جہانگیر حنیف
دنگل سج گیا۔ بڑے بڑے سورما میدان میں اتر آئے۔ آج علت پر پنجہ آزمائی ہے۔ عوام کا ایک ہجوم ہے۔ جسے نجانے کیسے “علت” کو جاننے کا شوق یہاں کھینچ لایا۔ شور اس قدر کہ اپنی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ دل کی دھڑکن اُس سے بھی زیادہ تیز ہے۔ دھم دھم کی آواز۔ جیسے ابھی سینہ سے باہر ہو۔ کان پر ہاتھ رکھیں یا سینہ پر۔ عوام کو دیکھیں کہ دل کو تھامیں۔ دونوں بے قابو ہیں۔ عوام کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ یہ سب ہمارے زاہد مغل صاحب کو دیکھنے آئے ہیں۔ نیوٹن، ہیوم اور کانٹ گزر گئے۔ زاہد صاحب سامنے آئے۔ انھوں نے اسٹیج سنبھالا۔ سب کو حیران کردیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و فضل میں اضافہ فرمائے۔ اس دورِ تاریکی میں وہ علم الکلام کی شمع جلائے بیٹھے ہیں۔ علم الکلام جو ہماری روایت کا درخشندہ باب ہے۔ وہ اس کے ذی استعداد وارث ہیں۔ سچ پوچھیں۔ اِس کی ہمیں بہت خوشی ہے۔ ہمارے افتخار کا باعث بس یہی بات ہے۔ انھوں نے پوڈیم سنبھالا۔ سناٹا چھا گیا۔ پھر تقریر شروع ہوئی اور علم الکلام کے دفاع میں وہ سب کچھ بول دیا جس کی ہمیں خواہش تھی۔۔۔دیکھنا تقریر کی لذت جو اس نے کہا، میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ انھوں نے خوب داد سمیٹی۔ تالیوں کی گونج چاروں اطراف سنائی دی۔
جو نکتہ سب کو حیران کر گیا، وہ علت کی حادث عالم میں نفی تھی۔ علت کی تلاش میں سب خاک چھانٹتے رہ گئے۔ پتا چلا وہ عالَمِ رنگ و بو میں مفقود ہے۔ زاہد صاحب نے اصل و نقل کا امتیاز کیے بغیر علت کی نفی فرمائی۔ تاکہ سند رہے۔ علت علت ہے۔ علتِ اصلی اور علتِ اولٰی دل بہلانے کی چیزیں ہیں۔ خلطِ مبحث ہے۔ یہ حادث عالم میں “علت” کو پچھلے دروازے سے داخل کرنے کی سازش ہے۔ علت علت ہوتی ہے۔ جو علت کی تعریف پر پورا اترے، وہ علت۔ باقی سب ذلت ہے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ علت قادر مطلق ہستی کا ارادہ ہے۔ ارادہ مفقود ہو، تو علت تاثیر کی حامل نہیں بن سکتی۔ اس جہانِ فانی میں علت کہا۔ یہ خود علت کی محتاج ہے۔ جو خود محتاجِ محض ہو، وہ فعالیت کا حامل نہیں۔ فعل فاعل سے صادر ہوتا ہے۔ فاعل نہیں، تو فعل کہا۔ گویا یہ سب آنکھوں کا دھوکا ہے۔ اس پر انھیں بہت داد ملی۔ “کون” اور “حیزات” موجودات پر منڈھی کالک ہیں۔ یہ کھرچنے سے اترنے والی نہیں۔ فلاسفہ وجود کو مانجھ کر اسے اتارنے کے چکر میں ہیں۔ حادث کو چاہیں تو ابد تک چھانٹتے کھنگالتے رہیں، وہ اپنی علت خود نہیں بن سکتا۔ علت تو اس سے ماورا ہے۔ اس سے beyond ہے۔ اس میں پوشیدہ نہیں۔ اعلیٰ۔ بہترین کے نعرے گونج اٹھے۔
آگے کیا ہوا۔ مت پوچھیں۔ گھپ اندھیرا چھا گیا۔ آسمان روشن تھا۔ اس دن کچھ زیادہ ہی روشن ہوگیا۔ مگر زمین پر تاریکی چھا گئی۔ سب اپنا اپنا رستہ ٹٹولنے لگے۔ چیخ و پکار شروع ہوگئی۔ زمینی حقائق مسخ ہوگئے۔ وجود کی horizontality کو زاہد صاحب نے وجود کی verticurality کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ہمارے ‘ہونے” کو ضائع کردیا۔ اخلاق کو زندہ درگور کردیا۔ فعلیت کی نفی سے دنیا کے نظام کو درہم برہم کردیا۔ ان کی تقریر سے علتِ اولٰی تو دکھائی دینے لگی۔ لیکن علت جو اس کی علامت تھی، اپنی فعلیت سے علتِ اصلی کا پتا دیتی تھی۔ محض milestone بن کر رہ گئی۔ انھوں نے علت کو راستہ پر لگے نشانات تک reduce کردیا۔ نشانات جو محض نشان ہونے میں اپنی حیات رکھتے ہیں، وہ کہاں اور انسان جیسی بااختیار ہستی کہا۔ جوہر صاحب کے خدشات درست نکلے۔ علتِ اولٰی کو اضطراری علم قرار دیں، یا علت ہی کی نفی کردیں، دین کی تکلیف کو زک پہنچتی ہے۔ ہمیں مکلف بنایا گیا ہے۔ اس کی بنیاد ہماری فعلیت ہے۔ ہماری فعلیت کو محض “راہ نما” قرار دینا، بھیانک غلطی تھی۔ دین ہمیں ہمارے اعمال کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ ہمارے عمل کرنے کی صلاحیت پر اس کی بنیاد ہے۔ ہم بااختیار مخلوق ہیں۔ باشعور بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے وجود کو اس کی horizontality میں تحقق بخشا ہے۔ ہم اس کے تحت دنیا میں operate کرتے ہیں۔ انسان کا مادی و عقلی وجود اس کی horizontality کا ضامن ہے اور اس کا اخلاقی و روحانی وجود اس کی verticurality کا حامل ہے۔ یہ دونوں مل کر کل وجود کی تکوین کرتے ہیں۔
اب سمجھ آیا کہ نامینا اور فینامینا کا امتیاز زاہد صاحب کو کیوں کٹھکتا ہے۔ وہ کیوں کانٹ کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں کہ اس نے حقیقت کو نامینا اور فینامینا میں تقسیم کردیا۔ کیونکہ وہ فینامینا میں کسی بھی طرح کے اختیار کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ وہ فینامینا میں ہر طرح کی فعلیت کی نفی کے قائل ہیں۔ ان کے مطابق فینامینا اپنے پہلے اظہار میں نامینا کے لیے جگہ چھوڑ دیتا ہے۔ وہ اپنے احتیاج کو واضح کرتا ہے اور جس کی وہ احتیاج رکھتا ہے، اس کی جانب اشارہ کر دیتا ہے۔ لیکن وہ اس امر کو مستقل نظر انداز فرماتے ہیں کہ فینامینا خود کو قواعد و ضوابط کے لیے پیش کرتا ہے۔ وہ اصولوں کو قبول کرتا ہے اور ان کے مطابق رو بہ عمل ہونا ظاہر کرتا ہے۔ فینامینا قواعد سے مطابقت کا متحمل ہو اور نامینا کے تحت ان قواعد کی پاسداری اور عدم پاسداری کے محرکات کا حامل بھی ہو, تو اسے محض milestone تک reduce نہیں کیا جاسکتا۔ اصل چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ نامینا کیسے فینا مینا سے تعلق پیدا کرتا ہے اور وہ تعلق فینا مینا کے ظہور کو کس حد تک متاثر کرتا ہے۔ انسان کا عقلی وجود ہونا اس کے نامینل وجود کی دلیل ہے۔ عقل قبل از فینامینا تفکر کی حامل ہے۔ یہ اس کے نامینل سیلف کی ناقابلِ تردید دلیل ہے۔ دوسرا اخلاقی داعیات اس کی ساخت میں شامل ہیں۔ مزید برآں وہ ان اخلاقی داعیات کے universal ہونے کی مدعی ہیں۔ ان میں سے ہر چیز اس کے فینامینل ہونے کی نفی کرتی ہے۔ عقل جو فینامینا سے آزاد حالت میں علمی تصورات کی حامل ہو اور یہ کہ اخلاق اس کی ساخت میں ودیعت ہو اور وہ ان داعیات کے یونیورسل ہونے کی مدعی ہو، وہ عقل فعلیت کی حامل ہوگی۔ قادر مطلق ہستی کے ارادے نے کائنات کو اس کے نامینا اور فینامینا سمیت تخلیق کیا ہے، اسی قادر مطلق ہستی کے تفویض کردہ اختیار سے عقل فینامینا میں تخلیق کو ممکن بناتی ہے۔ لہذا وہ اس پر جواب دہ بھی ہے۔
کمنت کیجے