ہالینڈ کے معروف اسلام مخالف ڈچ سیاست دان جورام جیرون وان کلاورین (Joram Jaron van Klaveren) نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ اس کے قبولِ اسلام پر الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بہت سی خبریں آ رہی ہیں۔ راقم کو کلاورین کے حوالے سے کچھ سٹدی کا موقع ملا تو اس پر کچھ لکھنے کا سوچا۔ اس دوران مغربی شخصیات کے قبولِ اسلام کے بارے میں مسلم اور مغربی رویوں سے متعلق اپنے مشاہدے اور احساس کو شیئر کرنے کا بھی داعیہ پیدا ہوا۔ سو اہلِ علم و تحقیق کی خدمت میں کلاورین کے قبولِ اسلام اور اس کے سابقہ و موجودہ نظریات و افکار سے متعلق کچھ سطور سپرد قلم کیں تو مذکورہ تناظر میں سامنے آنے والے مسلم اور مغربی رویے پر بھی مختصر تبصرہ شامل کر دیا:
کلاورین کون ہے؟
کلورین محض ایک عام سا سیاست دان نہیں، ہالینڈ کی ایک اہم اور نمایاں شخصیت ہے۔ اس نے وی یو یونی ورسٹی ایمسٹرڈیم (VU University Amsterdam) کے شعبۂ علوم مذاہب سے تعلیم حاصل کی۔ 2006ء سے 2009ء تک وہ پیپلز پارٹی فار فریڈم اینڈ ڈیماکریسی یا وی وی ڈی(People’s Party for Freedom and Democracy or Volkspartij voor Vrijheid en Democratie, VVD) کی طرف سے المرے میونسپل کونسل (Muncipal Council of Almere) کا ممبررہا۔2010ء کے عام انتخابات میں گیرٹ ولڈرز(Geert Wilders) کی پارٹی دی پارٹی فار فریڈم یا پی وی وی (The Party for Freedom Partij voor de Vrijheid, PVV)کی جانب سے ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یا ایوان ِنمائندگان(House of Representatives) کا رکن منتخب ہوا۔2011ء کے صوبائی انتخابات میں وہ سٹیٹس آف فلیوولینڈ(Flevoland) کا رکن بنا۔مارچ 2014ء میں اس نے پارٹی فار فریڈم کو چھوڑ کر لوئیس بونٹس(Louis Bontes)سے مل کر اپنی الگ پولیٹیکل پارٹی فار دی نیدر لینڈیا یا وی این ایل (For the Netheland or VoorNederland, VNL ) کی بنیاد رکھی، تاہم 2017ءکے الیکشن میں ناکامی کے بعد اس نے سیاست چھوڑ دی۔
کلاورین کے قبول اسلام میں خبریت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ہالینڈ کے مشہور اسلام مخالف سیاست دان اور فریڈم پارٹی کے لیڈر گیرٹ ولڈرز(جی ہاں وہی شخص جس نے گذشتہ برس حضورﷺ کے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کیا تھا اور بعد میں مسلم ردعمل پر اسے کینسل کرنے پر مجبور ہوا تھا) کا دست راست تھا اور اس کا ولی عہد (Crown Prince) کہلاتا تھا۔ کلورین اپنے لیڈر گیرٹ ولڈرز(Geert Wilders) کی طرح بڑھ چڑھ کر اسلام کی مخالفت کیا کرتا تھا۔اس تناظر کو دیکھتے ہوئے کلاورین کے قبولِ اسلام پر اقبال کے الفاظ میں کیا جا سکتا ہے کہ ع پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کلاورین کا قبولِ اسلام اور اس کا پس منظر
کلاورین کا قبولِ اسلام ، اس کے اپنے بیان کے مطابق اس کی اسلام سے متعلق اُس تحقیق کا نتیجہ ہے ، جو اس نے اسلام مخالف کتاب لکھتے ہوئے کی۔امرِ واقعہ یہ تھا کہ کلورین رسول اللہ ﷺ کو نعوذ باللہ کروک (میں اس انگریزی لفظ کا رادو ترجمہ نہیں کر رہا، اس کے ذریعے ہر قسم کی گندگی اور برائی حضورﷺ کی ذات پاک سےمنسوب کی جاتی ہے۔)، اسلام کو کذب و افترا اورقرآن کو زہر قرار دیتا تھا؛ اسلام پر پابندی، قرآن کو پارلیمنٹ سے نکالنے ،مسجدوں کو بند کرنے اور مسلم خواتین کوحجاب سے منع کرنے وغیرہ ایسے مطالبات کیا کرتا تھا۔
ایک مسیحی کی حیثیت سے اپنے مذکورہ نوعیت کے اسلام مخالف افکار و خیالات کو تقویت پہنچانے کے لیے اس نے اسلام پر ایک تنقیدی کتاب لکھنا شروع کی۔اپنی تحقیق کے دوران اس پر ایسی چیزیں منکشف ہوئیں ، جنھوں نے اسلام سے متعلق اس کے نظریے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے الفاظ ہیں:
اس تحریر کے دوران میرا مسلسل ایسی چیزوں سے سابقہ پیش آتا رہا، جو اسلام سے متعلق میرے گذشتہ تصور کو غلط ثابت کرتی رہیں۔
(Pascal Davis, Dutch former far-right politician converts to Islam, Accessed February 6, 2019. https://www.euronews.com/2019/02/05/dutch-former-far-right-politician-converts-to-islam )
اپنی کتاب De afvallige (The renegade: From Christianity to Islam in times of secularization and terror) میں کلاورین نے اپنے اس ذاتی اور مذہبی تجربے کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اس ارتقا کو نمایاں کیا ہے، جو اس مطالعے اور تحقیق کے دواران اس کے روایتی نظریات میں وقوع پذیر ہوا۔اپنے اس سفرِِ تحقیق میں اس نے جن سوالات کو ایڈریس کیا ہے، وہ کچھ اس طرح کے ہیں:
کیا خدا کا وجود ہے؟ کیا قرآن کا خدا وہی ہے ، جو بائبل کا خدا ہے؟ کیا اسلام کفار کو برداشت نہ کرنے کا درس دیتا ہے؟ کیا اسلام عورتوں پر ظلم کو روا رکھتا ہے؟ ،جورام کلاورین تک اسلام کا منفی تصور کیسے پہنچا؟ اس نمٹنے کے لیے اسے کس کس نوعیت کی جذباتی اور معاشرتی کوششیں کرنا پڑیں؟ اس سفرِ تحقیق نے جورام کو کہاں پہنچایا؟
( See: Afvallige – Joram van Klaveren: Van christendom naar islam in tijden van secularisatie en terreur. Accessed February 6, 2019-02-06 https://kennishuys.com/product/afvallige-joram-klaveren/)
اسلام سے متعلق جدید مغربی رویے پر کلاورین کے کا ردعمل
قبول ِ اسلام کے بعد کلاورین نے اسلام سے متعلق مغرب کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی اسلام کی غلط تصویر ہے، وہاں لوگ اسلام کے حوالےسے خوف ، پروپیگنڈے اور میڈیا کی گمراہ کن معلومات کے زیر اثر ہیں۔ جیسا کہ قبل ازیں میرا خیال تھا، وہ لوگ قرآن کو زہر اور محمدﷺ کو (نعوذ باللہ ) جھوٹا اور دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ لیکن فی الوقع قرآن ایک مثالی روحانی زندگی کا منشور ہے، اور محمدﷺ انسانیت کی آزادی کے بانی ہیں۔ان خیالات کا اظہار Joram Van Klaver کے نام سے موجود اپنے فیس بک پیج پر انھوں نے ان الفاظ میں کیا ہے:
Still people of Europe and America have been suffering from not only phobia and propaganda but also misleading information of Media. They think Qur’an is a poison like how I used to think and Prophet Muhammad pbuh is a terrorist or lier like what I thought. But the reality is Qur’an is a manifesto for leading an ideal spiritual life while Prophet Muhammad pbuh was a pioneer of freedom for the humanity. (Joram Van Klaver, February 6, 2019)
کلاورین جرمن سیاست دان آرتھر ویگنر (Arthur Wagner) سے بہت متاثر ہیں، جو پہلے انھی کی طرح اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کرتے تھے، لیکن اب مسلمان ہو چکے ہیں،اپنے پیج پرویگنر کی تصویر لگا کر کلاورین نے لکھا ہے:
I was a highly influenced by this man Arthur Wagner from Germany who was a Protestant like me before converting to Islam. He converted in 2018 and changed his name to ‘Ahmad’. He was an anti-Muslim and anti-Islam like me. But Allah changed both of our heart. (Joram Van Klaver, February 7, 2019)
میں جرمنی کے اس شخص آرتھر ویگنر سے بہت متاثر ہوں ، جو اسلام لانے سے قبل میری طرح پروٹسٹنٹ تھا۔ اس نے 2018ء میں اسلام قبول کیا اور احمد نام اختیار کیا۔ وہ میری طرح اسلام اور مسلم مخالف تھا، لیکن اللہ نے ہم دونوں کے دل بدل دیے۔
مغرب میں اسلام متعلق عام غلط فہمیوں کو کیسے دور کیا جائے؟اس سلسلے میں کلاورین نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اب اسلام اور قرآن کو زیادہ گہرائی سے پڑھیں گے اور اس کے روحانی پیغام کو لوگوں میں پھیلائیں گے:
Right now my plan is learn the Islam & Qur’an more deeply and spread the spiritual message of Almighty Lord among the people. (Joram Van Klaver, February 6, 2019)
مغربی شخصیات کے قبول ِاسلام پر اہلِ مغرب کا رویہ
میرے فہم اور مشاہدے کے مطابق کسی مغربی شخصیت کے قبول اسلام پرعمومی طور پر دو طرح کے مغربی رویے سامنے آتے ہیں؛ ایک کومثبت رویہ قرار دیا جا سکتاہے اور دوسرے کو منفی :
پہلا رویہ ہے کہ موجودہ ا اہلِ مغرب کے یہاں غیر جانب دار انہ علمی تحقیق اور اس کے نتائج کے مطابق اپنے رائے قائم کرنے اور اس کا اظہار کرنے کے حوالے سے جو توسع اور کھلا پن ہے، وہ مسلم مشرق ، بالخصوص عرب اور برصغیر پاک و ہند میں دکھائی نہیں دیتا ۔ یہاں اور تو اور روایتی مسلم فکر سے ہٹ کر بات کرنے پر لوگوں کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔محقق کو بہت دفعہ اپنی تحقیق کو شائع کرنے ہی کے حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے مطابق اپنے رویے کی استواری تو دور کی بات ہے۔کچھ فطری سی معاشرتی مشکلات تو ظاہر ہے مذہب کی تبدیلی سے ہر جگہ پیش آتی ہی ہیں ، لیکن مغرب میں معاشرتی اور مذہبی سطح پرکوئی سخت قسم کا جبر بہر حال دکھائی نہیں دیتا۔ آدمی کھلے عام اپنے قبول ِاسلام کا اعلان کرتا ہے؛ معاشرہ اس کو قبول کرتا ہے ؛ میڈیا اس کی خواہش کے احترام میں اس پر خبریں نشر کرتا ہے۔
دوسرا رویہ اسلام قبول کرنے والی مغربی شخصیت سے متعلق مغرب کے انکار اور اس معاملے میں شکوک و شبہات کے اظہار سے عبارت ہے۔ راقم کی تحقیق کے مطابق اہم شخصیات کے قبولِ اسلام پر مغرب میں ایک روایت سی ہے کہ وہاں یا تو اس بات کا انکار ہی کر دیا جاتا ہے کہ متعلقہ شخص نے اسلام قبول کر لیا ہے، یا پھر اس پر شکوک و شبہات ظاہر کیے جاتے اور اسلام قبول کرنے والے کی نیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ آج سے برسوں پہلے فرنچ میڈیکل ڈاکٹر اور سائنس دان اور دی بائبل دی قرآن اینڈ سائنس(The Bible, the Quran and Science) ایسی شہرہ آفاق کتاب کے مصنف موریس بکائی کے قبولِ اسلام سے متعلق مغربی آرا کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی اس طرح کی چیزیں میری نظر سے گزری تھیں۔ ان میں کہا گیا تھا کہ بکائی نے محض شہرت اور اپنی مذکورہ کتاب کی مسلمانوں میں وسیع پیمانے پر اشاعت کی غرض سے قبولِ اسلام کا دعوی کیا ہے، ورنہ فی الوقع وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
بکائی کے بارے میں شہرت اور کتاب بیچنے کی غرض سے اسلام کی حمایت کے نظریے کے ساتھ یہ دلیل بھی دی گئی کہ اس کی کتابوں میں اسلام کی بعض باتوں کی حمایت ہوسکتی ہے، لیکن اس نے کہیں بھی یہ الفاظ نہیں کہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ حالانکہ اس نے کئی مقامات پر اس کا اقرار کیا کہ وہ دل کی گہرائی سے جناب رسول اکرمﷺ کو اللہ کے رسول اور قرآن کو وحیِ الہی سمجھتا ہے۔نام ور محقق ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم نے بھی اس کے قبولِ اسلام کی تصدیق کی تھی ۔بعض جگہ بکائی نے البتہ یہ ضرور کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ اسے ایک اکیڈیمشن کے طور پر ٹریٹ کیا جائے نہ کہ ایک تھیالوجین کے طور پر۔مثلاً ایک انٹرویو میں اس نے کہا:
میں اس حقیقت کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ بہت ابتدا میں ، جب کہ میں نے لفظ بسم اللہ سیکھا تھا، میں قائل ہو گیا تھا کہ خدا بے مثل اور تمام قوتوں کا مالک ہے ، اور جب خدا نے مجھے مطالعۂ قرآن کی توفیق دی ، تومیری روح پکار اٹھی کہ قرآن خدا کا کلام ہے، جو اس کے آخری پیغمبر محمد ﷺ پر نازل ہوا۔ اپنی کتاب” قرآن ، بائبل اور سائنس ” میں میں نے ان حقائق کا ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کو عالمِ عیسائیت میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس کتاب میں میں نے تمام مسائل کو علمی نقطۂ نظر سے دیکھا ہے نہ کہ ایمان و اسلام کے نقطۂ نظر سے، جو کہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے دنیا ایک اکڈیمشن کی حیثیت سے دیکھے نہ کہ ایک تھیالوجین کی حیثیت سے۔
http://www.islamicbulletin.org/newsletters/issue_6/embraced.aspx
اس طرح کی بات سے اس کا عدمِ اسلام اخذ کرنا اس لیے زیادتی ہے کہ اسلام کے دل سے قائل بہت سے مغربی اکیڈیمشنز اس طرح کی بات اسی بنا پر کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی گروپ سے خود کو منسوب کر لیں تو لوگ سمجھیں گے ان کے نظریات و افکار واقعی تحقیق کا نتیجہ نہیں بلکہ محض اپنے قبول کردہ مذہب یا عقیدے کے حق میں تعصب پر مبنی فکر و خیالات ہیں۔یہ بات ایسی شخصیات کے قبولِ اسلام کا انکار کرنے والے مغربی حلقوں یا ان بعض راسخ العقیدہ مسلمانوں کے لیے بھی عجیب یا غیر مقبول ہو سکتی ہے کہ جب وہ کھل کر یہ نہیں کَہ رہا کہ I am a Muslimتو اس کے اسلام کا اعتبار کیوں کر کیا جا سکتا ہے؟ مگر مغربی ماحول میں عیسائیت وغیرہ مذاہب سے اسلام کی طرف آنے والے عالمی سطح کے بڑے بڑے محققین کی پوزیشن سمجھنے والے اہلِ علم کے نزدیک یہ بات ایک مقبول عذر ہے اور قطعاً غیر مناسب نہیں، نہ ہی اس سے متعلقہ شخصیت کے اقرار باللسان میں کوئی حرج واقع ہوتا ہے۔مغربی ماحول میں ایک اکڈیمشن کے ذاتی سطح پر قبولِ اسلام لیکن اپنی تحقیق کے وزن کے کم ہوجانے کے احساس سے کسی روایتی طریقِ اظہار ِاسلام سے گریز کے تناظر میں موریس بکائی کا حسبِ ذیل بیان بالکل قابلِ فہم ہے:
جہاں تک میرے ایمان کا تعلق ہے، خدا آدمی کے دل کو بہتر جانتا ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ اگر میں اپنی پہچان اپنے عقیدے سے کراؤں ، تو لوگ میری باتوں اور اعمال پر کہیں گے کہ یہ فلاں فلاں باتیں فلاں فلاں گروپ سے تعلق کی بنا پر کَہ یا کر رہا ہے۔ میں اپنے لوگوں اور ماحول کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں ، اور ان کی ذہنیت مجھ سے پوشیدہ نہیں۔میں ان کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میرے تمام بیانات سائنسی علمی پر مبنی ہیں نہ کسی مذہبی عقیدے پر۔
(See: The Islamic Bulletin, referred above.)
مغربی میڈیا میں کلورین کے قبول اسلام پر بھی شک کا اظہار کیا گیاہے کہ اس نے فلاں فلاں مقاصد کے پیش نظر اسلام قبول کیا ہے۔تاہم کلاورین کا معاملہ بکائی وغیرہ ایسے اکڈیمیشنز سے مختلف دکھائی دیتا ہے۔اس نے میڈیا پر اپنے انٹرویوز میں قبولِ اسلام کا نہ صرف باقاعدہ اعلان کیا ہے۔(مثلا دیکھیےڈچ اخبار de Volkskrant کی 4 فروری 2019ء کی اشاعت اور یوٹیوب پر اس کے مختلف ویڈیو انٹرویوز) بلکہ ایسے شکوک کا اظہار کرنے والوں کے مسکت جوابات بھی دیے ہیں۔ اپنے فیس بک پیج پر6 جنوری کے ایک سٹیٹس میں اپنے مسلمان ہونے کو واضح کرتے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کلاورین نے لکھا:
میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے حق اور شاندار مذہب اسلام کی راہ دکھائی۔ میں صاحب عزت و عظمت رسولِ خدا محمد بن عبداللہ ﷺ سے متعلق اپنے گذشتہ تبصروں پر شرمندہ ہوں۔اب میں اپنے آپ کو اسلام اور پیغمبرِ خدا کے پیغامِ عالی شان کی تبلیغ کے لیے وقف کروں گا۔
(Joram Van Klaver, February 6, 2019. )
ایک شخص جوئی لا (Joey Law)نے جب اس پر مختلف مادی و جنسی خواہشات کے لیے قبولِ اسلام کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ :
جورام تمھارے قبولِ اسلام کا سبب یہ دکھائی دیتا ہے کہ تمھاری کوئی مسلم گرل فرینڈ ہو گی!تم کسی کم عمر لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو گے! تم چار بیویوں کے خواہش مند ہو گے! کوئی مسلم بزنس ،مسلم سپورٹر چاہتے ہو گے! سعودی بادشاہ سے کوئی انعام ملا ہوگا! یا کسی دہشت گردنے دھمکی دی ہوگی!
(See: Joram Van Klaver, February 12, 2019. )
تو جورام کلاورین نے اپنے پیج پر جوئی لا کے یہ خیالات نقل کرنے کے بعد لکھا:
انتہا پسندوں کے عام خیالات ملاحظہ کیجیے! حالانکہ میرا قبولِ اسلام فقط میری تحقیق اور مطالعۂ قرآن کا نتیجہ ہے۔ اس کے پیچھے میرا کوئی بھی مادی مقصد نہیں ۔ میں روحانیت کی تلاش میں تھا، اور مجھے وہ اسلام میں مل گئی۔ اس سے واضح ہے کہ اہلِ مغرب کی کیسے ذہن سازی کی جاتی ہے اور پروپیگنڈہ اور چرچ ان کو کیسے گمراہ کرتے ہیں! شرم کا مقام ہے ایسے لوگوں کے لیے! نوٹ فرما لیجیے کہ میں سعودی عرب صرف مذہبی مقصد کے لیے گیا تھا، اسلامی حج کوئی اچنبھے کی بات نہیں! میں الحمد للہ مسلمان ہوں، میرا ایمان ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ، اور محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ مجھے چار شادیوں کی کوئی خواہش نہیں ۔ مسلمانوں کو دہشت گردکہا جاتا ہے ،حالانکہ وہ خود دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ ایسے لوگوں کو شرم آنی چاہیے۔ اسلام تو امن ، رواداری ، بھائی چارے اور محبت کا پیغام ہے۔
(Joram Van Klaver, February 12, 2019)
بہر حال مغربی شخصیات کے قبولِ اسلام کے خواہ مخواہ انکار یا اس ضمن میں شکوک و شبہات اور اسلام قبول کرنے والوں کی نیت پر شک کے اظہار کا مغربی رویہ ہر گز مناسب رویہ نہیں کہا جا سکتا۔ اگربالفرض مان بھی لیا جائے کہ کہیں واقعی کسی کے قبولِ اسلام کے پیچھے مادی مقاصد ہوں گے ،تو بھی ایسا رویہ کسی بھی مذہبی نقطۂ نظر سے قابلِ تعریف نہیں ۔ ایمان کے معاملے میں ظاہر ہی کو دیکھنا چاہیے، اور اسی کے مطابق لوگوں کو ٹریٹ کیا جانا چاہیے۔مادی مقاصد ہی پر بات کرنی ہو تو اہلِ مغرب کو چاہیے کہ اسلام کے حوالے سے ایسے الزامات سے پہلے مسیحیت کی مشنری سرگرمیوں کی تاریخ بھی دیکھ لیں کہ کس وسیع پیمانے پر لوگوں کو مادی لالچ دے دے کر عیسائیت میں داخل کیا گیا!
جیسا کہ جورام کلارین کے اوپر درج الفاظ سے واضح ہے، مذکورہ نوعیت کے مغربی شکوک شبہات فی الواقع پروپیگنڈے کی قبیل سے ہیں، جن کے ذریعے اہلِ مغرب کو اسلام کے حوالے سے گمراہ کیا جاتا ہے۔ راقم کے خیال میں بادی النظر میں اس پروپیگنڈے کا مقصد کسی معروف مغربی شخصیت کے قبولِ اسلام سے مغربی لوگوں میں قبولِ اسلام کی متوقع تحریک کو روکنا اور اسے ایک مشکوک سا عمل دکھا کر رفتہ رفتہ اس سے توجہ ہٹانا دکھائی دیتا ہے۔
مغربی شخصیات کے قبول ِ اسلام پر اہلِ اسلام کا رویہ
جہاں تک مغربی شخصیات کے قبولِ اسلام سے متعلق اہلِ اسلام کے رویے کا تعلق ہے ،تو ان کے یہاں ایک رویہ اس طرح کی خبر پر خوشی کا اظہار اور اپنے مسلمان ہونے پر ذرا اطمینان بلکہ فخر ہے، جو کافی حد تک فطری ہے ۔ لیکن اس میں جو چیز سبق حاصل کرنے والی ہوتی ہے، اس کو یہ اکثر نظر انداز کر جاتے ہیں، کہ بھائی ہم اس نعمتِ ایمان کی کیا قدر کر رہے ہیں، جو پروردگار نے ہمیں ورثے میں عطا کردی ہے! نیز یہ کہ ہمیں اپنے اعمال اور رویوں کی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ وہ نومسلم جس کی اسلام میں آمد پر وہ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں ،بے چارہ ہمارے اعمال سے مایوس ہی نہ ہوجائے، اور کہیں یہ نہ سوچنے لگے کہ کس قوم کے مذہب میں آگیا ہوں!
اہلِ اسلام کا جو منفی رویہ اس ضمن میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ نومسلم کے بارے میں یہ تجسس ہے کہ اس کا تعلق کس فرقے کے ساتھ ہو سکتا ہے !اور پھر اس کو اپنے اپنے فرقے کی طرف دعوت دینا۔ یہ نہایت ہی گھناؤنا اور خطرناک رویہ ہے ، جس کے تباہ کن نتائج محسوس و مشاہد ہیں؛ کئی نو مسلم مسلمانوں کی اس فرقہ وارانہ رسہ کشی سے تنگ آ کر اپنے پرانے مذہب میں واپس جا چکے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ دل کھلا رکھیں اور نو مسلم کا رجحان جدھر بھی ہو، سب مسالک اسے عزت دیں اور اون کریں۔
کلاورین اور اس نوع کی جدید تعلیم یافتہ مغربی شخصیات کے قبولِ اسلام کے تناظر میں یہاں میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام کو ، ہمیں کم ازکم فی زمانہ ،اپنی سطحیت سے بچا کر اس کی داخلی سچائی اور تعلیمات کی معقولیت کے حوالے کر دینا چاہیے۔ جو اس کو غیر جانب داری سے پڑھے گا خود بخود اس کی طرف کھنچے گا۔ لوگوں کو اس سے دور کرنے اور رکھنے میں ہمارے آج کل کے اہلِ مذہب کا کردار نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔ اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ مغرب میں عام آدمی اسلام کو مسلمانوں کے رویوں ہی کی عینک سے دیکھتا ہے، اور عمومی نقطۂ نظر سے یہ بات غلط بھی نہیں ، کہ وہ دیکھتا ہے کہ اگر اسلام ایسا ہی اچھا اور معقول مذہب ہے ، تو اکثر و بیشتر مسلمان حتی کہ معروف معنی میں مذہبی لوگ بھی اتنے ناکارہ اور غیر معقول کیوں ہیں؟ کس چیز نے ان کو اسلام کی اچھی اور معقول تعلیمات پر عمل کر کے کامیابی کے حصول سے روک رکھا ہے؟ لہذا اسلام کی تبلیغ کا واحد بہترین آپشن اپنے عمل اور رویوں کی حقیقی اسلامائزیشن ہے۔ تاہم جب تک متعد بہ مسلمان عملیت کے اس پہلو کی طرف نہیں آ جاتے ،ان کو چاہیے کہ کم ازکم اسلامی تعلیمات کو صحیح صحیح اور معقول انداز سے پیش کریں اور باقی کام خود اسلام اور صاحبِ اسلام کے حوالے کر دیں۔ اہلِ اسلام کو وہ سبق کبھی نہیں بھلانا چاہیے، جو اللہ نے اپنی آخری کتاب میں اپنے آخری نبی کو دیا تھا کہ: إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ۔ لَّسْتَ عَلَيْھم بِمُصَيْطِرٍ۔ (الغاشیہ:21-22)” آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں،ان پر داروغے نہیں۔”، یعنی آپ کا کام اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے ، منوانا نہیں۔ ماننے میں وہ آزاد ہیں: فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (الکھف: 29)” جو چاہے ایمان لائے، اور جو چاہے انکار کرے۔”اسلام مسلمانوں خواہش کے مطابق نہیں ، اللہ کی اسکیم کے مطابق پھیلے گا: إِنَّكَ لَا تَھدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّہ يَھدِي مَن يَشَاءُ۔ (القصص: 56)
کمنت کیجے