تشکیک کا رویہ تاریخِ فلسفہ میں دو مختلف مناہج کے طور پر اپنایا گیا ہے ۔ ایک تو ایسا منہج جس کا مقصد نفسِ تقین کا انہدام ہو ۔ یہ رویہ تاریخ میں سفسطہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسکی ابتداارسطو کے آخیر زمانے ہی سے ہو گئی تھی جب ایک شخص’ پرہو’ نے اسکی بنیاد رکھی ۔ وہ عقلِ انسانی کے ذریعے حقائقِ اشیاء کے ادراک کی سرے سے قابلیت ہی کا منکر تھا ۔ عبد الماجد دریابادی نے اسکے عقائد کو تین بنیادی نکات میں بیان کیا ہے ۔
لکھتے ہیں :
“پرہو کے نتائجِ افکار کا خلاصہ قضیوں کی صورت میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔
1۔ماہیتِ اشیاء کا علم ہونا ممکن ہی نہیں ہے ۔
2۔ انسان کو اپنی قوتِ فیصلہ معطل رکھنی چاہیے یعنی کسی بھی چیز پر نفیا یا اثباتا کوئی حکم نہیں لگانا چاہیے ۔
3۔ اس تعطل ہی سے طمانیتِ قلب کی دولت حاصل کی جا سکتی ہے ۔”
مذکورہ معنوں میں تشکیک کو ذرائعِ علم میں شامل نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ علم نہ ہو سکنے کا یقین علم کا ذریعہ نہیں بن سکتا ، علم ایک وجودی چیز ہے جسکا منبع عدم ہونا عقلا محال ہے ۔
تشکیک کا دوسرا منھج وہ ہے جو علم کے لئے ایک ثبوتی اقدام کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جسکا بانی ڈیکارٹ کو خیال کو کیا جاتا ہے ۔
برٹرینڈ رسل اپنی کتاب The problems of philosophy میں لکھتے ہیں :
“Descartes (1596-1650), the founder of modern philosophy, invented a method which may still be used with profit — the method of systematic doubt. He determined that he would believe nothing which he did not see quite clearly and distinctly to be true. Whatever he could bring himself to doubt, he would doubt, until he saw reason for not doubting it. By applying this method he gradually became convinced that the only existence of which he could be quite certain was own”
ترجمہ: جدید فلسفہ کے بانی ڈیکارٹ نے ایک طریقہء کار دریافت کیا تھا جو اب بھی کارآمد ہو سکتا ہے یعنی باقاعدہ شک کا طریقہ ۔اس نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ کسی ایسی بات پر یقین نہیں کرے گا جو اسے صاف صاف اور صراحت کے ساتھ سچ دکھائی نہ دے ۔جہاں تک گنجائش ہو گی وہ شک کرتا چلا جائے گا اور صرف اس وقت اسے ترک کرے گا جب اسے ترک کرنے کی کوئی خاص وجہ سامنے آئے ، اس طریقہ کار کو استعمال کرنے سے وہ بالآخر اس بات کا قائل ہو گیا کہ وہ تنہا وجود جس کا وہ یقین کر سکتا ہے وہ اس کا اپنا وجود ہے ۔
ڈیکارٹ نے تشکیک کا راستہ حواس اور عقل کے معتبر ذریعہء علم ہونے پر وارد ہونے والے فلسفیانہ اشکالات کی وجہ سے اپنایا تھا تاکہ براستہء تشکیک وہ اپنے فلسفہ کو ایسی بنیاد پر استوار کر سکے جسکے بعد عقلیت پر ہونے والے اشکالات کی از خود تردید ہو جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عقل و حواس پر تشکیک کے بعد “اپنے وجود” کے یقین تک پہنچا جس نے حواس کے معتبر ذریعہء علم ہونے کی راہ ہموار کی ۔ ان معنی میں تشکیک کا یہ دوسرا منہج پہلے منہج سے بالکل متضاد اور مختلف ہے ۔
اس منہجِ ِتشکیک کی ابتداء علمیاتی فکر کی تشکیل سے قبل ہوتی ہے جبکہ اول الذکر منہج از خود کلیۃ ایسی علمیاتی فکر ہے جسمیں عقل و حواس کے اعتبار کا انہدام مضمر ہے ۔ڈیوڈ ہیوم An enquiry concerning human understanding میں لکھتے ہیں :
“There is a species of skepticism, antecedent to all study and philosophy, which is much inculcated by DesCartes and others, as a sovereign preservative against error and precipitate judgment. It recommends a universal doubt, not only of all our former opinions and principles, but also of our very faculties”
ترجمہ: تشکیک کی ایک خاص قسم وہ ہےجو فلسفہ اور تمام علوم سے پہلے ہوتی ہے ۔ جس پر ڈیکارٹ اور دیگر نے زور دیا ہے ۔وہ غلطی میں پڑنے اور جلد بازی کے فیصلوں سے بچانے میں کام آتی ہے ۔یہ قسم دنیا بھر کی ہر چیز پر ایسےشک کی تعلیم دیتی ہے جسکا دائرہ نہ صرف ہمارے قدیم اصول و خیالات تک محدود ہو بلکہ اسمیں ہمارے قوائے ذہن بھی داخل ہوں ۔
ہیوم کی بابت معلوم ہے کہ وہ مابعد الطبیعیاتی عدمیت پسند اور تجربیت کے حامی فلسفی ہیں۔ انکے ہاں حسیات بحیثیت ارتسامات ہمارے تصورات سے اس طرح ملصق ہیں کہ ہمارے پاس اسکے علاوہ کسی ذریعہ سے یقینی علم حاصل کرنے کا امکان موجود نہیں ہے ۔ حسیات پر تیقن کے اعتقاد کی وجہ سے ہیوم ڈیکارٹ کی بیان کردہ تشکیک کے من و عن قائل نہیں ہیں اگرچہ تشکیک کی اہمیت انکے ہاں بھی مسلم ہے ۔ لہذا ڈیکارٹ کے مذکورہ نظریے پر خفیف تنقید کرنے کے بعد لکھتے ہیں ۔:
“It must, however, be confessed, that this species of skepticism, when more moderate, may be understood in a very reasonable sense, and is a necessary preparative to the study of philosophy, by preserving a proper impartiality in our judgments, and weaning our mind from all those prejudices, which we may have imbibed from education or rash opinion. To begin with clear and self-evident principles, to advance by timorous and sure steps, to review frequently our conclusions, and examine accurately all their consequences; though by these means we shall make both a slow and short progress in our systems; are the only methods, by which we can ever hope to reach truth, and attain proper stability and certainty in our determinations.”
ترجمہ: بہرحال یہ ماننا پڑے گا کہ اگر تشکیک میں اعتدال سے کام لیا جائے تو یہ معنی خیز بن سکتی ہے ۔اور ساتھ ہی فلسفے کے مطالعے کے لئے ایک لازمی شرط ہو سکتی ہے ۔کیونکہ یہ ذہن کی جانبداری کو خاص حد تک محفوظ اور ان تعصبات سے پاک رکھتی ہے جو تعلیم و تربیت کے اثر اور جلد بازیوں کے فیصلوں نے گھول کر پلا دئیے ہیں ۔واضح اور بدیہی اصول سے چلنا،اپنے نتائج کو بار بار الٹ پلٹ کر دیکھنا ،انکے تمام لوازم کو اچھی طرح جانچنا ،ان باتوں سے اگرچہ ترقی کی رفتار بلاشبہ آہستہ ہو جائے گی لیکن حق تک رسائی اور مضبوط اصول کی اگر کوئی صورت ہے تو صرف یہی ہے کہ ا ن امور کیا لحاظ رکھا جائے ۔
آخر میں ہیوم کے اقتباس پر تبصرہ درکار تھا۔ وہاں سے تحریر وہ تسلسل قائم نہیں رکھ پائی۔
مجھے یہ مضمون پڑھ کر تحریک ملی ہے ، اس لیے تشکیک پر اپنے خیالات جلد رقم کرتا ہوں۔ ڈیکارٹ پر آپ کی بحث سے یہ خیال بھی ذہن میں آیا ہے کہ ہیگل نے کہا تھا کہ فلسفہ ڈیکارٹ سے شروع ہوتا ہے۔ مجھے ہیگل کی یہ بات بہت دیر بعد سمجھ آئی تھی کہ وہ دراصل یہ کہہ رہا ہے کہ ہر چیز پر شک کا مطلب صرف یہ تھا کہ میری فکر ایسی چیز ہے جو مجھے میرے وجود کا تیقن عطا کرتی ہے، اور یہی نکتہ جدید فلسفے کی بنیاد اس لیے بھی بنا کہ انسان اپنی سوچ کی وجہ سے اپنی مرکزیت قائم کرتا ہے۔ لاجک میں ہیگل نے یہ بھی کہا تھا کہ فلسفے کا الوداعی مقام تجربیت ہے، کیونکہ پراپر فلسفہ فکر سے شروع ہوتا ہے نہ کہ حسیات سے۔ لہذا جدید فلسفے میں عقل کی قائم ہوئی تشکیک کی وجہ سے برطانوی تجربیت عقل کے متعلق تشکیک سے گزری جبکہ اس کے بعد جرمن عینیت عقل کو “ایبسولیوٹ” مانتی ہے۔
باقی تحریر 👍