Home » مدرسہ ڈسکورسز : حتمی جواب یا ممکنہ بیانیہ
مدرسہ ڈسکورسز

مدرسہ ڈسکورسز : حتمی جواب یا ممکنہ بیانیہ

تحریر :۔محمد عثمان رمضان

مدرسہ ڈسکورسز اسلامی تہذیب میں جدید علم الکلام کی تشکیل کا ایک زریں باب ہے جسے اکیسویں صدی کے آغاز میں ہند و پاک کے دینی مدارس سے سندِ فضلیت حاصل کرنے والے نوجوان علما ء رقم کر رہے ہیں۔ مدرسہ ڈسکورسز، جدید دور اور معاصر علمی فضا میں مسلمانوں کی علمی، عقلی اور کلامی روایت کی بازیافت ہے۔ یہ ماضی ،حال اور مستقبل میں ایک متحرک اور نامیاتی تعلق کا خواہاں ہے جس کے حصول کے لیے نہایت عمدہ اور مفید مطالعاتی نصاب اور تربیتی نظام تخلیق کیا گیا ہے ۔ پہلے دن سے مدرسہ ڈسکورسز کا یہ منہج رہا ہے کہ شرکاء کو ایسا علمی اور فکری ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی جائے جو علمی پیچیدگیوں سے آراستہ ہو اور فکری وابستگی کے اصرار سے پاک ہو۔ یہاں سوالات کے حتمی جوابات نہیں دیے جاتے اور نہ ہی جوابات کی صحت یا عدم صحت کو موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے بلکہ جدید دور میں پیدا ہونے والے سوالات کی بہتر تفہیم اس کا بنیادی ہدف ہے تاکہ شرکاء اس تفہیم کی بنیاد پرکلامی چیستان میں موزوں تعلیل او رتوجیہہ کے قابل ہو سکیں ۔

مدرسہ ڈسکورسز تبلیغی مشن نہیں بلکہ ایک تعلیمی اور تحقیقی پروگرام ہے۔ تعلیم اور تبلیغ میں بہت بنیادی فرق ہوتا ہے یہی فرق متعلم اور مبلغ کی حیثیات اور ذمہ داریوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ سادہ الفاظ میں تعلیم ایک پروسس کا نام ہے جس میں مختلف تصورات اور تصدیقات کو دیکھا، سمجھا اور سیکھا جاتا ہے اور تبلیغ ایک خواہش کا نام ہے جس میں اپنے نکتہ نظر کو سچائی اور تیقن کے ساتھ دوسروں تک پہنچایا جاتا ہے۔۔ مدرسہ ڈسکورسز چونکہ ایک خالص علمی academic پلیٹ فارم ہے اس وجہ سے اس کی اپنی مخصوص حرکیات ہیں۔ علمی دنیا کا اپنا ایک خاص مزاج ہوتا ہے۔ اس کی اپنی مخصوص اقدار ہوتی ہیں ۔یہاں دلائل کے ساتھ اپنی آراء کا اظہار کیا جاتا ہے اور دوسروں کو اپنی آراء کے اظہار کا حق دیا جاتا ہے۔ علمی دنیا میں ہمیشہ اپنی رائے میں غلطی اور دوسروں کی رائے میں صحت کا ا مکان تسلیم کیا جاتا ہے ۔ جہانِ دانش دراصل جہانِ اکتشاف ہوتا ہے ۔ اس میں امکان کا یہ عنصر ہررائے/ بیانیے کو ممکنہ بنا دیتا ہے۔ اسی وجہ سے MD (مدرسہ ڈسکورسز) میں حتمی جوابات پر اصرار نہیں کیا جاتا بلکہ ممکنہ بیانیے پیش کیے جاتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم موسیٰ نے آئن لائن کلاس میں ایک سوال کے جواب میں اس بات کا اظہار یوں کیا کہ میرے پاس اس سوال کا حتمی جواب نہیں بلکہ ممکنہ بیانیہ ہے۔

. بعض حضرات نے اس چیز کو بنیاد بنا کر مدرسہ ڈسکورسز پر تنقید بھی کی ہے کہ اس میں سوالات کے جوابات نہیں دیے جاتے اور اسے ایک خامی کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ یہ مدرسہ ڈسکورسز کی خامی نہیں بلکہ اس کی مختلف خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے۔ یہاں کسی تناظر پر مبنی ،فکری پیراڈائم کو ترجیح نہیں دی جاتی بلکہ تنقیدی اور متحرک انداز ِفکر کو سراہا جاتا ہے ۔ اختلافِ رائے قابل مذمت نہیں بلکہ قابل رحمت ہوتا ہے ۔ اگر اختلاف کی بنیاد علمی ہو اور اس کا استدلال قوی ہو تو یہاں علمی اختلاف سے حظ اٹھایا جاتا ہے ۔ یہاں شرکاء میں علمی مزاج ، تحقیقی رویے اور تخلیقی قوتوں کو ابھارا جاتا ہے ۔ کسی نکتہ نظر پر اصرار یا کسی متعین رائے کو مسلط نہیں کیا جاتا بلکہ زیرِ بحث موضوع سے متعلق ابحاث کا استقصا کر کےفیصلہ شرکاء کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

 

پہلی بات یہ ہے کہ سوال کا جواب ایک اضافی اور متعلقہ فیصلہ ہوتا ہے ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ سوال کی بھی ایک legitimacy (جواز) ہوتی ہے۔بعض سوالات سوال کے معیار کو ہی کوالیفائی نہیں کر پاتے۔کچھ سوالات اصولوں کی غلط تفہیم سے پیدا ہوتے ہیں یا بنیادی مقدمات کی انفرادی اور ذاتی تفہیم سے جنم لیتے ہیں ۔ بعض سوالات ضمنی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کا تعلق اطلاق کی مختلف صورتوں سے ہوتا ہے ۔ اس طرح وہ اصولی مباحث میں غیر متعلق ہو رہے ہوتے ہیں۔ جواب کسی بھی شخص کے پاس موجود اور محدود علم میں سے ایک ممکنہ حل اور وقتی ایڈجسٹمنٹ ہوتا ہے ۔

درحقیقت سوال کا بھی ایک جبر ہوتا ہے جو مسوؤل کو غیر شعوری طور پر اپنے حصار میں لے لیتا ہے ۔ جواب کی تگ و دو مخاطب کے تزلزل اور سوال کی گرفت کی نشان دہی کررہی ہوتی ہے ۔اور ویسے بھی ہم کسی بھی سوال کے جواب میں فقط اپنے موجودہ تصورات کا ارتجاعی تاثرreflection پیش کر سکتے ہیں اور یہ ارتجاعی تاثر ایک ممکنہ بیانیہ ہوتا ہے نہ کہ کسی بھی سوال کا حتمی جواب ۔ ہمارے جوابات verisimilar بظاہر صحیح سے زیادہ صحیح نہیں ہوتے ان میں ایک verisimilitude ہوتا ہے۔ سوالات زمان و مکان کی حدود سے ماورا نہیں ہوتے بلکہ زمانی اور مکانی فصیلوں میں ہی جنم لیتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں تہذیبی شعور یا انفرادی شعور میں پیدا ہونے والا کوئی بھی سوال ahistorical /transhistorical ماورائے تاریخ نہیں ہوتا ۔سوال اپنے جوہر میں ہی جواب کی تحدید کو متضمن ہوتا ہے۔ جواب کی تحدیدات اس کوممکنہ بنا دیتی ہیں۔ لہذا جواب کی حتمیت کا مطالبہ سوال کی جوہری تفہیم میں نقص کی علامت ہے۔

دلالت اور ثبوت میں قطعی اور ظنی کی بحث سے قطع نظر ممکنہ بیانیہ ایک academic attitude علمی رویہ ہے ۔ یہ کوئیontological وجودیاتی یا metaphysical مابعد الطبعی پوزیشن نہیں بلکہ ایک epistemological scrutiny علمیاتی چھان بین کا عمل ہے ۔ مدرسہ ڈسکورسز کوئی اونٹولوجیکل پوزیشن نہیں لیتا بلکہ یہ علمیاتی اور تعبیراتی فریم ورک میں کام کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کوئی مابعد الطبعی پوزیشن نہیں لے سکتے یا کوئی ایک تناظر بنانا ہی غلط ہے ۔دراصل ممکنہ بیانیہ سے آپ مسلسل اپنا اور دوسروں کا تجزیہ کرتے ہیں اور تنقیدی جائزہ لیتے رہتے ہیں جس سے آپ کی فکر میں نکھار اور دیگر پوزیشنز کی تفہیم میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ آفاقی سطح پر مسلسل بدلاؤ ،، انسانی فطرت ، انسانی کلچر ، ٹیکنالوجی ، مارکیٹ یا مجموعی ہیومن کنڈیشن میں شتابی acceleration کی وجہ سے فکری شتاب یا سرعت ِفکر بہت اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ فکری شتاب اور ممکنہ بیانیہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

علمی دنیا امکانات کی دنیا ہے اس میں determinacy اصرار یا (dogmatism) غطریسیت نہیں ہوتی بلکہ ایک قسم کیindeterminacy غیر حتمیت اور contingency احتمالیت ہوتی ہے ۔ منطقی طور پر contingent ایسے قضیے کو کہا جاتا ہے جو نہ لازمی طور پر صحیح ہوتا اور نہ ہی لازمی طور پر غلط ہوتا ہے بلکہ اس میں ہر دو امکان موجود ہوتے ہیں ۔ یہاں نہ صرف جوابات بلکہ سوالات بھی مبنی براحتمال ہوتے ہیں چونکہ سوالوں میں ایک عارضی پن ہوتا ہے تو اس کے جوابات میں بھی حتمیت یا tautology کا عنصر نہیں ہوتا ۔ منطقی طور پر( tautologous) ایسے قضیے کو کہا جاتا ہے جو ہمیشہ ہی سچ ہوتا ہے ۔ اس میں تکرار ہوتا ہے اور کسی دوسرےامکان کی گنجائش نہیں ہوتی۔ جوابات کی غیر حتمیت سے غیر معنویت یا تعطل برآمد کرنا بر محل نہیں ہے

اس لیےکہ علم و تحقیق کے میدان میں جوابات کی غیر حتمیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ قابل اعتبار یا قابل عمل نہیں ہیں ۔reality حقیقت اور functionality عملیت میں لازم و ملزوم کی نسبت نہیں ہے ۔ عملی دنیا میں نظریات حتمیت کے بغیر بھی کسی مخصوص world view کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں او ر وہ اس مخصوص تناظر میں پوری طرح کارآمدfunctional ہوتے ہیں۔ علمی دنیا ، نہایت ہی پیچیدہ ، مبہم اور تہہ دار ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز میں حتی الوسع تصورات کے ابہام کو اور استدلال کی پیچیدگیوں کو نمایاں کیا جاتا ہے تاکہ فکری سطح پر موجود سطحیت کا خاتمہ ہو اور علمی سطح پر تشکیلِ جدید کا احساس بیدار رہے۔

عوام ، سیدھے اور سطحی مزاج لوگ ، simplicity سطحیت /سادگی اور clarity وضاحت کے دلدادہ ہوتے ہیں ۔ خواص ، دقیقہ رس اور گہرے لوگ پرپیچ ، گھمبیر اور منفرد ہوتے ہیں سست اور سہل پسند افراد ہمہ وقت وضاحتوں کے در پے ہوتے ہیں ۔ مزاج کی سادہ لوحی اور طبیعت کی کاہلی ہر وقت ہر جگہ clarity وضوح کا تقاضا کرتی ہے۔ جبکہ علم کی پگڈنڈیاں ، گہرائی ، پیچیدگی اور ابہام کی وادیوں سے گزرتی ہیں ۔ ابہام اور پیچیدگی کو عام طور پر منفی مفہوم میں لیا جاتا ہے ورنہ جدید نظامِ علم میں یہ تصورات نہ صرف یہ کہ بے مصرف نہیں بلکہ انتہائی مفید ہیں ۔ اسالیب کا اختلاف تصورات کے مفاہیم کو بدل دیتا ہے۔ درحقیقت ابہام ممکنات کے دائرے کو وسیع کرتا ہے اور تنوع کی افادیت کو نمایاں کرتا ہے اور اسی طرح پیچیدگی ، تعامل کے دوام کی ضمانت اور کسی بھی سانچے کی پختگی کی علامت ہوتی ہے۔ جو شئی جتنی تہہ دار ہوتی ہے اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے۔ جو تصور جتنا گنجلک ہوتا ہے علمی دنیا میں اتنا ہی دیر پا ہوتا ہے ۔اس طرح complexity کسی بھی فکری اور عملی سانچے کی پختگی پر منتج ہوتی ہے۔

حتمی جواب سے ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ جواب کی حتمیت کی وجہ سے انسان اپنی رائے پر نظر ثانی سے محروم ہو جاتا ہے اور اس محرومی کی وجہ سے مملکنہ رائے میں تصحیح corrigibility کا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ ۔ تصحیح کا امکان اگر ختم ہو جائے تو تہذیبی اور انفرادی سطح پر ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔ اس طرح جواب کی حتمیت دراصل انفرادی اور تہذیبی سطح پر فکری جمود کو جنم دیتی ہے ۔ حتمیت طبیعت میں سختی اور رویہ میں انقباض بھی پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے تخلیقی صلاحیتیں مدھم پڑھ جاتی ہیں اور انسان میں عدم برداشت کا رویہ فروغ پاتا ہے ۔

سادہ سی بات یہ ہے چونکہ انسان ہمہ جہت یا کامل نہیں ہے اس لیے اس کے پاس ہر چیز کا مکمل علم یا محدود علم کا ہمہ جہت تناظر نہیں ہوتا ۔کاملیت محض خدا کا خاصہ ہے انسان اپنے ادھورے پن کی وجہ سے حتمیت کے مقام تک نہیں پہنچ پاتا اور اسی محدودیت کی وجہ سے ہم ایک فہمی آزمائش میں مبتلا ہیں۔ علمی میدان میں اس آزمائش میں کامیابی کا دعوی کیے بغیر علم و یقین کے حصول کی مسلسل جد وجہد کی جاتی ہے۔ محقق مبلغ نہیں متجسس ہوتا ہے جو ہمہ وقت سچ کی جستجو میں ہوتا ہے اور اپنی رائے پر نظر ثانی کے لیے تیار رہتا ہے۔

حتمی رائے کو جدید سلطنتِ علم میں استعماریت کے عنوان سے بھی معنون کیا جاتاہے جس میں آپ دوسروں کو غیر اہم یا کم اہم سمجھتے ہوئے ان کی رائے پر غوروفکر کے لیے آمادہ نہیں ہوتے ۔اپنی رائے کی حتمیت سے آپ دوسروں کی آراء پر حاکمیت قائم کر رہے ہوتے ہیں۔ ۔ علمی دنیا میں دوسروں کی اظہار رائے یا قوت اظہار پر بالا دستی hegemony قائم کرنا استعمار ہی کی ایک شکل ہے۔ طاقت کے جس عدمِ توازن کی وجہ سے استشراق Orientalism پیدا ہوا آپ حتمیت کے دعوے سے اسی عدم توازن کو قائم رکھتے ہوئے مشرقی دنیا میں استغراب Occidentalism کو وجود بخش رہے ہوتے ہیں۔حتمی جواب اپنی رائے کی مرکزیت قائم کرتے ہوئے دوسروں کی سرزمینِ آراء پر neo colonization جدید نوآبادیت کا عمل ہے جبکہ ممکنہ بیانیہ علمی دنیا میں نوآبادیات سے دستبرداریdecolonization کا اقدام ہے۔

ہماری علمی روایت میں بھی اسلاف ہمیشہ اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بعد یہ فرمایا کرتے تھے واللہ اعلم بالصواب (صحیح بات کا علم اللہ کو ہے) اور اسی طرح کہا جاتا تھا ان کان صوابا فمن اللہ و ان کان خطا فمنی ومن الشیطان( اگر یہ ٹھیک ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلطی ہے تو وہ میری طرف سے یا شیطان کی طرف سے ہے) یہ ممکنہ بیانیہ ہی ہے جس میں غلطی کا امکان تسلیم کیا جاتا ہے اور صحت کا اظہار conditional مشروط انداز میں کیا جاتا ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز بھی اسی روایت کا امین ہے ۔یہاں must یا ضرور بضرور کے انداز میں بات نہیں کی جاتی بلکہ maybe or may not be شاید یا ممکن ہے، کے پیرائے میں بات کی جاتی ہے۔

جہانِ دانش academic world میں ماہرین نہ صرف سماجی علوم بلکہ غیر سماجی علوم میں بھی سوال کے جواب میں اپنے موقف کو امکانی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ یہاں حتمیت کے دعوؤں اور تحقیری تبصروں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ علمی دنیا میں اراءۃ الطریق ہوتا ہے ایصال الی المطلوب نہیں ۔ علمی دنیا حتمی جوابات سے نہیں بلکہ ممکنہ بیانیوں سے آباد ہوتی ہے ۔حتمی جوابات ادعائیت پسندی کو جنم دیتے ہیں اور ادعائیت پسندی تفوق کی نفسیات کو وجود بخشتی ہے جس میں انسان نہ صرف اپنی تعبیر کو ٹھیک سمجھتا ہے بلکہ اس کو دوسروں پر مسلط بھی کرنا چاہتا ہے اور انہی رویوں سے انتہا پسندی اور شدت پسندی پروان چڑھتی ہے۔

 

محمد عثمان رمضان

محمد عثمان رمضان، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب لاہور کے شعبہ علوم اسلامیہ میں استاذ اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے شعبہ اسلامی فکر وثقافت میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔
usmanramzan13@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں