Home » آزادیٔ اظہار اور شخصی آزادیاں سیرتِ طیبہ کی روشنی میں
اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت

آزادیٔ اظہار اور شخصی آزادیاں سیرتِ طیبہ کی روشنی میں

مولانا مفتی محمد زاہد صاحب ( نائب صدر جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد)

ضبط وترتیب :      مفتی محمد اصغر

مدرس جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد

نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم ، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین ، وبعد :

معززحضرات!

آقائے دوعالم نبی کریم  ﷺکی سیرتِ مبارکہ کاعلم حاصل کرنے کے لئے آپ حضرات نے وقت نکالاہے ۔آج کل اگرچہ دین سے تعلق بہت کم ہوگیاہے لیکن پھربھی درسِ قرآن اور درسِ حدیث ہمارے ہاں ہوتے رہتے ہیں ،دین کے مسائل اوروعظ ونصیحت اوربیانات وتقاریر کی مجلسیںبھی ہوتی ہیں، کچھ لوگ آپ کوبہرحال ایسے ملیں گے جوقرآن پڑھنے پڑھانے اور اس کے سمجھنے میں لگے ہوئے ہیں۔نبی کریم  ﷺکی حدیث پاک کے درس عام لوگوںکے لئے اگرچہ کم ہوتے ہیں لیکن ہوتے ہیں، مسئلے مسائل سیکھنے سکھانے کا انتظام بھی اگرچہ اس کے مقابلے میں کم ہے لیکن بہرحال کچھ نہ کچھ ہوتاضرور ہے، دین کے علم کاایک شعبہ ایساہے جوانتہائی اہم ہے لیکن ہمارے ہاںاس کے بارے میں جاننے اورسیکھنے سکھانے کااہتمام نہ ہونے کے برابر ہے اوروہ ہے سید ِدوعالم حضوراقدس  ﷺکی سیرتِ مبارکہ۔قرآن اورحدیث جس ذات کی برکت سے ہمیں ملے ، دین کے مسائل اورجوکچھ بھی ہمیں ملاوہ نبی کی ذات کے صدقے اورطفیل ملا، جس ذات کے ذریعے ہم حوضِ کوثرکے پانی کی امید رکھتے ہیں ، جس ذات کی شفاعت ہمارے لئے بہت بڑا سہارا ہے ،جو ذات ہمارے لئے سب کچھ ہے اس کی زندگی کے بارے میںجاننااورمعلومات حاصل کرنا ـــــ بدقسمتی سے ہماری ترجیحات میں کہیں آخرمیں آتاہے ، یہ ہمارے لئے سوچنے کامقام ہے، جس طرح ایک مسلمان کی قرآن سے واقفیت ضروری ہے ، حضور اقدس  ﷺکے ارشادات مبارکہ بھی اسے آنے چاہئیں، جس طرح دین کے موٹے موٹے مسائل کوجاننا ایک مسلمان کی ضرورت ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ ایک مسلمان کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے نبی  ﷺ کی زندگی اوران کی سیرت سے واقف ہو۔جب سے مہذّب کہلانے والے ملکوں میںجناب نبی کریم  ﷺکی شان مبارک میں گستاخی جیسے غیرانسانی کاموں کاارتکاب ہورہاہے تب سے ہماری ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ جناب نبی کریم  ﷺکی زندگی اورآپ کی سیرت سے خودبھی واقف ہوں اوراپنی نسلوں کوبتائیں کہ ہمارے نبی کی عظمت ورفعت کیاہے اورآ پ کی شان کتنی بلند ہے ۔آپ  ﷺکی زندگی کابنیادی خاکہ اوراس کی موٹی موٹی باتیں ہرمسلمان کوضرورمعلوم ہوں، آپ کی تریسٹھ سالہ زندگی بالترتیب ہرمسلمان کے علم میں ہونی چاہئے ۔

مجھے جس موضوع پر کچھ عرض کرنے کے لئے کہا گیا ہے وہ ہے نبی کریم  ﷺکی سیرت اوراظہاررائے کی آزادی اور اس کا حق ۔

اس موضوع پر کیوں اور کیا سوچ کر بات کررہے ہیں ، سب سے پہلے یہ طے ہو جانا ضروری ہے ،گذشتہ تقریباًدوصدیوں سے مغرب اورمغربی تہذیب نے دنیا میں کچھ معیارات متعارف کرائے ہیں کہ مہذّب اورانسانی شرافت والی زندگی اورانسانی وقار والا معاشرہ تب قائم ہوسکتاہے جب وہ ان معیارات پرپورااترے ،اس میں جمہوریت کا معیار یہ ہونا چاہئے ،خواتین کے حقوق اس لیول پر ہونے چاہئیں،اقلیتوں کے حقوق اس سطح کے ہونے چاہئیں،اظہاررائے کی آزادی اس درجے سے کم نہیں ہونی چاہئے۔فلاںچیز ہونی چاہئے اورفلاں چیزنہیں ہونی چاہئے  ،  مغرب نے صرف انسانیت کے یہ نصاب ہی متعارف نہیں کرائے بلکہ وہ خود اقوامِ متحدہ سمیت متعدد اداروں کے ذریعے پوری دنیا کا ممتحن بھی بن بیٹھا ہے ، مغرب کے اول الذکر کردار میں تو قابلِ قدر پہلو بھی کافی مل جاتے ہیں ، لیکن دوسرے کردار میں تو گھپلے ہی زیادہ ہیں ۔

بعض اوقات ایساہوجاتاہے اورہوتارہاہے کہ ہم مغرب سے مرعوب ہوکراوراس کے سامنے ایک شاگردکے مقام پربیٹھ کر اپنے استاذکی ہر بات کو حرفِ آخر سمجھ لیتے ہیں ،لیکن مغرب کواپنا استاد ماننے کے باوجود اپنے دین اورقرآن اورخاص طورپراپنے نبی  ﷺسے رشتہ توڑنا بھی ہمیں گوارانہیں ہوتا، توپھر ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اگرکہیں کوئی ٹکراؤاورکوئی فرق ہے تودونوں میں مطابقت کی کوشش کی جائے ، لیکن اس میں بعض اہل ِعلم اوراہلِ فکرسے یہ غلطی ہوئی ہے کہ اس مغربی معیار کوانہوںنے ایک مسلمہ اصول سمجھ لیاہے ۔یہ کام نیک نیتی اور اچھے جذبے سے کیااوریہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ نبی کریم  ﷺکی سیرت بھی ہمیںیہی کچھ بتاتی ہے جو مغرب نے کہا ہے ، نیت بالکل اچھی ہے لیکن آنحضرت  ﷺکی سیرت کے مطالعے اورصرف سیرت کاہی نہیں بلکہ قرآن وحدیث بلکہ کسی بھی چیزکے مطالعے کایہ اسلوب ،یہ منہج اور طریقۂ کار درست نہیں ہے ،اس لئے کہ اگرہم کسی شخص کے بارے میںجانناچاہیں کہ وہ کیاہے تو اسی کودیکھنا پڑے گا اوراس کی بات کوغور سے سنناپڑے گااس کی باتیں اچھی لگیں یانہ لگیں، اس کی طرف بات وہی منسوب ہوگی جواس کی ہے، اگر آپ میرا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو مجھے ہی دیکھنا ہو گا کہ میں نے کیا کہا ہے اور کیا کیا ہے ، خواہ یہ سب کچھ آپ کو اچھا لگے یا نہ لگے ، اگرآپ مجھے کسی اور کے معیار پرتولیں گے اورکھینچ تان کر اس جیسا ثابت کرنے کی کوشش کریںگے اگرچہ ایسا میری ہمدردی میں کریں لیکن اس طریقے سے آپ میرا صحیح مطالعہ نہیں کر سکیں گے ۔

تو آج جس موضوع پر بات کرہے ہیں اس طرح کے موضوعات پر بات کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہئے اور نہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا بڑی مہذب ہوچکی ہے، اوراس نے لوگوںکو بولنے ،لکھنے اوراپنی رائے کوظاہر کرنے کی آزادی دے رکھی ہے، اگریہ چیز ہمارے اندرنہیں ہوگی توہم اپنے آپ کوچھوٹا، کمتر اور غیر مہذب محسوس کریںگے ، اپنے اس احساسِ کمتری کو دورکرنے کی ضرورت کے تحت اگریہ چیزیںحضور اکرم  ﷺکی سیرت مبارکہ سے ڈھونڈھیں گے اوراس مغربی معیارپر حضوراقدس  ﷺ کوپورااترتاہوادکھائیں گے، اگر ہم یہاں سے اپنی بحث کا آغاز کریں گے اور ہماری کاوش کا باعث یہ ہوگا توہمارے نتائجِ بحث کتنے درست کیوں نہ ہوں اور وہ کتنے ہی وزنی دلائل پر مبنی کیوں نہ ہوں ،اور جو باتیں ہم آںحضرت ﷺ کی طرف منسوب کریں گے وہ واقعۃً اآپ کی سیرت ِ طیبہ میں موجود بھی ہوںگی بلکہ اس سے کہیں زیادہ اعلی پیمانے پر ہوںگی  تب بھی یہ بات ہمارے دل ودماغ اور ذہنوں کے کسی نہ کسی گوشے، شعوراورلاشعورمیںموجود رہے گی اورکہیں نہ کہیں اپنا غلط اثردکھادے گی کہ یہ سب باتیں صرف تکلف ، دکھاوا  اورکھینچ تان ہیں۔ اس لئے مغرب کے ان معیار وں کوکچھ دیر کے لئے ایک طرف رکھ کر صرف نبی کریم  ﷺکی سیرت کواپنے سامنے رکھتے ہوئے اور آپ کی سیرت کے مصادر اور جہاں سے جن جن ذرائع سے سیرت مبارکہ کاعلم ہوسکتاہے صرف اس کوپیش نظررکھتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ اس حوالے سے آنحضرت  ﷺکاطرزِزندگی کیاتھا ،نبوت سے پہلے کیاتھا ،نبوت کے بعد کیاتھا، اس حوالے سے آپ کی تعلیمات کیاہیںاورجس طبقے کی آپ نے تربیت فرمائی انہوںنے اس سلسلے میں کیاکیا اورکون کون سے نمونے قائم کئے ہیں ،اس کے بعد مغربی تصورات اوران کے معیارات کودیکھناچاہئے اوریہ جاننے کی کوشش کی جانی چاہئے کہ کہاںکہاں بات مل رہی ہے اور ایسی جگہیں بھی بہت سی ہیں ، اورکہاںکہاں فرق ہے ،جہاں فرق ہو وہاں صرف مرعوب ہوکردبک کر بیٹھ جائیں اس فرق کے اظہار سے بھی شرمائیں اس طرزِ عمل کی بجائے پوری خوداعتمادی کے ساتھ ہمیں مکالمہ کرناچاہئے اوریہ بات کرنی چاہئے کہ آپ کاتصور یہ ہے اورہمیں اپنے نبی ﷺ کے ہاں یہ تصور مل رہاہے ،آؤ بات کریں تمہارے تصور میں کیاخامی ہے اور تمہیں ہمارے تصور میں کیا خامی نظرآتی ہے ۔

خیر یہ تو تمہیدی بات تھی جو میں نے یہ سمجھانے کے لئے ذکر کی کہ اس طرح کی بحثوں میں ہمارا نقطۂ آغاز اور منشا وباعث کیا ہونا چاہئے ۔

اللہ تعالی نے انسان کو کئی ایسی خصوصیات عطا فرمائی ہیں جو اسے باقی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں ، ان میں ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ، اپنی رائے ،اپنی خواہش اوراپنی امنگوں کااظہارکرتاہے ، اوریہ اظہار انسان میں اس سطح پرپایاجاتاہے جوکسی اورمخلوق کے اندرنہیں ہے ۔ویسے ہرجاندار چیزاپنے آپ کوکسی نہ کسی درجے ایکسپریس کرتی ہے، مختلف جانور مختلف آوازیں نکال کر بولتے ہیں اوراپنے اندر کی چیزوں کا اظہار کرتے ہیں، پرندے بولتے ہیں،بعض دوسری مخلوقات بولتی ہیں نہ بھی بولیں تب بھی ان کی جوحرکات ہیں ان سے بہت سی چیزوں کا اظہارہوتاہے ۔ لیکن انسان میں اس اظہار کادرجہ باقی مخلوقات کے مقابلے کہیں زیادہ ہے  ،اسی لئے اللہ جل جلالہ نے سورت رحمن میں (جس کانام بھی رحمن ہے اورشروع بھی اسی لفظ سے ہورہی ہے )اپنی رحمت کے بہت سارے مظاہر بتائے ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی رحمت وبرکات کس کس طریقے سے ظاہرہورہے ہیں اللہ جل جلالہ نے اس سورت میں اپنی نعمتوں کاباربار اس اندازسے تذکرہ کیاہے اوربار یہ کہاہے کہ تم ہماری نعمتوں کوجھٹلانہیں سکتے، کون کون سی نعمت جھٹلالوگے ۔ (فبای آلاء ربکما تکذبان)یہ بات ہمیں کسی اورسورت میں اس طرح نہیں ملے گی ، رحمن نے کیاکیا رحمتیں نازل کیںالرحمن ۔علم القرآن۔ خلق الانسان علمہ البیان پہلی بات قرآن کی تعلیم،دوسری بات انسان کی تخلیق ،تیسری بات اور رحمن کی تیسری نعمت ذکر کی کہ انسان کوالبیان سکھایا،  البیان سے مراد انسان کے اظہار کاوہ اعلیٰ درجہ ہے جوباقی مخلوقات  میں نہیں پایاجاتا، اوراسی چیزکااحساس کرتے ہوئے کئی لوگوں نے انسان کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ حیوان ناطق ہے یعنی اپنے بارے میں اظہارکرنے والاجانور۔جس طرح کھاناپیناانسان کی بنیادی ضرورتیں اور خواہشیں ہیں اور ان کودبانا ان پرپابندیاں لگانا انسان پر ظلم اورزیادتی ہے اسی طرح اپنے آپ کااظہار کرنا او ر اپنے اندرکا اورسوچ کااظہارکرنا یہ بھی انسان کی بنیادی ضرورت اوراس کی جبلت وفطرت کاایک لازمی حصہ ہے اس کودبانا اور اس پر پابندیاں لگانا بھی انسان پرظلم وزیادتی بلکہ بہت بڑی زیادتی ہے ۔

انسان کواللہ جل جلالہ نے آزاد بنایاہے ، جب انسان اپنی ماں کے پیٹ سے پیداہوتاہے تووہ آزادہوتاہے ، جب وہ آزادہے تو دوسرے انسان کوبنیادی طورپر یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بغیر کسی معقول وجہ کے اس کی کسی بھی آزادی کوکسی بھی جگہ پر سلب کرے، جہاں انسان اوربہت ساری آزادیاں چاہتاہے وہ نقل وحرکت اورکھانے پینے کی آزادی چاہتاہے وہاںوہ بولنے کی بھی آزادی چاہتاہے ، وہ بات کرنے کی بھی آزادی چاہتاہے، اگرآپ بات کرنے پرپابندی لگاتے ہیں تودرحقیقت آپ انسان کی پیدائشی اورفطری آزادی سلب کررہے ہیں ، اورانسان کی آزادی سلب کرنا بہت گھناؤنی حرکت ہے ،لیکن انسانی تاریخ میں یہ حرکت ہمیشہ ہوتی رہی ہے کچھ لوگ ہمیشہ دوسروں کواپنا ماتحت بناکران کواس بات کا پابند بناتے رہے ہیں کہ تم اپنی مرضی سے نہیں چل سکتے ،بلکہ تمھیں ہماری مرضی سے چلناہوگا ،ان لوگوں پریہ جبرہوتے رہے ہیں، ان پربابندیاں لگتی رہی ہیں ،اوران پابندیوں اورجکڑنوں اورجبر کے ان ہتھکنڈوں کے خلاف مختلف ادوارمیں آوازیں بھی اٹھتی رہی ہیں، کبھی ایساہواکہ آوازاٹھی اوردب گئی اورکبھی ایساہواکہ آوازاٹھی اوراس کے ساتھ اوربہت سی آوازیں شامل ہوگئیں اوریہ پابندیاں توڑڈالی گئیں اورغلامی کے طوق اتار پھینکے گئے ، اورلوگوں نے اپنے آپ کو آزاد کروالیایہ سب کچھ انسان کی تاریخ میں ہوتا رہا ہے ۔

اس حوالے سے جناب نبی کریم  ﷺکی سیرت طیبہ کامطالعہ کریں اور اس کے ساتھ کچھ عرصہ قبل کی مغربی تاریخ کو دیکھیں  توسرسری نظر میں سب سے پہلے جو بات بعض ذہنوںمیں آتی ہے اوریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سترہویں ،اٹھارویں،انیسویں صدیوں میں مغرب کے اندرظلم ،آزادیاںسلب کرنے کے ہتھکنڈوں کے اورریاستی جبرکے خلاف، انسانوں کو،رعایاکو،عامۃ الناس کوغلام بناکر رکھنے اور ان کی شخصی آزادیاں سلب کئے جانے کے خلاف جس زور اور شدت سے آوازیں اٹھی ہیں، شاید حضور اقدس  ﷺ کی سیرت میں ہمیں اس طرح کی بات نظرنہ آئے مغرب کی یہ آوازیں جتنی زوردار ہمیں محسوس ہوتی ہیں شاید حضوراقدس  ﷺکی سیرت میں اتنی زوردارمعلوم نہ ہوں۔

دوسری چیز بادی النظر میں جو محسوس ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ چند صدیوں سے مغربی تحریکوں نے صرف یہ نہیں کیاکہ آزادیاں حاصل کرلیں ، فرد کی آزادی اور شخصی آزادیوں کوایک خاص مقام پرلے گئے، غلامی کے شکنجے توڑدئیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسے طریق ہائے کار، ایسے میکانزم وضع کرلئے ،ایسے ادارے وجودمیں آگئے اور ریاستوں کے ڈھانچے ایسے بن گئے کہ اب کسی کے لئے دوبارہ وہ شکنجے کسنا بہت ہی مشکل ہوگیاہے ، شاید کچھ لوگوں کو خیال ہوکہ اس طرح کی بات ہمیں سیرتِ طیبہ میں نظر نہیں آتی، اگراوپراوپرسے اورسطحی نظر سے دیکھیں تواس کی وجہ سے بعض اوقات ہمارے بعض پڑھے لکھے لوگ مرعوبیت کا شکار ہوجاتے ہیں،

اس سلسلے میں ایک بنیادی بات سمجھ لینی چاہئے ، وہ یہ ہے کہ نبی کریم  ﷺکی بعثت جس معاشرے میں ہوئی اس معاشرے اورمغربی معاشروںمیں ایک بنیادی فرق ہے ۔

کہتے ہیں کہ ضرورت ایجادکی ماں ہے شکنجے توڑنے کاشدید جذبہ اورداعیہ وہاں پیداہوگاجہاں شکنجے موجود ہوں گے  ریاستی جبرکے خلاف ہیجان وہاں پیداہوگا جہاںریاستی جبر موجودہو، شخصی آزادیوں کی ڈیمانڈقوت کے ساتھ وہاں ابھرے گی جہاں ان آزادیوں کوسلب زیادہ کیاجائے گا، یہ جو تحفے ہیں شخصی آزادیاں سلب کرنے کے ، ریاستی جبر کے یہ سب کے سب بادشاہتوں کے تحفے ہیں ، جہاں جہاں بادشاہتیں قائم رہیں وہاںوہاں یہ چیزیں موجود تھیں ، قدیم زمانے کی بادشاہتیں جوہمیں ملتی ہیں ،مثلاًرومیوں کی طویل تاریخ ہے ،ساسانیوں کی ایک تاریخ ہے، دنیاکے اندراور بھی خطوں میں ہمیں منظم بادشاہتیں اور ریاستیں ملتی ہیں ، عام طورپر ان خِطّوں کو اوران کے بادشاہی ادوارکومتمدن اور مہذب سمجھا جاتاہے، اس کے مقابلے میں جزیرۃ العرب کا معاشرہ غیرمتمدن ،غیرمہذب اوربدؤں کامعاشرہ سمجھاجاتاہے لیکن شخصی آزادیوں کے حوالے سے دیکھا جائے تویہ آزادیاں متمدن ، مہذب اور ترقی یافتہ سمجھے جانے والے معاشروں میں ہی زیادہ سلب کی گئی ہیں، وگرنہ چند قبائلی رسم ورواج کی پابندیوں کو چھوڑ کر عرب کابدّوغلامی تو جانتابھی نہیں تھا اورنہ کسی کویہ جرأت تھی کہ کوئی اس پر رعب جھاڑسکے ،کوئی اس کواپنے شکنجے میں کس سکے یا کوئی اس کواپنا ماتحت بناسکے۔

عرب معاشرے میں بہت سی خامیاں تھیں اس لئے اس زمانے کو زمانۂ جاہلیت کہاگیاہے ،لیکن جہاں تک تعلق ہے شخصی آزادیوں پرپابندیوں کاتوعرب کابدو عام طور پراس کو برداشت کرنے کے لئے تیارنہیں تھا،اس کی زبان اورڈکشنری میں یہ چیزیں موجودہی نہیں تھیں ،خو د حضور اقدس  ﷺکی بعثت سے پہلے  اس کی مثالیں ملتی ہیں ۔ زمانہ جاہلیت میں حضوراقدس  ﷺکی بعثت سے کچھ عرصہ پہلے ایک معروف عربی شاعر گذراہے جس کانام ہے عمروبن کلثوم ، اس کا ایک معروف عربی قصیدہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں سات یادس قصیدے بڑے معیاری سمجھے گئے تھے ان میں ایک یہ بھی ہے، ان منتخب قصائد کو عربی تاریخِ ادب میں معلقات کہا جاتاہے ، یہ مختلف قبائل کی اعلیٰ ترین شاعری اوراس کے اعلیٰ ترین نمونے ہیں۔اس زمانے میں جزیرۂ عرب کے بعض حصّوں میں نیم خود مختار قسم کی بادشاہتیں قائم تھیں ، عرب شعرا  ان کے ہاں آتے ،ان کی مدح سرائی میں قصیدے سناتے اورانعامات وصول کرتے تھے انہی میں سے ایک بادشاہ عمرو بن ہند بھی تھا ، یہ شاعریعنی عمرو بن کلثوم بھی اس کے پاس گیا اوراپنی والدہ کوبھی لے گیا،  یہ بدواورغریب اوروہ بادشاہ،  ہم توشاید اپنے ڈسٹرکٹ ناظم کے پاس جائیں توپتا نہیں کتنی چاپلوسی کریں گے، اس شاعر کی والدہ زنانہ حصہ میں چلی گئی اورخود یہ مردانہ حصہ میں تھا، وہاں جوملکہ اورخاتونِ اول تھیں وہ بھی اپنے دربارمیں جلوہ افروزتھیں، اس خاتون ِاول نے اس شاعرکی والدہ سے کہاکہ تیرے قریب وہ برتن پڑاہے وہ ذراپکڑانا ، اس نے جواب میں کہا کہ جس کو ضرورت ہے وہ خود اٹھ کر لے لے ، ملکہ نے جب اصرار کیاتواس شاعر کی والدہ  نے اس کو اپنے اوپر بڑاحملہ تصور کیا ،اور شور مچادیاکہ ہائے اللہ اس نے مجھے ذلیل کردیا اس نے میری عزت پر حملہ کردیا، جب اس شاعرکواس بات کا پتا چلا تواس نے بھی شدیدردِعمل ظاہر کیا اوریہ کہاجاتاہے کہ اس نے اسی بنیاد پر بادشاہ کو قتل بھی کردیا ، حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ ملکہ نے اس کی والدہ سے برتن پکڑانے کا کہ دیا تھا اسی کو اس نے اپنی بہت بڑی بے عزتی سمجھا ،ہوسکتاہے اس روایت میں کچھ مبالغہ ہو، لیکن کسی معاشرے کی مبالغہ آمیز یا گھڑی ہوئی روایات اور کہانیاں بھی اس کی سوچ کی عکاس ہوتی ہیں ، بہرحال اسی واقعے کے تناظر میں اس نے اپنا معروف قصیدہ کہا جسے عربی زبان کے سات منتخب اور اعلی ترین قصائد میں شمار کیا گیاہے ، اس میں اس نے یہ بھی کہا  :

اباھندلاتعجل علینا                                      وأمہلنا نخبرک الیقینا

ابوہند(بادشاہ کانام)ہمارے ساتھ بات سوچ سمجھ کر کیاکرو ، ذرا صبر کرو تاکہ تمھیں (اپنے عمل کے ذریعے )صحیح حقیقت بتائیں ،نیز وہ کہتاہے :

إذا ما الملک رام الناس خسفا                                    أبینا أن نقرّ الخسف فینا

جب بادشاہ لوگوں کو بے عزت کرنا چاہے تو ہم اپنے اندر بے عزتی کے وجود کو برداشت نہیں کرتے ۔اس کے علاوہ بھی اس دور کی شاعری اس طرح کی باتوں سے بھری پڑی ہے کہ شاعر اس بات فخر کا اظہار کررہا ہے کہ ہم کسی کے ظلم اور دھونس کو کسی بھی قیمت پر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ،یہ اس معاشرے کامزاج تھا اب ایسے معاشرے میں اورباتوں کی ضرورت ہوتوہو، شخصی آزادی کے حصول اورریاستی جبر کے خلاف پرزور آواز اور تحریک کی ضرورت اتنی زیادہ نظر نہیں آتی ، یہاں تو ہر بدّو اپنی جگہ بادشاہ ہے ، شاید اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا  :

کرتاہے فطرت کے مقاصد کی نگہبانی                                                                                                                                                                                                                                                                                    یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی

حاصل یہ کہ یہ بنیادی بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ جس معاشرے میں رسول اللہ  ﷺ کی بعثت ہوئی ، اس کی صورتِ حال مغربی ملکوں کی اس وقت کی صورتِ حال سے بہت زیادہ مختلف تھی جب مغرب میں ریاستی جبر کے خلاف اور شخصی آزادیوں کے حق میں آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں ، اب ایک شخص کے پیٹ میں بڑی سی رسولی ہو اور اس نے اس کا آپریشن کرایاہو تو اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسے ایسے شخص پر فخر کرے  جس کے پیٹ میں اس طرح کی رسولی نہ ہو اور یہ اسے یہ کہے کہ جیسے میں نے آپریشن کرایا ہے تم نے کیوں نہیں کروایا، جس رسولی کا مغرب نے آپریشن کرایا ہے وہ رسولی عام طورپر وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں ریاست منظم لیکن مطلق العنان ہو، یا مذہبی پیشوائیت کا ڈھانچا منظم اور با اثر ہو ، مغرب میں رسولی بنانے والی یہ دونوں چیزیں صدیوں سے موجود ـتھیں ،جبکہ عرب کے عمومی ماحول میں  ان دونوں چیزوں میں سے کوئی بھی چیز موجود نہیں تھی ۔

حضوراقدس  ﷺجس ماحول میں مبعوث ہوئے اس میں بظاہر اس طرح کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی ، لیکن اس کے باوجود ہمیں خودحضوراقدس  ﷺ کی تعلیمات ،آپ کے اسوۂ حسنہ اورآپ کی سیرت میں فرد کی آزادی ، رائے رکھنے اور اس کے اظہار کی آزادی،  بولنے اورلکھنے کی آزادی کے بنیادی اصول ملتے ہیں اورایسی باتیں ملتی  ہیں جن کے ذریعے سے آں حضرت ﷺ نے ان تمام معاملات کی جڑ کو پکڑا آمروں ، ڈکٹیٹروں اور جابروں کی دکھتی ہوئی رگوں پر ہاتھ رکھاہے، اور آپ نے وہ تمام بنیادی اصول دے دیئے ہیں جن کے ذریعے ان تمام بیماریوں کا علاج ہوسکتاہے جن کے خلاف نبرد آزما ہو کر مغرب موجودہ پوزیشن میں آیاہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماحول اگرچہ نسبتاً آزادماحول تھا،لیکن حضوراقدس  ﷺکی سیرت مبارکہ اورآپ کا لایاہوادین صرف اس معاشرے اورماحول کے لئے نہیں تھا بلکہ قیامت تک پوری انسانیت کے لئے تھا۔

آنحضرت  ﷺکی تعلیمات اور آپ کی عملی زندگی سے اس چیزکے بہترین نمونے ملتے ہیں کہ بلاوجہ کسی کوبولنے کی آزادی سے محروم نہ کیاجائے ،بلکہ کسی بھی آزادی کوسلب نہ کیاجائے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلاسوال یہ ہے کہ آزادی سلب کون کرتاہے اور کیوںکرتاہے؟  اگراس کاجواب مل جائے تو مرض کی تشخیص ہو جائے گی اوراگلے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے، اس میں پہلی بات تویہ ہے کہ کبھی بھی کمزور کسی طاقت ور کی آزادی سلب نہیں کرتا،ہمیشہ طاقت ور ہی کمزور کی آزادی سلب کیا کرتا ہے ۔ طاقتور یہ چاہتاہے کہ کمزورچونکہ جسمانی ،ذہنی ،معاشی ،سیاسی ،خاندانی یا کسی اور اعتبارسے کمزورہے اس لئے یہ میری مرضی کے مطابق چلے اورہرکام میری مرضی سے کرے ، اور وہ ہمیشہ میرا ماتحت اور غلام بن کر رہے ، طاقت ور کو اپنی اس خواہش کی تکمیل میں سب بڑی رکاوٹ کمزور کا بولنا محسوس ہوتی ہے اس لئے وہ اس کے آزادانہ اظہار کو کبھی گوارا نہیں کرسکتا ۔نبی کریم  ﷺنے ایک اچھی ریاست ،اچھے معاشرے کی بنیادی خصوصیت ہی یہ بیان فرمائی ہے کہ اس میں کوئی کمزور اپنے آپ کو کمزور نہ سمجھے اورکوئی طاقت ور کمزور کواپنا غلام نہ سمجھے ۔

پولیٹیکل سائنس کی آپ کوئی بھی کتاب اٹھاکر دیکھیں اس میں بنیادی طورپر ایک ہی بحث ملے گی کہ ریاست کیاہوتی ہے، کیسے بنتی اور کیسے چلائی جاتی ہے، پولیٹیکل سائنس کا بہت بنیادی سوال یہ ہے کہ ریاست کی ضرورت ہی کیاہے،  لوگ اپنی اپنی جگہ پر آزادہیں اپنااپنا کام کررہے ہیں، کرنے دو ،آخراس کی کیاضرورت پڑی ہے کہ ریاست کی شکل میں ایک ادارہ ہواوروہ لوگوں کی زندگی کومنظم کرے اوران پرحکومت کرے  ، اس چیزکا آخر جواز کیاہے ، یہ justification of state   کا سوال علمِ سیاست کا ایک بنیادی سوال ہے ، اور اسی سوال کا قابلٍ اطمینان جواب نہ پاکر بعض مفکرین اس بات کے بھی کے قائل ہوئے ہیں کہ ریاست کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ، خود فکرِ اسلامی میں بھی متکلمین نے ایک بہت اقلیتی نقطۂ نظر، یہ ذکر کیاہے ، جبکہ ریاست کی ضرورت کے قائلین نے اس سوال کا مختلف انداز سے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

حضرت سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنتے ہی جوسب سے پہلے خطبہ ارشادفرمایااس سے پولیٹیکل سائنس کے اس بنیادی سوال کا جواب بھی ملتاہے اور اسلام کے نقطۂ نظر سے ریاست کے بنیادی مقصد کی بھی تعیین ہو جاتی ہے ، اس خطبے آپ نے میں ایک بات یہ بھی ارشاد فرمائی ’’یادرکھو!کوئی شخص کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو معاشرے میں اگرکوئی شخص اس پر زیادتی کرے گا ،کوئی کسی کے خلاف جبرکرے گا توہماری ریاست کی پوری طاقت اس کمزور کے ساتھ ہوگی جب تک کہ ہم اسے اس کاحق نہ دلوادیں اوراس زیادتی کاازالہ نہ کردیں، اسی طرح کوئی شخص کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو اگر وہ کسی پر زیادتی کرتاہے تو ہماری نظر میں وہ ضعیف ہے جب تک کہ وہ صاحبِ حق کو اس کا حق ادانہ کردے، اس کامطلب یہ ہے کہ بقول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ریاست کامقصد وجودہی یہ ہے کہ وہ کمزوروں کوطاقت فراہم کرے، ہرایک کواس کاحق ملنا چاہئے طاقت ور کوتوضرورت نہیں ہے کہ اسے کو ئی اس کاحق دلوائے تووہ خود اپناحق لے لے گا بلکہ اپنے حق سے زائد لے لے گا، ضرورت کمزور کوہے کہ وہ کمزوری کی وجہ سے اپنے آپ کو کمزورمحسوس کرتاہے اس کمزوری کی وجہ سے دبنااورجھکنا اور جبرسہنا اپنی مجبوری سمجھتاہے، ریاست کا ایک مقصد یہ ہے کہ وہ کمزورسے احساسِ ضعف وکمزور ی اور طاقت ور سے احساسِ برتری کو ختم کرکے سب کو ایک صف میں لا کر کھڑا کردے ، ریاست کمزور کی پشت پر اس اندازسے کھڑی ہوکہ اسے پتا ہوکہ میں کمزور نہیں ہوں بلکہ ایک بہت بڑی طاقت میری پشت پرکھڑی ہے، اگر واقعی کوئی ریاست یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو جبر و استبداد اور آزادیاں چھیننے کی بیماری کا ایک بہت بڑا جرثومہ ختم ہو جاتاہے ، ظاہر ہے کہ جو ریاست کسی اور کو یہ کام نہیں کرنے دیتی وہ خود کیسے کرے گی ، اور اگر کرے گی بھی تو اس کا حل بھی خود صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے اسی خطبے میں ارشاد فرمادیا ہے ، آپ نے فرمایا کہ اگر میں صحیح کام کروں تو میری مدد کرنا اور اگر غلطی کروں تو مجھے سیدھا کردینا[ مصنف عبدالرزاق ۱۱/۳۳۶ کتاب الجامع لمعمرباب لاطاعۃ فی معصیۃ]، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کو ریاست کا محاسب ہونا چاہئے اور اس کی کار کردگی پر کڑی نظر رکھنی چاہئے۔

یہی بات نبی کریم  ﷺنے ایک حدیث مبارک میں ارشادفرمائی ہے جو مختلف صحابہ نے مختلف سیاق وسباق میں آںحضرت  ﷺ سے نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظرمیں وہ معاشرہ کبھی بھی پاکیزہ اور اچھامعاشرہ نہیں کہلا سکتاجس میں ایک کمزور بغیرکسی ہچکچاہٹ کے اپناحق نہ مانگ سکے، صرف یہ نہیں کہ اس کوحق مل جائے ،بلکہ اپناحق مانگ سکتاہو، اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مانگ سکتاہو ،اپنا حق مانگنے سے پہلے اسے یہ نہ سوچنا پڑے اوراس کے ذہن میں یہ ترددنہ ہو اوریہ خیال نہ آئے کہ میں تو کمزور ہوں میں بولوں گا تو میرا معلوم نہیں کیا حشر ہوگا ، اگرمعاشرے میں کسی کے ذہن میں یہ احساس موجودہوکہ میں توکمزورہوںمجھے میراحق کیسے ملے گاتواللہ تعالیٰ کی نظرمیں وہ معاشرہ اچھانہیں، گویا ایک اچھی ریاست اور اچھا معاشرہ وہ ہے جو کمزوروں کو بھی زبان دے  ۔

آنحضرت  ﷺکے چچا زاد بھائی جناب حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حقیقی بھائی ہیں مکی دورمیں حبشہ کی طرف ہجرت کرکے چلے گئے تھے، بلکہ جب مشرکینِ مکہ نے ان مسلمانوں کاپیچھاکیا اورحبشہ کے بادشاہ کے پاس جاکر شکایتیں لگائیں توبادشاہ نے صورتِ حال معلوم کرنے کے لئے ہجرت کرکے آنے والے صحابہ کواپنے دربار میں بلوایا تواس وقت مسلمانوں کی نمائندگی میں حضرت جعفررضی اللہ عنہ نے ہی بادشاہ کے سامنے گفتگو کی ،بادشاہ چونکہ عیسائی تھا اس لئے آں حضرت  ﷺ  کی دیگر تعلیمات کے ساتھ حضرت جعفرؓنے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت مریم علیہاالسلام سے متعلقہ قرآنی آیات پڑھ کر سنائیں، بادشاہ کافی زیادہ متأثر بھی ہوا اور ان مہاجرین کو اپنے ہاں رہنے کی اجازت بھی دی ، تقریباًسات ہجری میں حضرت جعفرؓحبشہ چھوڑکر حضوراقدس  ﷺکی خدمت میں پہنچے، گویاہجرت کے چھ سال بعد ، جب آنحضرت  ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت  ﷺ کوان کی آمد پربہت ہی خوشی ہوئی، جس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسی زمانے میں خیبرفتح ہواتھا ،اورخیبرکے فتح ہونے کامطلب یہ تھاکہ آنحضرت  ﷺایک بہت بڑے دشمن پرفتح پاگئے اور یہود یوں کی کمرٹوٹ گئی یہ بھی بہت بڑی خو شی تھی، لیکن حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے پتا نہیں چل رہاکہ مجھے جعفرکے آنے کی خوشی زیادہ ہے یاخیبر کے فتح ہونے کی، آپ  ﷺ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کاپرتپاک استقبال کیا ان کوگلے لگایا ،ان سے واقعات سننے شروع کئے کہ وہاں کیادیکھا اورکیا سنا ،حضرت جعفرؓنے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ میں ایک جگہ پرکھڑاتھاکہ ایک خاتون سرپرپھلوں یاکھانے پینے کی چیزوں سے بھراہواٹوکرا رکھ کے پیدل جارہی تھی، قریب سے ایک نوجوان گھوڑے پرسوارگذرا،گھوڑا اس زمانے کی اچھی سواری تھی ، اچھی سواری کا خمار اور نوجوانی کا خمار دونوں جمع ہو جائیں تو ویسے ہی مستیاں سوجھنے لگتی ہیں ،جیسا کہ بعض اوقات ہم سڑکوں پر دیکھتے رہتے ہیں ، یہ نوجوان بھی اس انداز سے گذرا ،اوراس کی پرواہ نہیں کی کہ کوئی خاتون پیدل جارہی ہے کہ میں آرام سے گذروں بلکہ تیزرفتاری سے گذرا، اس سوارکاپاؤں اس کے ٹوکرے کو لگا جس سے وہ ٹوکراگرگیا ،بظاہریہ ایک چھوٹی سی بات تھی اوراتنی زیادتی برداشت کرناتوآج کل کے ہمارے ’’مہذب‘‘ معاشرے میں ویسے ہی انسان اپنی مجبوری اور معمول کی چیزسمجھتاہے ،لیکن اس خاتون نے اپنی چیزوں کودوبارہ ٹوکرے میں ڈالااورپیچھے سے اس نوجوان کوتکتے ہوئے کہاکہ اب تو تو گذرگیاہے لیکن جب کل بادشاہ اپنے دربار میں بیٹھے گا اورمیں اس کوبتاؤں گی کہ کل اس نے مجھ سے زیادتی کی ہے وہ تجھ سے بدلہ لے گا اورمجھے انصاف دلائے گا توتجھے پتا چلے گا۔ ایک کمزور خاتون کوبھی یہ احساس ہے کہ میرے بادشاہ کے دورمیں آج اس نے یہ حرکت کرلی ہے توکل اسے یہ بھگتنا بھی پڑے گا ،یہ اس بادشاہ کے نظام پر ایک کمزور شخص کا اعتماد ہے ،جب یہ واقعہ آنحضرت  ﷺنے حضرت جعفر ؓکی زبانی سنا توآپ  ﷺ پررقت طاری ہوگئی ،آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اوراس بادشاہ کی تعریف کرتے ہوئے آپ نے فرمایالایقدس اﷲ أمۃ لایأخذالضعیف فیہا حقہ  غیر متعتع۔کہ کسی معاشرے میں کمزوراپناحق بغیرکسی ہچکچاہٹ اورترددکے نہ لے سکتاہوتووہ معاشرہ اللہ کی نظر میں پاکیزہ معاشرہ نہیں ہے۔ اگریہ بات لوگوں کوسمجھ آجائے اور یہ چیز کسی معاشرے یامعاشرے کی منظم شکل یعنی ریاست میں قائم ہوجائے کہ معاشرے اور ریاست کی اصل ذمہ داری کمزورکے پلڑے میں اپنا وزن ڈالناہے توظلم وجبر اورناحق پابندیوں کی جڑیں ہی کٹ جائیں گی۔

خلاصہ یہ کہ نبی کریم  ﷺ نے مسئلے کی جڑ کو پکڑتے ہو ئے سب سے پہلے اس بات کو دیکھا ہے کہ آزادیاں سلب کون اور کیوں کرتاہے ، اس لئے کہ اصل مسئلہ آزادیاں دینے کا نہیں ہے چھیننے پر قابو پانے کا ہے ، آزادیاں حاصل تو فطری اور پیدائشی طور پر انسان کو ہیں ، یہ ایسے ہی ہے جیسے میڈیکل سائنس صحت سے زیادہ بیماریوں اور ان کے اسباب سے بحث کرتی ہے ، اس لئے صحت تو انسان کو قدرتی طور پر حاصل ہی ہوتی ہے اصل مسئلہ صحت کاحصول نہیں بیماری سے بچاؤ یا اس کا ازالہ ہوتاہے ۔  اب تک کی گفتگو سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ آزادیاں طاقت ور اپنے طاقت کے نشے میں اپنی طاقت کو استحکام بخشنے یا اسے بڑھانے کے لئے چھینا کرتاہے ، اس سببِ مرض کے علاج کی ذمہ داری آں حضرت  ﷺ نے ریاست پر عائد کی ہے اور اسلامی تعلیمات میں اسے ریاست کا اولیں مقصد قرار دیا گیا ہے ۔

اس مرض کے علاج کا دوسرا جز جو پہلے سے بھی زیادہ اہم ہے وہ اس حوالے سے معاشرے کی ذمہ داری ہے ،اظہارِرائے کی آزادی ہو یاکوئی بھی آزادی کوئی ظالم چھینتاہے ، کوئی طاقت ور طاقت کے بل بوتے پردوسروں کواپناغلام بنارہاہے جکڑ رہاہے،سوچوں پر پہرے بٹھارہا اور زبانوں پر تالے لگارہا ہے ، اوردوسروں پرظلم کررہا ہے، توپورامعاشرہ اس طاقت ور کے مقابلے میں کھڑاہوجائے ،اگرمعاشرے  میں یہ شعوراوریہ بیداری پیدا ہو جائے کہ ہم نے ظالم کی نہیں مظلوم کی سائڈلینی ہے، ہم نے ظالم کی نہیں چلنے دینی ، لوگوں کو یہ احساس ہو کہ اس کے بغیر ہم پاکیزہ معاشرہ نہیں بن سکتے توزبان بندی سمیت کوئی کسی پر ناجائز پابندیاں اورقدغنیں نہیں لگاسکے گا۔ دینِ اسلام میں یہ بات اتنی واضح اورنکھری ہوئی ہے کہ اتنی وضاحت ونکھار کے ساتھ آپ کومغربی مفکرین کیا کسی کے ہاں بھی نہیں ملے گی،اس لئے میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ یہ احساس ایک دھوکا اور بلا وجہ مرعوبیت ہے کہ اسلام اور سیرتِ طیبہ علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیم میں ریاستی جبر ، مطلق العنانی اور ناجائز شکنجوں کے خلاف اس کی طرح کی آواز ہمیں نظر نہیں جیسی مغرب کی آخری دور کی تاریخ میں ملتی ہے ۔

ایک مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ برائیوں کی روک تھام اورنیکیوں کے فروغ کے لئے کام کرے ،جسے امربالمعروف اورنہی عن المنکر کہا جاتاہے، لیکن تمام برائیوں کے بارے میں اگرقرآنی آیات اوراحادیث کودیکھیں تواس میں زیادہ سے زیادہ لفظ ’’نہی عن المنکر‘‘کے ہیں جس کے معنی ہیں برائی سے روکنا ، یا اس سے مضبوط لفظ تغییریعنی تبدیلی کے ہیں، لیکن جہاں ظلم کی بات ہے، جہاں کسی پر ظلم ہورہا ہے ،وہاں محض روکنے کی بات نہیں ، بلکہ اس سے زیادہ زوردارالفاظ ہیں، وہاںنبی کریم  ﷺکے الفاظ بھی بدلے ہوئے ہیں اورلب ولہجہ بھی ،چنانچہ آپ  ﷺ نے فرمایالتأخذن علی یدی الظالم ولتأطرنہ علی الحق أطراً ،ظالم کاہاتھ پکڑلواوراس کوموڑ کر حق پر لے آؤ،شریعت کے اندرہر حکم استطاعت کے بقدرہوتا ہے ، عام اصول یہی ہے ، اورتغییرِ منکرکے بارے میں آپ نے استطاعت کی شرط کو ذکر بھی فرمایا ،لیکن یہاں ظالم کا ہاتھ پکڑنے کے بارے میں غالباً زورِ کلام کو برقرار رکھنے کے لئے آنحضرت  ﷺنے اس طرح شرطیں نہیں لگائیں بلکہ فرمایاکہ تمہاری ذمہ داری ہے ـــکہ تم ظالم کاہاتھ پکڑلو اورزبردستی اس کو حق وانصاف پرلے آؤ۔ ظالم سے درخواستیں کرنایہ ایک مسلمان معاشرے کاکام نہیں ہے ، جومعیار حضوراقدس  ﷺدیکھناچاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس کاہاتھ پکڑکر،گھسیٹ کر،موڑکرصحیح جگہ پرلے آؤاس کو بدل دو،عربی گرامر کے لحاظ سے الفاظ بڑے زوردار ہیں ،جس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ یہ کام کرو بلکہ مطلب یہ بنتا ہے کہ تمہیں یہ کام کرنا ہی  پڑے گا ، ورنہ حضوراقدس  ﷺنے فرمایا اللہ جل جلالہ ان سب پر،پورے معاشرے پرعذاب مسلط کردیتے  ہیں ۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ ظالم کو ظلم سے موڑنے کا سب سے بڑا ہتھیار صحیح بات کہتے رہنا ہے ، یہی وجہ ہے  ظالم کو سب سے زیادہ چڑ بھی اسی ہتھیار سے ہوتی ہے ، وہ چاہتاہے کہ بس میرے بارے میں کوئی بولے نہیں ، جبکہ ہمیں ہر حال میں صحیح بات کہنے کا حکم دیا گیاہے ، قولواوقولا سدیدا [ الأحزاب : ۷۰ ]، ہمیں کہا گیا ہے کہ صحیح بات کرو اگرچہ کڑوی ہی ہو ، ہمیں بتایا گیا ہے کہ جابر حکمران کے سامنے حق اور انصاف کی بات کہنا سب سے افضل جہاد ہے ، اس لئے  حق کی بات کہنے کا سلسلہ چلتا رہنا چاہیے ، کیونکہ کہنا اور کہتے رہنا بہت بڑی طاقت ہے ۔ خاموشی اسلام میں کوئی مثالی صورتِ حال نہیں ہے، بس زیادہ سے گنجائش کا درجہ رکھتی ہے۔ بولنا ان لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے جو جبر ہوتا دیکھ رہے ہوں اسی طرح جس کے خلاف جبر ہو رہا ہے اس کے بولنے کے لیے سازگار ماحول بنانا بھی ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہے، حضور اقدس  ﷺ نے إن لصاحب الحق مقالا (صاحبِ حق کو بولنے کا موقع ملنا ضروری ہے)  کے مختصرسے جملے میں پوری ایک دنیا سمودی ہے، اس حدیث کا تفصیلی تذکرہ آگے آرہا ہے ۔

جب ظالم وجابرکوپتا ہوگا کہ میرا واسطہ اس نوعیت کے معاشرے سے ہے توپھر کون جبر کرے گا، کون شکنجے کسے گا، ظالم وجابر اور طاقت ور کی طاقت ایک زہرہے، اور اس زہر کاتریاق یہ ہے کہ معاشرے میں اپنی ذمہ داری کاشعور ہو،وہ معاشرہ بیدار ہواوراس کو اپنی ذمہ داری کا  پورااحساس ہو۔

میں نے پہلے حضوراقدس  ﷺ کی جو حدیث ذکر کی کہ کوئی قوم اس وقت تک پاکیزہ نہیں بن سکتی جب تک اس میں ایک کمزور بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنا حق نہ لے سکے اس میں آں حضرت ﷺنے ’’امۃ ‘‘کالفظ بولاہے حکومت یاسلطنت کانہیں ’’امۃ‘‘  کے لفظ سے اگرچہ ریاست کی ذمہ داری بھی سمجھ میں آرہی ہے کہ اس لئے کہ ریاست معاشرے ، قوم یا ’’ امۃ‘‘ کی منظم اور نمائندہ شکل ہے ، لیکن بنیادی طور پر  اس لفظ سے قوم اور معاشرے کی ذمہ داری سمجھ میں آرہی ہے ۔

ابھی میں نے صدیقِ اکبر ؓ کے پہلے خطبے کا ذکر کیا ، اس میں بھی آپ  نے یہی فرمایا کہ اگر میں ٹھیک چلوں تو میرا تعاون کرنا اور غلط چلوں تو مجھے درست کردینا ، تقریباً یہی بات حضرت عمر ؓنے بھی پہلے خطبے میں ارشاد فرمائی تھی ،یہ در حقیقت اس بات کا اظہار ـتھا کہ ریاست کی کارکردگی پر نظر رکھنا ، اس کی اچھائیوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کی غلطیوں پر روک ٹوک کرنا معاشرے کی مجموعی ذمہ داری ہے ، خلفائے راشدین کی طرف سے تاریخ کی شاید یہ منفرد مثال ہے کہ سربراہِ ریاست کی طرف سے عام معاشرے کو اس ذمہ داری کا احساس دلایا جارہا ہے ، وگرنہ تو  تاریخِ اقوام میں عموماً یہ ہوتا رہا ہے کہ نیچے کی طرف سے آوازیں اٹھتی تھیں کہ ہمیں تنقید اور کابارِ مملکت میں اپنی رائے کے ذریعے شرکت کا حق دیا جائے ، بڑی لے دے اور جد وجہد کے بعدکہیں جاکر اوپر والے اس حق کو تسلیم کرتے ـتھے ،مغربی تاریخ میں بھی یہی ہواہے ، لیکن اسی چیزکو خلفائے راشدین از خود صرف بطور حق نہیں  بلکہ بطور ذمہ داری متعارف کرارہے ہیں ، یہ بھی درحقیقت نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ ہی کا ایک مظہر تھا ، ایک تو اس لئے کہ خلفاء راشدین کا یہ طرزِ عمل آپ  ﷺ  کی تربیت ہی کا حصہ تھا، دوسرے اس لئے کہ اگرچہ انتظامی امور میں بعض مواقع پر صحابہ کا آں حضرت  ﷺ  کے سامنے اپنے رائے پیش کرنا ثابت ہے تاہم معصوم ہونے کے ناتے آپ  ﷺ  کا مقام مختلف نوعیت کا تھا، زمامِ ریاست معصوم سے غیر معصوم کی طرف منتقل ہوتے ہی یہ اعلان کردیا گیا کہ سربراہِ ریاست باقی  لوگوں سے کوئی انوکھی  یا آسمانی مخلوق نہیں  وُلّیتُ علیکم ولست بخیرکم،  ریاستی کارکردگی پر نظر رکھنا مسلمان معاشرے اور امۃ کی ذمہ داری ہے ، آج کا مسلمان اس ذمہ داری کے کما حقہ ادراک سے خالی ہے ، ہمارا ایک المیہ یہ ہے کہ ہم ہر وقت کسی نجات دہندہ کے منتظر رہتے اور ساری ذمہ داری اسی نجات دہندہ پر یا اپنی لیڈر شپ پر ڈالتے رہتے ہیں ، حالانکہ اگر کوئی اچھی لیڈر شپ آکر عدل وانصاف اور شخصی حقوق وآزادیوں پر مبنی نظام قائم کربھی دے تواس کے بقاء کے لئے معاشرے کی بیداری اور اس کا احساسِ ذمہ داری ضروری ہے ، اگر معاشرے کے شعور ، بیداری اور اس کی طرف سے ریاست کی کارکردگی کی نگرانی واحتساب کے بغیر کام چل سکتا ہوتا تو اس کے سب سے لائق آںحضرت  ﷺ  کے براہِ رست تربیت یافتہ اور طویل عرصے تک آپ کی صحبت اٹھانے والے حضرات ہو سکتے تھے ، لیکن ان حضرات نے بھی خود کو اس سے مستغنی خیال نہیں کیا۔

ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری کے بعد تیسری چیز جس کا ناگزیر ہونا سیرتِ طیبہ علے صاحبہا الصلوۃ والتسلیم سے سمجھ میں آتاہے وہ فرد کے حوالے سے ہے ، کہ فرد کو اپنے حقوق کا ادراک اور شعور ہونا چاہئے ، اسے پتا ہونا چاہئے کہ کہاں کہاں میں آزاد ہوں اور اپنی مرضی چلانے کا اختیار رکھتا ہوں ،اس سلسلے میں بھی آں حضرت ﷺ کی سیرت ِ مبارکہ سے کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ میں یہاں صرف دومثالیں پیش کرنے پر اکتفاکروں گا ، ابوداود اور مسندِ احمد وغیرہ میں ایک حدیث ہے کہ آں حضرت ﷺ ایک دفعہ کہیں پیدل تشریف لے جارہے تھے ، راستے میں ایک شخص اپنے گدھے پر سوار ہو کر جارہے تھے ، انہوں نے آں حضرت ﷺ کو دیکھ کر گدھے پرسوار ہونے کی پیش کش کی، اور خود ہی آپ کے لئے اگلی سیٹ خالی کردی اور اس سیٹ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہاں تشریف رکھئے ، آں حضرت ﷺ نے سوار ہونے کی پیش کش کو تو قبول فرما لیا ، لیکن دوسری پیش کش کے بارے میں فرمایا ’’ لا ، أنت أحق بصدر دابتک الا أن تجعلہ لی ‘‘ یعنی اپنی سواری کی اگلی سیٹ کے تم ہی زیادہ حق دار ہو، الا یہ کہ تم بخوشی اپنے اس حق سے میری خاطر دست بردار ہو جاؤ۔  اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ شخص آپ سے اگلی سیٹ پر بیٹھنے کی خود  درخواست کررہا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ بخوشی اس پر آمادہ ہے اب یہ بات کہنے کی ضرورت کیوں محسوس فرمائی کہ اگر تم بخوشی اپنے حق سے دست بردار ہو جاؤ تو میں اس پیش کش کو قبول کرسکتاہوں ۔  وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ پہلے یہ امکان تھا کہ اس کے ذہن میں یہ ہو کہ اگر کو ئی دینی یا دنیوی منصب کے اعتبار سے بڑا یا کسی بھی اعتبار سے قابلِ احترام شخصیت ہو اس کی خاطر اگلی سیٹ کو چھوڑنا ضروری ہے ، اور مالک کا اس پر حق برقرار نہیں رہتا ، آپ  ﷺنے یہ ضروری خیال فرمایا کہ پہلے اس کے ذہن میں واضح ہو کہ اصولی طور پر تو حق اسی کا ہے ، یہ جاننے کے بعد بھی آپ کے احترام میں بخوشی اگر وہ اپنے اس حق سے دست بردار ہوتاہے تو یہ دست برداری معتبر ہوگی ، جسے یہی معلوم نہیں کہ یہ میرا ہی حق ہے اور میں اسے چھوڑنے یا نہ چھوڑنے میں آزاد ہوں اس کی حق سے دست برداری کا اعتبار نہیں ، چنانچہ ان صاحب نے آپ  ﷺ کی اس بات کے جواب میں عرض کیا  : ’’ قد جعلتہ لک یارسول اللہ ‘‘ یعنی میں آپ کی خاطر یہ سیٹ خالی کررہا ہوں ، اب آں حضرت ﷺ سوار ہوئے  [ سنن أبو داود ، حدیث نمبر : ۲۵۷۲ ، کتاب الجہاد : باب رب الدابۃ أحق بصدرہا ] ۔

اس سے بھی زیادہ واضح وہ حدیث ہے جس میں آتا ہے کہ آں حضرت  ﷺ کی خدمت میں ایک نوجوان لڑکی حاضر ہو ئی اور عرض کیا کہ میرے والد نے میری مرضی کے خلاف میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کرادیا ہے ، آں حضرت  ﷺ نے اس کے والد کوبھی بلایا دونوں کا موقف سننے کے بعدفیصلہ فرمایااس لڑکی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ چاہے تو باپ کا کرایا ہوا  نکاح قبول کرے چاہے تو نہ کرے ، یہ فیصلہ سن کر اس نے کہا کہ مجھے اپنے والد کا فیصلہ ہی منظور ہے ، اس پر سوال ہو سکتا تھا کہ اگر یہ فیصلہ منظور ہی کرنا تھا تو اس ساری کاروائی کی کیاضرورت تھی ، یہ کام تو گھر بیٹھے بھی ہوسکتا تھا ، اس کا جواب دیتے ہوئے اس نوجوان خاتون نے کہا کہ یہ سار ا کچھ میں نے اس لئے کیا کہ عورتوں کو معلوم ہو جائے کہ والدوں کو اس معاملے میں  (اپنی مرضی مسلط کرنے کا ) کوئی اختیار نہیں ہے  [سنن ابن ماجہ ، کتاب النکاح : باب  من زوّج ابنتہ وہی کارہۃ حدیث نمبر : 1۱۸۷۴ ] ،  دیکھئے یہاں یہ خاتون یہ سب کچھ اس لئے کررہی ہے کہ دیگر عورتوں میں اپنے حق کے حوالے سے شعور اجاگر ہو کہ والد جیسے مقدس اور قابلِ احترام رشتے کو بھی کہاں اپنی مرضی مسلّط کرنے کا حق حاصل ہے اور کہاں نہیں، اور وہ اپنا یہ مقصد نبی کریم ﷺ کے سامنے بیان کررہی ہے ، اور آں حضرت ﷺ اس کی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں فرمارہے ، یہ واضح ہے کہ آں حضرت ﷺ کا کسی بات پر اعتراض نہ کرنااور خاموش رہنا بھی حجت ہوتاہے ۔

حاصل یہ کہ اظہارِ رائے سمیت شخصی حقوق اور آزادیوں کے قیام اوربقاء کی جد وجہدکے سلسلے میں سیرتِ مبارکہ میں ہمیں تین سطحوں پر کام ملتاہے ، ایک یہ کہ افرادکو اپنے حقوق کا علم ہو ، معاشرے میں اس حوالے سے بیداری اور ذمہ داری کا احساس ہو اور اس میں ناانصافیوں اور بے جا جکڑنوں سے الرجی موجودہو ،اسے پتا ہو کہ ریاست کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہماری ذمہ داری ہے ، اور ریاست کو بھی یہ احساس ہو کہ ا س کا اوّلیں اور اہم ترین مقصدِ وجود کیا ہے ، اگر تینوں سطحوں پر یہ کا م تسلسل کے ساتھ ہوتا رہے تو کسی وولٹائر ، روسو یا مانٹسکو وغیرہ کے پیدا ہونے کی ضرورت اور گنجائش نہیں رہتی ۔

شروع میں میں نے ایک بنیادی سوال یہ کیاتھا کہ طاقت ور عام آزادیوں اور خاص طورپراظہاررائے کی آزادی پریہ پابندیاں کیوںلگاتاہے؟ کوئی شخص اپنی رائے ظاہر کررہاہے اس سے اس کوکیا تکلیف ہے،درحقیقت طاقت ورچاہتایہ ہے کہ میں اپنی من ما نی کروں، مجھے کوئی پوچھنے والا نہ ہو ،ظالم،ڈکٹیٹراورآمر کوسب سے زیادہ جس چیزسے تکلیف ہوتی ہے وہ ہے بولنا۔جب کچھ لوگ اس کے بارے میں بولیں گے ،بات کریں گے توایک سوچ، ایک شعور دوسروں کی طرف منتقل ہوگا ،اور اس سے معاشرے کی بیداری والی وہی بات پیدا ہوگی جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ،اوراس چیز سے وہ اپنے لئے خطرہ محسوس کرتاہے اس لئے بولنے پر پابندی کسی بھی آمر،ڈکٹیٹراورجابر وظالم کامحبوب ترین اورپسندیدہ ترین مشغلہ اور ہھتکنڈا ہوتاہے، اس کے سارے شکنجے یہیں سے شروع ہوتے اوریہیں آکر ختم ہوتے ہیں، اس مقصد کے لئے اس کے پاس ڈھیر ساری حجتیں موجود ہوتی ہیں ، مثلا وہ کہتا ہے کہ آپ کے بات کرنے کا طریقہ غلط ہے ، آپ کو بات یوں نہیں کہنی چاہئے یوں کہنی چاہئے ، ہم آپ کو بات کہنے سے نہیں روکتے ، لیکن اس فریم کے اندر رہ کر آپ کو بات کرنا ہوگی وغیرہ وغیرہ ، حالانکہ  اس کا اصل   مسئلہ طریقِ کا رنہیں ہوتا بلکہ اصل چڑ  اسے حق وانصاف کی بات ہی سے ہوتی ہے ، اس لئے جیساکہ ہم آگے دیکھیں گے ،نبی کریم  ﷺ نے صاحبِ حق کو بولنے کا حق دے کر انتہائی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا ہے  ۔

نبی کریم  ﷺکے ارشادات  وتعلیمات اورآپ کے اسوۂ حسنہ میں ایسی چیزیں موجود ہیں جن سے اس ذہنیت کی جڑ کٹتی ہے، کسی معاشرے اورکسی قوم کے لئے بنیادی ضرورت عدل وانصاف ہے، جیسے ہمیں کھانے پینے اورآکسیجن لینے کی ضرورت ہے اتنی ہی ضرورت ایک معاشرے اور ریاست کے لئے عد ل وانصاف کی ہے ۔ لیکن عدل وانصاف کے لئے حضور اقدس ﷺنے کچھ معیارات اور پیمانے بتائے ہیں کہ عدل وانصاف کسے کہتے ہیں ،انصاف یہ تو نہیں کہ میں کہہ دوں کہ میں انصاف کررہاہوں ، بلکہ اس دعوے کے پرکھنے کے لئے کوئی پیمانے ہونے چاہئں، ان میں سے ایک پیمانہ تویہی ہے کہ کمزور محض کمزورہونے کی وجہ سے اپنا حق مانگنے سے نہ ہچکچائے ، دوسرے لفظوں میں ریاست اور حکومت کی طرف سے انصاف کا معیار یہ ہے کہ عام لوگوں کو اس نظامِ انصاف پر اعتماد ہو ، دوسراپیمانہ یہ ہے کہ صاحبِ حق اپناحق جیسے بھی مانگے اس کومانگنے کاحق حاصل ہے، تم اس پر کسی طرح اعتراض نہیں کرسکتے ،اپنے منصب کی بنیاد پر کہ میں اس منصب پر بیٹھاہوں لہٰذامجھ سے یوں بات کرو، آدمی اپنے جاہ ومنصب اوراپنی دینی یا دنیوی حیثیت کی بنیاد پرصاحبِ حق کو یوں کہے کہ تم اپناحق یوں مانگویوں نہیں،حضوراقدس  ﷺنے اپنے ارشادات سے بھی اس کی نفی فرمائی ہے، اور کئی عملی نمونے بھی قائم فرمائے ،اس پر کئی واقعات شاہد ہیں، مثلاًایک شخص نے آنحضرت  ﷺ سے کوئی معاملہ کیاہواتھا، اس معاملے کے نتیجے میں آں حضرت  ﷺکی طرف اس کاایک اونٹ بنتاتھا جوآپ پرایک طرح سے ادھارتھا، ظاہرہے کہ آنحضرت  ﷺ توادائیگی کرنے والے شخص تھے، ادانہ کرنے کا تو سوال ہی پیدانہیں ہوسکتاتھا،لیکن وہ شخص آیا اوربڑے تلخ انداز میں آں حضرت  ﷺسے بات کی، اپناحق لینے کے لئے اس نے ترش لب ولہجہ اورسخت الفاظ استعمال کئے، صحابہ کرامؓ نے ذرا اسے گھورا،ان کادل چاہتاتھاکہ پکڑلیں اسے اور اس کی اچھی طرح خبر لیں، کیونکہ وہ توحضوراقدس  ﷺکے جانثارتھے وہ کہاں گوارا کرسکتے تھے کہ آں حضرت ﷺسے کوئی اس اندازسے بات کرے ،لیکن آنحضرت  ﷺنے صحابہ کواس سے منع فرمایاکہ خبردار اسے کچھ نہ کہنا ،کیوں؟آپ نے فرمایا ’’ دعوہ فان لصاحب الحق مقالا‘‘[ صحیح بخاری :حدیث نمبر ۲۱۸۳ کتاب الوکالۃ باب الوکالۃ فی قضاء الدین ] اسے کچھ نہ کہو،  اس لئے کہ صاحبِ حق کو بولنے کاموقع ملناچاہئے ،آپ یہ کہیں کہ صاحبِ حق اپناحق تو مانگے ،لیکن مانگنے کاانداز،لب ولہجہ اور آواز کی فریکوینسی یہ ساری چیزیں میں طے کروں گا، میرے طے کئے ہوئے معیار کے اندر رہتے ہوئے اپناحق مانگوگے توبات سنی جائے گی ورنہ نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں ، اسے بولنے دو اس لئے کہ یہ اپنا حق مانگ رہا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ صاحبِ حق کی بھی کچھ ذمہ داری ہے کہ ڈھنگ اور طریقے سے مانگے ، جہاں حضورِ اقدس  ﷺنے حق مانگنے والے کو مخاطب کیاوہاں یہ ارشادفرمایاکہ من طلب حقا فلیطلبہ فی عفاف وافٍ او غیروافٍ[ السنن الکبری للبیہقی ۵/۳۵۸  ]کہ صاحب حق کوچاہئے کہ وہ اچھے انداز اوراخلاق کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنا حق مانگے ،اس پر نظرنہ کرے کہ حق ملتا ہے یانہیں،پوراملتاہے یاادھورا،یہ بعدکامسئلہ ہے ، اس کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ وہ اخلاق اوراپنی شائستگی کوبرقرار رکھے، لیکن یہ مانگنے والے کو خود سوچنا چاہئے جس سے حق مانگا جارہاہے اس کویہ نہیں کہناچاہئے کہ ’’اوئے وڈیاں دے سامنے ایداں  نہیں بولی دا‘‘تمہیں بات کرنے کا طریقہ نہیں آتا اس لئے ہم تمہاری بات نہیں سنتے ، حضوراقدس  ﷺنے فرمایا وہ اپناحق مانگ رہاہے وہ جیسے مانگتاہے مانگنے دو۔

اسی طرح کے ایک واقعے میں جس میں آپ  ﷺ نے خاص قسم کی کھجوریں دینا ایک بدّو سے طے فرمایا تھا، لیکن اتفاق سے وہ کھجوریں آپ کے پاس موجود نہیں تھیں ، جبکہ معاملہ کرتے وقت آپ کے ذہن میں یہ ہوگا وہ کھجوریں موجود ہیں ، اب ظاہر ہے کہ آں حضرت  ﷺ  اس کی حق تلفی کرنے والے تو تھے نہیں ،کچھ نہ کچھ بلکہ بہتر سے بہتر آپ نے تلافی فرمانی ہی تھی ،بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے معذرت کے انداز میں بات کی کہ ہم غلطی سے اس طرح کی کھجوروں کی بات طے کربیٹھے ہیں اتفاق سے اس وقت وہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔مقصد یہ تھا کہ اب اگر سوداکینسل کرناچاہوتوکینسل کردو، اوراگر انہی کھجوروں کے لینے پراصرارکرناہے توپھرجیسے کیسے ہوگا آپ کی بات پوری کریں گے، لیکن وہ شخص تو بدّو اور جلد باز تھا ، اس نے سخت کلامی شروع کردی ، اس پر بعض صحابہ نے اسے ڈانٹا اور کہا ’’ ویحک تدری مَن تکلم؟‘‘ ، ارے کم بخت تجھے پتا بھی ہے تو کس ہستی سے مخاطب ہے ! اس نے کہا یہ تو میں نہیں جانتا ،میں تو میں اپنا حق مانگ رہا ہوں ، حضوراقدس  ﷺنے صحابہ کرام کوخطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ تم میری سائیڈلینے لگ گئے؟! ، میرے ساتھ سخت کلامی کرنے پر تمہیں اس شخص پرغصہ آگیا؟،تمہیں میری سائیڈنہیں لینی چاہئے تھی ’’ھلّا مع صاحب الحق کنتم‘‘ تمھیں تواپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈالنا چاہئے تھا جواپنے حق کامطالبہ کر رہاہے ، تم حق  والے کے ساتھ کیوں نہ ہوئے ، اس کے بعد آں حضرت ﷺ نے ایک صحابیہ خولہ بنت حکیم سے اس طرح کی کجھوریں ادھار لے کر اسے عطا فرمائیں اور اس کے حق سے زیادہ عطا فرمائیں ، اس بدو نے جاتے ہوئے کہا کہ جس طرح تم نے میرا پوار پورا حق اداکیا اسی طرح اللہ تعالی بھی تمہیں پورا پورا صلہ عطا فرمائے ، اس موقع پر بھی آنحضرت  ﷺنے وہی بات ارشاد فرمائی کہ وہ معاشرہ پاکیزہ نہیں ہوسکتاجس میں کوئی کمزورآدمی اپنا حق بغیرکسی ہچکچاہٹ کے نہ مانگ سکتاہو[سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر :۴۲۲۶ ،کتاب الصدقات : باب لصاحب الحق سلطان]،اس موقع پر نبی کریم  ﷺنے یہ بھی فرمایاکہ دعوہ فان لصاحب الحق مقالا اِسے کچھ نہ کہو،کیونکہ ہم نے اس سے بات طے کی ہوئی ہے، اس نے تواپنا حق مانگناہے ،اس کے بولنے پرپابندی مت لگاؤ،جس طرح بھی بات کرناچاہتاہے کرنے دو۔

اندازہ لگائیے اللہ کے نبی کامقام و منصب کتنا اونچا ہے ،اللہ کے نبی کی ادنیٰ سی گستاخی بھی بہت بڑے وبال کاسبب ہے ،گستاخی تودورکی بات ہے نبی کے سامنے جان بوجھ کر آواز بلند کرنا اوراونچی آوازسے بات کرنا یہ اتنی خطرناک چیزہے کہ اس سے عمل ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے [  الحجرات : ۲ ] ، لیکن جہاں حق مانگنے کی بات ہے وہاں حضوراقدس  ﷺ  خریدوفروخت کے ایک فریق کی حیثیت سے اپنے آپ کو سامنے رکھ کر بات فرما رہے ہیں ، نبی کی حیثیت سے نہیں ،بلکہ ایک بیچنے والے کی حیثیت سے  یا ایک خریدار کی حیثیت سے ۔

در اصل شخصی حقوق اور آزادیوں کا بڑا گہرا تعلق انسانی مساوات کے اصول سے ہے ، میں نے عرض کیا کہ آزادیاں کون چھینتا ہے؟ ، طاقتور چھینتا ہے ، کیوں چھینتا ہے؟ اپنی طاقت اور دھونس کو برقرار رکھنے کے لئے کہ کوئی بولے نہیں، تیسری بات یہ ہے کہ شخصی آزادیاں سلب کرنے کا ایک داعیہ یہ ہوتا ہے کوئی شخص یا کچھ لوگ بلا کسی معقول وجہ کے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہم دوسروں سے بڑھ کر ہیں ،اس لئے دوسروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہماری عقل وشعور اور ہماری سوچ سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے خلاف بات تک نہ کریں ، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہمیں چاہئے کہ زبردستی اپنی سوچ ان پر مسلّط کریں ، حضور اقدس  ﷺ نے تو اس سوچ کو اعجاب کل ذی رأی برأیہ  یا   اعجاب المرء بنفسہ کے عنوان سے ایک ذہنی اور باطنی بیماری قرار دیا ہے ، لیکن بہر حال یہ ذہنیت بھی کئی لوگوں میں موجود ہوتی ہے اور عام طور پر طاقت ور میں ہی ہوتی ہے ، خواہ طاقت کسی نوعیت کی ہو ، اس لئے وہ اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرنا اپنا حق ہی نہیں اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے ، لیکن قرآنِ کریم اور آں حضرت ﷺ نے اس ذہنیت پر ضربِ کاری لگاتے ہوئے یہ بات صاف کردی کہ سب انسان برابرہیں یا أیہا الناس اناخلقناکم من ذکروانثی وجعلنا کم شعوباوقبائل لتعارفواان اکرمکم عنداﷲ اتقاکم [الحجرات : ۱۳] کہ ہم نے تمہیں مختلف قبیلوں ،ذاتوں،برادریوںمیں جو تقسیم کیاہے یہ صرف پہچان کے لئے ہے ، ورنہ اللہ کے ہاں اگرمقام ومرتبہ ہے تووہ صرف تقویٰ کی وجہ سے ہے، حضوراقدس  ﷺنے فرمایالافضل لعربی علی عجمی ولاعجمی علی عربی ولالأسودعلی أحمر ولا لأحمرعلی أسود الابتقوی اﷲ عزوجل ،کسی کورنگت ،نسل وغیرہ کی بنیاد پر دوسروں پر کوئی برتری حاصل نہیں، یہ اعلان حضوراقدس  ﷺنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں کیاہے، عام طورپر سیاسی قیادتوں ، اصلاحی تحریکوں میں یہ ہوتاہے کہ اعلان پہلے ہوتاہے نعرہ پہلے لگا یا جاتا ہے اورعمل کابعدمیں سوچاجاتاہے ،لیکن حضوراقدس  ﷺنے اپنی تئیس(۲۳)سالہ نبوی زندگی میں پہلے خودمثالیں بلکہ شاندار مثالیں قائم کی ہیں، بعد میں دوسروں کوبتانے کے لئے اعلان کیا ہے کہ میں نے کرکے دکھادیاہے تمہارے لئے بھی یہی حکم بلکہ نمونہ ہے۔

آں حضرت ﷺ کی پوری سیرت ِ طیبہ میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ انسانی مساوات اور حقوق کی تعلیم وتلقین ہورہی ہے یا اس کے اعلی ترین عملی نمونے قائم کئے جارہے ہیں ، لیکن ان چیزوں کا اپنا معیار لے کر پوری دنیا کے ممتحن بن بیٹھے ہوں ، دوسری اقوام کو زک کرنے کے لئے ان عنوانات کو بطورہتھیار استعمال کیا ہو ، سیرت ِ طیبہ اور قرونِ اولی کی بات تو بہت دور کی ہے اس کی مثالیں شاید پوری اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے ہاں نہ ملیں ، اورخود اپنے عمل میں مساوات کی بات یہاں تک ہے کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کوکسی نے دیکھاکہ ان کے پاس دو جوڑے ہیں، ایک ذراعلیٰ اورایک گھٹیا، اس زمانے میں عموما جوڑا دو چادروں پر مشتمل ہوتا تھا ، ایک لنگی جسے ازار کہتے ہیں اور دوسری اوپر اوڑھنے والی چادر جسے ردا کہا جاتا ہے ، ان کے بدن پر ازار اور رداء میں سے ایک اعلی قسم کی ہے اور ایک ہلکی ،اورساتھ ان کا ایک غلام کھڑاہے، اس کابھی یہی معاملہ ہے ایک بہت اعلیٰ اورایک بہت گھٹیا ، توکسی نے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟ان میں سے اعلی جوڑا آپ پہن لیتے تو پورااچھے والاجوڑا ہوجاتا ، اوردوسراغلام کوپہنا دیتے اس کابھی پورا جوڑاہوجاتا اور آپ کا بھی، انہوں نے کہاکہ نہیں !حضوراقدس  ﷺنے ارشادفرمایاکہ جوتمہارے غلام ہیں وہ بھی توتمہارے بھائی ہیں،نوکر چاکر اور ملازم کی بات نہیں ہورہی غلام کی بات ہورہی ہے ، آج دنیا کہتی ہے کہ ہم نے غلامی کا خاتمہ کر دیا ہے لیکن میرے خیال میں پوری دنیا میں کوئی بھی اپنے ملازم کویہ مقام دینے کے لئے تیار نہیں جویہاں ایک غلام کو دیاجارہاہے ،توحضور اقدس  ﷺنے غلاموں کے بارے میں فرمایاکہ وہ تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت بنادیاہے لہٰذا انہیں بھائی سمجھ کر جیساخودپہنو ویساانہیں پہناؤجیساخودکھاؤویساانہیں کھلاؤ۔اس لئے میں نے دونوں جوڑے آدھے آدھے کردئیے ہیں تاکہ برابر ہوجائیں ،یہ مساوات کی ایک عملی مثال ہے ، اپنے ماحول اور عمل کا معیار تو یہ ہے ، لیکن مساوات کے نعرے کو دیگر اقوام کو زک کرنے کا ذریعہ کبھی نہیں بنایا ۔

آنحضرت  ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب کو آدم سے پیداکیا ہے ،کلہم بنوآدم  وآدمُ من تراب۔سب انسان برابر ہیں کسی کوکسی پرکوئی فوقیت نہیں، اگرکوئی فوقیت ہے تواس کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہئے، اوروہ فوقیت اپنے دائرے کے اندرہوگی مثلاًایک ڈاکٹرکواپنے فن میں مہارت حاصل ہے آپ اس کے ہاسپٹل میں داخل ہیں اور اس کے ہاں زیرِعلاج ہیں، وہ زبردستی آپ کودوائی دیتاہے ،زبردستی انجکش لگاتاہے آپ کہتے ہیں کہ مجھے اچھا نہیں لگتا درد ہوتی ہے ،لیکن وہ آپ پراپنی مرضی چلارہاہے اوراس میں آپ ہی کافائدہ ہے ،ایک خاص دائرے میں اس کویہ فوقیت حاصل ہے ،لیکن اس دائرے سے ہٹ کر وہ آپ پراپنی مرضی نہیں چلاسکتا۔ خود اللہ کے نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے دائرے سے باہر اپنے صحابہ پر اپنی مرضی مسلط نہیں کی ، اس کی بیسیوں مثالیں ملتی ہے ، جب آں حضرت ﷺ مدینہ منورۃ تشریف لائے ، یہاں کھجوروں کے باغات تھے ، جو مکے میں نہیں ہوتے تھے ، آپ نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ خاص انداز سے نر درختوں کی مادہ درختوں میں پیوند کاری کرتے ہیں جسے عربی میں تأبیریا  تلقیح  کہا جاتاہے ، آپ نے سرسری انداز سے ذکر فرمایاکہ اس کی شاید ایسی ضرورت نہ ہو ،اگر ایسا نہ کرو  تو بھی کام تو چل جائے گا، لو لم تفعلوا  لصلح  اتفاق سے بعض حضرات کی اس سال پیداوار اتنی اچھی نہیں ہوئی، آپ نے صاف فرمادیا کہ میرا یہ مقصد نہیں تھا کہ میری یہ بات تمہارے لئے واجب التعمیل ہے اور یہ فرمایا کہ أنتم أعلم بأمور دنیاکم  کہ چونکہ یہ معاملہ منصبِ نبوت سے تعلق نہیں رکھتا اس لئے تم اس کو ماننے کے شرعاً پابند نہیں ہو ـ [ صحیح مسلم ، حدیث نمبر :۴۳۵۶ ، کتاب الفضائل : باب امتثال ما قالہ شرعاً دون ما ذکرہ من معائش الناس]۔

ایک دفعہ نبی کریم  ﷺ کی مجلس میں یہ تذکرہ چلا کہ اگر خدا نخواستہ کو ئی شخص اپنی بیوی کو کس اجنبی مرد کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ لے تو وہ کیا کرے ، کیا وہ فوری غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اسی وقت اس کا کام تمام کردے یا چار گواہوں کی صورت میں باقاعدہ ثبوت پیش کرے اور عدالتی کاروائی کے ذریعے اسے سزا دلوائے ، حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ چار گواہ تو لانے پڑیں گے ، اس پر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اسے کچھ بھی نہ کہوں ،اور چار گواہ لینے چلا جاؤں ، میں تو فوراً  ہی تلوار سے اس کا کا م تمام کردوں گا ، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں سعد کی غیرت پر تعجب ہو رہا ہوگا ، لیکن میں سعد سے بھی زیادہ غیرت والا ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والے ، اسی غیرت کی وجہ سے اللہ نے ظاہری اور باطنی فواحش سے منع کردیا ہے ، مطلب یہ تھا کہ سعد کے یہ جذبات اگر غیرت پر مبنی ہیں تو نعوذ باللہ میرا  یا اللہ کا حکم بھی غیرت کے خلاف نہیں ہے ، سعد کی بات چھوٹی غیرت ہے اور میرا اور اللہ کا حکم بڑی غیرت ۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا مقصد بھی آں حضرت ﷺ کے بیان کردہ حکمِ شرعی کا انکار نہیں تھا ، بلکہ محض اپنے جذبات اور افتادِ طبع کو بیان کرنا تھا کہ میرا ذاتی مزاج ایسا ہے کہ شاید میرے لئے اس بات پر عمل بہت مشکل ہوگا ، چنانچہ بعض روایتوں میں تصریح ہے کہ بعد میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے معلوم ہے کہ جو آپ نے فرمایا وہ اللہ کی طرف سے ہے اور برحق ہے ، میں تو صرف حیرت کا اظہار کر رہا تھا ،  [  فتح الباری ، کتاب النکاح : باب الغیرۃ ]  بطور حکمِ شریعت کے نبی کریم ﷺ کا فرمان آجانے کے بعد کسی کے لئے مخالفت کی گنجائش نہیں ہوتی ، لیکن اس موقع پر حضرت سعد  رضی اللہ عنہ کے خاص قسم کے جو ذاتی جذبات تھےان کا اظہار کیا اور  آں حضرت ﷺ نے اپنے سامنے ان کے اظہار کا انھیں موقع ضرور دیا ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک کنیز(جس کانام حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا ہے)خریدی اورخرید کر اسے آزاد کردیا،  جب وہ کنیز تھیں تواسی زمانے میں ان کے مالکوں نے ان کی شادی کرادی تھی ان کی مرضی کے بغیر،اس وقت وہ ایک کنیزتھیں ، اپنی رائے کااظہارنہیں کرسکتی تھی آزاد ہوجانے کے بعد اسے موقع دیاگیاکہ اگروہ اس فیصلے پرنظرثانی کرے اورشادی کوبرقراررکھناچاہے تو رکھ لے ورنہ ختم کردے، ان کے خاوند اس نکاح کوبرقرار رکھناچاہتے تھے، انہوں نے حضور اکرم  ﷺسے اس کی سفارش بھی کروائی ،آنحضرت  ﷺبھی اس نکاح کو برقراررکھنے کی خواہش رکھتے تھے، اب دیکھئے یہ ایک باندی تھیں اورابھی ابھی آزاد ہوئی ہیں اورآزادی بھی آپ کے گھرانے کی وجہ سے ملی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے ان کواپنے کام کے لئے نہیں ، آزاد کرنے کے لئے ہی خریداتھا ،یہ ان کا بڑامحسن گھرانا ہے، لیکن جب آنحضرت  ﷺنے حضرت بریرہ سے فرمایا کہ تم اپنے خاوند سے رشتہ برقرار رکھو توانہوں نے عرض کیایارسول  اللہ آپ حکم دے رہے ہیں یاسفارش فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ حکم نہیں سفارش ہے، نبی کاحکم اگرنبی ہونے کی حیثیت سے ہوتواس میں کسی مؤمن اورمؤمنہ کوسوچنے کا اختیارنہیں ہوتا،یہ حکم اپنی جگہ الگ ہے اس لئے حضرت بریرہ ؓنے پہلے وضاحت کرالی کہ یہ حکم ہے یاسفارش ہے، آپ نے وضاحت کردی کہ یہ سفارش ہے، گویا شرعی مسئلہ نہیں آں حضرت  ﷺ کی ذاتی رائے بلکہ خواہش ہے ، توانہوں نے حضور اقدس ﷺ کی رائے اور سفارش بلکہ خواہش کے برعکس صاف کہہ دیا کہ میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ،یہ سوچ اوررائے اوراپنی مرضی کی آزادی ہے ،اگر آپ سیرت ِ طیبہ کا تفصیل سے مطالعہ کریں گے تو اس طرح کی اور بہت سی مثالیں مل جائیں گی ۔

مولانا مفتی محمد زاہد

مولانا مفتی محمد زاہد، ممتاز عالم دین ہیں اور جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں شیخ الحدیث کے منصب پر تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
zahidmdadia@outlook.com

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • عمومی طور پہ مضامین علمی اور معلوماتی ہیں لیکن اس فورم میں ایک کمی ضرور ہے کہ مذاکرہ اور discussion کا آپشن موجود نہیں ہے نہ ہی ہر مضمون پہ کمنٹ کرنے کا کوئی بندوبست کیا گیا ہے جس کی وجہ سے تحاریر کے تجزیے اور تبصرے کی کوئی صورت نہیں بنتی۔

    • کمنٹ کا آپشن تو موجود ہے لیکن وہ منتظمین کے اپروول کے بعد ظاہر ہوتا ہے ۔