Home » مخلوقات کے بغیر خدا کی خالقیت : اقسامِ افعال کے تحت جائزہ
تفسیر وحدیث فلسفہ کلام

مخلوقات کے بغیر خدا کی خالقیت : اقسامِ افعال کے تحت جائزہ

قرآن مجید میں یہ مضمون بکثرت آیا ہے کہ: “جب اللہ تعالی کسی شے کا ارادہ فرماتے ہیں، تو اسے کہتے ہیں ہو اور وہ ہو جاتا ہے”

چونکہ انسانوں نے خدا کا خطاب ان ہی کی زبان میں ہوتا ہے جس کو وہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے، الوہی مفاہیم کو بیان کرنے کے لیے انہیں الفاظ وتعبیرات کا انتخاب کیا جا تا ہے جو ان کی زبان میں ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ تنزیہ کی چادر بھی اڑا دی جاتی ہے تاکہ جب یہ الفاظ جو انسانوں کے لیے برتے جاتے ہیں، رب کے لیے استعمال ہوں تو لوگ رب کوانسانوں کے ساتھ ذات یا صفات یا افعال میں شریک نہ کرنے لگیں۔

چنانچہ تفاسیر میں عام طور سے، یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ قرآن میں امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو ہمیشہ کسی سمجھ رکھنے والے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان آیات میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ “اس شے سے فرماتے ہیں”، تو اس سے کون یا کیا مراد ہے؟

۱: اگر وہ حالت وجود میں مراد ہے، تو یہ تحصیل حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک موجود شے کو وجود میں آنے کا کہنا کوئی معنے نہیں رکھتا۔

۲: اور اگر حالت عدم مراد ہے، تو ایک معدوم شے سے خطاب ناممکن ہے۔

امام رازی اس بات کے حوالے سے فرماتے ہیں:

«الحجة الثانية: أنه تعالى إما أن يخاطب المخلوق بكن قبل دخوله في الوجود أو حال دخوله في الوجود، والأول: باطل لأن خطاب المعدوم حال عدمه سفه، والثاني: أيضا باطل لأنه يرجع حاصله إلى أنه تعالى أمر الموجود بأن يصير موجودا وذلك أيضا لا فائدة فيه»«تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير» (4/ 26)

یہ سوال اٹھانے اور اس کا تجزیہ کرنے کے بعد، مفسرین ومتکلمین واضح کرتے ہیں کہ قرآن میں خطاب ، کلامی نقطہ نگاہ سے، دو طرح کا ہے: خطاب تکوین اور خطاب تشریع۔

۱:خطاب تکوین دراصل کسی شے کو عدم سے وجود میں لانے کی تعبیر کا ایک طریقہ ہے اور بس۔ یہاں باقاعدہ کسی چیز کو کوئی حکم نہیں دیا جاتا۔اور یہ بشری معنے میں خطاب نہیں ہوتا۔بلکہ پردہ غیب میں اللہ تعالی کے ارادے سے جب کوئی چیز وجود میں آتی ہے، تو اس کا اظہار اس طرح کر دیاجاتا ہے۔اسی حوالے سے امام رازی فرماتے ہیں:

«الأول: وهو الأقوى أن المراد من هذه الكلمة سرعة نفاذ قدرة الله في ‌تكوين الأشياء، وأنه تعالى يخلق الأشياء لا بفكرة ومعاناة وتجربة ونظيره قوله تعالى عند وصف خلق السموات والأرض: فقال لها وللأرض ائتيا طوعا أو كرها قالتا أتينا طائعين [فصلت: 11] من غير قول كان منهما لكن على سبيل سرعة نفاذ قدرته في تكوينهما من غير ممانعة ومدافعة»«تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير» (4/ 26)

۲: اس کے برعکس، خطاب تشریع ہمیشہ کسی عقل وشعور رکھنے والے کے لیے ہوتا ہے۔ اور اس میں، کسی باشعور وباعقل سے بات کی جاتی ہے۔
اب آپ غور کیجیے کہ جو بعض لوگ سوال اٹھارہے ہیں کہ:“جب کائنات نہیں تھی، تو خدا بطور علت کس شے پر اثر انداز ہو سکے اور تاثیر پیدا کرے”،اس سے زیادہ معنی خیز سوال مسلمانوں کی علمی روایت نے اٹھایا ہےاور اس سوال کے جواب میں اس سوال کے جواب کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا۔

“خدا کا کس شے پر اثر انداز ہو نا”دراصل ہماری زبانی کی کوتاہ دامنی ہے جس کی وجہ سے انسانی “وہم”(واضح رہے کہ سوال انسانی “وہم” کی کارستانی ہے،”عقل” کی نہیں۔)چشم تصور میں دیکھتا ہے کہ کوئی “شے” موجود ہے اور اس پر اثر ڈل رہا ہے۔ مثلا ہم کہتے کہ: “میں نے کتاب کا مطالعہ کیا”، تو یہاں “مطالعہ کرنے” کا فعل “کتاب” سے اسی وقت متعلق ہو سکتا ہے جب مطالعہ شروع ہونے سے پہلے یا بالکل اس وقت “کتاب” موجود ہو۔ ورنہ مطالعہ نہیں ہو سکتا۔ بالفاظ دگر، یہاں فعل خود مفعول کا محتاج ہے۔

لیکن ایک دوسری مثال لیجیے: “بڑھئی نے کرسی ایجاد کی”۔ یہاں دو پہلو ہیں:

۱: کرسی “ایجاد” سے پہلے موجود نہیں، بلکہ وہ “ایجاد” کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔

۲: تاہم چونکہ انسان کسی چیز کو عدم سے وجود میں نہیں لا سکتا۔ اس لیے، یہاں ایجاد کا عمل “لکڑی” سے وابستہ ہوا۔ (اب جس ذات کی بابت آپ یہ مان لیں کہ وہ عدم سے وجود میں لا سکتی ہے، اس کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں ہو گی۔)

اس دوسری مثال سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم اپنی تعبیر میں جب کسی فعل کو کسی شے (آبجیکٹ)سے وابستہ قرار دیتے ہیں، تو وہ دو طرح سے ہوتا ہے:

۱: بعض اوقات وہ پہلے سے موجود ہوتاہے جیسے کتاب پڑھنا، پانی پینا، شعر کہنا، قرآن کی تلاوت کرنا وغیرہ۔

۲: لیکن بعض اوقات وہ شے ہمارے فعل کے نتیجے میں وجود میں آتی ہےجیسےپودا اگانا، اولاد کو جنم دینا،کھانا پکانا وغیرہ۔

پہلی قسم کے افعال کی بابت بلاشبہ یہ سوال درست ہے کہ وہ شے(مفعول) جس سے ہمارا فعل وابستہ ہوا وہ بوقت فعل کہاں تھالیکن اس دوسرے قسم کے فعل کے حوالے سے یہ سوال بالکل درست نہیں کیونکہ وہ چیز اس فعل ہی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔

فلسفہ لسان ، نظریہ کلام وخطاب اور “انشا”:

انسان افعال میں سے کلام بذات خود ایک اہم عمل ہے۔ آئیے زیر گفتگو معاملے کو زبان شناسی وفلسفہ زبان کی ذیلی بحث “نظریہ کلام وخطاب”(Speech act theory) کے تناظر میں سمجھتے ہیں۔ کلام میں عام طورسے کلام کو مختلف طرح سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس میں سے ایک قسم جو ہماری گفتگو سے متعلق ہے اسے “انشا” (Performative Utterance)کہا جاتا ہے۔ کلام بعض اوقات کسی ایسی چیز سے خبر دیتا ہے جو پہلے سے موجود ہو۔ لیکن بعض اوقات ہمارا کلام ایک “موجد ” کا کام کرتا ہےاور کسی حقیقت کو وجود بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے سچ جھوٹ سے موسوم نہیں کیا جاتا۔ اس کی مثالیں دیکھیے:

۱: نکاح میں جب ایجاب وقبول کا اظہار دراصل ایک سنبھند کو وجود بخشتا ہے۔

۲: کسی ادارے کا مالک جب کسی سے کہتا ہےکہ: “میں تمہیں ملازمت پر رکھتا ہوں”یا “تمہیں ملازمت سے بر طرف کرتا ہوں”تو اس کا یہ اظہار دراصل دو امور کو جنم دیتا ہے جو اس کلام سے پہلے موجود نہیں ہوتے بلکہ اس کلام کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

۳: ہمارے خرید وفروخت کےمعاہدے اسی قبیل سے ہیں۔

سٹینفرڈ کے مشہور دائرۃ المعارف کے متعلقہ مقالے میں یہ بحث تفصیل سے دیکھی جا سکتی ہے۔ اس میں سے صرف یہ عنوان اور جملہ میں یہاں نقل کرنا چاہوں گا۔

2.2 Can Saying Make it So?
In some cases we can make something the case by saying that it is.

جو لوگ اسلامی روایت سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں خبر وانشا کے تحت یہ بحث بہت تفصیل سے ہوئی ہے۔اور اس طرح کے اعتراض سے ان مباحث کی اہمیت بھی خوب واضح ہوتی ہے کہ ہمارے متکلمین، فقہا واہل تفسیر اور نحوی حضرات نے ان دقیق بحثوں میں اپنا وقت بے سود نہیں کھپایا۔ نیز یہ سب زندہ بحثیں ہیں۔

فعل ومفعول کا ربط:

اس سے اندازہ ہوا کہ افعال اور اشیا وامور کا ربط دو طرح سے ہوتا ہے:

۱: اشیا موجود ہوتی ہیں اور افعال ان سے وابستہ ہوتے ہیں۔

۲: افعال کے نتیجے میں اشیا وامور وجود کی پوشاک زیب تن کرتے ہیں۔

اب اگر کوئی یہ کہے کہ ہر فعل کے لیے ضروری ہے کہ جس سے وہ وابستہ ہو رہا ہے وہ اس فعل سے پہلے موجود ہو، تو یہ ایسا دعوی ہے جو لسانیات کے بلکہ ابتدائی تجزیے ہی سے غیر ہم آہنگ ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ جو بات مسلمانوں کی علمی روایت کئی صدیوں پہلے حل کر چکی اور جدید فلسفہ لسانیات بھی اس پر سیر حاصل گفتگو کر چکا، ہمارے ہاں ابھی بھی ان سوالات کو ایسے اٹھایا جاتا ہے جیسا کہ یہ کچھ نیا ہو۔

دوسری بات یہ غور کیجیے کہ “علت کو معلول اور معلول کو علت کہنے والی بات ” بالکل بے سروپا ہے۔تاہم بظاہر لگتا ہے کہ جب یہ با ت کہی گئی تو کہنے والے صاحب فکری ژولیدگی کا شکار تھے جس کے وجہ سے وہ درست تعبیر نہ کر سکے کیونکہ علت ومعلول دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے علت ہوں، یہ بدیہی طور سے غلط ہے۔ تاہم شاید کہنا والے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مفعول فعل کی علت ہوتی ہے۔ اور یہ بات اگر درست ہے، تو پہلے قسم کے فعل کی بابت درست ہو سکتی ہے کہ “مطالعہ کرنے ” کا فعل “کتاب” کا محتاج ہے لیکن دوسرے قسم کےفعل کی بابت درست نہیں ہو سکتی کہ کرسی بڑھئی کے فعل کی محتاج ہے لیکن بڑھئی کا فعل کرسی کا محتاج نہیں۔

آمدم بر سر مطلب:

اب دیکھیے کہ اللہ رب العزت کی صفت قدرت جب کسی شے سے وابستہ ہوتی ہے، تو یہ فعل دوسری قسم سے ہے جس میں فعل کے نتیجے میں اس کا مفعول وجود میں آتا ہے۔ اسی فعل ومفعول کو علت ومعلوم کہا جاتا ہے۔ اس لیے، اس پر یہ سوال اٹھانا کہ : ” جب کائنات نہیں تھی، تو خدا بطور علت کس شے پر اثر انداز ہو سکے اور تاثیر پیدا کرے “نہ صرف یہ کہ عقلی بدیہیات کے خلاف ہے بلکہ انسانی استعمال زبان سے بھی ہم آہنگ نہیں۔

والله الهادي إلى الحق!

مشرف بیگ اشرف

مولانا مشرف بیگ اشرف روایتی دینی علوم کے استاذ ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے فلسفہ وعقیدہ میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔

m.mushrraf@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں