Home » جولین جینز کا بائی کیمرل
شخصیات وافکار نفسیات

جولین جینز کا بائی کیمرل

جولین جینز(Julian         Jaynes) انسانی نفسیات کے ارتقأ کا ایک بے مثل محقق، جس کے استدلال کا توڑ کبھی آسان نہیں ہوپایا، کہتاہے کہ عبادت گاہ کا تصور انسانی نفسیاتی میں قبل ازتاریخی مقبروں سے آیا ہے۔ شکاری ادوار کا انسان ’’بائی کیمرل‘‘ تھا۔ بائی کیمرل جولین جینز کی ایک بڑی مخصوص اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کا ہلکا سا تعارف یہ ہے کہ بائی کیمرل کا لفظی معنی ہے دو چیمبروں والا۔ یعنی دماغ کے دو حصے، ایک رائٹ برین اور دوسرا لیفٹ برین۔ رائٹ برین جسم کے بائیں حصے کو کنٹرول کرتاہے اور لیفٹ برین دائیں حصے کو۔اس کے علاوہ، رائٹ برین چہروں کو پہچانتاہے اور لیفٹ برین بولی بولتاہے۔ اگر رائٹ اور لیفٹ برین کے درمیان کسی حادثے کی وجہ سے کنکشن ٹوٹ جائے تو ایک انسان کی شخصیت یکایک دوانسانی شخصیات میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اگر رائٹ برین ناکارہ ہوجائےتو انسان چہرے نہیں پہچان سکتا ۔ اگر لیفٹ برین ناکارہ ہوجائے تو انسان بول نہیں سکتا۔ ان سب خصوصیات کے علاوہ رائٹ برین تخلیقی ہے اورلیفٹ برین ریاضیاتی۔رائٹ برین آئیڈیاز سوچتا ہے اور لیفٹ برین ان آئیڈیاز پر عمل کرتاہے۔ جولین جینز نے نہایت مضبوط دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ قبل ازتاریخ کے انسان کا رائٹ برین اس کے وجود میں ’’خدا‘‘ والا حصہ تھا اور لیفٹ برین، انسان والا۔ اس کے الفاظ میں، گاڈ پارٹ آف دہ برین اور مَین پارٹ آف دہ برین۔

جولین جینز کے نزدیک قبل ازتاریخ کا انسان اس اعتبار سے بائی کیمرل تھا کہ اس کا رائٹ برین مسلسل شیزوفرینک رہتا تھا، یعنی اسے شیزوفرینیا کے مریضوں کی طرح آوازیں (Auditory        Hallucinations) سنائی دیتی تھیں۔ یہ آوازیں جیسا کہ تجربات سے ثابت ہے بلند آوازوں جیسی ہوتی ہیں اور ان کا لہجہ تحکمانہ ہوتاہے۔ چنانچہ قبل ازتاریخ کا انسان ان آوازوں کے احکامات پر عمل کے لیے فوراً اُٹھ کھڑا ہوتاتھا، جیسے کسی ایک جانور کی آواز سے اس کا پورا قبیلہ فی الفور اُٹھ کر کھڑا ہوجاتاہے۔ بعینہ ایسے ہی قبل ازتاریخ کا انسان بھی بے سوچے سمجھے عمل کرتا تھا۔

نظریۂ ارتقا کے جدید ماہرین کا کہنا ہے کہ قبل ازتاریخ کا انسان زیادہ سے زیادہ چالیس افراد کے ایک خاندان کی صورت رہتاتھا۔ خاندان اس سے بڑا ہوجاتا تو خودبخود ہی ٹوٹ جاتا اور ایک سے زیادہ خاندان وجود میں آجاتے۔ ان تیس چالیس افراد میں ایک شخص ہمیشہ باپ یا سرداریا بادشاہ کا کردار ادا کرتا تھا۔ باپ یا سردار کا حکم آخری حیثیت کا حامل ہوتا تھا۔ کسی فرد کے لیے سردار کے حکم کی نافرمانی ممکن ہی نہیں تھی کیونکہ لوگ بائی کیمرل تھے اورسردار صرف ظاہری طورپر بھی انہیں حکم دیتا ہوا نظر نہ آتا تھا بلکہ سردار کی غیر موجودگی میں بھی اس کا حکم کسی شیزوفرینک آواز کی طرح انہیں سنائی دیتا اور وہ عمل پیرا ہوجاتے۔ سردارسامنے ہوتا اور حکم دیتا تو ظاہر ہے لوگ خودکار طریقے سے عمل پیرا ہوجاتے اور جب وہ موجود نہ ہوتا، یا مرجاتا تو اس کی آواز بائی کیمرل مائینڈ کو بالکل ویسے ہی سنائی دیتی جیسے آج شیزوفرینیا کے مریضوں کو سنائی دیتی ہے۔چنانچہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ سردار مرجاتا اور پیچھے پورے قبیلے کو، بشمول نئے سردار کے، پچھلے سردار کی آواز وقتاً فوقتاً بلندہوکر سنائی دیتی رہتی۔ ظاہر ہے یہ آواز خارج میں موجود کرۂ ہوائی میں سفر کرتی ہوئی ان کے کانوں تک نہ آتی تھی بلکہ یہ آواز ان کے رائٹ برین میں گونجتی تھی جیسے شیزوفرینیا کے مریضوں کے دماغ میں آوازیں گونجتی ہیں۔ جب سابقہ، مرے ہوئے سردار کی آواز اپنے قبیلے کا پیچھا دیر تک نہ چھوڑرہی ہوتی تو قبل ازتاریخ کے لوگ اسے ایک قبر سے نکال کر دوسری قبر میں ڈالتے یا زیادہ گہرا دفناتے، تاکہ وہ شانت ہوجائے اور انہیں پیچھے سے آوازیں نہ دیتا رہے۔

وہ اس کی لاش کو جلا دینے یا اسے ختم کردینے سے بھی ڈرتے تھے کیونکہ وہ اسے مرنے کے بعد ’’خدا ‘‘ جیسی طاقتوں کا مالک بھی سمجھنے لگ جاتے تھے، صرف اس وجہ سے کہ وہ ابھی تک ان کے دماغوں میں بلند آوازوں کے ساتھ احکامات دیتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ بعض قبائل اس کے احکامات کو دیر تک مانتے رہتے۔ بعض قبائل اسے دفناتے ہی ایسے تھے جیسے کہ وہ ابھی زندہ ہو، یعنی اُونچی نشست پر بیٹھا ہوا یا گاؤ تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے۔ اسےخدا، یا ’’خدا جیسا‘‘ سمجھا جاتا تھا اس لیے اس کے مقبرے کو خدا کا گھر سمجھا جاتا تھا اور ان مقبروں کی پوجا کی جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مقبرے عبادت گاہوں میں بدلنے لگے۔ جولین جینز کے بقول ہرقسم کا ٹیمپل، چرچ، مسجد، مندر، قبل ازتاریخ کے انہی مقبروں کی ارتقا یافتہ شکل ہے۔

ادریس احمد آزاد

ادریس آزاد، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور متعدد دیگر تعلیمی اداروں میں فلسفہ اور سائنس کے شعبوں میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔
idrisazad@hotmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں