استعماری دور میں ہماری جو تہذیبی تشکیلات انقطاع کا شکار ہوئیں، ان میں ایک بہت اہم تشکیل اہل علم کے انفرادی تدریسی حلقے تھے۔ دار العلوم دیوبند کے بانیوں کے ذہن میں شاید ابتداءً ایسا ہی کوئی تصور تھا، لیکن جلد ہی یہ جدید مدرسے میں ڈھل گیا جس کا انداز ایک بڑی فیکٹری کا سا ہوتا ہے جس میں کام کی تقسیم کے لیے مختلف سسٹم بنا کر بڑے پیمانے پر پیداوار کا انتظام کیا جاتا ہے۔ مذہبی علم اور مذہبی اخلاق وکردار سے جڑے ہوئے ہمارے بیشتر مسائل کی بنیاد میں مدرسے کے ادارے کا یہی تاریخی تحول ہے۔
خوش قسمتی سے یہ تصور بالکل فراموش نہیں ہو گیا۔ اب بھی محدود سطح پر اس کے نمونے موجود ہیں۔ ہمارے بعض نمایاں اہل علم مثلاً مولانا مودودی نے کسی مدرسے سے تحصیل علم کے بجائے اسی طریقے سے دینی علوم کی مہارت حاصل کی ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی اسی انداز سے گنتی کے سہی، کچھ اہل علم تیار کیے۔ غامدی صاحب کے تلامذہ کی پہلی نسل بھی بڑی حد تک اسی طریقے سے فیض یاب ہوئی ہے۔ اہل تشیع کی روایت میں تو اس کو ایک باقاعدہ نظام کے طور پر زندہ رکھا گیا ہے۔ قم اور نجف کے حوزے اور درس خارج کا نظام اس کی عمدہ تصویر پیش کرتا ہے۔ ہمارے ہاں بعض مدارس میں بھی افتاء کی سطح پر کہیں کہیں اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
ایسا نہیں کہ یہ کوئی ازکار رفتہ طریقہ ہے۔ مغربی جامعات میں بھی پی ایچ ڈی اسکالرز اسی طریقے کے تحت کسی ایک پروفیسر کے ساتھ کئی سال کے لیے وابستہ ہو کر علم وتحقیق کی تربیت بہم پہنچاتے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں کے پی ایچ ڈی جیسا نہیں ہوتا جس میں سپروائزر کو اسکالر کے تتبع میں رہنا پڑتا ہے کہ وہ ملاقات کر کے سیکھ نہیں سکتا تو کچھ سکھا ہی دے۔ اگر ہم نئی سماجی تشکیلات کی بات کر رہے ہیں تو یہ چیز ترجیحات میں سرفہرست ہونی چاہیے کہ بڑے اہل علم کے لیے اس طرح کے انفرادی حلقوں کے نظام کو موثر انداز میں بحال کیا جائے۔ اس کی مختلف شکلیں ممکن ہیں جو قابل عمل ہیں۔ صرف اس کی اہمیت کو سمجھنے اور پیش رفت کے لیے ارادہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام معاشرے کے دین دار اہل ثروت بھی کر سکتے ہیں، حکومتی وسائل میں بھی اس کام کے لیے تخصیص کی جا سکتی ہے اور خود مدارس کو جتنے وسیع وسائل اب دستیاب ہیں جن کا رخ زیادہ تر mass production کی طرف ہے، ان سے بھی اس کا بندوبست بآسانی کیا جا سکتا ہے۔
کمنت کیجے