یہ کہنا کہ سلف کتاب وسنت کے خلاف نہیں جا سکتے، اس سے بڑا بہتان اس دین پر کوئی نہیں ہے۔ اور پھر سلف بھی سب کے اپنے اپنے ہیں۔ حضرات صوفیاء کے ایک وجودی گروہ نے جب قرآن مجید کی ایک مخصوص تعبیر پر اصرار کیا کہ ہمیں نصوص کو فصوص کی روشنی میں ہی سمجھنا ہے یعنی قرآن وحدیث کو شیخ ابن عربی کی “فصوص الحکم” کی روشنی میں سمجھنا ہے کہ انہیں کتاب وسنت کا فہم الہام کیا گیا ہے تو اللہ عزوجل نے اس امت میں مجدد ملت حضرت شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ جیسے نڈر اور دلیر صوفیاء کو پیدا کیا کہ جنہوں نے فصوص پر نصوص کی ترجیح کی تحریک چلائی اور اس فتنے کی سرکوبی ہوئی۔
یہی کام اہل تشیع کے فرقوں نے اپنے ائمہ معصومین کے حوالے سے کیا ہے کہ قرآن مجید کی جو تعبیر ان کے ائمہ سے ملتی ہے، اس کے علاوہ سب معانی ومفاہیم قرآن لغو اور باطل ہیں، بس وہی تعبیر صحیح ہے جو ان کی کتب احادیث میں ان کے ائمہ سے مروی ہے۔ اور ان کے ائمہ کو وہ تعبیر الہام کی گئی تھی کہ وہ محدَث اور ملہَم تھے۔ اللہ عزوجل نے اس انحراف کی اصلاح کے لیے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر امام کو پیدا کیا کہ جنہوں نے ائمہ پر نصوص کی اتھارٹی قائم کرنے کی بات کی۔
یہی آزمائش ایک دور میں بعض مقلدین نے پیدا کی کہ قرآن مجید کی نص پر ہدایہ کے قول کو ترجیح دو کہ ان کے ائمہ اور فقہاء نے جو بات کی ہے، وہی کتاب وسنت کی درست تعبیر ہے۔ اور برصغیر میں جب دو حنفی علماء میں بحث ہوتی تھی تو کتاب وسنت سے دلیل دینے کو بھی معیوب سمجھا جانے لگا کہ جب دونوں حنفی ہیں تو حنفی فقہ سے دلیل دو۔ اس دور میں شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ پیدا ہوئے کہ جنہوں نے تقلیدی جمود سے نکالتے ہوئے ائمہ کے اقوال پر نصوص کی ترجیح یا ان میں سے جو اقوال نصوص کے قریب ہو، ان کو اپنانے کی بات کی۔ اور ان سے بہت پہلے امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اس تقلیدی جمود سے نکالنے کے لیے بہت کام کیا۔
اسی طرح یہی کام متجددین نے بھی کیا کہ اپنی فہم وفراست اور تعبیر دین ہی کو فائنل اتھارٹی سمجھ لیا اور اپنے فہم قرآن کو قرآن کا درجہ دے دیا جیسا کہ فکر فراہی نے قرآن مجید قطعی الدلالۃ کے نام سے ایک فساد مچایا ہے کہ بس قرآن مجید وہی ہے جو ان کو سمجھ میں آیا ہے، باقی سب تو جھک مار رہے ہیں، یا جو دوسروں کے پاس ہے، وہ تو قرآن کا غیر ہے۔ اور یہی کام اب تقلیدی اہل حدیثوں نے شروع کر دیا کہ فہم سلف کے نام پر کتاب وسنت کی اتھارٹی کو چیلنج کر رہے ہیں حالانکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس فکر کا بہت پہلے اپنی کتاب رفع الملام وغیرہ میں رد کر چکے ہیں۔ کتاب وسنت پڑھیں گے تو اس کی ہیبت قائم ہو گی ناں۔ اب کتاب وسنت تعلیم وتعلم میں کہاں اور کتنا کچھ رہ گیا ہے؟ سب اپنوں کے قیل وقال کے پیچھے لگے ہیں۔ صحابہ کے دفاع کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کی ہیبت کو کم کر دیا جائے، اور نبی کا مقام ومرتبہ بیان کرنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ اللہ کو اس کے مقام سے گرا دیا جائے۔ یہ غلو کفر تک لے جاتا ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رفع الملام میں بیان کرتے ہیں: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما لِرَجُلِ سَأَلَهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَأَجَابَهُ فِيهَا بِحَدِيثٍ، فَقَالَ لَهُ: {قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ} فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {يُوشِكُ أَنْ تَنْزِلَ عَلَيْكُمْ حِجَارَةٌ مِنْ السَّمَاءِ أَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَتَقُولُونَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ؟!} [رفع الملام عن الأئمة الأعلام، ص 37]۔ ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے حدیث سے جواب دیا۔ سائل نے آگے سے کہا کہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا قول تو فلاں فلاں ہے۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قریب ہے کہ تم پر آسمانوں سے پتھروں کی بارش ہو کہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا اور تم آگے سے یہ کہتے ہو کہ ابو بکر اور عمر نے یہ کہا، رضی اللہ عنہما۔ تو آسمانوں سے پتھروں کا عذاب کس پر آیا؟ حضرت عبد اللہ ابن عباس نے حدیث رسول کے مقابلے میں حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے اجتہاد کو ترجیح دینے کو بھی کفر اور مستحق عذاب گناہ شمار کیا ہے چہ جائیکہ سلف کی رائے کو صریح نص پر ترجیح دی جائے۔
صحابہ نے ایک دوسرے کے فہم کو رد کر کے اس پر سنت کی حجت کو قائم کیا۔ یہی بہترین سلف یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا منہج تھا۔ سنن ترمذی کی روایت میں ہے: «الوُضُوءُ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ، وَلَوْ مِنْ ثَوْرِ أَقِطٍ»، قَالَ: فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنَتَوَضَّأُ مِنَ الدُّهْنِ؟ أَنَتَوَضَّأُ مِنَ الحَمِيمِ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: «يَا ابْنَ أَخِي، إِذَا سَمِعْتَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَا تَضْرِبْ لَهُ مَثَلًا» [«سنن الترمذي» (1/ 114)]۔ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ آگ پر پکی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیے۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، کیا اب ہم گرم پانی سے بھی وضو کریں؟ یعنی انہوں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ پھر تو گرم پانی سے وضو کرنے کے بعد دوبارہ وضو کرنا چاہیے۔ اس پر حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے بھتیجے، جب تمہارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی جائے تو اس کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں اپنا فہم پیش نہ کرو۔ اب سطحی ذہن کو وجہ استدلال تو سمجھ نہیں آئے گی تو وہ اس بحث میں پڑ جائے گا کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ بات فقہی مسئلے کی نہیں ہو رہی، منہج کی ہو رہی ہے کہ منہج کیا ہے۔ درست منہج اس امت کے بہترین لوگوں کے فہم پر بھی کتاب وسنت کی اتھارٹی کو قائم کرنا ہے۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات پہنچی کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ یہ فتوی دیتے ہیں کہ عورتیں غسل جنابت کے وقت اپنے سر کے بال کھول لیا کریں تو ام المومنین رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا کہ وہ عورتوں کو اپنا سر منڈوانے کا فتوی کیوں نہیں دے دیتے؟ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتی تھی اور میں اپنے سر پر تین چُلو سے زیادہ پانی نہیں بہاتی تھی۔ روایت کے الفاظ ہیں: أَفَلَا يَأْمُرُهُنَّ أَنْ يَحْلِقْنَ رُؤُوسَهُنَّ؟! لَقَدْ كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، وَلَا أَزِيدُ عَلَى أَنْ أُفْرِغَ عَلَى رَأْسِي ثَلَاثَ إِفْرَاغَاتٍ » [«صحيح مسلم» (1/ 179)]
اسی طرح صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما میں حج تمتع کے بارے بحث ہو گئی۔ حضرت علی نے حضرت عثمان سے کہا کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایک ایسے کام سے روکیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حج تمتع کے لیے تلبیہ پڑھا۔ روایت کے الفاظ ہیں: اخْتَلَفَ عَلِيٌّ وَعُثْمَانُ رضي الله عنهما، وَهُمَا بِعُسْفَانَ، فِي الْمُتْعَةِ، فَقَالَ عَلِيٌّ: مَا تُرِيدُ إِلَّا أَنْ تَنْهَى عَنْ أَمْرٍ فَعَلَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَلِيٌّ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا» [«صحيح البخاري» (2/ 569)]
صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حج تمتع کی آیات قرآن مجید میں نازل ہوئیں۔ ہم نے آپ علیہ السلام کے ساتھ حج تمتع کیا۔ اس کے بعد قرآن مجید میں اس کی حرمت پر کوئی نص نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی آپ علیہ السلام نے اس سے منع فرمایا لیکن ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔ مفتی عبد الستار حماد صاحب نے صحیح بخاری کے ترجمے میں لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس شخص سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ تو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کتاب وسنت کی اتھارٹی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فہم پر قائم کی ہے اور یہی سلف کا منہج ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں: اخْتَلَفَ عَلِيٌّ وَعُثْمَانُ رضي الله عنهما، وَهُمَا بِعُسْفَانَ، فِي الْمُتْعَةِ، فَقَالَ عَلِيٌّ: مَا تُرِيدُ إِلَّا أَنْ تَنْهَى عَنْ أَمْرٍ فَعَلَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ عَلِيٌّ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا» [«صحيح البخاري» (2/ 569)]
اور یہ صرف اہل الحدیث کا موقف نہیں تھا کہ صریح نصوص کو سلف کے فہم پر ترجیح دینی ہے بلکہ یہ اہل الرائے کا بھی موقف تھا اور اسی پر امت کا اجماع ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے حج تمتع [ایک ساتھ حج اور عمرہ کرنا] کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ بہت اچھا ہے یعنی کر لو۔ اس نے جواب میں کہا کہ آپ کے والد محترم حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے منع فرماتے تھے۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر نے سائل سے کہا: فَقَالَ وَيْلَكَ , فَإِنْ كَانَ أَبِي قَدْ نَهَى عَنْ ذَلِكَ , وَقَدْ فَعَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَمَرَ بِهِ , فَبِقَوْلِ أَبِي تَأْخُذُ, أَمْ بِأَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: بِأَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: «قُمْ عَنِّي» [شرح مشکل الاثار: 2/142]۔ ترجمہ: اگر میرے والد نے اس سے منع بھی کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا ہے اور اس کا حکم بھی دیا ہے۔ تم میرے والد کے قول پر عمل کرو گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر؟ سائل نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ جاؤ یہاں سے اٹھ جاؤ۔ یعنی جا کر اپنا کام کرو۔
پھر ان میں سے بعض کا خیال یہ ہے کہ کتاب وسنت تو محض الفاظ کا نام ہے، معانی ان کو سلف نے دیے ہیں، اس دین پر اس سے بڑا بہتان کوئی نہیں ہے۔ یعنی خدا اور رسول کو تو سائیڈ لائن لگا دو کہ وہ تو محض الفاظ بولتے رہے کہ جن کے معانی ان الفاظ میں یا ان الفاظ کے ساتھ نہیں تھے، یہ تو سلف کا کمال ہے کہ وہ ان الفاظ کو معانی دے پائے یا کم از کم یہ کہ ان معانی تک پہنچ پائے جو شارع کی مراد تھی۔ شارع کے کلام کے بارے پہلی بات تو بہتان ہے ہی جبکہ دوسری بات بھی بہت غیر مناسب ہے کہ اس سے وہ کلام بلیغ نہیں رہ جاتا۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کا کلام صرف سلف کے لیے تھا، باقی رہتی دنیا کے مسلمانوں کے لیے نہیں تھا؟ یا اللہ اور اس کے رسول نے اپنے کلام میں معانی کو اس طرح سے چھپا چھپا کر پہیلیوں کی صورت پیش کیا کہ صرف سلف ہی اس تک پہنچ پائیں اور کسی مسلمان عالم سے یہ غلطی نہ ہونے پائے۔
پھر سلف کتنے ہیں؟ یعنی ان کی کوئی جامع مانع فہرست کہ جن کا قول حجت ہے؟ اس پر کوئی اتفاق ہی نہیں ہے۔ سلف کیا ہیں، ان کی تعریف کیا ہے، اس پر دسیوں اقوال مل جائیں گے۔ پھر سب سے پہلے پہل بدعات کا ظہور سلف میں ہوا یعنی تابعین اور تبع تابعین میں سب بدعتیں موجود تھیں۔ جبریہ، قدریہ، معتزلہ، خوارج، جہمیہ سب موجود تھے۔ تو کون سے سلف میں سے کون سے سلف کا فہم حجت تھا؟ یعنی کون سے تابعین اور تبع تابعین کو چھوڑ کر کون سے تابعین اور تبع تابعین کا فہم حجت تھا؟ اور پھر جن کو شامل کیا اور جن کو نکالا، اس کی دلیل کون سی نص ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضہ ہی قرآن مجید میں یہ بتلایا گیا ہے کہ آپ نے ما نزل الیھم یعنی جو آپ پر نازل کیا گیا ہے، اس کی تبیین فرمانی ہے تو سنت نے قرآن مجید کی تبیین یعنی اسے خوب کھول کر بیان کر دیا ہے۔ اب اس دین کو مزید کسی الہامی تبیین کی احتیاج نہیں ہے جیسا کہ اہل تشیع کا خیال ہے۔ اہل تشیع نے اپنے تصور امامت کے ذریعے جو کام کیا ہے یعنی اپنے ائمہ معصومین کو جس طرح سے نصوص کی تعبیر میں اتھارٹی بنایا ہے، اسی قبیل کی فکر وہی فکر ہے جو سلف کے فہم کو کتاب وسنت کی تعبیر میں اتھارٹی مانتی ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ انہیں معصوم کہتی نہیں لیکن عملا معصوم مانتی ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ سلف کا اجتماعی فہم حجت ہے، انفرادی کی بات نہیں ہو رہی۔ یہ اجتماعی فہم کیا ہوتا ہے؟ کتنے سلف کی گنتی پوری ہو جائے تو اس پر اجتماعی فہم کی اصطلاح کا اطلاق ہو سکے گا؟ ہاں، اگر آپ اجماع کی بات کر رہے ہیں تو اجماع حجت ہے، سب مانتے ہیں۔ لیکن اسے اجتماعی فہم کیوں کہہ رہے ہیں، پھر اجماع کہیں۔ اجماع سلف کا ہو یا خلف کا، وہ حجت ہے اگر واقعی میں ہو۔ تو یہاں سلف کا فہم حجت نہیں ہے بلکہ اجماع حجت ہے۔ اسی طرح صفات کے باب میں ہم سلف کے موقف کے قائل ہیں لیکن اس بنیاد پر نہیں کہ سلف حجت ہیں یا وہ خود کوئی دلیل ہیں بلکہ اس دلیل کی بنیاد پر جو سلف کے ساتھ کھڑی ہے۔ اور اس دلیل کو ہم نے تفصیل سے اپنی تحریروں میں نقل کر دیا ہے۔
باقی امت کا اجماعی تعامل یہی رہا ہے کہ سلف کا فہم حجت نہیں ہے، نہ انفرادی نہ اجتماعی۔ اصل حجت دلیل ہے، وہ سلف کی ہو یا خلف کی ہو۔ اور دلیل کتاب وسنت کا نام ہے۔ اصول فقہ کی کسی کتاب میں بھی مصادر دین یا ماخذ شریعت میں سلف کے اقوال کا ذکر نہیں ملے گا، ہاں صرف قول صحابی کی بحث موجود ہے لیکن وہ بھی اس صورت میں حجت ہے جبکہ حکما مرفوع ہو۔ ویسے اس کی حجیت میں بھی اختلاف ہے۔ اور جو اس کی حجیت کا قول کرتے ہیں، عملا انہوں نے بھی قول صحابی کے خلاف سینکڑوں فتوے دے رکھے ہیں۔
طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں سلف کا اجماع ہو گیا۔ آپ نے اٹھا کر پھینک دیا کہ دلیل کی پیروی کریں گے۔ وہاں آپ کو سلف کیوں بھول جاتے ہیں؟ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے چالیس سے زائد مسائل میں ائمہ اربعہ کی اتفاقی رائے کو سائیڈ کر دیا، اور اپنا اجتہاد پیش کیا، کیوں؟ یہاں یہی تو مقلدین کہتے ہیں کہ کیا ابن اتیمیہ رحمہ اللہ کا علم ائمہ اربعہ سے بھی بڑھ کر ہے؟ جب امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مطعون نہیں ہیں جو اپنے سلف کے اجتماعی فہم سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کر رہے ہیں تو بعد والے کیسے مطعون ہو سکتے ہیں؟ آپ ائمہ اربعہ کو سلف نہیں مانتے لیکن دوسرے تو مانتے ہیں۔ خیر القرون کی حدیث میں قرن کا جو معنی آپ نے کیا ہے، ضروری تو نہیں وہ سب کریں۔ قرن کا لغت میں معروف معنی صدی کا ہے لہذا دوسروں کے نزدیک تین صدیوں کے فقہاء اور محدثین سب سلف میں شامل ہیں اور ان سلف کے اجتماعی فہم سے آپ کے اختلافات کے انبار لگے ہوئے ہیں۔
پھر خیر القرون کی تشریح آپ کے مطابق یہی کر لیتے ہیں کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین مراد ہیں، تو بھی ائمہ اربعہ کے ہاں ایسے مسائل کا انبار لگا ہے کہ جس میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی پیروی اور اتباع چھوڑی گئی ہے۔ اور بہت سے مقامات پر سلف کے اجتماعی فہم کو بھی چھوڑا گیا۔ اب ایک بات یہ بنائی گئی ہے کہ فقہیات میں سلف سے اختلاف جائز ہے یعنی فقہی اور اجتہادی مسائل میں جیسا کہ فقہاء نے صحابہ کے فتاوی کو چھوڑا ہے اور اپنی رائے کا اظہار کیا ہے یعنی عملا ایسا ہی کیا ہے لیکن اعتقادی مسائل میں جائز نہیں ہے۔ پہلے آپ عملی صورت حال کا جائزہ لیں کہ فقہاء اور محدثین دونوں نے اعتقادی مسائل میں سلف کی رائے کو چھوڑا ہے۔ صرف صفات کا باب ہی لے لیں تو اشاعرہ اور ماتریدیہ دونوں تاویل، تفویض اور تعطیل وغیرہ کے قائل ہیں۔ وہ چھوٹے موٹے لوگ نہیں ہیں بلکہ امت کے اساطین ہیں۔ شوافع، مالکیہ اور حنفیہ کے کبار فقہاء اور محدثین ہیں۔
امام دار قطنی، امام بیہقی، علامہ خطیب بغدادی، امام ابن حزم، امام الحرمین جوینی، امام حاکم، امام غزالی، قاضی ابن رشد، قاضی ابن العربی، قاضی عیاض، علامہ ابن عساکر، امام ابن صلاح، امام رازی، علامہ آمدی، امام عز بن عبد السلام، امام نووی، امام بیضاوی، امام قرطبی، علامہ تفتازانی، علامہ ابن خلدون، علامہ ابن حجر عسقلانی، امام سخاوی، امام سیوطی، علامہ ابن حجر ہیثمی، علامہ ابن عاشور وغیرہ رحمہم اللہ۔ امام بغوی کے بارے کہا گیا کہ انہوں نے سلف کی اتباع پر سلف کا اجماع نقل کیا ہے۔ اور اب وہ خود صفات باری تعالی میں متاول معروف ہیں۔ یہ تو صورت حال ہے۔
مسئلہ فہم سلف کا نہیں ہے بلکہ “فہم سلف کے فہم” کا بھی ہے۔ اس کو سمجھیں۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ ہمیں سلف صحیح سمجھ آئے ہیں۔ اب اشاعرہ نے لکھا ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ صفات میں تاویل کرتے تھے اور انہوں نے اللہ کی کرسی سے مراد علم لیا ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے تاویل کے باب میں اقوال مروی ہیں۔ اس پر آپ کہیں گے کہ سلف تو پھر ان کے نزدیک بھی حجت ہو گئے لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ بات وہ الزامی دلیل کے طور کرتے ہیں۔ دلیل اصلی ان کے ہاں یہی ہے کہ عقائد کے باب میں تقلید نہیں ہے، اپنا فہم استعمال کریں۔
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پہلے شاید ایسا تھا اور بعد میں ایسا نہیں ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو پڑھنے کے بعد بھی فقہاء اور محدثین صفات کی تاویل کرتے رہے اور سلف کو انہوں نے معیار حق نہیں بنایا، کیوں؟ کیا ان کے پاس دین کا علم نہیں تھا، وہ جہلاء تھے، یا مخلص نہیں تھے؟ دور کہاں جاتے ہیں، ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ہی کی مثال لے لیں۔ ان سے بڑا محدث ان کے معاصرین میں کون ہے؟ اور ان کی جیسی بخاری کی شرح لکھ کر حدیث کی اس پائے کی خدمت کس نے انجام دی ہے؟ لیکن انہیں سلف سمجھ نہیں آ رہے؟ تو ان کے نزدیک وہ دلیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ دلیل کمزور دلیل ہے، یہ بات درست ہے۔ لیکن ہم منہج کی بات کر رہے ہیں۔
ہمارے ہاں سلفی حضرات نے یہ کام کیا کہ لوگوں کو پڑھنے سے روک دو۔ اب تو منہج یہی بن گیا۔ اور اسی منہج کی وجہ سے کچھ لوگ شاید سلفیت کے ساتھ اٹیچ ہیں کہ پڑھتے نہیں ہیں، اگر پڑھیں گے تو دوسری طرف نکل جائیں گے۔ ابن حجر کی فتح الباری کی کتاب الایمان پڑھنے سے باقاعدہ منع کیا جاتا ہے۔ لیکن ہر مزاج ایسا نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے اہل حدیث علماء میں سے جو دوسری فکر کے مطالعے پر پڑے تو اس سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہ پائے۔ حضرت سلطان محمود محدث جلالپوری رحمہ اللہ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ، مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ وغیرہ۔ مولانا ثناء رحمہ اللہ کے خلاف تو اہل حدیث رسالوں میں اشتہار چھپتے رہے کہ یہ معتزلی فکر کے حامل ہیں۔ مولانا حنیف ندوی رحمہ اللہ کی عقلیات ابن تیمیہ پڑھ لیں، ابن تیمیہ پر رد کرتے ہیں اور اشاعرہ سے متاثر ہیں۔
دیکھیں، ایک دور میں یہ منہج کام کر گیا کہ جو کلامی بحثوں میں پڑے، اس کو جوتے اور چھتر مارو۔ آج کی دنیا وہ نہیں ہے۔ آپ دلیل کے دور میں سانس لے رہے ہیں۔ یہاں اندھی تقلید اور اپنے دڑبے میں بند رکھنے سے آپ کتنی دیر تک ان مرغیوں کو سنبھال لیں گے۔ غامدی کو نہ سنیں، نہ سنیں۔ ٹھیک ہے، جو نہیں سنے گا، وہ آپ کا ہے۔ جو سن لے گا، تو ان میں سے بہتے غامدی فکر کو قبول بھی کر لیں گے۔ آپ کے بہترین لوگ کبھی انجینئر محمد علی مرزا لے جاتا ہے، کبھی غامدی صاحب لے جاتے ہیں۔ اور آپ یہ بحث کر رہے ہیں کہ دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ دیکھیں، جس نے بھی اپنے پیچھے مجمعے کو لگایا ہوا ہے، اس نے یہی کہہ کر لگایا ہوا کہ یہی سلف صالحین کا طریق کار ہے۔
فتاوی رضویہ سلف کے اقوال سے بھرا پڑا ہے کہ بدعتی وہابیوں، نجدیوں سے قطع تعلقی کرنی چاہیے۔ عقائد کی کتابیں بھری پڑی ہیں کہ سلف کا منہج تفویض تھا، سلفیوں کو سلف کو سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ مسئلہ صرف سلف کے فہم کا نہیں ہے، سلف کے فہم کے فہم کا بھی ہے۔ یہاں بہت سے گروپ اس پر لڑ رہے ہیں کہ انہوں نے سلف کو صحیح سمجھا ہے۔ اہل تفویض سے تو آپ اپنا اختلاف سائیڈ پر رکھے، خود سلفیوں میں امام ابن تیمیہ کے فہم کے بارے کتنے ورژن ہیں؟ ہر قسم کا سلفی بیانیہ ابن تیمیہ سے برآمد کر لیا جاتا ہے اور سلفیوں کے متضاد فکر رکھنے والے گروپس یہی کام تو کر رہے ہیں کہ سب ابن تیمیہ کو نقل کر رہے ہیں۔
تو حل کیا ہے، ایک ہی ہے۔ کتاب وسنت کی طرف رجوع۔ سلف کے فہم کو لازم پکڑنے سے مسائل حل ہوتے تو آج سلفیہ میں اختلاف نہ ہوتا، شام وغیرہ میں ان میں باہمی قتل وغارت تک ہوئی ہے۔ ہاں سلف کا اجماعی فہم حجت ہے۔ بقیہ حجت نہیں ہے، البتہ بقیہ فہم کو سامنے رکھنا چاہیے۔ آپ فضیلت اور درجے میں سلف سے آگے نہیں بڑھ سکتے اگرچہ عمل اور محنت میں بڑھ سکتے ہیں۔ آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کر دے تو ان کے ایک مد صدقے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔ تو جو سلف کی فضیلت ہے، اس کو پہچانیں۔ باقی قرآن مجید نے بھی کہہ دیا ہے کہ السابقون الالون میں اگلے لوگوں میں سے بہت سے ہوں گے لیکن پچھلوں میں سے بھی ایک چھوٹی جماعت ہو گی۔ اس سب کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سلف کے فہم کی طرف رجوع نہیں کرنا چاہیے، ضرور کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ ہم پر حجت نہیں ہے جب تک کہ اجماع نہ ہو جائے۔
کمنت کیجے