عمران خان موجودہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا نام ہے۔ کرکٹ کے میدان میں تو عمران خان ایک ہیرو تو تھے مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھی وہ ایک لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں بالخصوص موجودہ اور نوجوانوں میں وہ سب سے مقبول شخصیت ہیں۔ میرے سمیت ایک بڑی تعداد میں سیاسی میدان میں بھی ان کے مداح ہیں۔ عمران خان نے Pakistan: A personal history کے نام سے کتاب لکھی۔ اس کا اردو ترجمہ ہارون الرشید صاحب نے “میں اور میرا پاکستان” کے نام سے کیا ہے۔ جس کو جہانگیر بکس نے شائع کیا ہے.
کتاب کے آغاز سے پہلے مترجم ہارون الرشید نے کتاب اور عمران خان کے بارے میں ایک تحریر لکھی ہے۔ عمران خان اور ہارون الرشید کے تعلقات کافی پرانے ہیں ۔ اس لحاظ سے ہارون الرشید نے اپنے تجربات ،مشاہدات اور تجزیہ کو بیان کیا ہے۔ انہوں عمران خان کی سادگی ، ایمانداری ، سچائی کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ عمران خان جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہے اس کو کبھی ادھورا نہیں چھوڑتا۔ ہارون الرشید کہتے ہیں کہ انہوں نے ۱۹۸۳ میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس خیال کا اظہار کیا کہ عمران خان سیاست میں آئے گا حالانکہ اس وقت عمران خان کے اپنے ذہن میں دور دور تک سیاست میں آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ہارون الرشید نے عمران خان کی پروفیسر احمد رفیق اختر کے ساتھ ملاقاتوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ دونوں کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے لیکن ہارون صاحب کہتے ہیں کہ عمران خان پروفیسر صاحب کا شاگرد نہیں ہے۔ عمران خان علامہ اقبال ، میاں بشیر اور اپنی والدہ سے بہت متاثر ہے اور ان ہی کا شاگرد ہے۔ سیاست کے میدان میں وہ ڈاکٹر مہاتیر محمد سے متاثر ہیں۔ڈاکٹر مہاتیر محمد عمران خان کی دعوت پر جب پاکستان آئے تو ان دنوں تحریک انصاف کی مالی حالت اچھی نہیں تھی۔ ان کے لیے دو دن کرائے کے لیے ہوائی جہاز کا انتظام کیا گیا اور اس کے لیے انہیں تیس لاکھ روپے قرض لینا پڑا۔ پھر اس کانفرنس میں باقی سیاسی قیادت کو بھی انہوں نے دعوت دی اور وہ بھی شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین شریک ہوئے جبکہ میزبانی کے فرائض طلعت حسین کو سونپے گئے ۔
عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب یہ کپتان بنے تو انہوں نے ماجد خان کو ٹیم سے باہر کر دیا۔ ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ دراصل ماجد خان کی کارکردگی کا مسئلہ تھا ان کی یکسوئی ختم ہو رہی تھی، یہ عمران خان کا امتحان تھا اس نے ایک مشکل مگر درست فیصلہ لیا جس کی اس کو بھاری قیمت بھی چکانا پڑی۔ ماجد خان ان سے کافی عرصہ ناراض رہے۔
عمران خان کی خوش خوراکی کے بارے میں ہارون الرشید صاحب نے لکھا ہے کہ ان کے گھر میں پلنے والے دیسی مرغ جب اڑھائی کلو کے ہو جائیں تب ذبح کیے جاتے ہیں۔
ہارون الرشید نے وضاحت کی ہے کہ کتاب کے ترجمے میں اس کا اسلوب کچھ کچھ بدلا ہے ہے۔ ہارون صاحب نے اس کام میں دیگر معاونین کا بھی ذکر کیا ہے جن میں ان کے بیٹے بلال نے ٹائپنگ کی ذمہ داری لی اس کے علاوہ رانا محبوب اختر ، عامر ہاشم خاکوانی اور میاں محمد خالد حسین نے اصلاح کا کام کیا جبکہ مجیب الرحمٰن شامی اور ڈاکٹر خورشید رضوی نے بھی تعاون کیا۔
عمران خان نے اس کتاب کو گیارہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ ابتدائیہ اس کے علاوہ ہے۔ ابتدائیہ میں عمران خان نے ۲۰۰۷ میں پنجاب یونیورسٹی میں اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کے احوال کا ذکر کیا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے لوگوں نے کس طرح پولیس کے حوالے کیا، وہ نومبر ۲۰۰۷ میں لگائی مشرف کی ایمرجنسی کے خلاف رائے عامہ ہموار کر رہے تھے۔ بالخصوص طلباء میں مشرف کے اقدام کے خلاف فضا قائم کر رہے تھے۔ عمران خان حکومت سے بچ رہے تھے اور یہ طے تھا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں احتجاج کے ساتھ گرفتاری دیں گے مگر اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے کہنے پر اسلامی جمعیت طلبہ نے ان پر تشدد کیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی آمریت کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہاں بدمعاشی کرنے کا ان کا پرانا ریکارڈ ہے۔ لیکن اس واقعے کے بعد جہاں اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد صاحب نے افسوس کا اظہار کیا، پنجاب یونیورسٹی کے اندر جمعیت کے تسلط کو ڈینٹ پڑا اور اس کی سفاکیت کی کھل کر مذمت ہوئی اور ان کا اثر و رسوخ پہلے سے کم ہوا.
عمران خان اس دور میں تقریباً آٹھ روز زنداں میں رہے وہ کہتے ہیں کہ جیل جا کر انہیں اندازہ ہوا کہ ملک کے اکثر مسائل قانون کی حکمرانی سے انکار ہے۔ اکثر لوگ بے گناہ جیل میں بند ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ خانصاحب نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں اس بارے میں کیا اصلاحات کیں؟ اس بارے میں میرے پاس جواب تو حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اب خانصاحب دوبارہ جیل میں ہیں اور میرا یقین ہے کہ وہ بے گناہ اور بے قصور ہیں ان کا جرم غلامی سے انکار ہے۔ اب ان کو زیادہ بہتر طور پر جیلوں کے حالات کا اندازہ ہو گا ساتھ ہی ملک کے عدالتی نظام میں جو مسائل ہیں ان کا بھی ان کو باخوبی ادراک ہو گیا ہو گا۔ خانصاحب نے کہا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں اور تجربات سے سیکھتے ہیں۔ امید ہے اپنی ساتھ بیتی اس ناانصافی اور قانون شکنی کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اس نظام میں اصلاحات کے لیے عملی اور موثر قدم اٹھائیں گے۔
عمران خان نے اپنے بچپن اور لڑکپن کے بارے میں آغاز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی پیدائش لاہور میں قیام پاکستان کے پانچ سال بعد ہوئی۔ عمران خان نے اپنی والدہ کا ذکر کثرت سے کیا اور پڑھنے والے کو بھی صاف نظر آتا ہے کہ شوکت خانم کا عمران خان کی شخصیت کو بنانے میں بہت اہم کردار ہے۔ عمران بتاتے ہیں کہ وہ کبھی اپنی ماں سے کوئی بات چھپا نہیں پائے، پھر وہ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے تو والدہ کے اور بھی زیادہ لاڈلے تھے۔ عمران بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ انہیں روز اسلامی قصے سناتیں۔ عمران خان بتاتے ہیں کہ ان کے والدین نے مذہب کی معاملے میں نرم خو اور کشادہ مزاج تھے انہوں نے کبھی نماز اور روزوں کے لیے سختی نہیں کی، وہ رب تعالیٰ کے رحمان اور رحیم ہونے کا اکثر ذکر کرتے ۔عمران خان کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلا روزہ نو برس کی عمر میں رکھا جس پر ان کے والدین نے ان کو تحفے دئیے۔ عمران خان کا ننھیال برکی خاندان ہے جس کا تعلق وزیرستان سے ہے جبکہ دھدیال سے وہ نیازی ہیں۔ عمران خان بتاتے ہیں کہ پہلے زمان پارک کے اردگرد زمینیں اور سبزہ تھا۔ وہ اپنے لڑکپن میں کبوتروں اور تیتروں کا شکار کرتے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ شہر پھیلنا شروع ہوا تو اس نے ماحول کو تبدیل کر دیا۔ آلودگیوں کے باعث یہاں سبزہ بھی ختم ہوتا گیا اور جنگلی حیات بھی یہاں نہ رہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عمران خان شروع سے حساس ہیں اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے جو درخت اگانے والے منصوبے بنائے یہ ان کی ماحول دوستی کا ثبوت تھا اور یہ ماحول دوستی کا یہ جذبہ ان کے اندر شروع سے تھا۔ اس کے ساتھ کئی جگہ انہوں نے شمالی علاقوں کی سیر اور ان کی خوبصورتی کا ذکر کیا ہے۔ اس بات کا ذکر وہ اپنے دور حکومت میں بھی کرتے رہے اور سیاحت کے فروغ کی بات کرتے رہے۔
عمران خان نے تقسیم ہند اور اس سے قبل کی تاریخ پر ایک اجمالی نظر ڈالی ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی خونریزی پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس کا شکار فقط مسلمان نہیں ہوئے بلکہ ہندو بھی ہوئے ہیں۔ پھر تقسیم کی یہ تلخیاں دونوں ممالک کے مابین اچھے تعلقات میں حائل ہو گئیں۔ عمران خان نے بہت درست بات کہی کہ بھارت کی جارحیت کی وجہ سے جب اس نے حیدرآباد اور جونا گڑھ پر قبضہ کیا تو اس کا نقصان پاکستان کو یہ ہوا کہ فوج کو حصہ اس کی ضرورت سے بڑھ کر دیا گیا اور وہ ریاست جس کا قیام اسلامی اقدار کو قائم کر کے ایک فلاحی ریاست کو ممکن بنانا تھا وہ اس سے دور ہو گیا۔ پھر تقسیم سے سب سے زیادہ افسوسناک واقعات پنجاب اور بنگال میں ہوئے جس کی تلخ یادیں قائم رہیں۔ عمران خان نے کتاب میں دو تین جگہ بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں ممالک کو براہ راست خود اپنے مسائل کو حل کرنا چاہیے ۔ ان کے درمیان اچھے تعلقات ہی دونوں ممالک اور خطے کے لیے فائدہ مند ہیں۔ عمران خان نے ۲۰۱۸ میں اپنی وکٹری سپیچ میں بھی بھارت کو دوستی کا پیغام بھیجا تھا اور امید بھی بنی تھی کہ ان کے دور میں حالات نارمل ہو جائیں گے مگر بدقسمتی سے سرد مہری برقرار رہی اور پھر پلوامہ کا واقعہ ہوا اس کے بعد بھارت کی مداخلت اور پھر پاکستان کا جوابی وار اس کے بعد مودی کا جیتنا اور کشمیر کے حالات کی وجہ سے یہ خواہش آگے نہ بڑھ سکی۔ عمران خان اب بہت بہتر انداز میں جان سکتے ہیں کہ حالات کو نارمل کرنے میں کیا کیا رکاوٹیں ہیں اور کس طرح ان کی ختم کر کے تعلقات میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اب دونوں ممالک کے مابین فرق بہت بڑھ چکا ہے اب اس صورتحال میں مسئلہ اور بھی گھمبیر ہو جاتا ہے کیونکہ اب برابری کی سطح پر تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے پاکستانی قیادت کو زیادہ حکمت اور تدبر سے کام لینا ہو گا ورنہ مجموعی طور پر غلبہ تو بھارت حاصل کر چکا ہے۔
عمران خان نے یہاں برطانوی استعمار اور غلامی پر بھی کھل کر تنقید کی ہے اور بتایا ہے کہ تقسیم استعمار نے جان بوجھ کر عجلت میں کی تاکہ دونوں اقوام میں مخاصمت قائم رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ برطانوی دور میں برصغیر کا معاشی استحصال تو ایک تاریخی حقیقت ہے جو کہ اس کا سب بڑا ظلم سمجھا جاتا ہے لیکن استعمار کا ہمارے ساتھ سب سے بڑا ظلم غلامانہ ذہنیت ہے۔ عمران خان نے غلامی کی زندگی کو موت سے بدتر کہا ہے اور بتایا ہے کہ اس ذہنیت نے ہماری عزت نفس مجروح کی ہے۔ عمران خان نے علامہ اقبال کا خصوصی ذکر کیا اور ان کے کلام میں جو آزادی اور خود داری کا پیغام ہے اس پر بہت عمدہ گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ اقبال کی شاعری نے ان کے دل میں اقبال کی قدر کا اضافہ کیا۔ وہ کہتے ہیں جیسے جیسے میری غلامانہ ذہنیت سے نفرت بڑھتی گئے میں اقبال سے متاثر ہوتا گیا۔ عمران خان اپنی والدہ کے علاوہ جس شخصیت سے بہت متاثر ہیں ان میں علامہ اقبال بھی ہیں اور اس کتاب میں ایک پورا باب انہوں نے اقبال کے اوپر لکھا ہے اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اقبال کو بہت گہرائی میں پڑھا ہے۔ اقبال کی خود داری ، حریت فکر ، اسلامی فکر کی تجدید اور اجتہاد کے حوالے سے ان کے افکار پر عمران خان نے بہت عمدہ گفتگو کی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بلکہ اس حوالے سے مترجم ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ اس چیز نے انہیں بھی حیران کیا اور باقی لوگوں نے ہارون صاحب سے پوچھا کہ یہ باب عمران نے خود لکھا ہے تو ہارون الرشید نے جواب دیا کہ اگر مدد لینا ہوتی تو وہ میرے سے ضرور مدد لیتے۔ عمران خان نے بتایا ہے کہ پاکستان میں علامہ اقبال کے پیغام کو جان بوجھ کر روکا گیا، ان کی فکر کو نصاب تعلیم کا حصہ نہیں بنایا گیا کیونکہ یہ ہماری اشرافیہ کے مفادات کے خلاف تھا۔ علامہ اقبال جو آزادی اور حریت فکر کی بات کرتے ہیں وہ ہمارے جاگیر داروں اور آمروں کے لیے بالکل مفید نہیں تھا۔ بلکہ اقبال نے خود ملوکیت، آمریت اور جاگیرداری نظام کی سخت مخالفت کی ہے اور اس کو مسلم امہ کے زوال کے اسباب میں سے خیال کیا ہے۔ تو ہماری اشرافیہ کے لیے کیسے ممکن تھا کہ ان کے پیغام کو نصاب تعلیم کا حصہ بناتے اور اپنے مفادات پر ضرب لگاتے اس لیے اقبال کے پیغام کو دانستہ طور پر ہماری اکثریت سے دور رکھا گیا ہے۔
اقبال نے زوال امت کا ایک سبب فکری جمود کو قرار دیا۔ اس پر بھی خانصاحب نے گفتگو کی ہے اور فقہ کی تجدید کی بات کی ہے۔ اس کے ڈاکٹر فضل الرحمان صاحب کا ذکر کیا اور اس افسوس کا اظہار کیا کہ ان کو پاکستان میں کام نہیں کرنے دیا گیا۔
سامراج نے برصغیر میں جو اپنے اثرات چھوڑے ہیں ان پر بھی خانصاحب نے گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ ہمارے ہاں کے لبرل مغرب کی نقالی میں حد سے آگے گزر گئے ان کے اندر ایک عجیب قسم کا احساس برتری پیدا ہوا حالانکہ وہ مغربی تہذیب کو اپنانے کے لیے احساس کمتری کا شکار تھے۔ عمران خان نے بتایا کہ ہماری عوام مغربی ایجادات اور تحقیقات کی قدر کرتی ہے مگر وہ مغربی تہذیب کو پسند نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں مغرب نواز طبقہ زبردستی مغربیت کے نفوذ کا حامی ہے۔ وہ دنیا کی تاریخ سے نابلد ہیں کہ جب بھی کسی مقامی تہذیب پر کوئی دوسری تہذیب کو زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی تو اس کے تباہ کن نتائج ہوئے مقامی لوگوں نے بھرپور شدت سے اس کا انکار کیا۔عمران خان نے مشرف دور میں میڈیا پر ہونے والی مغربی یلغار پر بھی تنقید کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ ہمارے سماج سے ناواقفیت پر مبنی سوچ ہے۔ ہماری اقدار مغربی اقدار سے بالکل مختلف ہیں اور ان کو ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ خانصاحب نے اپنی نانی کے بارے میں لکھا کہ وہ اور باقی بچے روز ان کے پاس جاتے تھے اور وہ اپنے دل کی سب باتیں ان سے کرتے تھے۔ بزرگوں کا احترام ہماری مضبوط معاشرتی قدر ہے جس کو مغربیت کے زیر اثر لوگوں نے اہمیت دینا چھوڑ دی ہے۔ مغربیت کے حوالے سے ایک اور بات بھی خانصاحب نے لکھی ہے کہ جب وہ کرکٹ ٹیم میں شامل ہوئے تو بہت سے کھلاڑی کم پڑھے لکھے بیک گراؤنڈ سے تھے۔ انہوں نے محض ماڈرن دکھنے کے لیے شراب نوشی شروع کی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ خود شراب نوشی سے دور رہے وجہ کوئی مذہبی پابندی نہیں بلکہ ان کے کزن اور ان کے پیرو ماجد خان کو یہ ناپسند تھی۔ ایسے ہی ہمارے ہاں مغرب کی نقالی کرنے والے جو اُردو زبان میں گفتگو کرنے والوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور ان کو ہمیشہ کمتر سمجھتے ہیں یہ سب استعمار کے اثرات ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں قبائلی علاقے اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ یہاں استعمار اپنے قدم اس طرح سے نہیں جما سکا اس لیے یہ لوگ اپنی روایات کے پابند ہیں۔ یہ بنیادی طور پر جنگجو اور لڑاکا لوگ ہیں جو کسی بیرونی طاقت کے آگے سر نگوں نہیں ہوتے۔ عمران خان نے کرکٹ کے زمانے میں قبائلی علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں کے لوگوں کے رسم و رواج پر بات کی ہے۔ انہوں نے مشرف دور میں ہونے والے فوجی آپریشن کی ہمیشہ سے کھل کر مخالفت کی اور یہی ان کا نکتہ نظر آج تک ہے۔ امریکہ کی خوشنودی کے لیے مشرف اور بعد میں زرداری حکومت میں ان علاقوں میں فوجی آپریشنز کیے اس دوران مذاکرات بھی ہوئے جس میں معاہدے بھی ہوئے۔ خانصاحب کہتے ہیں کہ ان معاہدوں کی اکثر خلاف ورزی پاکستانی فوج اور حکومت کی جانب سے ہوئی ۔ ایک بہت بڑی غلطی جو حکمرانوں سے ہوئی وہ یہ ان کی روایت کو سمجھنے میں ہوئی۔ حکومت ان لوگوں کو مذہبی انتہا پسند اور دہشت گرد خیال کرتی رہی جبکہ ان میں اکثریت نے حکومت کے خلاف ہتھیار اس لیے دشمنی میں اٹھائے۔ ان کی روایت ہے کہ وہ اپنا بدلہ ضرور لیتے ہیں۔ اس طرح جیسے جیسے فوج آپریشن میں مقامی لوگوں کو مارتی گئی ان کے دشمنوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ جس کے نتیجے میں پورے پاکستان میں بدامنی پھیلی اور بم دھماکوں کے ساتھ خود کش دھماکوں میں سینکڑوں بے گناہ افراد جاں بحق ہوئے۔ عمران خان کا شروع دن سے اس حوالے سے ایک موقف رہا جس پر وہ آج بھی قائم ہیں۔ پاکستان نے متعدد آپریشنز بھی کیے اور بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل کی لیکن حتمی امن کے قیام کے لیے پھر بھی مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ جب خانصاحب نے یہ کتاب لکھی تو اس وقت سوات آپریشن کو ایک دو سال ہی گزرے تھے عمران خان نے اس آپریشن کی بھی بھرپور مخالفت کی اور اس کتاب میں بھی اس کے متعلق لکھا کہ ہماری حکومت نے معاہدے کا پاس نہیں رکھا اور آپریشن کرنے کے بہانے بنائے۔ اس آپریشن میں بے گناہ لوگ ایک طرف فوج کے ہاتھوں دوسری طرف دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوئے جو کہ افسوسناک ہے۔ مشرف دور کے گورنر جنرل علی جان اورکزئی کی عمران خان نے تعریف کی ہے اور بتایا ہے کہ اس علاقے کا باشندہ ہونے کے باعث وہ اس خطے اور لوگوں کو جانتے تھے انہوں نے بھی بطور گورنر متعدد بار کہا کہ آپریشن سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ بڑھیں گے۔ اس کے علاوہ خانصاحب نے رستم شاہ مہمند کا بھی حوالہ دیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ بھی اس علاقے سے تعلق رکھنے والے حکومتی عہدیدار تھے اور انہوں نے بھی کہا کہ آپریشن سے مسائل ختم نہیں ہوں گے بڑھیں گے۔ اس کتاب کے بعد ایک بڑے پیمانے پر آپریشن ضرب عضب ہوا جس سے مجموعی طور عسکریت پسندوں کی طاقت کمزور ہوئی۔ اس کے بعد ردالفساد نامی آپریشن بھی ہوا اس کے کیا اثرات ہوئے اس پر خانصاحب کا مزید موقف کیا ہے اس کو الگ سے جاننا چاہیے اور بالخصوص اس بارے میں ان کی رائے ضرور لی جانی چاہیے۔
عمران خان کی اپنے ملک میں فوجی کارروائیوں کی مخالفت کی ایک وجہ مشرقی پاکستان میں ہونے والا فوجی آپریشن بھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ اکہتر میں ڈھاکہ انڈر نائنٹین میچ کھیلنے گئے تو اس وقت وہاں لوگوں میں مخاصمت پائی جاتی تھی۔ اس وقت مشرقی پاکستان کی ٹیم کے کپتان اشرف الحق نے بتایا کہ اب بنگالی پاکستان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے فوجی آپریشن کی وجہ سے وہ مزید دور ہو گئے ہیں خانصاحب کہتے ہیں کہ انہیں حالات کی نزاکت کا اندازہ تو ہوا مگر یہ کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ مشرقی پاکستان الگ ملک بن جائے گا۔ پھر جب تین سال بعد عمران خان کی اشرف الحق سے ملاقات ہوئی تو اس سے ہنگاموں میں مرنے والوں کی تعداد معلوم ہوئی تو انہیں دھچکا لگا۔ خانصاحب کہتے ہیں کہ میں نے اشرف الحق کی باتیں سننے کے بعد محسوس کیا کہ سرکاری پراپیگنڈے پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوجی کاروائی سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ خانصاحب کہتے ہیں کہ اکہتر میں ناراض بنگالیوں کو سرکاری میڈیا باغی اور بھارت کا ایجنٹ کہتا تھا اب یہی رویہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان کا بھی ہے جہاں کے ناراض عناصر کے بارے میں یہ ہی باور کرایا جاتا ہے۔
عمران خان نے ایرانی انقلاب کے بارے میں بھی لکھا ہے اور بتایا ہے کہ ۱۹۷۴ میں وہ ایران گئے جہاں مغربیت کے غلبہ تھا۔ عورتیں نیکر اور سکرٹ میں گھوم رہیں تھیں تو دوسری طرف غریب طبقے میں شاہ کے خلاف غصہ پایا جاتا تھا۔ شاہ ایران نے مغربی تہذیب کو ایران پر مسلط کرنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے ایک بڑی اکثریت اس سے ناخوش تھی۔ خمینی صاحب کا انقلاب اس لیے کامیاب ہوا کہ وہ اس مغربیت کے خلاف ایک توانا آواز تھی۔ پھر خمینی صاحب نے ایک نیا نعرہ بھی دیا کہ وہ مشرق اور مغرب دونوں سے الگ اپنا نظریہ حیات یعنی اسلام کو اپنائیں گے۔ مطلب خمینی صاحب نے جہاں امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کو مسترد کیا تو انہوں نے سویت روس کے کمیونزم سے بھی اپنے آپ کو دور رکھا۔ خانصاحب کہتے ہیں کہ خمینی صاحب کے انقلاب کے بعد مسلم دنیا میں ایک نئی امنگ جاگی کہ وہ استعمار کے آلہ کاروں کو شکست دیکر اسلامی نظریہ حیات کو فروغ دے سکتے ہیں مگر یہ امیدیں زیادہ دیر قائم نہیں رہیں کیونکہ اس انقلاب پر مسلکی چھاپ لگ گئی اور پھر ایران اور سعودی عرب نے فرقہ پرست گروہوں کی مدد کی۔ عمران خان نے ایران کے ولایت فقیہ والے نظام پھر بھی تنقید کی ہے اور اس کو جمہوری اصولوں سے متصادم قرار دیا ہے جہاں کی ایک کونسل جمہور کے فیصلے کو ویٹو کر سکتی ہے۔
عمران خان نے جنرل ضیاء الحق کے دور کے بارے میں بھی لکھا ہے اور بتایا ہے کہ بطور کرکٹر ان کے جنرل ضیاء سے اچھے تعلقات تھے بلکہ ان کی درخواست پر خانصاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ بھی واپس لی۔ عمران خان کو جنرل ضیاء نے کابینہ میں شامل کرنے کی پیشکش کی جس کو انہوں نے قبول نہ کیا اور کہا کہ سیاست سے ان کا دور کا واسطہ نہیں۔
ضیاء دور کے حوالے سے عمران خان کا کہنا ہے کہ اس دور میں مجموعی طور پر خوشحالی تھی مگر یہ ضیاء الحق کا کمال نہیں تھا بلکہ افغان جہاد کی بدولت بہت سا پیسہ پاکستان میں آیا اور ساتھ ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی کثیر رقم پاکستان بھیجی۔ یہ موقع تھا پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا مگر جنرل ضیاء باقی جرنیلوں کی طرح لمبی سوچ سے محروم تھے انہوں نے اس جانب توجہ نہ دی۔ حالانکہ اس سرمایہ سے ملک میں نئی صنعتیں قائم کی جا سکتی تھی اور پیدوار میں اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ پھر ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کو اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھنے کے لیے مخالف سیاسی گروہوں کی سرپرستی کی۔ سیاست میں فوج کا اثر ورسوخ بڑھا اور پیسے کی سیاست متعارف ہوئی۔ ضیاء دور میں ایسے لوگوں نے کرپشن سے بھی پیسہ بنایا جن میں سے ایک مثال میاں نواز شریف ہیں۔ میرے خیال سے خانصاحب نے بالکل درست بات کی ہے ضیاء دور میں ہوئے غیر جماعتی انتخابات اور پھر ممبران اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کا اجراء تباہ کن اقدام تھے۔ اس سے ملک میں الیکٹبلز کی سیاست ایسی مضبوط ہوئی جس کا توڑ ممکن نہ ہو سکا البتہ اس دفعہ عمران خان نے کافی حد تک اس چیز کو کمزور کر دیا ہے اگر تو یہ چیز وقتی نہ ہو اور اگلے انتخابات میں بھی الیکٹبلز اپنی اہمیت کھو دیں تو ملک کے سیاسی ڈھانچے میں مثبت تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔
عمران خان نے افغان جہاد پر بھی گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ مسلم دنیا سے لوگوں نے آ کر اس میں حصہ لیا اس کی ایک وجہ وہ روس کو جارح سمجھتے تھے اور مظلوم کے ساتھ کھڑے تھے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ برطانیہ میں فنڈ ریزنگ کی ایک تقریب میں وہ بھی شریک ہوئے جس میں برطانوی حکام بھی شریک تھے۔ امریکہ اور مغرب بھی اس وقت افغانوں کی فریڈم فائٹرز کہتے تھے۔ اس دور میں پاکستان کے پاس بھی امریکہ ، یورپ اور عرب ممالک کی طرف سے پیسہ آیا جس کو ہماری فوج نے تقسیم کیا۔ مشرف کی نسبت ضیاء دور میں پاکستان میں امریکی ایجنسیوں کا کردار محدود تھا۔ ضیاء نے ان کو آزادی سے ملک میں آپریشنز کی اجازت نہیں دی جو کہ مشرف نے دی۔افغان مجاہدین کی ٹریننگ بھی آئی ایس آئی نے کی۔
بھٹو صاحب کی خانصاحب نے تعریف کی ہے بالخصوص ان کی ذہانت کی داد دی ہے۔ بھٹو صاحب کی کتاب The Myth of Independence کا خصوصی ذکر کیا ہے جس میں نوآبادیاتی نظام کے اوپر بھٹو صاحب کے تجزیے کو سراہا ہے وہ بھٹو صاحب کے تاریخی شعور کی بھی داد دیتے ہیں۔مگر ساتھ ہی بھٹو صاحب پر بطور حکمران خانصاحب نے کہا کہ جو امیدیں ان سے وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں بالخصوص ان کی قومیانے کی پالیسی نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ بلکہ خانصاحب نے پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا بھی اعتراف کا ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ بھٹو نے تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لیکر تعلیم کو نقصان پہنچایا۔ لیکن جہاں تک بھٹو صاحب کی پھانسی کی بات ہے تو اس کو انہوں نے افسوسناک قرار دیا ہے عمران خان بتاتے ہیں کہ وہ اس وقت سری لنکا میں کرکٹ کھیل رہے تھے جب اس کی خبر آئی تو انہیں افسوس ہوا بیشک بھٹو نے کئی غلطیاں کیں ہوئی تھیں مگر پھانسی ظلم تھا۔ وہ بھٹو کو مشرقی پاکستان کے سانحے کے ذمہ داروں میں سے ایک سمجھتے ہیں جنہوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کی اکثریت کو تسلیم نہیں کیا۔
عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھے ہیں جہاں اس وقت بینظیر بھٹو بھی زیر تعلیم تھیں۔ بینظیر بھٹو کے ساتھ عمران خان کی دوستی تھی۔ خانصاحب کہتے ہیں کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی بینظیر بھٹو کو لیڈر بننے کا شوق تھا وہ وہاں کے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں ، خانصاحب کہتے ہیں کہ انہیں سیاست سے کوئی دلچسپی تو نہ تھی مگر ووٹ وہ بینظیر کو دیتے تھے۔
عمران خان نے اسلاموفوبیا کی بھی بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مغرب میں مذہب کے بارے میں رویہ ہمارے معاشرے سے بالکل مختلف ہیں وہاں پر عیسائیت کے خلاف اور حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بارے میں فلمیں بنتی ہیں جس کا ہمارے ہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ مغرب اسلام کو ایک جارح مزاج مذہب سمجھتے ہیں جو کہ اپنے ماننے والوں کو قتل کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ نیز وہ اس کو دقیانوسی تصورات بھی قرار دیتے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ہمارے اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کا درست تصور جس سے وہ ناواقف ہیں سے مغرب کو آگاہ کریں۔ عمران خان نے اس طرح کی باتیں اپنے دور اقتدار میں بھی کی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ مغربی عوام واقعی اسلام کے تصور سے ناواقف ہوں۔ لیکن یہ عمران خان کی سادگی ہے کہ ان کا اسلام سے مخاصمت لاعلمی کی وجہ سے ہے۔ان کے معاندانہ رویے کی تاریخ پرانی ہے اور اس میں ایک جانب لامذہبیت کا اثر ہے تو دوسری طرف صلیبی جنگوں سے جو ذہنیت وجود میں آئی اس کے اثرات اب بھی پائے جاتے ہیں۔ اہل مغرب کا اسلام کو جاننے کا سورس زیادہ تر مستشرقین ہیں تو مستشرقین میں بھی مختلف طبقات پائے جاتے ہیں جن میں منصف مزاج لوگ بھی ہیں مگر ایک بڑی اکثریت اسلام کے بارے متعصب رویہ رکھتی ہے اور اس حوالے سے انہوں نے کئی جگہ علمی خیانتوں سے بھی اجتناب نہیں کیا۔ ہاں مسلم اہل علم کی ذمہ داری یہ ضرور بنتی ہے کہ وہ مغرب کی زبان میں اسلام کا تعارف پیش کرتے رہیں اور ساتھ ساتھ استشراقی تحقیقات کا بھی جائزہ لیتے رہیں۔ اس معاملے میں مسلم علماء سے کچھ غفلت ضرور ہوئی ہے اور بطور داعی ہونے کے یہ ویسے بھی ہمارے اہل علم کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اسلام کی دعوت کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں۔
خانصاحب مذہب سے اپنی وابستگی کے بارے میں بھی کھل کر بات کی ہے اور بتایا ہے کہ پہلے وہ فقط نام کے مسلمان تھے جو صرف عید اور جمعے کی نماز پڑھتا ہے۔ پھر اپنے مقاصد کے لیے اسلام کو استعمال ہوتے دیکھ کر وہ اور بھی متنفر ہوئے۔ ان کا دین سے تعلق بس واجبی سا تھا۔ مگر بعد میں وہ بتدریج اسلام کے قریب ہوتے گئے۔ اس میں ایک بڑی وجہ کرکٹ بھی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ۱۹۸۴ میں میں اپنے کیریئر کے عروج پر تھا میں بیٹنگ اور باؤلنگ دونوں میں بھرپور پرفارم کر رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا باؤلر بن جاؤ گا مگر کیرئیر کے اس عروج پر مجھے کندھے میں تکلیف ہوئی اور مجھے دو سال باؤلنگ کرانے سے روک دیا گیا۔ عمران کہتے ہیں کہ یہاں مجھے لگا کہ ایک قادر مطلق ذات ہے جس کی اپنی تدبیر اور حکمت ہوتی ہے، کرکٹ کی دنیا میں ہم اس کو قسمت کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس قسمت یا اللہ تعالیٰ کی تدبیر کی حاکمیت کا کئی دفعہ کرکٹ کے میدان میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ کبھی ایک بلے باز بہت عمدہ بیٹنگ کر رہا ہوتا ہے تو وہ ایک معمولی سی بال پر آؤٹ ہو جاتا ہے۔ کبھی باولر بہترین باؤلنگ کر کے بھی وکٹ نہیں لے پاتا حتی کہ ٹیل اینڈرز بھی اس سے آؤٹ نہیں ہوتے۔ کئی دفعہ آپ کی ہار یا جیت یقینی ہوتی ہے کہ بارش ہو جاتی ہے۔ کبھی کوئی کھلاڑی بہت عمدہ پرفارمینس دے رہا ہوتا ہے کہ وہ زخمی ہو جاتا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ان باتوں نے اسے خدا کے قریب کیا اور سمجھ آئی کہ ہر دفعہ آپ صرف محنت کر کے کامیاب نہیں ہوتے بلکہ کامیابی کے ڈاینامیکس مختلف ہیں اور اس میں خدا کی ذات کو آپ نہیں نکال سکتے۔یہاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول یاد آتا ہے کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے رب کو پہچانا ۔ عمران خان کے اس سفر میں حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی یہ بات عملی طور پر ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ اسلام کے ساتھ ان کو مزید جوڑنے والی ایک اور شخصیت میاں بشیر کی ہے۔ میاں بشیر کے روحانی مشاہدات اور پھر ان کی بنیاد پر ان کی پیش گوئیوں کو انہوں نے پورا ہوتا دیکھا تو عمران خان کا روحانیت سے تعلق بھی قائم ہوا۔ میاں بشیر سے پہلی ملاقات خانصاحب کی اس وقت ہوئی جب وہ ۸۷ کے عالمی کپ کے بعد ریٹائرمنٹ لے چکے تھے تو دوستوں کے ساتھ اتفاقی طور پر ان سے ملے تو انہوں نے عمران کو کہا کہ ابھی تمہارا کرکٹ کیرئیر باقی ہے۔ جس پر عمران خان حیران ہوا کہ وہ تو ریٹائرمنٹ لے چکا ہے اور اس کا فیصلہ پکا ہے یہ کسی صورت ممکن نہیں ۔مگر اس ملاقات کے بعد ضیاء الحق کی درخواست پر اس نے جب ریٹائرمنٹ واپس لی تو اس کو میاں بشیر یاد آئے یوں اس کا میاں بشیر سے تعلق مضبوط ہوا ۔ بعد میں بھی ان کی متعدد پیشگوئیوں کا ذکر کیا جو درست ثابت ہوئیں بلکہ جمائما خان جو پہلے ان باتوں پر یقین نہیں رکھتی تھیں کو جب میاں بشیر نے کچھ وہ باتیں بتائیں جن کو صرف وہ جانتی تھیں تو ان کو یقین آیا۔
شوکت خانم ہسپتال میں جہاں ایک طرف عمران خان کی اپنی والدہ سے محبت کا ہاتھ تو دوسری وجہ عمران خان کی مذہب سے وابستگی بھی تھی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ انہوں نے بڑی پر تعیش زندگی گزاری ، مگر جلد ہی انہیں مادہ پرستی میں کھوئی اس دنیا کا ادراک ہو گیا کہ یہاں سکون بالکل نہیں ہے۔ مادی خواہشات کے پیچھے بھاگنے والوں کی زندگی ایک بے چینی اور بے سکونی میں گزرتی ہے۔ مادہ پرستی سے دور ہونے کے سبب بھی وہ روحانیت کے قریب ہوئے اور انہیں معلوم ہوا کہ سکون یہاں ہی ہے۔ پھر شوکت خانم کی مہم کے دوران ان کو احساس ہوا کہ رفاہ عام کے لیے خرچ کرنے کے لیے پیسوں کی نہیں بلکہ دل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے اوپر خرچ کرنے سے آپ کی دولت کم نہیں ہوتی۔ یہ ہی تصور تھا جس کی بنیاد پر عمران خان نے اپنے دور حکومت میں لنگر خانے کھولے کیونکہ یہ اس کا ایمان اور تجربات سے ثابت ہو چکا تھا کہ مخلوق خدا کی خدمت سے آپ کبھی تنگ دستی کا شکار نہیں ہو سکتے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مشکل معاشی حالات کے باوجود لنگر خانے چلتے رہے جو بعد میں آنے والوں نے بند کیے۔
شوکت خانم ہسپتال کا قیام عمران خان کی زندگی کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ اس میں عمران خان کا عزم سب سے زیادہ قابل غور ہے جب تقریباً تمام ڈاکٹرز جن سے اس کی ملاقات ہوئی اور باقی ماہرین نے اس پراجیکٹ کو ناقابل عمل قرار دیا۔ حتی کہ ان کی بہنوں نے بھی خانصاحب کو کہا کہ جو پیسہ اکٹھا ہوا ہے اس کی آپ والدہ کے نام پر ڈسپنسری بنا دیں۔ اس سب کے باوجود عمران خان نے ہمت نہیں ہاری اور اس ناممکن کو ممکن بنایا۔ اس کی فنڈنگ کے دوران مختلف نشیب و فراز آئے پھر اس کے افتتاح کے لیے بینظیر بھٹو جو اس وقت وزیراعظم تھیں اور آصف زرداری نے اپنے خواہش کا اظہار کیا مگر خانصاحب نے اس کا افتتاح ایک کینسر کی مریضہ بچی سے کروایا۔ بینظیر حکومت میں شوکت خانم کے اشتہارات بند ہوئے جو کہ افسوسناک قدم تھا۔ پھر اس کے بعد ہسپتال میں دھماکہ بھی ہوا۔ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر میں کیا کیا مشکلات پیش آئیں اور پھر پاکستان کی عوام کس طرح عمران خان پر اعتماد کیا اس سب کو عمران خان نے ذکر کیا ہے۔ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کی داستان پڑھتے ہوئے ہمیں عمران خان کی شخصیت اور سوچ کا پتہ چلتا ہے کہ وہ چیلنج کو قبول کرنے والے شخص ہیں وہ جب کسی کام کا عزم کریں تو اس کو وہ پورا کرنے کے لیے وہ ہر کوشش کرتے ہیں۔ جیسے انہوں نے ڈاکٹروں اور ماہرین کی بات کو غلط ثابت کیا اس ہی کا اثر تھا کہ سیاست میں وہ ناقدین کی باتوں کی اتنی پرواہ نہیں کرتے تھے، کچھ صحافیوں نے جب ان کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کوئی دھیان نہیں دیا ۔ ایسے ہی کورونا میں جب صحافیوں حتی کہ فوج کی جانب سے مکمل لاک ڈاؤن کا ان پر دباؤ تھا تو انہوں نے سمارٹ لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔ اس سے ایک اور چیز یہ ثابت ہوتی ہے کہ عمران خان کا سوچنے کا انداز باقیوں سے الگ ہے ایسے ہی اس کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ بھی الگ ہے۔
کرکٹ کے عالمی کپ کی جیت کے بارے میں بھی عمران خان نے لکھا اور یہ بھی ایک ناممکن بات معلوم ہوتی تھی پھر ورلڈکپ سے پہلے وقار یونس اور سعید انور کا ان فٹ ہو جانا جو کہ اہم ترین کھلاڑی تھی نے مزید مایوسی پھیلائی مگر عمران خان اس کے باوجود مایوس نہیں ہوئے اور انہیں یقین تھا کہ ورلڈ کپ کا فاتح پاکستان ہو گا جس پر آسٹریلوی میڈیا نے بھی ان کا مذاق بنایا جس کی انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ دوران ورلڈ کپ عمران خان کو کندھے کی انجری ہوئی مگر انہوں نے اس بات کا باقی کھلاڑیوں کو پتہ نہیں چلنے دیا۔ فائنل میچ میں بھی وہ انجکشن لگا کر کھیلے۔ فائنل کی جیت میں بھی عمران خان نے کینسر ہسپتال کا ذکر کیا اور بعد میں بھی کچھ انعامات ملے جن کو انہوں نے ہسپتال پر لگایا تو کچھ کھلاڑیوں کو برا لگا اور محسوس ہوا کہ ان کے انعامات سے حاصل ہونے والی رقم بھی ہسپتال پر لگا دی گئی۔ خانصاحب کہتے ہیں کہ اس نے مجھے کافی پریشان کیا اور بعد میں ان کھلاڑیوں نے مجھ سے معذرت کی کہ ان کو کسی نے غلط بتایا تھا۔
عمران خان نے مشرف دور کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے اور بتایا کہ مشرف کے مارشل لاء کو ان سمیت ساری اپوزیشن نے خوش آمدید کہا۔ عمران خان نے شروع میں مشرف کا ساتھ دیا، وہ مشرف کے ایجنڈہ جس میں بدعنوانی کا خاتمہ تھا۔ مگر جب مشرف نے اگلے سیٹ اپ میں ایسے لوگوں کے ساتھ عمران خان کو چلنے کا کہا جن پر کرپشن کے کیسز تھے تو عمران خان نے مشرف کو چھوڑ دیا۔ عمران خان مشرف کا ساتھ دینے کو اپنی بدترین غلطی تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے عہد کیا کہ آئیندہ کے بعد کبھی کسی ملٹری ڈکٹیٹر پر اعتماد نہیں کریں گے۔ عمران خان نے اس کے بعد بہت کھل کر مشرف کی مخالفت بھی کی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عمران خان نے جنرل باجوہ پر اعتماد کیسے کر لیا اور ان کو ایکسٹینشن دی۔
مشرف دور کا ایک اور اہم واقعہ وکلاء تحریک ہے جس کی عمران خان نے بھرپور حمایت کی۔ جب خانصاحب نے یہ کتاب لکھی اس وقت افتخار چودھری چیف جسٹس تھے اور بعد کے واقعات گواہ ہیں کہ افتخار چودھری سے امیدیں تھیں وہ پوری نہ ہوئیں بلکہ خود عمران خان کو بھی دھچکا لگا جب افتخار چودھری نے نواز لیگ کے لیے انصاف کا پیمانہ اور رکھا جبکہ باقی لوگوں اور جماعتوں کے لیے اور۔ اس کے ساتھ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں افتخار چودھری کے کردار پر سوالیہ نشان ہیں۔
عمران خان نے مشرف دور میں لاپتہ افراد کے بارے میں بھی آواز اٹھائی اور اس کو غیر قانونی فعل قرار دیا۔ لیکن پھر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں انہوں نے اس کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے اور لاپتہ افراد کی بازیابی میں کیا کردار ادا کیا۔ جن اداروں کی وجہ سے یہ شکایت ہوتی ہے ان کو عمران خان قانون کی گرفت میں نہیں لا سکے بلکہ ہمیں کوئی قابل ذکر کوشش بھی نظر نہیں آتی کہ ان سے قانون کی پاسداری کرائی جا سکے بلکہ جب جنرل عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کی تفصیلات سامنے آئیں تو تب ایک موقع تھا کہ عمران خان صاحب ان کا احتساب کرتے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ انہوں نے عاصم سلیم باجوہ کی باتوں پر اعتماد کر لیا۔
عمران خان کا سیاست میں آنا ایک بڑی خبر تھی کیونکہ عمران خان کا اپنا کبھی بھی اس میدان میں آنے کا ارادہ نہیں تھا پھر پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تو جلد ہی اس کو انتخابات کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ عمران خان کو شروع میں کافی پذیرائی ملی مگر وہ انتخابات میں ایک نشست بھی نہیں جیت سکے۔ ان انتخابات سے پہلے ان کی پارٹی کے ارکان نے اس پر بہت بحث کی کہ ہمیں انتخابات میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں عمران خان کی رائے بھی حصہ نہ لینے کی تھی مگر دوسری رائے والے لوگ زیادہ تھے وہ چاہتے تھے کہ ان انتخابات کے ذریعے ہم الیکشن پراسس کو جان پائیں گے اور یہ تجربہ ہمیں اگلے انتخابات میں کام آئے گا۔ دراصل انتخابات میں نہ اترنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پارٹی کے پاس اتنے فنڈز نہیں تھے۔ اس کے لیے اسے قرضہ لینا پڑا ۔ دو ہزار دو کے انتخابات کے بعد بھی پارٹی قرضے میں ڈوب گئی جس کے لیے عمران خان نے بہت مشکل سے پیسہ جمع کیا بلکہ آخری رقم انہوں نے ایک شرط سے جیتی جو زیک گولڈ اسمتھ نے انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے میچ پر لگائی تھی عمران خان نے اپنی ماہرانہ رائے اس شرط پر دی کہ زیک یہ رقم ان کو دیں گے تاکہ وہ پارٹی کا قرضہ اتار سکیں۔ اس بات کو عمران خان کے مخالفین نے بہت اچھالا اور اردو ایڈیشن میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ برطانوی قانون کے مطابق یہ شرط بالکل درست تھی اور انہوں نے کوئی سٹہ بازی نہیں کی تھی بلکہ میدان میں کھیلتی دونوں ٹیموں پر اپنی رائے دی تھی۔اس کتاب میں پاکستان تحریک انصاف کی بھی ایک مختصر تاریخ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ جماعت ابتداء سے ہی کافی بحرانوں کا شکار ہوئی ساتھ ہی اس میں کافی ٹوٹ پھوٹ بھی ہوئی۔ تحریک انصاف میں اب بھی ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے لیکن اس دفعہ عوامی حمایت کی وجہ سے اس کا نقصان نہیں ہو سکا۔ اس لیے نظر آتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کا عمران خان کو پہلے سے ہی تجربہ ہے اس لیے ان کے لیے یہ چیز اتنی پریشان کن نہ ہو۔ لیکن ماضی کی ٹوٹ پھوٹ اور اب کی ٹوٹ پھوٹ میں بہت بڑا فرق یہ ہے کہ اب پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جبکہ پہلے یہ ایک سیٹ سے زیادہ جیتنے والی جماعت نہیں تھی۔
یوں تو عمران خان کتاب میں بھی کہیں مایوسی کی بات کرتے نظر نہیں آتے مگر جہاں جمائما خان کا ذکر کیا گیا وہاں ہمیں نظر آتا ہے کہ خانصاحب کے قلم میں بھی افسردگی آ گئی ہے۔ جمائما خان سے طلاق کی بابت عمران خان کافی افسوس کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور پھر جمائما نے بہت کوشش کی کہ وہ یہاں پر ایڈجسٹ ہو جائے مگر یہاں پر اس کی کردار کشی کی گئی وہ پروٹسٹنٹ عیسائیت سے اسلام میں داخل ہوئی تھی مگر یہاں اس کے مذہب کے حوالے سے پروپیگنڈہ کیا گیا۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر اسرار احمد جیسا عالم بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوئے اور انہوں نے بھی کچھ منفی تبصرے کیے۔ جس پر بعد میں انہیں بھی افسوس ہوا۔ جمائما خان پر ایک الزام یہ بھی لگا کہ وہ سلمان رشدی کی شاگرد ہے، جمائما خان نے صرف اپنے مابعد نوآبادیاتی دور کے اوپر مقالے کو لکھتے ہوئے اس کی ایک کتاب پڑھی تھی۔ ان سب باتوں سے عمران خان کافی مشکلات کا شکار ہوئے اور ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ ذاتی زندگی کے بارے میں کافی حساس بھی ہیں ۔ نواز شریف کی حکومت نے اس پر نوادرات چوری کرنے کا الزام لگایا حالانکہ اس نے ایک دکان سے عام سی ٹائلیں لی تھیں اس سے مجموعی طور پر عمران خان کی ذاتی زندگی متاثر ہوئی۔ نواز حکومت کی جانب سے اس مقدمے کا خانصاحب کو بہت قلق تھا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ تقریباً سات آٹھ سال تک جمائما خان نے بھرپور کوشش کی کہ وہ یہاں ایڈجسٹ ہو سکے مگر ۲۰۰۲ کے انتخابات کے بعد انہیں عمران خان سے وقت نہیں مل رہا تھا جس کی وجہ سے ان میں دوریاں بڑھیں ۔ ان انتخابات کے بعد وہ کافی مایوس ہو چکی تھیں اور سمجھتی تھیں کہ عمران خان کا سیاسی کیریئر کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گا اس لیے عمران خان کو پاکستان چھوڑ کر برطانیہ میں رہائش اختیار کر لینی چاہیے یہ بات عمران خان کے لیے ممکن نہ تھی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ شادی کے اس بندھن کو قائم رکھنے کے لیے ان کی ذمہ داری زیادہ تھی کیونکہ وہ بڑے تھے مگر وہ یہ ذمہ داری نہیں نبھا سکے جس کا انہیں افسوس رہے گا۔
عمران خان نے اپنے حوالے سے لکھا کہ وہ بہت جلد کسی پر اعتماد کر لیتے تھے جس پر ان کی بہنیں بھی کہتی تھیں کہ یہ تمہاری بہت بڑی کمزوری ہے۔ لیکن خانصاحب کا کہنا ہے کہ پہلے ان کا سوشل سرکل بہت محدود تھا لیکن اب ان کا سرکل بڑھ گیا ہے تو اب انہوں نے اپنی اس شامی پر قابو پا لیا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان نے اپنی وزارت عظمیٰ میں ثابت کیا کہ وہ اب بھی مردم ناشناس ہیں ۔ انہوں نے سردار عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا کر اپنی مردم ناشناسی کا کھلا ثبوت دیا۔ پھر خیبر پختونخوا میں محمود خان کو وزیر اعلیٰ بنایا جو کہ ایک اور غلط فیصلہ تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے علی زیدی، عامر کیانی سمیت کئی اور لوگوں کو پہچاننے میں غلطی کی۔ عمران خان کی لیڈرشپ پر یہ ایک ٹھوس اعتراض ہے کہ وہ مردم شناس نہیں ہیں۔ اب جبکہ بہت سی باتیں سامنے آ چکی ہیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ اپنی اس کمزوری پر وہ قابو پانے کی کوشش ضرور کریں گے۔ ویسے کسی بھی شخص پر اعتبار کرنا اچھی بات ہے لیکن ایک لیڈر کے لیے اس کا پیمانہ دوسرا ہے۔ وہاں پر کئی دفعہ آپ کو حالات کے مطابق درست فیصلے کو بھی موخر کرنا پڑتا ہے۔ اور وہاں پر ہر کسی پر اعتبار کرنا آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
عمران خان نے یہ کتاب تب لکھی جب تیس اکتوبر دو ہزار گیارہ کے جلسے کے بعد تحریک انصاف کی اٹھان تھی اور اس وقت پاکستان تحریک انصاف کو پندرہ سال سے زائد عرصہ ہو گیا تھا۔ اس وقت خانصاحب نے کہا کہ اب وہ اقتدار کا بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں ہیں لیکن ان کی یہ بات بھی درست ثابت نہ ہوئی وہ دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں کسی طرح سے بھی تیاری میں نہیں تھے۔ انہوں نے ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیا جو اپنے علاقے اور گاؤں سے بھی تحریک انصاف کو نہیں جتا سکتے تھے پھر ان میں سے اکثر ناتجربہ کار تھے۔ اس کتاب کے بعد عمران خان کے بطور سیاست دان زندگی کافی متحرک گزری ہے۔ ۲۰۱۳ کے انتخابات میں وہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف میں تھے تو خیبرپختونخوا میں ان کی جماعت کی حکومت تھی۔ انہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دیا، پھر اسکے علاوہ بھی پانچ سال انہوں نے بھرپور اپوزیشن کی، اس کے بعد ساڑھے تین سال اقتدار میں رہے جہاں ان کو نئے تجربات اور نئے چیلنجر کا سامنا کرنا پڑا اور بہت سی ان باتوں کا پتہ چلا جن سے وہ واقف نہیں تھے پھر ان کی حکومت کا خاتمہ اور پھر ان کی اسٹبلشمنٹ سے براہ راست لڑائی جو اب بھی جاری ہے جس میں اب سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن نے بھی اپنا پلڑا اسٹبلشمنٹ کے حق میں ڈال دیا ہے تو ان کے لیے یہ نیا چیلنج بھی ہے۔ پہلے بھی عرض کیا جا چکا کہ وہ چیلنج قبول کرنے والے آدمی ہیں۔ جہاں تک اس کتاب کا تعلق ہے تو یہ سب سال جو عمران خان کی سیاسی زندگی کے اہم ترین سال ہے اس سے پہلے کی ہے۔۔ خانصاحب کو اپنے اس دور جو تقریباً بارہ سال پر محیط ہے پر الگ سے ایک کتاب لکھنی چاہیے جو کہ انتہائی دلچسپ بھی ہو گی اور تاریخ میں ان کا بیانیہ ان اپنے کے قلم سے محفوظ بھی ہو جائے گا۔
مجموعی طور پر عمدہ کتاب ہے۔ اس میں سیکھنے کے لئے بہت سی باتیں ہیں اور کئی مواقع پر عمران خان نے راہنمائی کی ہے کہ انسان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو اس کو جواں مردی سے قبول کرنا چاہیے پھر شکست کا خوف بھی نکال کر میدان میں آنا چاہیے اور شکست گو کہ تکلیف دیتی ہے مگر اصل شکست تب ہوتی ہے جب آپ حوصلہ ہار جاتے ہیں اس لیے شکست سے سیکھنا چاہیے اور خان نے یہ بھی کہ کہ حالات گردش کرتے رہتے ہیں اس لیے جیت کے وقت بھی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سب سے اہم بات آزادی کی قدر و قیمت ہے۔ اپنی آزادی کے حق کسی صورت سرینڈر نہیں کرنا چاہیے، غلامی کی زندگی موت سے بھی بڑھ کر ہے۔ ایسی بہت سی باتیں اس کتاب میں ہمیں پڑھنے کو مل جائیں گی جو کہ عمران خان کی تقریر کا بھی حصہ ہوتی ہیں۔ کتاب کے اور بھی بہت سے موضوعات پر بات ممکن ہے لیکن اسی پر اکتفا کرتا ہوں
کمنت کیجے