یہ بات مشہور ہے کہ شیعہ امامیہ کے نزدیک عقل ماخذ حکم شرعی ہے مگر سنی فکر میں عقل حجت نہیں۔ یہ عنوان اپنے ظاہر میں جتنا بامعنی معلوم ہوتا ہے، اپنے کنٹنٹ میں کوئی خاص معنویت نہیں رکھتا بلکہ معاملہ برعکس طور پر یوں ہے کہ سنی اصولیین بعض اعتبارات سے عقل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جب ہم نے شیعہ کتب سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ عقل بطور مصدر حکم شرعی سے ان کی کیا مراد ہے یعنی کن امور کو یہ عقل میں شمار کرتے ہیں تو اس کی تفصیل یہ معلوم ہوئی:
1۔ شیعہ عقل کے ماخذ ہونے کی تقسیم یوں کرتے ہیں کہ عقل کبھی حکم شرعی کے بغیر براہ راست حکم شرعی کا فائدہ دیتی ہے اور کبھی کسی حکم شرعی سے بالواسطہ حکم شرعی کا فائدہ دیتی ہے۔ پہلی قسم کو “مستقلات عقلیہ” کہتے ہیں اور دوسری کو خطاب پر منحصر۔
2۔ دوسری قسم کے تحت یہ امور شمار ہوتے ہیں:
الف) لحن الخطاب یا فحوی الخطاب: اس کا مطلب منصوص حکم سے اولی درجے کے معنی کو بھی حکم شرعی ماننا ہے جیسے والدین کو اف کہنے کی ممانعت سے انہیں مارنے کی ممانعت کا حکم اخذ کرنا۔ احناف اسے “دلالت نص” کہتے ہیں جبکہ جمہور “مفہوم موافق” کہتے ہیں۔ یعنی سنی اصولیین کے ہاں یہ معتبر ہے۔
ب) دلیل الخطاب: اسے “مفہوم مخالف” کہتے ہیں ، یعنی جس کیفیت کے لئے حکم ثابت ہے اس کی مخالف کیفیت کے لئے مخالف حکم ثابت ماننا۔ احناف اس کے قائل نہیں جبکہ جمہور بعض شرائط کے ساتھ قائل ہیں۔
ج) مقدمہ واجب: واجب مطلق کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے، یعنی حکم کی ادائیگی اگر کسی شے پر موقوف ہے تو وہ شے بھی شرعاً واجب ہوگی۔
د) استلزام عقلی یا حکم ضد: اگر کسی فعل کی ادائیگی میں کوئی شے رکاوٹ ہے تو اس دوسری شے کا ترک لازم ہے (باالفاظ دیگر واجب کی ضد حرام ہوتی ہے)۔
ان دونوں کے بھی سنی قائل ہیں۔ چنانچہ شیعہ فکر میں “بواسطہ حکم شرعی” جن صورتوں کو عقل کو مصدر بنانا کہتے ہیں وہ سنی بھی مانتے ہیں۔
3۔ پہلی قسم (مستقلات عقلیہ) کے تحت اس قسم کے امور آتے ہیں:
الف) حسن و قبح عقلی سے ثابت ہونے والے بعض احکام شریعہ جیسے شکر منعم واجب ہونا، کذب کا برا ہونا وغیرہ۔ سنی اصول میں ماتریدیہ اس کے قائل ہیں۔
ب) براۃ اصلیہ: اگر باوجود کوشش کے کسی مسئلے میں حرمت یا وجوب پر کوئی دلیل نہ مل سکے تو اس میں حکم اباحت و جواز ہوگا۔ یہ مستقلات عقلیہ میں سے اس لئے ہے کہ شارع کے لئے بغیر بیان کے عقاب دینا جائز نہیں۔ سنی عام طور پر اس اصول کو نہیں برتتے جس کی وجہ آگے واضح ہوجائے گی۔
ج) تمسک بعدم الدلیل: جو معاملہ ایسا ہو کہ وہ وجوب یا حرمت کے اثبات کے لئے مشہور دلیل کا تقاضا کرتا ہو مگر ایسی دلیل موجود نہ ہو تو اس کا حکم اباحت و جواز ہوگا، یعنی عدم دلیل کو حکم اباحت کی دلیل ماننا (یہ بھی یا اسی وجہ سے مستقلات عقلیہ میں ہے جو اوپر والے کے لئے وجہ ہے اور یا یہ شارع کی تقریر ہے)۔
د) استصحاب الحال: یعنی کسی معاملے کا ایک وقت / حال میں یقین کے ساتھ جو حکم ثابت تھا، دوسرے وقت میں اس پر شک ہونے کے بعد اگر اس کی نفی کی کوئی دلیل موجود نہ ہو تو ابتدائی حکم برقرار رہے گا۔ سنی اصولیین بھی مختلف شرائط کے ساتھ اس کے قائل ہیں۔
4۔ امامیہ اہل تشیع علت پر مبنی قیاس کے قائل نہیں جبکہ سنی اس کے قائل ہیں۔ چونکہ اہل سنت قیاس کے قائل ہیں لہذا انہیں برات اصلیہ کے اصول کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ ہر غیر منصوص کیس کو کسی منصوص کیس پر قیاس کرکے اس کا حکم معلوم کرتے ہیں اور اہل تشیع چونکہ قیاس کے قائل نہیں لہذا وہ غیر منصوص کیسز کی اکثریت پر برات اصلیہ کے اصول کے تحت مباح ہونے کا حکم جاری کرتے ہیں۔
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ قیاس علت کو حجت مان کر اہل سنت ایک اعتبار سے شیعہ سے زیادہ عقل کو حجت مانتے ہیں لیکن اس کا عنوان الگ ہے (یہاں یہ بات یاد رہے کہ قیاس علت “توقیف” سے باہر نہیں)۔ معلوم ہوا ہے کہ بسا اوقات محض عنوان یا لیبل مس لیڈنگ بھی ہوا کرتے ہیں۔
کمنت کیجے