ڈاکٹر عامرہ عبد الفتوح /ترجمہ: مراد علی
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایمانویل ماکرون کی جذباتی مہم کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یہ فرانسیسی نسل پرستی کی وہ پیدوار ہے جو اس کی نفسیات میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔ یہ اسلام کے بجائے فرانسیسی اقدار کا بحران ہے۔ فرانس سیکولر ریاست کی حیثیت سے اسلام کو بطورِ مذہب تسلیم کرنے کےلیے تیار نہیں، اگرچہ اس نے مذہب کو ریاست سے الگ کرلیا ہے، جیسا کہ عیسائیت کے ساتھ 1905ء میں کرچکا ہے۔ فرانسیسی اپنے مسلمان شہریوں کوایک مسئلہ سمجھتے ہیں؛ فرانسیسیوں کا خیال ہے کہ مسلمان ان کے ہاں گھس آئے ہیں جو ان کے معاشرے اور ثفافت میں کبھی بھی ضم نہیں ہوسکتے۔ ریاست نے متعدد اداروں میں مسلمانوں کی، قطع نظر قابلیت اور لیاقت کے، تقرری پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اور باوجود اس کے کہ وہاں چھے ملین شہری اسلام کا پس منظر رکھتے ہیں۔ کئی فرانسیسی مسلمان وہیں پیدا ہوئے اور پرورش پائی، ان کے بچوں اور پوتوں کو فرانس نے ملکوں کو فتح کرکے کالونیاں بنانے میں استعمال کیا، اور جنھوں نے دو بڑی عالمی جنگوں میں [فرانس کا] دفاع بھی کیا۔
پھر انھیں فرانس کے بڑے شہروں کے مضافات میں الگ تھلگ غریب بستیوں میں رکھا گیا، جب ملازمت ، صحت اور تعلیم کی بات آئی تو ان کے ساتھ نفرت انگیز نسل پرستی کا اظہار کیا گیا۔
فرانسیسی نسل پرستی اور گورے رنگ کی بالادستی معاشرے میں موجود ہے اور سیاسی بکھیڑ ے میں انتہا پسند دائیں بازور سے لے کر ترقی پسند بائیں تک میں واضح طور پر عیاں ہے۔ ان میں سر مو فرق نہیں۔ مثال کے طور پر سابق فرانسیسی سوشلسٹ صدر ژا ں چیراک کی یاد تازہ کریں۔ جس نے گوری رنگت والوں کو تسلی دی جو عرب اور افریقی مہاجرین میں رہتے تھے اور اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ وہ کس طرح ان کی بد بو اور پریشان کن شور کو جھیلتے ہیں۔ عوامی سطح پر ان نسل پرستوں اور اشتعال انگیز الفاظ کا خیر مقدم کیا گیا؛ چیراک کے الفاظ کی تعریف کرنے والا پہلا شخص اس دور کے نسل پرست بائیں بازو کے قومی محاذ کا رہنما جین میر لی پین تھا۔
دراصل صدر کے الفاظ اس سے ذرا بھی مختلف نہیں تھے جو بائیں بازو کے وزیر داخلہ جیرالڈ موسا ڈارامنین نے کہے تھے ، جب اس نے فرانس کے اسٹورز میں حلال فوڈ کے اشیا کےلیے خصوصی سیکشن کی موجودگی پر حال ہی میں ناراضگی اور صدمے کا اظہار کیا تھا۔ لیکن کوشر فوڈ کےلیے خصوصی سیکشنز پر اس کو پریشانی لاحق نہیں ہوئی۔ اس نے حالیہ برسوں میں نشان دہی کی کہ ماکرون حکومت نے مسلمانوں کے 358 ادارے بشمول مساجد کے بند کرائے اور 480 غیر ملکی ]مسلمان[ ملک بدر کردیے۔ ان کے دادا الجزائر کے تھے، اس وجہ سے نام کا درمیانی حصہ]موسیٰ[ہے۔ وزیر موصوف اتنی کامیابی کے ساتھ گھل مل گیا کہ اس کےلیے اس کے آبا و اجداد بھی کوئی معنی نہیں رکھتے۔
لہٰذا فرانس کا اسلام کے ساتھ مسئلہ انہونی نہیں اور یہ محض اس استاد کے قتل کے نتیجے میں نہیں ابھرا جس نے رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔ ایک استاد کی حیثیت سے اس سے یہی توقع تھی کہ وہ اسباق تیار کرتے وقت اپنے نو عمر طالب علموں کے اعتقادات کا خیال رکھتا لیکن اس نے بظاہر فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ چارلی ہپڈو کے اشتعال انگریز کارٹون پر بات کرے گا۔ سننے میں یہ آیا تھا کہ اس نے اپنے مسلمان طلبا سے کہا کہ اگر [یہ عمل] ان کو ناگوار گزرتا ہوں تو وہ کلاس چھورڑ سکتے ہیں۔ ایسا کرنے میں مساوات اور یکساں تعلیم کا شائبہ تک نظر آتا ہے؟
یہ مسئلہ فرانسیسی معاشرے کی جڑوں میں پیوست ہے اور احمق استعماری نوجوان ماکرون نے اس کا اظہار اس وقت کیا جب اس نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو للکارا اور یہ بات دہرائی کہ وہ گستاخانہ خاکوں کو پھر سے شائع کیے بغیر مسلمانوں کو نہیں چھوڑے گا۔وہ اس کےلیے پر عزم ہے کہ فرانس میں، اور ممکنہ طور پر کہیں بھی، مسلمانوں کو رسوا کرنے اور ان کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کا ماحول پیدا کررہا ہے۔ ایفل ٹاور کے قریب دو خواتین کو حجاب پہننے کی پاداش میں چھریوں سے گھونپنا اور مساجد کو جلانے کا اعلان فرانسیسی صدر کی نسل پرستی کے صر ف دو مظاہر ہیں۔
فرانسیسی حکام نے اس واقعے کو مسلمانوں کے خلاف عجیب وغریب سیکورٹی، سیاسی اور میڈیائی مہم چلاتے ہوئے اپنے فائدے کےلیے استعمال کیا۔ سول سوسائٹی گروپوں کو نشانہ بنایا گیا، جس میں “Collective Against Islamophobia in France” بھی شامل ہے، جو اسلام فوبیا جرائم کو ڈیل کرتا ہے۔ یہ متاثرین کو قانونی معاونت بھی فراہم کرتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ عام لوگوں پر حملے کم و بیش ماکرون حکومت نے سینشن لگائے ہیںاور متاثرین کے دفاع کےلیے کوئی بھی نہیں ہے۔ فرانس کے مسلمان شہریوں پر دائیں بازو کے تشدد کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ مساجد، اسکول اور دکانیں “اسلامسٹ” دہشتگردی” کا مقابلہ کرنے جیسے فریب کے نام پر بند ہیں۔ ماکرون نے اس ماہ کے آغاز میں ـــ استاد کے قتل سے قبل ــــــ “فرانسیسی اسلام” کے قانون کے نفاذ کا اعلان کیا تھا جس کو اس نے “اسلامی علیٰحدگی پسندی” سے موسوم کیا جو انجمنوں اور شہریوں پر یہ شرائط عائد کرتی ہے کہ وہ اپنی سیکولر ازم کو یقیقی بنائے۔
سازشی نظریات پر یقین رکنے والے کہہ سکتے ہیں کہ استاد کا قتل ایک ڈراما تھا جس کو بند کمروں میں رچایا گیا تاکہ ماکرون کے اس نظریے کو ثابت کیا جا سکے کہ اسلام بحران کا شکار ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی سمجھ آسکتی ہے کہ کیا وجہ تھی کہ قتل کہ ذمہ دار شیشانی نوجوان کو موت کے گھاٹ اتارا گیا بجائے اس کے کہ اسے گرفتار کیا جاتا اور عوامی عدالت میں اس پر فرد جرم آید کی جاتی تاکہ سچائی سامنے آسکے۔ اس کے راستے سے ہٹائے جانے کے بعد اب ہمارے پاس سیکورٹی اداروں کے موقف کو حلق سے اتارنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
فرانس اور نیوزلینڈ کا واقعہ قابل موازنہ ہے، جو گذشتہ سال پیش آیا جب بریٹن ٹیرنٹ نامی ایک انتہا پسند نوجوان نے النور مسجد اور لین ووڈ اسلامک سنٹر میں نمازیوں کو نشانہ بنایا، جس میں سو سے زائد مسلمان جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ نیوزی لینڈ پولیس نے ،مجرم کو پکڑکر گرفتار کیا؛ اس کے خلاف مقدمہ چلایا اور اب وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ جبکہ فرانس میں فوری طور پر ختم کردیا گیا اور حقیقت اس کے ساتھ ہی ختم ہوگئی، جس نے سیاست دانوں کےلیے عوام کی ایک بڑے حصے کے خلاف اشتعال انگریز بیانات دینے کا بہترین ماحوال پیدا کیا۔ ماکرون بخوبی جانتا ہے کہ اس کی اندورونی اور خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو رہا ہے، اس لیےوہ اگلے انتخابات کےلیے انتہا کے دائیں بازو کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
ہم اسی طرح ماکرون کی حماقتوں سے معاشرے میں بڑھنے والی نفرت اور عدم روادرای کا موازنہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیکنڈا آرڈرن کا اپنے ملک کے بحران کو دنشمندی اور عقل مندی سے قابو میں لانے سے کرتے ہیں۔ اس نے اپنے شہریوں کی دیکھ بال اور ان کے عقیدے کے احترام کے بدلے میں پوری دنیا ، مسلمان اور غیر مسلم دنووں ، سے عزت و اکرام سمیٹ لیا۔
اسلام فوبیا کی جڑیں فرانسیسی معاشرے میں بہت گہری ہیں اور سایست دان لبرل ازم ، آزادی اظہار، نسانی حقوق، “ملکی اقدار “کے تحفظ اور سیکولر ازم کے نفاذ کے ساتھ سب سے بڑے واہمے: “Liberté, égalité, fraternité”.جیسے جعلی نعروں سے اس کی نگہداشت کررہے ہیں۔ یہ اس جہالت کی اصل ہے جو مسلمانوں اور دیگر پھسے ہوئے اقلیتوں کے خلاف نسل پرستی کے امتیازی برتاؤ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
فرانس نے جن عرب اور افریقی ممالک کو کالونی بنایا وہاں وہ فی الوقاع ایک خوف ناک خونزیری کی تاریخ رکھتا ہے۔ یہاں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں؛ فرانسیسی اس کی تردید کرسکتے ہیں اور اپنی تاریخ کو روشن ثابت کرنے کی بھی کوشش کرسکتے ہیں ، لیکنبہت سے لوگ ابھی بھی زندہ ہیں جنھوں نے پہلے فرانس کی دہشت گردی کی گواہی دیں گے۔ glossy façade اور فریب دہ استدلال کے پیچھے اصل حقیقت یہ ہے کہ فرانس کبھی بھی مہذب ملک نہیں رہا، بلکہ عدم رواداری ، ناانصافی اور تاریکی کا خطہ رہا۔ فرانس کے Museum of Mankind ، الجزائریوں کی کھوپڑیوں سے مزین ہے جو فرانس نے قتل کئے تھے، کی بربریت اور جرائم کی انتہا پر شاہد ہے۔ اگر آج فرانس دہشت گردی کا رونا رو ہا ہے تو اس کی وجہ وہی ہے جو ایک بار میلکم ایکس نے امریکا کے بارے میں کہا تھا: “the chickens are coming home to roost”۔ (جیسا کروگے ویسا برو گے)
ترکی صدر رجب طیب اردگان نے فرانس کو اس کی شرمناک ماضی یاد کرائی۔ وہ مسلم دنیا میں واحد حکمران ہے جنھوں نے مسلمانوں کا دفاع کیا اور ماکرون کو ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے ایمان کی اہانت پر متنبہ کیا۔ اردگان نے یہ بھی کہا کہ ماکرون کا اسلام کی نئی صورت گری کرنے پر گفتگو اس کی جہالت کو ظاہر کرتی ہے اور اسے دماغی علاج کرنا چاہیے۔ اردگان کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس وقت لاکھوں مسلمانوں کے دلوں کو ٹھنڈا کردیا جب ان کے اپنے حکمرانوں نے اسلام اور پیغمبرﷺ کے دفاع میں ناکام ہوکر اپنے عوام کو مایوس کردیا۔ ان کے رہنماوؤں نے اس بیوقوف کے بیانات کے جواب میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا جو ایک مذہبی جنگ چاہتا ہے۔ اسے احتیاط ہی کرنی چاہیے۔
فرانسیس مفکر مایکل اونفرے کہتا ہے کہ ہم ما بعد مسیحیت تہذیب کے دور میں جی رہے ہیں۔ لہذا، فرانس کا بحران جو ماکروں کا اصل بحران ہے، وہ یہی ہے کہ ماکرون اپنے سیکولر جمہوریہ کے مسیحی ورثہ کا احیا چاہتا ہے صرف اس لیے کہ اسلام کا مقابلہ کر سکے۔ یہ ستم ظریفی اس کی سمجھ میں نہیں آسکتی لیکن اسے یہ جان لینا چاہیے کہ اسلام غالب آتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا، ان شاء اللہ۔ جب بھی اس کے خلاف قوتیں مضبوط ہوتی ہیں، اسلام مزید پھیلتا ہے۔ ایمانویل ماکرون جیسے احمق کو آخرکار پتہ چلے گا کہ وہ بس ہوا میں تیر مار رہا ہے۔
(بشکریہ مڈل ایسٹ مانیٹر)
کمنت کیجے