مولانا فراہی صاحب “نظام القرآن” کے مقدمے میں قرآن مجید کی تفسیر کے لسانی ماخذات پر تبصرہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسمائے شریعہ جیسے کہ نماز، روزہ، زکوۃ، حج، جہاد وغیرہ کے معانی تواتر کے ساتھ محفوظ ہو کر سلف سے خلف تک منقول ہوئے ہیں جن میں اختلاف روا نہیں۔ ان کے سوا دیگر الفاظ کے بارے میں وہ کہتے ہیں:
“باقی رہے دوسرے الفاظ اور حقیقت و مجاز کے مختلف اسلوب تو اس باب میں ماخذ قدیم کلام عرب اور خود قرآن مجید ہے۔ لغت کی کتابیں ان چیزوں کی تحقیق میں کچھ زیادہ رہنمائی نہیں کرتیں۔ ان سے بالعموم نہ تو الفاظ کی پوری حقیقت معلوم ہوتی، نہ عربی خالص اور عربی مولد کے درمیان کوئی امتیاز ہوتا ہے اور نہ لفظ کی جڑ ہی کا پتہ لگتا کہ معلوم ہو سکے کہ کیا اصل ہے، کیا فرع اور کیا حقیقت ہے کیا مجاز؟ تو جو لوگ کلام عرب میں مہارت بہم نہیں پہنچاتے بلکہ صرف لغت کی کتابوں پر قانع ہو جاتے ہیں وہ بسا اوقات قرآن مجید کے معانی سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ پھر قدیم کلام عرب کا جتنا حصہ ہم تک پہنچا ہے اس میں بہت کچھ ملاوٹ بھی ہے اور غریب و نامانوس الفاظ کی بھی اس میں آمیزش ہے لیکن ایک ناقد ماہر کے لیے اصل و نقل میں امتیاز کرلینا کچھ مشکل نہیں۔ پس ضروری ہے کہ صرف وہ معانی لیے جائیں جو اصلی کلام عرب سے ماخوذ ہوں، شاذ معنی ہرگز نہ لیے جائیں۔”
یہاں علامہ فراہی صاحب نے متواتر اسمائے شریعہ کے علاوہ دیگر الفاظ قرآنی میں اسی قسم کی ظنیت مان لی ہے جیسی وہ اخبار آحاد کی بابت مانتے ہیں، یہاں تک کہ قدیم کلام عرب کا جو حصہ ہم تک پہنچا ہے وہ بھی ان کے مطابق آمیزش سے پاک نہیں نیز جہاں کھرے و کھوٹے میں تمییز کے لئے اجتہاد کی ضرورت پیش آتی ہے جس سے اصل و نقل میں امتیاز ہوتا ہے لیکن یہ سب “ایک ماہر ناقد” کرتا ہے۔ پھر فراہی صاحب کے مطابق “شاذ” معنی بھی مراد نہیں لینے چاہیے، تاہم جس طرح معانی کے مابین حقیقت و مجاز یا اشتراک کا رشتہ طے کرنا ایک اجتہادی معاملہ ہے، اسی طرح کلام میں شذوذ طے کرنا بھی ایک اجتہادی معاملہ ہے۔
اس سب کے پیش نظر اب آئیں اس بات کی جانب کہ امام رازی و علامہ آمدی وغیرہ کا کہنا ہے کہ دلائل لفظیہ قطعیت نہیں ظن کا فائدہ دیتے ہیں الا یہ کہ ان کے ساتھ تواتر و قرائن یقینیہ سے ثابت امور موجود ہوں۔ مولانا فراہی صاحب کے نزدیک چونکہ قرآن قطعی الدلالت ہے، اس لئے آپ نے (اور ان کی پیروی میں غامدی صاحب) نے امام رازی کے اس موقف پر نقد کیا ہے (یہ نقد دراصل علامہ ابن قیم کا کام ہے جنہوں نے اس مسئلے پر امام رازی کے نقد میں خوب طوالت سے کام لیتے ہوئے غیر متعلق نکات کا ایک گلدستہ اکٹھا کردیا ہے)۔ دلائل لفظیہ جن وجوہات کی بنا پر محتمل ہوتے ہیں، امام رازی نے ایسے نو امور گنوائے ہیں جن میں سے دو امور یہ ہیں:
1) نقل لغات میں احتمال (متعدد الفاظ کے وضعی معنی کا علم اخبار احاد سے ہوتا ہے نیز ان میں ماہرین کا اختلاف بھی ثابت ہے)
2) نحو و صرف کے قواعد میں اختلافات سے پیدا ہونے والا احتمال (اعراب وغیرہ کی حالتیں بدلنے سے معنی میں تبدیلی ہوجاتی ہے، مختلف علاقوں کے علمائے لغت کے ہاں ایسے اختلافات موجود ہیں)
کتاب “المحصول” میں آپ نے ان پر نسبتاً تفصیل سے کلام کیا ہے۔ یہاں ہماری دلچسپی اس پہلو سے ہے کہ درج بالا باتیں کہہ دینے کے بعد آخر مولانا فراہی صاحب امام رازی سے اس مسئلے پر شکوہ کیسے کرسکتے ہیں کہ دلائل لفظیہ سے متکلم کی مراد جاننے میں احتمال ہوتا ہے، جبکہ ان میں سے دو وجوہات کا اقرار انہوں نے خود بھی کرلیا ہے؟ رہی بات تواتر پر مبنی اسمائے شریعہ کی، تو تواتر ثابت ہونے کے ساتھ حصول قطعیت کا امام رازی نے انکار کب کیا تھا؟




کمنت کیجے