ہے۔

دوسرے نمبر پر سماجی علوم کے تصور سے دنیا پہ غور کریں۔ وہ بھی اسلام کے تصور دنیا کے برعکس ہے سماجی علوم کا تصور دنیا یہ ہے کہ یہ کائنات مادے کا ایک ڈھیر ہے جس کی بعض شکلوں میں اتفاقا حیات اورشعور پیدا ہوگیا جبکہ اسلام کا تصور دنیا یہ ہے کہ یہ کائنات اپنی جمال و تفصیل میں اللہ کی قابل قدر اور یقین نشانی ہے ۔

تیسرے نمبر پر آپ سماجی علوم کے تصور تاریخ کو ملاحظہ کریں وہ بھی اسلامی تصور تاریخ سے تضاد کی حد کو پہنچا ہوا اختلاف رکھتا ہے۔ اسلام کا تصور تاریخ یہ ہے کہ تدبیر اور تاریخ کے نقطہ اتصال کو تاریخ کہتے ہیں۔ اورجدیدیت کو اگر جملے میں بیان کیا جائے تو یہ تقدیر کے انکار کا نام ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ علوم کسی صورت میں تہذیب اسلامی کے احیاء میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے ۔ایک صورت میں سماجی علوم تہذیب اسلامی کے احیاء میں معاون ہو سکتے ہیں کہ سماجی علوم کو ہم اپنے تصور حقیقت کے تابع کریں اور یہ کام اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ کہ ہمالیہ پہاڑ کو اس کے مقام سے اٹھانا۔اور یاد رکھیے کہ یہ تہذیب اسلامی کے احیاء کا تصور مغرب کے نشاۃ الثانیہ کی طرح نہیں ہے۔ یورپ کے نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے نتیجہ میں جو فکر پروان چڑھی اس نے انسان کو کرسی الوہیت پر بٹھا دیا ۔ ضمنا میں اپنے طلبہ سے گزارش کروں گا کہ وہ دو چیزوں کا ضرور توجہ دیں ایک اپنی انگریزی اچھی کریں۔ دوسرا مغرب کی تاریخ اور فلسفہ کی تاریخ کا ضرور مطالعہ کریں۔اس کےلیے میں دو کتب تجویز کروں گا ۔

Sophie’s World (سوفی کی دنیا)

Novel by Jostein Gaarder

  1. مبادیات فلسفہ از قاضی قیصر الاسلام

علاؤہ ازیں مغربی مفکر فرانسز بیکن (Francis Bacon  کے متعلق چاہے کسی اچھےانسائیکلوپیڈیا سے ہی ہو ضرور پڑھیں۔ بہرحال عرض کررہا تھا مسلم تہذیب کے احیاء سے کیا مراد ہےاسلامی تہذیب کے احیاء کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ ایمان ہمارے انفس و آفاق میں موثر ہو جائے۔

آخر میں آپ نے طالب علموں کے لیے چند کتب تجاویز کی جن مطالعہ نہ صرف مغربی بے خدا تہذیب کے اثرات سے محفوظ رکھے گا بلکہ اپنی تہذیب کے احیاء میں بھی معاون ہوگا۔

  1. امام غزالی کی احیاء العلوم کی پہلی جلد
  2. علامہ ابن خلدون کی کتاب کا مقدمہ
  3. شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب حجۃ اللہ البالغہ
  4. علامہ اقبال کی شاعری اور خطبہ الہ آباد
  5. ملت اسلامیہ ، تہذیب و تقدیر از سراج منیر
  6.  مکالمات افلاطون

ان کے بعد اسٹیج پہ صاحبزادہ ڈاکٹر احمد ندیم رانجھا تشریف لائے ۔آپ نے تہذیب اسلامی کی احیاء کو درپیش چیلنجز کے موضوع پر گفتگو فرمائی ۔

میرے نزدیک تمدن و ثقافت اور تہذیب کے اصطلاحات میں فرق ہے تہذیب سے مراد کسی بھی تہذیب کے آغاز سے لے کر نقطہ موجود تک جو واقعات ، ثقافتی ،علمی کارنامے رونما ہوئے ان کا نام ہے اور تقدیر اس تہذیب کے مستقبل کو کہتے ہیں۔ہر معاشرت اپنے تصور حقیقت کے تابع ہوتی ہے اسلامی تہذیب بھی اپنا ایک تصور حق رکھتی ہے اس کی بازیافت کی بہترین کاوشش سراج منیر صاحب نے کی ہے ۔ان کی کتاب کا نام” ملت اسلامیہ تہذیب و تقدیر” ہے سراج محولہ بالا کتاب کے آغاز ہی میں فرماتے ہیں کہ

” زندگی کی تمام سرگرمیوں کی معنویت طواف کی طرح اس امر سے متعین ہوتی ہے کہ اس کا مرکز کیا ہے۔” اور اسلام کی تہذیب کا مرکز واحدانیت ہے۔ اسلامی تہذیب کے احیاء کےلیے رجوع الی القرآن ناگزیر ہے۔ ہمیں اس وقت مادی اور دنیاوی خواہشات سے احتراز کرکے دینی شعور کی ضرورت ہے۔ہمیں ہمارے ایمان کی مضبوطی کی ضرورت ہے۔

مزید سراج فرماتے ہیں:

دنیا میں مذاہب کا آغاز کسی نہ کسی طور وحی کی آمد سے ہوتا ہے، چاہے یہ وحی خارجی طور پر اپنی نشانیوں سے مشہود ہو یا اس کی موجودگی کا ثبوت مذاہب کے دعووں اور ان کے نظام میں موجود دوئی کے عناصر سے ملے ۔ وحی اور اس سے منسلک نتائج کا اثبات کیے بغیر مذہب، اس کے نظام اور اس کے تاریخی نتائج کے بارے میں کوئی معقول مطالعہ وجود میں نہیں آ سکتا۔ جدید علمیات کا یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ وہ مذاہب جیسے عظیم مظہر کو اپنے دائر و علم سے خارج بھی نہیں کرسکتی اور خود ساختہ تجربی منہاج پر یقین رکھنے کی وجہ سے وحی اور اس کے مبدا کے وراۓ انسانی تصور کو قبول بھی نہیں کر سکتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آغا ز مطالعہ ہی خود مذاہب کے اپنے بنیادی دعوے کی نفی سے ہوتا ہے ۔ اس نفی سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لیے بہت سے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، کہیں بشریات کے تحت تصورات کے ارتقا کو بنیاد بنایا جاتا ہے، کہیں سابجی اور معاشی حالات سے کسی مذہب کو خیالات کے ایک نظام کے طور پر ارتقا پہ مظہر کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور کہیں مذہب کے آغاز کے اسباب نفسیاتی عوامل میں تلاش کیے جاتے ہیں ۔ اس خلا کو پر کرنے کا یہ کوششیں بجاۓ خود اتنی غیر منطقی ہیں کہ لیکن عہد جدید کا شعور کائنات کی روحانی تعبیر سے بچنے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے ۔

اور مسلم تہذیب جس بنیاد پہ کھڑی ہے وہ ایمان ہے اور ایمان کا غیب اور وحی سے تعلق ہے بایں وجہ ہمارا واسطہ اس منحرف خدا تہذیب سے ہے اور یہ ہی ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

ان کے بعد اسٹیج کی رونق معروف مفکر احمد جاوید صاحب بنے۔

آپ نے فرمایا:

یہ دین ہمارے اندر اس کے خان رحمت کی طرح بھیجا گیا ہے جس میں کبھی آپ میزبان بنتے ہیں اور طشت میرے آگے کر رکھ دیتے ہیں اور کبھی میں میزبان بنتا ہوں اور یہ طشت آپ کے آگے رکھ دیتا ہوں۔اس میں نکتہ یہ ہے کہ “دین کیا ہے” کا مکمل عملی ،احوالی جواب صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے سکتے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی شخصیت میں غیب کا وہ وہ شعودی وصف نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر وہ ہر سوال کا کامل جواب دے سکے۔لہذا یہ جو دینی علم کی وراثت تھی اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف شخصیات کے اندر ان کی ضرورت اور صلاحیت کے مطابق تقسیم فرمایا۔ کچھ لوگ ایسے مقرر جو تعلیم دیں اور کچھ لوگ ایسے مقرر ہوئے جو تربیت کریں کچھ خوش نصیب ایسے بھی تھے جو ان دونوں صلاحیتوں میں کمال رکھتے تھے۔اور اس دین کے ہر ماننے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق مختلف شخصیات سے اپنے دین کی تعلیم و تربیت حاصل کرے۔بنیادی طور اسلام ہر ماننے والے سے تین تقاضےکرتا ہے۔جن کو حتی المقدور پورا کرنا ہم سب کے لئے ضروری ہے۔

تسلیم

تعمیل

تحویل

تسلیم : شعور کی مکمل تمانیت ساتھ اس دین پر ایمان آنا ۔اس بات کا مطلب یہ ہے جب بھی کوئی مسلمان اپنے وجود اور شعور کا کلمہ طیبہ کو حال بنا کر پڑھے تو دل میں یہ عہد کرے کہ اس کلمہ سے ٹکراؤں رکھنے والی کوئی چیز میرے عمل میں نہیں آئے گی۔ غرض شعور جن کاموں کی طرف متوجہ ہوتا ہے ان تمام سرگرمیوں کو غیر مشروط طور پر اپنے ایمانی شعور کے تابع رکھنا تسلیم کہلاتا ہے۔اس بات سے پتہ چلا کہ اللہ نے ہمیں جو دین دیا ہے اس میں کلام اور کلام لانے والے کے ذریعے ایک آفاقی تاثیر پیدا کر دی ہے یعنی ہمارے ذہن میں ایمان لاتے ہی وہ مستقل تناظر(perspective principal)پیدا ہوتا ہے جس سے ہم ہر چیز کا جائزہ لیتے ہیں۔تناظر کو یوں سمجھا جاسکتا ہے جیسے ایک آدمی ہرے رنگ کا چشمہ لگا لے وہ جتنی چیزوں کو بھی دیکھے گا اس میں ہر چیز کا سبز ہونا مشترک ہو گا یہ وحدت فی الکثرت کا حصول ہی تسلیم کہلاتا ہے اور یہ ایمان لانے کے بعد پہلا مطالبہ ہے

دوسرا مطالبہ ہے تعمیل اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے جس چیز کو اپنے شعور کی طمانیت کے ساتھ مانا ہے وہ میرے عمل میں ڈھل جائے میرا ہر عمل میرے ایمان کی بنیاد پر ہو میرے اعمال میں کوئی چیز بھی میرے ایمان کے منافی نہ ہو۔اسے تعمیل کہتے ہیں ۔

ایمان کا تیسرا تقاضہ ہے”تحویل” میں جس چیز پہ مکمل ایمان لے آیا ہوں وہ میرا وجودی اور باطنی حال بن جائے۔ اب یہ تین تقاضے علماء اور صوفیاء مل کر معاشرے سے پورے کروا سکتے ہیں ۔گزشتہ ادوار میں صوفیا  ءعلماء کےلیے مربی جبکہ علماء صوفیاء کے معلم ہوتے تھے لیکن موجودہ زمانے میں یہ تعلق ٹوٹ رہا ہے اس کا ذمہ دار صوفی ہے اب اس کا حل یہ ہے صوفیاء کو چاہیے کہ وہ اپنے معارف علماء کے سامنے پیش کریں اور ان کے بیان کردہ حکم پہ یقین کریں اسی طرح علماء دین سے احوالی تعلق پیدا کرنے کی تربیت صوفیاء سے حاصل کریں۔اس کے علاؤہ صوفیانہ سلاسل میں کچھ خرابیاں در آئی ہیں ان کو بھی دور کریں۔اور خانقاہوں کو چاہیے کہ اپنے کلاسیکل فرض منصبی کو ادا کریں وہ یہ ہے کہ

مخلوق کی خدمت کرو  اسےخالق کا شکرگزار بنانے کے لیے

اسی طرح علماء میں بھی خاصی کمزوریاں در آئی ہیں ۔ہمارے علماء جب تک رفض و الحاد کی منظم کاوش نہیں کرتے اس وقت تک تہذیب اسلامی کے احیاء کی ممکن نہیں ہے۔

مفتی سہیل احمد سیالوی نے تمام شرکاء کا منتظمین کی طرف سے شکریہ ادا کیا ۔آخر میں پیر سید کرامت علی حسین شاہ شیرازی نے دعا کروائی یوں یہ علمی فکری نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔

محمد قاسم سدید

محمد قاسم سدید جامعہ معظمیہ، معظم آباد شریف میں درس نظامی کی تحصیل کر رہے ہیں۔
qasimsadeed5@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • جامعہ معظمیہ اس لحاظ سے منفرد ادارہ ہے کہ یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر از حد توجہ دی جاتی ہے ۔۔
    تصوف کی روایت سے وابستہ لوگ بخوبی پہچانتے ہیں کہ یہاں کا مشرب کیا ہے ۔۔ عقیدہ کی درست سمت کے ساتھ ساتھ شرع کی پابندی پہ صغیر و کبیر کاربند ہیں ۔