Home » ذہن کا مستقبل : ڈاکٹر میشو کاکو کی نظر میں
انگریزی کتب سائنس شخصیات وافکار

ذہن کا مستقبل : ڈاکٹر میشو کاکو کی نظر میں

 

ڈاکٹر مشیو کاکو امریکی سائنسدان ہیں۔ ان کی کتاب      The       Future         of         the       Mind کا اُردو ترجمہ “مستقبل کا ذہن” کے نام سے تاج بہادر تاج نے کیا ہے۔اس کتاب کو بک ٹائم کراچی والوں نے شائع کیا ہے۔کتاب کے نام کے لحاظ سے ترجمہ تو “ذہن کا مستقبل ” ہونا چاہیے لیکن “مستقبل کا ذہن” کتاب کے مندرجات سے میل کھاتا ہے۔ اس کتاب کا بنیادی موضوع نیورو سائنس اور اس میں ہونے والی ممکنہ ترقی اور اس کے ہمارے سماجی اور قانونی سطح پر کیا نتائج ہو سکتے ہیں ان پر گفتگو کی گئی ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب ماضی یا حال کی بجائے مستقل پر گفتگو کرتی ہے۔

اپنے ابتدائیہ میں ڈاکٹر کاکو نے لکھا ہے کہ دوربین کی ایجاد نے ہمیں فلکیات اور آسمانی اجسام کے بارے میں ایک نئی دنیا سے متعارف کروایا اور دوربین کی ایجاد کے محض پندرہ سال میں ہمیں فلکیات کے بارے میں وہ معلومات ملیں جو کئی صدیوں میں نہیں مل سکی۔ ایسے ہی MRI مشین نے نیورو سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کیا اور ہمیں دماغ کے اسرار سے واقف کیا۔ اب ایم آر آئی مشین کے ذریعے ہمارے دماغ کی ساخت ، اس میں بسنے والے خیالات کو پڑھا جا سکتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ دماغی طور پر مفلوج اذہان کے امراض کو دور کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ جیسے دوربین نے فلکیات کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ایسے ہی ایم آر آئی مشین نے نیورو سائنس کی دنیا کو بدل دیا۔ جیسے فلکیات میں حیرت انگیز انکشافات ہو رہے ہیں ایسے ہی نیورو سائنس جیسے جیسے ترقی کر رہی دماغ کے اسرار اور اس کے فنکشنز ہمیں مزید حیرت میں ڈال رہے ہیں.

ڈاکٹر کاکو نے آغاز Phineas Gage کے واقعے سے کیا جو امریکہ میں ریل روڈ کی کنسٹرکشن میں بطور فورمین اپنا کام سر انجام دے رہا تھا ۔۱۸۴۸ میں فینس گیج کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا جس میں اس کے دماغ کے کچھ حصے کو اڑتے ہوئے اس کے ساتھیوں نے دیکھا مگر اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ گیج اس حادثے سے زندہ بچ گیا، لیکن اس حادثے کے بعد اس کے رویے میں تبدیلی آ چکی تھی وہ جلد غصہ کر جاتا تھا، اس میں جارحیت بہت زیادہ آ چکی تھی۔ گیج کے اس بدلتے رویے نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا اور پھر اس کا کیس سٹڈی نیورو سائنس میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ گیج اس حادثے کے بعد بارہ سال زندہ رہا۔ مرنے کے بعد اس کا دماغ ماہرین کی توجہ کا مرکز بنا اور یوں ہمارے لیے انکشافات کی ایک نئی دنیا کھلی جس میں معلوم ہوا کہ دماغ کے مختلف حصوں کے مختلف فنکشںز ہیں۔ یہ نیورو سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس شعبے میں تحقیقات کا دائرہ اس وقت وسیع ہوا جب ڈنمارک اور پریشا کی ۱۸۶۴ میں جنگ ہوئی جس میں مرنے والوں کی لاشوں پر مزید تجربات کیے گئے۔ اس سے پہلے مذہبی طبقے لاشوں پر تجربات کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ چونکہ اس جنگ میں بڑی ہلاکتوں کے باعث کئی لاشیں میسر آ گئی تھیں جن پر تجربات کیے جا سکتے تھے۔ جنگوں کی تباہی اپنی جگہ مگر شر میں سے خیر کو برآمد کرنے کی یہ ایک بہترین مثال ہے کہ کیسے ایک مصیبت میں سے مواقع پیدا کیے گئے جن کے لانگ ٹرم عمدہ اثرات مرتب ہوئے۔ ماہرین نے فقط ہلاک ہونے والوں کے دماغوں کو صرف مرکز تحقیق نہیں بنایا، بلکہ زخمیوں میں سے ایسے افراد ان کے پاس آئے جن کو دماغی چوٹیں آئی تھیں ۔ یوں دماغ کی مختلف بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کی طرف توجہ منتقل ہوئی۔ اس ہی تحقیق میں نیورانز کا مطالعہ ہوا اور یہ بات سامنے آئی کہ دماغ کا تعلق پورے جسم سے ہے۔ ایک انسان کا منہ اور ہاتھ کا چلنا اس کے زندہ رہنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہیں تو یہ بات سامنے آئی کہ دماغ کا بیشتر فنکشن ان دونوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ جیسے جیسے مشینری میں ترقی ہوتی گئی دماغ کے اسرار ماہرین پر کھلتے گئے۔ جیسے کہ ایم آر آئی مشین کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اس نے دماغ کے مزید فنکشنز کو واضح کیا۔اس نے صرف یہ ڈاکٹرز کی توجہ حاصل نہیں کی بلکہ کئی اور شعبہ جات کی بھی اس میں دلچسپی پیدا ہوئی ۔ جیسے کہ پولیس یا انویسٹیگیشن والے اداروں کو اس سے کسی شخص کے جھوٹ یا سچ بولنے کے بارے میں معلومات ملیں۔ ڈاکٹر کاکو نے بتایا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کے دماغ کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے کیونکہ ایک طرف اس نے سچ کو چھپانا ہوتا اور دوسری طرف اس نے کہانی گھڑنی ہوتی ہے۔ اب جدید ٹیکنالوجی سے دماغ کے کچھ حصوں کے فنکشنز سے جانا جا سکتا ہے کہ بندہ سچ بول ہے کہ نہیں۔ ڈاکٹر کاکو نے بتایا ہے کہ ایم آر آئی مشین کی ایجاد کے بعد ہم دماغ کے تین سو خطوں کو جان پائے ہیں جو کہ نیورو سائنس کے لیے نئے امکانات کھول رہے ہیں۔ ابھی دماغ کا مکمل احاطہ نہیں ہو پایا ابھی ٹیکنالوجی کی مدد سے مزید دماغ کے فنکشنز پر کام جاری ہے اور مستقبل میں کیا کیا ہو سکتا ہے اور جانا جا سکتا ہے ڈاکٹر کاکو نے آگے اس کا ہی نقشہ کھینچنے کی کوشش کی ہے۔
اس پر ڈاکٹر کاکو نے ٹیلی پیتھی پر بات کی ہے کہ مستقبل میں اس پر کیا ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر کاکو کہتے ہیں کہ مستقبل میں یہ ممکن ہے کہ کوئی موسیقار اپنی دھنیں اپنے سر میں گنگنائے جو کہ مخصوص برقی سگنلز سے ڈی کوڈ ہو اور کسی میوزیکل نوٹ کی شکل میں کمپوٹر سے پرنٹ ہو جائے۔
ٹیلی پیتھی ہی میں ریسرچ مائنڈ ریڈنگ کی ہے۔جس میں مزید ترقی کی بات ڈاکٹر کاکو نے کی ہے اور بتایا ہے کہ ایسی چپس کا قیام ممکن ہے جس کے ذریعے سے ہم دوسرے شخص کا ذہن پڑھ سکتے ہیں اس کے اندر کے خیالات کو جان سکتے ہیں۔ جہاں یہ ایک دلچسپ بات ہو گی وہاں اس پر کچھ اخلاقی سوالات بھی ڈاکٹر کاکو نے کھڑے کیے ہیں کہ اگر ہم دوسرے شخص کے دماغ میں آنے والے خیالات کو پڑھ اور جان سکیں تو پھر تخلیقی اذہان میں جو بڑے آئیڈیاز آتے ہیں ان کو دوسرا شخص بھی جان لے گا یوں کاپی رائٹ کے ایشو کھڑا ہو سکتا ہے۔ کسی دوسرے کی تخلیق کو اپنے نام کے ساتھ شائع کرنا ایک اخلاقی بحران کھڑا کر سکتا ہے۔ پھر اگر مائنڈ ریڈنگ کی یہ صلاحیت جرائم پیشہ افراد کے پاس آ جائے تو وہ ہمارے سماج کے اندر کیا کیا تباہی لا سکتے ہیں وہ کس طرح پولیس کو دھوکا دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر کاکو نے ان خدشات کو بھی کھڑا کیا ہے اور اس میں حکومتی مداخلت کو ضروری قرار دیا ہے کہ وہ کوئی ایسی قانون سازی کریں جو اس تباہی کو روک سکیں اور اس کے فوائد کو آگے بڑھا سکیں۔
اس مائنڈ ریڈنگ سے ایک اور مسئلہ بھی جنم لے سکتا ہے وہ کسی کی رازداری اور privacy میں حائل ہونا۔ اگر دماغی خیالات کو جاننے کی صلاحیت دوسرے شخص میں آ جائے تو یہ ہماری نجی زندگیوں میں مداخلت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ ساتھ ہی بہت سے معاملات جو فریقین میں راز ہوتے ہیں وہ راز برقرار نہیں رہ سکے گے۔ اس کو کیسے محدود کیا جا سکتا ہے اس پر بھی ڈاکٹر کاکو نے کوئی تجویز تو نہیں دی لیکن مسئلہ کی نشاندھی از خود بہت اہم ہے۔ یہ ٹیکنالوجی جہاں بہت سے فوائد اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہو گی تو اس کے ساتھ یہ مسائل بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ بالخصوص پرائیویسی کے اوپر ڈاکٹر کاکو نے بات کی ہے کہ ہر شخص کے کچھ نجی معاملات ہیں جن میں وہ کسی قریبی سے قریبی دوست یا عزیز کو بھی دخل دینے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ اس کا حق ہے لیکن مائنڈ ریڈنگ کی یہ ٹیکنالوجی اس کا یہ حق چھین سکتی ہے۔ جب اس ٹیکنالوجی کی بابت یہ چیز سوچی تو میں خود ایک بار خوفزدہ اور مضطرب ہو گیا کیونکہ مجھے بھی کبھی کبھار تنہائی میں وقت گزارنا اچھا لگتا ہے اور اس وقت دل کرتا ہے کہ کوئی بھی مداخلت نہ کرے ویسے تو اس عیاشی کو موبائل فون نے کافی ختم کر دیا ہے۔ اب یہ ہماری تنہائی میں مخل ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے ہم سے یہ تنہائی کو چھین لیا مگر جس کو تھوڑی بہت میسر ہے اس کی رازداری کو اس نے خطرہ لاحق نہیں کیا لیکن اگر مائنڈ ریڈنگ کی یہ ٹیکنالوجی سامنے آ جاتی ہے تو ہم سے رازداری چھن جانے کا خدشہ ہے جو کہ اس سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ ہو سکتا ہے اس ٹیکنالوجی کی کوئی اور شکل ہمارے سامنے آئے اور اس کے نتائج ڈاکٹر کاکو کے پیش کیے گئے خیالات سے مختلف ہوں مگر یہ باتیں متنبہ کرنے کے لیے کافی ہیں.
پرائیویسی کا مسئلہ زیادہ گھمبیر ہو سکتا ہے مصنف کا خیال ہے کہ یہاں حکومت پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ذہن میں بہت سے خلاف قانون اور اخلاق باختہ خیالات جنم لیتے ہیں مگر ہم ان پر عمل نہیں کرتے۔ اب مائنڈ ریڈنگ کی ٹیکنالوجی جب ان تک رسائی حاصل کر سکتی ہے تو پھر حکومت کا ردعمل کیا ہوگا۔ یہ مسائل عدالت میں جائیں گے اور ڈاکٹر کاکو کے خیال میں جیوری کے پاس جائیں گے اور وہاں ان کا حل ممکن ہے۔ڈاکٹر کاکو نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اگر آ جاتی ہے تو نئے پیدا ہونے والے بچوں کے اندر ان نینو چپس کو لگانا بھی معمول بن جائے گا اور یہ بغیر کسی تکلیف کے ان کے اندر نصب ہو جائیں گی تاکہ آنے والی نسل ٹیلی پیتھی سے مکمل آگاہ ہو۔

ٹیلی پیتھی کے ساتھ ہی مصنف نے Telekinesis پر بھی بات کی ہے۔ یہ نیورو سائنس کا بھی ایک انقلاب ہے۔ جس میں ذہنی طور پر معذور افراد جو بول نہیں سکتے کچھ آلات کے ذریعے ان کے خیالات کے ابلاغ کی سبیل پیدا ہوئی۔ اس سے ان کے اندر زندگی کی نئی امنگ پیدا ہوئی۔ اس شعبے میں مزید ترقی ہو رہی ہے اور ذہن میں آئے خیالات کو کمپوٹر پر منتقل کرنے ممکن ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہ ناصرف ذہنی مریضوں کے لیے مفید ہے بلکہ صحت مند اذہان کے لیے زیادہ مفید ہے جس سے ایک جانب ان کی فکر اور سوچ کو ریکارڈ کرنا ممکن ہو گا تو ساتھ ہی ان کے وقت کی بھی بچت ہو گی۔جہاں تک ذہنی مریضوں کا تعلق ہے اگر اس میں پیش رفت ہوتی ہے تو وہ لوگ اپنے بستر میں بیٹھ کر بہت سی چیزوں کو بغیر کسی دوسرے آدمی کی مدد سے کنٹرول کر سکیں گے ۔ وہ ریموٹ کنڑول سے ٹی وی کے چینلز بدلی کر سکیں گے، وہ مکینکل آلات کے ذریعے چل سکیں گے۔ یہ چیز کمپوٹر کی دنیا میں بھی بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔ ممکن ہے ماؤس اور کی بورڈ کی ضرورت باقی نہ رہے۔
اس طرح Avatar اور سروگیٹس پر بھی مصنف نے بات کی ہے جو ابھی تک سائنس فکشن کی چیزیں ہیں لیکن اگر اس میں ہمیں کامیابی ملتی ہے تو خلا کے سفر کے لیے ان کا استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ گہری خلا میں ایسی تابکاری پائی جاتی ہے جو انسانی جسم کے لیے شدید نقصان دہ ہے مگر اوتار اور سروگیٹس کے ذریعے وہاں پہنچ کر اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر کاکو نے روبوٹس اور روبوٹک ٹیکنالوجی پر بھی بات کی ہے اور بتایا ہے کہ روبوٹس کو مزید بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے جس میں کئی انسانی کام جو روبوٹ اب کر رہے ہیں ان میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
مصنف نے بتایا ہے کہ یہ سب امکانات ہیں ہو سکتا ہے کہ جس چیز کی خواہش ہم نے کی ہو جب وہ چیز عملی طور پر وجود میں آئے تو اس سے مختلف ہو۔یہ بات درست ہے کہ آغاز ایسا ہی ہوگا مگر ترقی کا یہ سفر رک نہیں جائے گا ہمارے desired       results میں تبدیلی بھی ٹیکنالوجی کے امکانات کے ساتھ رونما ہو گی اور ایسے ہی ٹیکنالوجی کی ترقی ہمیں مطلوبہ ہدف تک بھی لے جانے کا باعث بنے گی۔
ڈاکٹر کاکو نے بتایا ہے کہ سائنس دو دھاری تلوار کی طرح ہے جہاں سائنسی ایجادات انسانوں اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوئی ہیں وہاں ان کا غلط استعمال تباہ کن بھی ثابت ہوا ہے۔ جیسے کہ جدید ایٹمی ہتھیاروں سے ہونے والی تباہی سابقہ تمام جنگوں سے زیادہ ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے ایٹم بم کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ ایسے ہی مستقبل میں اگر سیروگیٹس اور اوتار کی ٹیکنالوجی کامیابی حاصل کرتی ہے تو میدان جنگ میں بھی ان کو اتارنے کا بھی خدشہ ہے۔ اگر سیروگیٹس میدان جنگ میں اترتے ہیں تو ان کے ہاتھوں ہونے والی تباہی بدترین انسانی المیہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس جنگ سے شاید فوجی نقصانات تو کم ہو مگر بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

نیورو سائنس میں ترقی کی وجہ سے ہم نے جانا کہ دماغ انسان کو اپنی یاداشت کو محفوظ رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس ہی کی بنیاد پر اب یاداشت کو کمپوٹر پر محفوظ کرنے کی ڈاکٹر کاکو نے بات کی ہے۔ اس کا امکان اس وقت پیدا ہوا جب چوہوں پر تجربات کیے گئے اور ان کی یاداشت کو کمپوٹر پر منتقل کیا گیا۔ تجربات کے حوالے سے یہ بات ہمیں نظر آتی ہے کہ ایسے بیشتر تجربات چوہوں پر کیے گئے بعد میں اس کو انسانوں پر آزمایا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے چوہوں کے کروموسوم کی تعداد انسانوں سے تھوڑی سی کم ہے۔
اس کے ساتھ ڈاکٹر کاکو نے یہ بھی لکھا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم ماضی میں گزرے ہوئے انسانوں کی یاداشت کو بھی جان سکتے ہیں۔ اگر یہ ممکن ہو جائے تو یہ علم تاریخ میں ایک انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ ہم جان سکتے ہیں کہ واٹر لو کی جنگ میں نپولین کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ ہم تاریخ کے واقعات کی بابت ایک نیا نظریہ دریافت کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے مورخین کی تحقیق کو بھی جانچ سکتے ہیں.
یاداشت کو منتقل اور دستاویزی شکل دینے کے حوالے سے اور بھی کئی دلچسپ امکانات کو ڈاکٹر کاکو نے بیان کیا ہے اور ان کے سماجی ڈھانچے پر اثرات کو بھی ڈسکس کیا ہے۔ ساتھ ہی اس میں قانونی حوالے سے جو پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں ان کو بھی سامنے لائے ہیں۔ بالخصوص شہادت اور گواہی کے حوالے سے یہ چیزیں کس قدر تبدیلیاں لا سکتی ہیں ان کو ذکر کیا ہے۔

ڈاکٹر کاکو نے اس کتاب میں خوابوں کے متعلق بھی گفتگو کی ہے اور اس امکان پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ خوابوں کے حوالے سے ایک دلچسپ بات جو غور کرنے کی ہے وہ یہ کہ سوتے ہوئے انسانی دماغ کے وہ نیورانز جن کا تعلق سننے اور سونگھنے سے ہے وہ بھی ریسٹ میں چلے جاتے ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی کچھ نیورانز زیادہ ایکٹیو ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کاکو نے بتایا ہے کہ نیورو ٹیکنالوجی کی کوشش ہے کہ وہ انسانوں کے خوابوں کو ریکارڈ کر کے ان کی منظر کشی کر سکے۔ گو کہ انہیں فی الحال کامیابی نہیں ملی مگر ڈاکٹر کاکو مطمئن ہیں کہ بالآخر اس میں کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ اب اس میں کامیابی کہاں تک ہوتی اور وہ سائنسدانوں کی سوچ سے کتنی مختلف ہوتی ہے یہ تو کہنا قبل از وقت ہے لیکن اگر ہمارے خواب بھی کمپوٹر سکرین پر ریکارڈ ہو جائیں تو سوچنے کی بات ہے یہ کتنی بڑی بات ہو گی۔خوابوں کے حوالے سے ڈاکٹر کاکو نے لینارڈو ڈی کیپریو کی فلم Inception پر بھی گفتگو کی ہے کہ جس میں ایک شخص دوسرے شخص کے خواب میں گھس کر وہاں اپنا آئیڈیا ڈالتا ہے۔ یہ گو کہ ایک فکشن ہے جس کا حقیقت میں موجود نہیں مگر یہ آئیڈیا از خود بتا رہا ہے کہ سائنسدانوں کی نظر اور ہدف کہاں تک ہے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر کاکو نے یہ بھی کہا کہ سائنسی ایجادات کے پیچھے مفروضات ہوتے ہیں جس میں کچھ غیر معمولی طور سے چیزوں کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ہوتی اور اس کو زمینی حقائق سے اٹھ کر دیکھا گیا ہوتا ہے۔یہ ایک نیا چیلنج ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے سائنس وٹیکنالوجی کوشش کرتی ہے۔ یہ خیالات ابھی تک مفروضے ہیں مگر ان کو حقیقت بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے اس میں کتنی کامیابی ہوتی ہے یہ بعد کی بات ہے۔

ڈاکٹر کاکو نے ایک اور اہم بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی سامنے آتی ہے تو وہ ایک طرف جہاں نئی نوکریاں پیدا کرتی ہے تو ساتھ ہی کئی صنعتوں کو ختم یا محدود بھی کر دیتی ہے۔ ہمارے سامنے موبائل فون کی مثال ہے کہ جس نے لینڈ لائن فونز کو محدود کر دیا تو سمارٹ فونز نے انٹرنیٹ کیفے کے کاروبار کو ختم کر دیا۔ انٹرنیٹ نے جرائد و اخبارات تک رسائی آسان بنا دی ہے۔ اب ہمارے اپنے ملک میں اخبارات نے اپنے سائز کو کم کیا ہے اور اپنے میگزینز کو آن لائن کرنا شروع کردیا ہے۔

میموری ڈاؤن لوڈ کے حوالے سے ایک اور بات جس کی طرف کاکو نے توجہ دلائی ہے کہ اگر کمپوٹر فائلز کی طرح انسانی میموری بھی ڈاؤن لوڈ ہو جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً ہر انسان کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں تو جہاں کسی کی خوشگوار یادیں محفوظ ہوں گی تو اس کی تکالیف اور مصائب کا ریکارڈ بھی محفوظ ہو گا۔ یہ ایک تکلیف دہ عمل ہوگا اور ایک انسان جن چیزوں کو بھول چکا ہو یا بھولنا چاہتا ہو وہ اس کے سامنے موجود ہوں گی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی رازداری کا مسئلہ بھی کھڑا ہو گا اگر ایک انسان اپنی کچھ یادیں اپنے تک محدود رکھنا چاہتا ہے تو اس کو کیسے روک کر ممکن بنایا جا سکے گا کہ اس کا وہ حصہ اس تک محفوظ رہے اور سامنے نہ آئے۔ پھر یہاں پر ایک اور اخلاقی سوال جنم لے گا کہ کسی کی زندگی سے تلخیوں کو نکال کر اس کی زندگی کا درست مطالعہ ممکن ہو سکتا ہے۔ کسی نے کامیابی کے حصول کے لیے جو ناکامیوں کا سامنا کیا ہو اور اپنی نااہلی کے باعث کامیابی کو جلد حاصل نہ کر سکا ہو ان کو چھپانے سے اس کی شخصیت کو رول ماڈل بنایا جا سکتا ہے.

ڈاکٹر کاکو نے یہ بھی بتایا ہے کہ نیورو سائنس کا ایک اور ہدف ذہانت کو منتقل کرنا بھی ہے۔ مطلب ایسی ڈیوائسز کا قیام جس سے ذہین افراد کی ذہانت سے کند ذہن اور اوسط ذہن کے لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔ یہاں بھی ڈاکٹر کاکو نے ایک خدشے کا اظہار کہ اگر ذہانت کی منتقلی کی یہ ڈیوائس اگر کسی مجرمانہ ذہنیت کے فرد کے ہاتھوں لگ جائے یا کوئی مجرمانہ ذہنیت والا اپنی ذہینت کو کسی بے گناہ میں منتقل کر دے تو اس پر سماجی فیبرک کتنا ڈسٹرب ہو سکتا ہے اور یہ گھمبیر مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔
اس ذہانت کے حصول کی ٹیکنالوجی کی بابت ڈاکٹر کاکو نے ایک اور سوال بھی اٹھایا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بہت مہنگی ہوگی اور اس تک رسائی صرف امیروں کو حاصل ہو گی۔ امیروں کی پہنچ کی وجہ سے یہ ٹیکنالوجی طبقاتی تقسیم کو مزید گہرا کر دے گی یوں امیر اور غریب کا فرق مزید بڑھ جائے گا اور معاشرتی زوال جنم لے گا۔ اس پر ڈاکٹر کاکو نے یہ کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ نئی ٹیکنالوجی پہلے بہت مہنگی ہوتی ہے اور وہ فقط مراعات یافتہ طبقے کی دسترس میں ہوتی ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ سستی ہوتی اور اس سے نچلا طبقہ بھی مستفید ہوتا ہے۔ اس لیے طبقاتی تقسیم کا یہ فرق جلد مٹ جائے گا۔ ڈاکٹر کاکو کی بات ہے کہ وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی نچلے طبقے کی دسترس میں آ جاتی ہے لیکن اس سے جو طبقاتی تقسیم جنم لیتی ہے اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ آج موبائل فون تقریباً ہر کوئی افورڈ کر سکتا ہے لیکن سمارٹ فونز اور آئی فونز کی جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اب بھی دولت مند لوگوں کو جلد معلومات مل جاتی ہے اور وہ نئی ٹیکنالوجی سے مستفید ہوتے ہیں جن کے فنکشنز کم قیمت موبائل میں نہیں ہوتے۔ پھر جب تک یہ ٹیکنالوجی فقط دولت مند طبقے کی دسترس میں ہوتی ہے اس کے سستا ہونے تک وہ بہت آگے جا چکے ہوتے ہیں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کو حل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہم کسی کو بھی کوئی چیز خریدنے سے روک نہیں سکتے کہ جب تک وہ سب کو دستیاب ہو۔ یہ مواقع ہمیشہ سے سب کے لیے یکساں نہیں ہوتے اور آگے بھی یہ ہی ہوگا اور یہ تقسیم بھی عقلی طور پر کوئی غلط معلوم نہیں ہوتی ۔ البتہ اس کے بعد کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے کہ اس تقسیم کی بنیاد پر امیر طبقہ غریب کا استحصال نہ کرے۔ سرمایہ دارانہ نظام اس کو فی الحال حل کرنے میں کامیاب تو نہیں ہو سکا لیکن یہ ناممکن ہرگز نہیں.

ایک اور اہم بات جس کی طرف ڈاکٹر کاکو نے توجہ دلائی ہے وہ نیورو سائنس اور بائیو ٹیکنالوجی کے تحقیقاتی لیبارٹریز کی حفاظت ہے۔ ماضی میں جیسے نیوکلیئر پلانٹس میں حادثات کے نتیجے میں ان کی تباہ کاریاں پھیلی ہیں اس کے بعد ایسی لیبارٹریز کی حفاظت اور وہاں پر حادثات سے بچاؤ کے لیے سخت سے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر کاکو نے ۱۹۸۶ میں یوکرائن میں ہونے والے چرنوبل پلانٹ کے حادثے کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور کئی لوگ جانوں سے گئے۔ وہاں ابھی نیوکلیائی اثرات موجود ہیں ۔ ایسے ہی ڈیپ واٹر ہاریزن کا واقعہ جس سے کچھ لوگ جان سے گئے تو ساتھ ہی اس سے بدترین فضائی آلودگی پھیلی جس نے بالخصوص سمندری حیات کو نقصان پہنچایا. اس کے ساتھ کئی صنعتیں جن کا سمندر پر انحصار تھا ان کو بھی نقصان پہنچا۔ اس لیے ایسے قدرتی آفات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان لیبارٹریز کی تعمیر کرنی چاہیے تاکہ ایسے کسی حادثے کی صورت میں انسانی جان کو بھی بچایا جا سکے اور اس کے دیگر اثرات کو بھی کم سے کم کیا جا سکے۔ بائیو ٹیکنالوجی کی بابت ڈاکٹر کاکو نے یہ بتایا ہے کہ اس کے جہاں کثیر فوائد ہیں تو اس کے ساتھ یہ رسک اب بھی موجود ہے کہ یہ کسی بڑی وباء یا کسی اور حادثہ کا سبب بن سکتی ہے۔ بائیو انجینئرز جراثیم کے فرار کا خدشہ دراصل بل جوائے جو کہ سن کمپوٹرز کے بانیوں میں سے ہیں نے پیش کیا۔ ڈاکٹر کاکو نے اس خطرے اور اس کی تباہی تسلیم کیا ہے۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر کاکو نے مائنڈ کنٹرولنگ ، برین واشنگ اور ہائیپر ریلجسٹی کے اوپر بھی گفتگو کی ہے۔ دماغ کو کنٹرول کرنے اور برین واشنگ کی ٹیکنالوجی کا استعمال سرد جنگ میں امریکہ اور روس کی جانب سے ہوا۔ ایسے ہی اب بھی انٹلیجنس وار فیر کی یہ بنیادی چیزیں ہیں اور اکثر حریف ممالک اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اب کیونکہ پروپیگنڈا وار فئیر کا استعمال اور زیادہ ہو رہا ہے تو اس سلسلے میں حکومتیں بھی خصوصی توجہ دیتی ہیں تاکہ وہ بہتر سے بہتر انداز میں حریفوں کا مقابلہ کر سکیں۔
پاکستان میں بھی ففتھ جنریشن وار کا بہت سنا ہے اور کئی پڑھے لکھے لوگوں نے اپنے ادارے کی محبت میں اس کو باخوبی لڑا ہے۔ اب ہمارے اداروں کی اپنی تکلیف بھی یہی ہے کہ یہ ففتھ جنریشن وارئیرز اب ان سے بدظن ہو گئے ہیں اور اب ان کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کو ناصرف بے نقاب کرتے ہیں بلکہ ساتھ ان کے مغالطوں کو ان کی جڑ سے پکڑتے ہیں۔

ڈاکٹر کاکو نے شیزوفرنیا کے بارے میں لکھا ہے اس کے ساتھ ہیلوسی نیشن Huliucinaction کی بابت لکھا ہے جس میں انسان ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو کہ ساتھ بیٹھے بندے کو نظر نہیں آتی۔ ان چیزوں کا وجود فقط اس شخص کے خیال میں ہوتا ہے وہ ان سے باتیں کرتا ہے۔ یہ مرض بالخصوص ان لوگوں میں جو شدید مذہبی ذہینت کے حامل ہوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کو hyper religiosity بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنے نظریات میں بہت شدید ہوتے ہیں اور یہ ان کی خاطر کسی کی جان حتی کہ وہ ان کا اپنا عزیز ہی کیوں نہ ہو کو لینے سے نہیں چوکتے۔ یہ ہائپر ریلجسٹی بھی ایک مرض ہے۔
ملحد کا یہ ہی خیال ہوتا ہے جو انبیاء علیہم السلام پر وحی آتی ہے اور وہ فرشتوں کو دیکھتے ہیں تو یہ بھی ہولوسی نیشن ہے۔ ایسے ہی دیگر مذہبی طبقات بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ظاہر بات ہے انبیاء علیہم السلام کی بابت تو یہ بات کسی صورت نہیں مانی جا سکتی۔ وہ یقیناً فرشتوں کو اور باقی ایسی چیزوں کو دیکھتے ہیں جو عام انسانوں کے لئے visible نہ ہوں۔ البتہ دیگر لوگ اس مغالطے کا شکار ہو سکتے ہیں اور بیشتر مذہبی انتہا پسندوں کا رویہ اس کا عکاس ہے۔ کسی کا مذہب پسند ہونا الگ بات ہے لیکن مذہب کے ہیضے میں مبتلا بہت سے لوگ اپنا توازن قائم نہیں رکھ پاتے وہ religious کی بجائے Hyper Religious بن جاتے ہیں۔ ایسے طبقات تقریباً ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں۔ اور یہ ہائپر ریلجیس لوگ دنیا کے امن کے لیے ہمیشہ خطرے رہے ہیں۔ مسلمانوں میں خارجیت اس کی ایک بڑی مثال ہے ایسے صیلیبیوں ، صہیونیت اور ہندوتوا کے پیروکاروں کو دیکھا جائے تو ہمیں یہی صورتحال نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر کاکو نے منشیات کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ منشیات کس طرح دماغی صحت کو کمزور کرتی ہیں۔
روبوٹس اور روبوٹک ٹیکنالوجی پر ڈاکٹر کاکو نے کافی تفصیل سے لکھا ہے اور یہ خطرہ کہ روبوٹس انسانوں کو replace کریں گے پر کافی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر کاکو نے بتایا ہے کہ یہاں بھی معاملہ دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔ اگر روبوٹس کو ہم اپنی معاونت کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے بہت فائدے کے حامل ہو سکتے ہیں لیکن ربوٹس کا غلط استعمال بالخصوص ان کا جنگی استعمال بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایسے جیسے ایک مذہبی انسان اور ملحد آپس میں بحث کرتے ہیں تو ایک مذہبی روبوٹ اور ملحد روبوٹ کا مباحثہ زیادہ دلچسپ بھی ہو سکتا اور تباہ کن بھی۔ روبوٹس اور کمپوٹرز کے بارے میں ایک اور بہت اہم بات ڈاکٹر کاکو نے یہ کی ہے کہ اگر یہ انسانوں سے کوئی کھیل جیت بھی لیں تو یہ جیت کی وہ خوشی انجوائے نہیں کر سکتے جو انسان اپنی فتح پر کرتا ہے۔ یہ احساسات سے عاری ہوتے ہیں ان کے لیے ہارنا اور جتینا برابر ہے۔

نیورو سائنس میں ایک اور شعبہ جس پر تحقیق جاری ہے وہ دماغ کی ریورس انجینئرنگ ہے۔ اگر اس میں سائنسدانوں کو خاطر خواہ کامیابی ملتی ہے تو اس کے نتیجے میں الزیمر، شیزوفرنیا ، مرگی ، بائی پولر ڈس آرڈر اور ڈیمنشیا جیسی بیماریوں کی تشخیص اور ان کا علاج ممکن ہو سکتا ہے۔

آخر میں ڈاکٹر کاکو نے انسان کے غیر مادی وجود کی بات کی ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی سے انسان اپنی جسمانی قید سے آزاد ہو کر دنیا میں رہے اور اس سے کائنات کی دیگر مخلوقات اور تہذیب کے ساتھ اس کا واسطہ پڑ سکتا ہے۔ بالفرض انسان جسم سے آزاد ہو کر زندہ رہنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور پھر اس کا واسطہ ایک ایسی تہذیب سے پڑتا ہے جو اس سے زیادہ ترقی یافتہ ہو اور وہ اس کے لیے خطرات کا باعث ہو تو پھر انسان کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ اس کی کیا ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اس پر میں یہی عرض کروں گا کہ جسم کے بغیر انسانی زندگی کا امکان تقریباً ناممکن ہے لیکن اس سے کسی حد تک ملتی جلتی صورت اگر سامنے آ جائے تو اس کی شکل کیسی ہو گی۔ یہ صورتحال بعید از قیاس ہے

ڈاکٹر کاکو کی یہ کتاب کافی دلچسپ ہے۔ اس میں بہت سی تکنیکی مباحث کو میں نے چھوڑا ہے کیونکہ میں سائنس کا طالب علم نہیں ہوں اور ان کے بنیادی تصورات سے بھی واقفیت نہیں ہے۔ دماغ کی پیچیدگیوں میں سے کچھ تو سامنے آ چکی اور بہت سی باتوں پر ابھی تک تحقیق جاری ہے۔ دماغ کا یہ مطالعہ اور اس کی حیرت انگیز نتائج ایک خالق کا پتہ دیتے ہیں کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقات کا نتیجہ ہو اور بغیر کسی ذہین ڈیزائینر کے وجود میں آئے۔ ڈاکٹر کاکو نے مستقبل کا ایک نقشہ کھینچنے کی کوشش کی ہے اب اس میں کتنا سامنے آتا ہے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ بات کتاب کی افادیت کو بڑھاتی ہے۔ کیونکہ اس کتاب میں جس جس ٹیکنالوجی کے امکان کی بات کی گئی ہے اس کی ادنی شکل بھی سامنے آئے تو اس کتاب کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ کتاب مصنف کے زرخیز ذہن کا بھی پتہ دیتی ہے کہ تخیلات کی دنیا میں کیسے کسیے امکانات اس نے سوچ رکھے ہیں۔ ساتھ ہی یہ کتاب بتاتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں کس قسم کی مباحث جنم لی رہی ہیں اور اس کے مقابلے میں ہمارے جیسے ممالک کے سائنس دان اور اہل فکر کی کیا سوچ ہے۔ سوچ کا یہ فرق مزید گہرا ہو رہا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ ممالک یا تہذیبیں نہیں بلکہ دو الگ الگ دنیاؤں کی بات ہے۔ ڈاکٹر کاکو نے جہاں ایجادات کی بات کی ہے تو اس کے ساتھ ان کی وجہ سے رونما ہونے والی سماجی اور قانونی تبدیلیوں پر بھی بات کی ہے جو یہ بتاتی ہیں کہ ان کی نظر فقط ایجادات پر نہیں بلکہ معاشرے پر بھی ہے۔ وہ سماجی حوالے سے بھی حساس ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے تصویر کے دونوں رخ بھی پیش کیے ہیں جہاں ٹیکنالوجی کے فوائد گنوائے ہیں تو ان کے نقصانات کا بھی ذکر کیا ہے تاکہ اس کو قبول کرتے ہوئے یہ چیز بھی سامنے ہو اور ان کا تدارک کرنے کی کوشش بھی کی جائے۔ میں نے اردو کتاب پہلے شروع کی تو بعد میں انگریزی کتاب ڈاؤنلوڈ کی۔ میں نے کچھ جگہ انگریزی کتاب سے استفادہ کیا ہے لیکن مستقل کتاب ترجمہ والی ہی پڑھی ہے۔ تاج بہادر تاج صاحب نے اچھا ترجمہ کیا ہے اور جب سائنس پر آپ کی گرپ نہ ہو تو اردو ترجمہ بات کو سمجھنے کے زیادہ بہتر ہے ورنہ کتاب اصل میں جس زبان میں لکھی جائے ترجمہ اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔

 

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں