Home » شہادت و عقلیت (1)
زبان وادب فلسفہ کلام

شہادت و عقلیت (1)

حاملِ عقل ہونا انسان ہونے کی معنویت میں داخل ہے کیونکہ عقل اس کے فطری ملکات میں سے ہے۔ تاہم، عقل کا عقلیت (rationality) میں ڈھل جانا فرد کے ارادی فیصلے کے تابع ہے۔ بعینہٖ، انسان خلقتاً فجور اور تقوٰی کا حامل ہے اور اس کا فاجر اور متقی ہونا اس کے ارادے کے تابع ہے۔ اس میں اہم یہ ہے کہ فجور، تقویٰ اور عقل کے ملکات نفسی اور شعوری ہیں لیکن ان کی کسی بھی خاص نہج پر تشکیل کے وسائل خارجی ہیں۔ یعنی”ازخود“ فجور کے فاجریت میں، تقوٰی کے اتقا میں، اور عقل کے عقلیت میں ڈھلنے کے وسائل اور امکانات صفر ہیں۔ عقل کچھ ”سیکھ“ کر ہی عقلیت میں ڈھلتی ہے، فجور کچھ ”سیکھ“ کر ہی فاجریت بنتا ہے اور تقویٰ کچھ ”سیکھ“ کر ہی اتقا بننے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اور یہ ”کچھ“، ان وسائل کا نام ہے جو ہر معاشرے کے کلچر، روایتِ علم اور روایت مذہب میں موجود ہوتے ہیں، اور انفس سے خارج میں ہیں۔ کسی فرد میں عقل قابل ملاحظہ ہو یا نہ ہو، عقلیت بالیقین قابل ملاحظہ ہوتی ہے کیونکہ، فاجریت اور اتقا کی طرح، یہ اپنے مظاہر رکھتی ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں عقلیت، فاجریت اور اتقا کے انسانی مظاہر عام ہیں اور ان معاشروں کے تصورِ حقیقت سے اخذ شدہ اور قائم تصورِ انسان کے تابع ہیں۔ صحت مند معاشرے کا قیام ان لیاقتوں کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
عقلیت، فاجریت اور اتقا بین الانسان ایسے مشترکات ہیں جو کچھ فروق کے ساتھ ایک جیسے ہیں، لیکن مختلف انسانی معاشروں میں اپنی غایات کے لحاظ سے یہ ایک دوسرے سے radically مختلف ہیں۔ یہی انسان ہونے کی معنویت ہے کیونکہ وہ عقل، فجور اور تقویٰ کے علاوہ ایک ایسے ملکہ کا حامل ہے جو ان سب سے بڑھ کر ہے اور وہ اس کا حاملِ ارادہ ہونا ہے۔ علم اور ارادے کی باہمی نسبتیں ازحد پیچیدہ ہیں، لیکن یہ ایک بدیہی امر ہے کہ معاشروں میں، یعنی آفاق میں طاقت جو ارادے اور اختیار کا مظہر ہے، علم سے اول ہے اور جہاں صاحبِ ارادہ ہونا، عاقل ہونے سے اول ہے۔ فطرتِ انسانی میں بھی ارادہ، عقل سے اول ہے۔ تجربے کی زمانیت میں علم کو اختیار اور طاقت کی تشکیلات پر اولیت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ فطری تقدم اور تاخر ہے، اور اس میں فضیلت کا بیان نہیں ہے۔ میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا کہ عقل ارادے، اختیار اور طاقت کے تابع ہے۔ تابعیت کے دونوں امکانات زمانی اور تاریخی طور پر موجود رہتے ہیں، یعنی اس امر کا حقیقی امکان ہوتا ہے کہ عقل، ارادے کے تابع ہو یا ارادہ عقل پر حاکم ہو۔ لیکن فطرت انسانی میں تقدم ارادے اور اختیار کو حاصل ہے۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ ارادہ عقل کے تابع ہو گا یا بالعکس، تو یہ امر بھی ارادی ہے۔
(۱) اپنی ذات میں انسان فطرت ہے، اور مرتبۂ فطرت وجود اور شعور کی یکتائی ہے، جہاں انسان محض ایک اکائی ہے، اور جہاں ممیزات کا گزر نہیں۔ مرتبۂ فطرت میں، اور حاملِ فطرت ہونے کی حیثیت سے، انسان اپنے اجزائے ذات میں قابلِ ادراک نہیں ہے، یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ انسانی فطرت وجود ہے یا شعور ہے۔ فطرتِ انسانی زمرۂ وجود ہے اور نہ زمرۂ شعور۔ مرتبۂ فطرت پر، انسان میں ”قالب“ اور ”جان“ کا امتیاز بھی ممکن نہیں، اس لیے فطرت کو بیک جان و قالب بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اپنی حالتِ یکتائی میں انسانی فطرت لازمانی ہے، اور انسانی وجود و شعور زمانی ہیں۔ فطرتِ انسانی زمانی اور مکانی شناختوں سے، اور شعور و وجود کے امتیازات سے معریٰ ہے۔ یہ تمام امتیازات فطرتِ انسانی میں نامعلوم و ناقابلِ ادراک ہیں۔
(۲) انسان اپنے مرتبۂ فطرت میں مکلف ہے، اور مکلف ہونا ہی انسان ہونے کا لبِ لباب ہے۔ مرتبۂ فطرت میں جس طرح وجود و شعور کی تشقیق ممکن نہیں، بعینہٖ اس مرتبے میں تکلیف کو فعل کے تناظر میں یا علم کے تناظر میں دیکھنا ممکن نہیں کیونکہ یہ وجود و شعور کی تحتی تشقیق ہے، جو بدرجۂ اتم ناممکن ہے۔ فطرت نرے (bare) انسان ہونے کا درجہ ہے جہاں شعور، وجود میں گھلا ہوا ہے، اور وجود، شعور میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ مرتبۂ فطرت میں آگہی وجود ہے اور وجود آگہی ہے۔ مرتبۂ فطرت ”آگاہ+ہے“ ہے۔ یہ ”آگہی“ مخلوقیت ہے اور ”ہے“ ارادہ ہے، لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ انسانی فطرت میں ”آگہیِ مخلوقیت“ اور ”ہویتِ ارادہ“ کے امتیازات قابل ادراک نہیں ہے۔ مرتبۂ فطرت میں یہ آگہی (awareness) علم ہے اور نہ تجربہ، اور نہ ارادہ فعل ہے۔ مرتبۂ فطرت میں کوئی علمیاتی حرکت (epistemic        movement) قابل تصور نہیں ہے۔ یہ آگہی انفسی اور آفاقی کی دوئی کے بغیر ہے، یعنی اس درجے میں انانیت (I-am-ness) اور فاعل علمی کا کوئی وجود نہیں۔
(۳) مرتبۂ فطرت چونکہ لازمانی ہے اس لیے یہاں موت و حیات کا بھی کوئی گزر نہیں۔ مرتبۂ فطرت موت و حیات سے اول (prior) ہے۔ حیات، وجود کا وصف ہے، عقل شعور کا جبکہ ارادہ نہ وجود میں ہے نہ شعور میں، وہ فطرت کا خاصہ ہے۔ مرتبۂ فطرت میں آگہی = مخلوقیت = ارادہ = تکلیف ہے۔ مکلف ہونا نہ علمی ہے، نہ وجودی ہے نہ مذہبی ہے نہ غیرمذہبی ہے بلکہ فطری اور تنزیہی ہے۔ اپنی مکمل حالتِ یکتائی میں فطرت ہی درجۂ تکلیف ہے۔ اپنے مرتبۂ فطرت میں انسان صرف شہادت کے روبرو ہے اور مکلف ہونے کا یہی معنی ہے۔
(۴) درجۂ فطرت میں یہ کہنا کہ انسان اپنے اچھے برے کا ذمہ دار ہے، تکلیف کا اقتصاری تصور ہے، کیونکہ تکلیف کا ہر عقلی، اور اخلاقی تصور اقتصاری اور قانونی نوعیت کا ہے اور آخر الامر آلاتی ہے۔ تکلیف کا مسئلہ فطرت کی ہونیت (”ہونا“ سے: is-ness) سے جڑا ہوا ہے۔
(۵) اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ ”انسان کیا ہے؟“ تو اس کا یہ جواب دینا کہ انسان وجود ہے درست نہیں اور یہ جواب دینا کہ انسان شعور ہے بھی درست نہیں ہے۔ انسان زمانی اور مکانی تقویم میں یقیناً وجود و شعور ہے، اور یہی امتیاز شعور و وجود کو علم، عقل اور منطق کا موضوع بناتا ہے کیونکہ ممیزات وجود ہی عقلی شعور کا موضوع ہو سکتی ہیں۔ انسان کو وجود و شعور کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن یہ مجموعہ، مجموعے ہی کے مساوی ہے، اور انسان ان میں سے غیرحاضر ہے کیونکہ وہ ان دونوں کا حامل ہے اور ان سے ممیز اور الگ ہے۔ لہٰذا انسان کی ”ہونیت (is-ness)“ صرف فطرت ہے۔
(۶) فطرتِ انسانی قبل عقلی (pre-rational) اور قبل تجربی (pre-empirical) ہے، اور شعور و وجود سے نامتصف اور زمان و مکاں سے تہی ایک ایسی لازمانی اور غیرمتغیر locale ہے جو انسان میں لاہوت کا پرتو ہے۔ مرتبۂ فطرت چونکہ لازمانی ہے اس لیے یہ قبل حیات (pre-bios) ہے اور قبل موت (pre-thanos) ہے۔ یہ ہونیت کا ایسا مرتبہ ہے جو موت و حیات سے اول (prior) ہے۔
(۷) انسان اپنے مرتبۂ ذات میں آگہی آشامیدہ فطرت ہے۔ انسان عالمِ خلق (انفس+آفاق+آگہی) ”کا“ نہیں بلکہ اس ”پر“ شاہد ہے، اور یہ خلق ”پر“ شاہد ہونا ہی اس کا مکلف ہونا ہے۔ انسان عین اپنی اس فطرت میں صرف شہادت (testament) کے روبرو ہے جو ایک دعوت ہے، اور جس کی اساس فطرت میں سرایت شدہ آگہی ہے۔ یہ شہادت آگہی کی خلق سے امر تک توسیع کی دعوت ہے۔ اور شہادت (testament) یہ ہے:
اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ
(۸) اس انتہائی بنیادی صورت حال میں، انسان کو دو چیزوں پر شہادت (testament) کی دعوت دی جا رہی ہے: یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہ نہیں ہے، اور یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ شہادت (testament) کا ہونیتی سیاق و سباق مطلقاً ریڈیکل (       absolutely redical) ہے۔ شہادت (testament) کے لیے پیش کیے گئے ”مطالبات“ کے جواب قبل عقلی (pre-rational) اور قبل تجربی (pre empirical) ہیں، یعنی انسان کے پاس دلائل یا تجربے سے حاصل ہونے والا کوئی ایسا علم نہیں ہے جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کے وحدہٗ لاشریک ہونے کو اور حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے عبد اور رسول ہونے کے بارے میں کچھ ”جانتا“ ہو یا ”جان“ سکے۔ یعنی اس شہادت (testament) کے روبرو انسان کے پاس کوئی کسبی اور تجربی علم نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ یہ گواہی دینے کے قابل ہو جائے۔ کسبی اور تجربی، انسان کے تاریخی احوال ہیں جو شہادت (testament) کا موضوع ہی نہیں ہیں کیونکہ انسان اپنی کسی بھی تاریخی حیثیت میں شہادت (testament) کا مخاطب ہی نہیں ہے۔ شہادت (testament) انسان سے قبل تجربی اور قبل عقلی سطح پر مخاطب ہے۔ انسان صرف انسان ”ہونے“ کی حیثیت سے (       as        bare        human being) ہی شہادت (testament) کا مخاطَب ہے، اور جو فطرت ہے۔ اگر انسان شہادت (testament) کے روبرو مہلت طلب کر لے تاکہ وہ غور و فکر کرنے کے بعد گواہی دینے کی تیاری کر لے یا ”تحقیق“ سے کوئی نتیجہ اخذ کر لے، تو بھی صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ پڑ سکتا ہے۔ شہادت (testament) کے روبرو تجربی اور عقلی پوزیشن لینا اور ان ”وسائل“ پر انحصار کرنا انکار کو مستلزم ہے کیونکہ تجربی اور عقلی علوم انانیت (I-am-ness) کی تشکیل کے مابعد اور اس کا براہ راست ثمر ہیں۔ شہادت (testament) کوئی ایسے قضایا نہیں جو کسی فاعل علمی کی انانیت سے مخاطب ہوں، اور کسی علمی مستجاب (epistemic        response) کا مطالبہ رکھتے ہوں۔
(۹) فی نفسہٖ شہادت (testament) میں کوئی ”علم“ نہیں دیا جا رہا کہ اسے ”جاننا“ کہا جا سکے اور نہ ہی کچھ ”قضایا“ پیش کیے جا رہے ہیں جن کے ”ماننے“ کا مطالبہ کیا جا رہا ہو، کیونکہ اس گواہی سے ماقبل اور مابعد کیا گیا تجربے اور جانکاری کا ہر عمل اس کے روبرو بالکل بیکار ہے۔ شہادت (testament) اور علم دو بالکل الگ الگ categories ہیں۔ اس شہادت (testament) سے کچھ جاننا برآمد نہیں ہوتا، تو ماننے کا سوال ہی ختم ہو گیا۔ شہادت (testament) کی روبروئی میں ایسا کوئی ”جاننا“ فرض بھی نہیں کیا جا سکتا جو یہاں کام آئے۔ جب شہادت (testament) کچھ جاننا ہے ہی نہیں تو ماننا کہاں باقی رہا؟
(۱۰) گواہی کا مطالبہ اور دعوت عین اس ہستی کو دی جاتی ہے جو معروف معنی میں دو شرائط کی حامل ہو: ایک یہ کہ ”ہو“، اور دوسرے یہ کہ ما بہ الشہادت امور اس کو ”معلوم“ ہوں۔ ”ہونا“ اور ”معلوم ہونا“ درجۂ فطرت میں ارادے کی حرکت (movement) کا مطالبہ رکھتے ہیں۔ الوہی شہادت (testament) کے روبرو انسان کو جو دعوت دی جا رہی ہے، اس میں ماقبل اور مابعد ہر کسبی علم اور ہر تجربہ قطعی بیکار ہے۔ دنیا میں انسان جتنی بھی گواہیاں دیتا ہے وہ ہونے کی شرط پر جاننے کے بعد ہوتی ہیں۔ دعوتِ شہادت (testament) پر غور کرنے سے معلوم ہو گیا کہ اس کی بنیاد کوئی علم نہیں ہے بلکہ آگہی (awareness) ہے جو عالم خلق ”پر“، عالم خلق ”میں“ ہے۔ یاد رہے کہ علم اور شعور باہم ممیز ہیں، جبکہ شہادت (testament) کے روبرو ”آگہی“ فطرت سے ممیز نہیں ہے۔ انسان کی آگہی آشامیدہ فطرت کی معلومیت ہی عین شہادت کی مخاطب ہے، کیونکہ کوئی آگہی (awareness) معلومیت سے خالی نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے۔ مرتبۂ فطرت میں آگہی اور علم میں ناقابل عبور امتیاز ہے جس کو ملحوظ رکھنا لازم ہے۔ علم انانیت (I-am-ness) کی تشکیل کے مابعد ہے جبکہ شہادت (testament) اس سے بھی اول ہے۔ فطرت میں آگہی یک بیک ”ہونا“ ہے، اور وجود یک بیک ”آگہی“ ہے۔
(۱۱) خدا کے ہونے نہ ہونے کا سوال ہی اتنا لغو ہے کہ شہادت (testament) میں اس کا کوئی پرتو بھی موجود نہیں ہے۔ کسی بھی شے کے ہونے نہ ہونے کا سوال وجود و شعور کی یکتائی میں پڑنے والی دراڑوں سے رینگتا ہوا باہر آتا ہے، کیونکہ شعور جب کسی شے کے ہونے کا پتہ چل گیا تو وہ نہ ہونے سے کیونکر بےخبر ہو سکتا ہے؟ شہادت (testament) الوہی وحدت اور انسانی اکائی کی روبروئی ہے۔ شہادت (testament) کی دعوت میں یہ مضمر ہے کہ اس کا مخاطب حاملِ فطرت ہونے کی حیثیت سے خدا کے ہونے نہ ہونے کے معاملے میں تذبذب کا شکار نہیں ہے بلکہ اس کا اشکال خدا کے وحدہٗ لاشریک ہونے میں ہو سکتا ہے اور اسے ہی اڈریس کیا جا رہا ہے۔ شہادت (testament) کے قبل عقلی اور قبل تجربی ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان کا کمایا ہوا علم اور برتا ہوا تجربہ اس کے روبرو رکاوٹ تو بن سکتا ہے معاون نہیں ہو سکتا۔ اس لیے صاحبِ تجربہ اور صاحبِ علم کی حیثیت میں انسان شہادت (testament) کا مخاطب ہی نہیں ہے۔ انسان کے سارے تجربے اور سارے علم میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر اس شہادت کا جواب دیا جا سکے۔
(۱۲) دنیا کا ہر انسان صاحبِ تجربہ ہے اور کسی نہ کسی معنی میں صاحبِ علم ہے، اور یہ اس کا حال ہے۔ انسانی احوال تاریخ کے تحولات سے پیدا ہوتے ہیں اور سب انسانوں میں قطعاً یکساں نہیں ہیں، اس لیے شہادت (testament) کا موضوع یا مخاطب بھی نہیں ہیں۔ زمان و مکاں سے در آنے والے ذاتِ انسانی کے متغیرات، شہادت (testament) کے خطاب سے خارج ہیں، اور مابعد وحی کا موضوع ہیں۔
(۱۳) الوہی مطالبۂ شہادت (testament) کے روبرو انسان کی پہلی حرکت (movement) ہونیت (is-ness) سے مشروط ہے اور جو ارادے میں ظاہر ہوتی ہے۔ شہادت (testament) دینا یا نہ دینا ایک فیصلہ ہے جو ارادے کو سزاوار ہے۔ اس حرکت کا حاصل کوئی عمل نہیں ہے، اور نہ کوئی علم ہے۔ شہادت (testament) اپنی نوعیت میں کونی (cosmic) ہے، تاریخی (historical) نہیں ہے۔ جس طرح عام عدالت میں گواہ کا ایک مقام ہوتا ہے، اسی طرح الوہی شہادت (testament) عالم خلق اور عالم امر میں گواہ کے مقام کا تعین کر دیتی ہے۔ بہ صورتِ اثبات انسان عالم امر میں بھی اپنی اصلِ فطرت پر بحال ہو جاتا ہے۔ مابعد شہادت کے وجودی تناظر میں، یہ خلیفۃ اللہ کی سرفرازی ہے اور شعوری تناظر میں یہ عبدیت یعنی surrender ہے۔ انسان کے سب وقوف و اعمال مابعد ہیں۔ انسان اپنے آپ ”میں“ اور اپنے ”سامنے“ اپنی فطرت اور ملکات کے ساتھ ہے، دنیا ”میں“ اور دنیا کے ”سامنے“ اپنے ملکات کے ساتھ ہے، جبکہ شہادت کے روبرو صرف اپنی فطرت میں ہے۔ مراد یہ کہ شہادت (testament) کے روبرو ارادے کے اثبات کی اول حرکت سپراندازی (surrender) ہے۔
(۱۴) یہ شہادت (testament) انفسی+ آفاقی+کونی، اور ان امتیازات کے بغیر ہے، اور انسان کے اپنے آپ پر اور کائنات پر، یعنی اپنی مخلوقیت پر شاہد ہونے کا تتمہ ہے۔ اس انتہائی بنیادی حال میں اس کا شاہد ہونا فطری ہے اور عالم ہونا ارادی اور عقلی ہے، اس لیے شہادت، علم سے اول ہے۔ شہادت (testament) ام الانسان اور ام العلم ہے، حاصلِ علم نہیں ہے۔ یعنی انسان کو وحی مابعد شہادت (testament) وصول ہوتی ہے۔
(۱۵) میں یہ سوال ہی نہیں اٹھا رہا کہ ”انسان کیوں مان لے؟“ کیونکہ انسان سے کچھ ماننے کا مطالبہ ہی نہیں کیا جا رہا۔ تہدید و وعید کی بنیاد پر انسان سے کچھ ماننے کا مطالبہ کرنا جبر ہے۔ شہادت (testament) میں دو چیزیں لزوم کے طور پر داخل ہیں: شرفِ انسانی کی بالا استواری، اور انسان کی مطلق آزادی۔ خالق کائنات نے خیر البریہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کو انسان کی طرف بھیجا ہے کہ اس کو شہادت کی دعوت پہنچا دے، اور جو یک بیک انسان کے شرف اور مطلق آزادی (absolute          freedom) کی توثیق بھی ہے۔ لیکن یہ آزادی مکلف کی آزادی ہے کیونکہ یہ عالمِ خلق و امر میں نتیجہ خیز ہے۔ پورے شرف کے ساتھ انسان کو شہادت (testament) کی دعوت دی جا رہی ہے۔ شہادت (testament) کے ذریعے انسان کو شعور و وجود کی پوری تقویم میں، کل کارخانۂ وجود میں گواہ کے طور پر شامل ہونے کی یاد دہانی کرائی جا رہی ہے، اور اس گواہی میں داخل ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے کیونکہ اس میں دو اور شہادتیں مضمر ہیں۔ یہ خود انسان اور اس کائنات پر بھی گواہی ہے۔ اس سیاق و سباق میں علم ایک ہنر اور قدر ہے جبکہ شہادت (testament) ایک شرف ہے، اور علم سے اول ہے۔
(۱۶) شہادت (testament) کی مخاطَب فطرتِ انسانی ہے جبکہ وحی انسان کی عقل سے مخاطب ہے۔
(۱۷) اہم ترین یہ کہ اس میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ انسان سے شہادت (testament) دینے یا گواہ بننے کا مطالبہ ہی کیوں کیا جا رہا ہے؟ جیسا کہ عرض کیا کہ انسان اپنی فطرت میں شہادت (testament) کے روبرو ہے، اور یہ گواہی اس فطرت کی پاسداری ہے، نگہبانی ہے اور استواری ہے کیونکہ یہ اقتضائے فطرت ہے۔ شہادت (testament) نہ دینے کا براہِ راست نتیجہ انسان کا ہونیت سے ہبوط ہے۔ اس ہبوط ثانی میں انسان کی فطرت دوئی میں منقسم ہو کر شعور و وجود کے طور پر ظہور پاتی ہے۔ انسان کا ہبوط اول تنزیہہ اور تشبیہ کی دوئی پر منتج ہوتا ہے، اور دوسرا ہبوط شعور و وجود کی دوئی پر۔ شعور و وجود کی دوئی فطرت کی فراموشگاری ہے۔ شعور و وجود کی دوئی فطرت کے ملبے سے برآمد ہوتی ہے، اور شہادت (testament) فطرت کی نگہبانی ہے۔ شبستانِ فراموشگاری میں دو ناقابل حل سوال ناگزیر طور پر انسان پر مسلط ہو جاتے ہیں: (۱) میں کون ہوں/شعور کیا ہے؟ اور وجود کیا ہے؟ انسان کے سارے علوم فطرت سے ہبوط میں بننے والی شعور و وجود کی گھاٹی میں کائی کی طرح اگتے ہیں۔ لہٰذا، شہادت (testament) اس لیے ضروری ہے کہ انسان میں فطرت کی یکتائی استوار رہے اور وہ زمان و مکاں کے بوجھ سے تڑخ کر شعور و وجود میں منقسم نہ ہو جائے۔ to        be         or         not         to        be کا سوال فطرت کی یکتائی کے خاتمے کے مابعد ہے، اور شعور و وجود کی دوئی کے ظہور کا لابدی نتیجہ ہے۔ ہیملٹ کی زبان سے کراہتا ہوا یہ سوال، مغربی انسان کے انفس میں nihilism کی پہلی سرگوشی ہے۔ to        be         or         not         to         be کا سوال انسان کا اپنے انسان ہونے سے دستبرداری کی طرف پہلا قدم ہے۔ یہ سوال انسان کا فطری سوال نہیں ہے، بلکہ پاشیدگی فطرت سے جنم لینے والے ہبوطی شعور کا پہلا بَین ہے۔ جدیدیت کو دیکھنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ جدید انسان فطرت سے ہبوط کا مظہر ہے اور وہ اپنے انسان ہونے سے بہت دور نکل آیا ہے، اور شبستان وجود میں اس کو اب کوئی راستہ نظر آتا ہے اور نہ کوئی منزل۔ جنت مشاہدۂ حق ہے، فطرت حضور حق ہے اور جدیدیت مطلق نسیانِ حق ہے۔
(۱۸) خود اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر شہادت (testament) دی ہے: شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو۔ گویا شہادت (testament) فطرت کی تخلیق کے ہر سانچے میں مبدا پر داخل ہے۔ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] ”خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ۔“ اس گواہی میں فرشتے اور ”علم والے“ انسان شریک ہیں، لہٰذا کسبی علم یہاں سے خارج ہو گیا، کیونکہ ہر انسان اس گواہی کا مخاطب ہے اور کسبی علم علی الاطلاق حاصل نہیں ہوتا۔ انسان کی تخلیق یعنی اس کے ”ہونے“ میں ”جاننا“ داخل ہے اور ”جاننے“ میں ”ہونا“، اور اللہ تعالیٰ کا سطح شہادت (testament) پر ”اولوا العلم“ کہہ کر انسانوں کے مابین کوئی تفریق کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ شہادت ہی عین وہ چیز ہے جو انسان کو اس کے میثاقِ الست کے ” فطری علم“ کی بنیاد پر دیگر ارضی مخلوقات سے ممیز کرتی ہے، جو نہ علم والے ہیں اور نہ مکلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شہادت (testament) سے منکرین کو کالاانعام اور تراباً اسی لیے کہا ہے کہ وہ فطرت میں ودیعت کردہ آگہی کے منکر ہو کر جانور اور مٹی بن جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ک.ا.ف.ر. منکر شہادت ہے اور جدیدیت منکر فطرت۔ اہل نظر یہ بات جانتے ہیں کہ منکرینِ فطرت کا پیدا کردہ علم کیا ہو سکتا ہے۔ مابعد شہادت (testament) انسانوں میں ”اولوا العلم“ کی تقسیم ازخود قائم ہو جاتی ہے کہ شہادت نہ دینے والوں کے ہونے اور نہ ہونے کی طرح، ان کا جاننا اور نہ جاننا سب اکارت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک علم والے صرف وہی لوگ ہیں جو شہادت دیتے ہیں۔
(۱۹) رب کے حضور شہادت (testament) کی روبروئی سے قبل انسان دو چیزوں کا شاہد ہے: ایک وہ اپنے اوپر گواہ ہے اور دوسرے اس کائنات پر گواہ ہے، اور یہ دونوں شہادتیں (testaments) کسری اور جزوی ہیں جو رب کے حضور مطالبۂ شہادت (testament) سے مکمل ہو جاتی ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا کہ دنیا میں ہر گواہی کے لیے ماقبل علم ضروری ہے۔ رب کے حضور گواہی میں انسان کے ہونے کا پہلو بھی داخل ہو گیا۔ یعنی انسان کا مطلب یک بیک ہونا اور جاننا ہے، اور یہی چیز اس مطالبۂ شہادت کی اساس ہے۔ اور شہادت (testament) انسان سے اس کے درجۂ فطرت میں مخاطب ہے، اور انسانی تجربہ اور انسانی علم اس فطرت پر اثرانداز تو یقیناً ہوتے ہیں، لیکن اس کے تحول پر قادر نہیں ہیں۔
(۲۰) شہادت بطور گواہی (testament) اور شہادت بطور جانثاری (martyrdom) ایک ہی چیز ہے اور انسان ہونے کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرتبۂ شہادت بطور جانثاری (martyrdom) میں اللہ تعالیٰ نے موت کو حیات کہا، ایسی حیات جو موت سے حاصل ہوئی، اور ایسی موت جو حیات کا لازمہ ہے۔ اس طرح دو شہادتیں ہیں: شہادت اول سے حیاتِ دنیوی میں کالانعام سے ممیز ہونا حاصل ہو گیا، یعنی انسان اور خلیفۃ اللہ کی سرفرازی حاصل ہو گئی اور دوسری شہادت یعنی جانثاری (martyrdom) نے پہلی شہادت (testament) کو مؤکد کر دیا اور ایس حیات ابدی کا سزاوار ہوا جس کا ہم شعور بھی نہیں رکھتے۔ زندگی اور موت مابعد شہادت ہے۔ اول شہادت میں ظاہر ہونے والا ارادہ دوسری شہادت میں ظاہر ہوا جس میں طبعی موت کا انکار مستلزم ہے۔ یعنی زندگی اور موت شہادت (testament) شاہد کے ارادے کا مظہر ہیں۔ شاہد اولی کی طرح شہید وہ ہے جس نے موت کو طبعی سے ارادی بنا دیا۔ اس طرح شاہد کا جینا اور مرنا شہادت ہے۔ شہادت سے روگردانی حیات سے انکار ہے۔
(۲۱) شہادت (testament) کی عدم موجودگی میں انسان ایسے علم کی تشکیل پر قادر ہی نہیں رہتا جو حق سے کوئی نسبتیں رکھتا ہو، اور ہر علم انفس میں اس کے اختیار اور آفاق میں طاقت کے تابع ہو کر مکمل طور پر آلاتی بن جاتا ہے۔ عہدے اور طاقت کے تحت علم نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی، صرف حکم ہوتا ہے۔

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں