Home » فکرِاسلامی کی تشکیلِ جدید
اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات

فکرِاسلامی کی تشکیلِ جدید

خورشید احمد ندیم

  (یہ مضمون میرے کالموں کے مجموعے ”متبادل بیانیہ “ کے نئے ایڈیشن میں بطور مقدمہ شامل ہے۔مقصودیہ تھاکہ کالموں کی صورت  میں لکھی گئی متفرق تحریوں میں موجودفکری وحدت اور نظم کو واضح کیا جائے۔تاہم اس تحریر کی اپنی منفرد حیثیت بھی ہے،اس لیے اس  کی الگ سے اشاعت ومطالعہ،میرے نزدیک فائدے سے خالی نہیں۔)

فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید اب ناگزیر ہو چکی۔

یہ مقدمہ چند علمی، فکری اور تاریخی اساسات پرقائم ہے۔

قبائلی معاشرت سے انسان نے جس اجتماعی زندگی کا آغاز کیا تھا، ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی، اب وہ اکیسویںصدی میں داخل ہو چکی۔یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ کسی لمحے مصنوعی ذھانت،انسانی ذھانت کو چیلنج کر سکتی ہے۔کھیل دلچسپ مرحلے میں ہے جو حتمی بھی ہو سکتاہے۔انسان کی خطر پسند طبیعت نے اس چیلنج کو قبول کر لیا ہے۔ساتھ ہی انسان یہ بھی چاہتاہے کہ آخری فیصلے کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہے۔درپیش چیلنج وجودی بھی ہے اور تہذیبی بھی۔مسلم معاشرے اس سفر میں ترقی یافتہ معاشروں کے ہم سفر دکھائی نہیں دیتے۔

یہ مرحلہ انسان کی علمی و فکری جد وجہد کا ایک پڑاؤہے۔ یوں اس کایہ سفر عمرِرائیگاں کا نوحہ نہیں ہے۔ انسان نے اس دوران میں بہت کچھ سیکھا۔تجربات کی ناکامیوں اورکامیابیوں نے اسے ایک راہ دکھائی۔ فکر و نظر کی دنیا میں ایک ہنگامہ ہمہ وقت جاری ہے۔نئے افکار وجود میں آتے اور ایک زمانے کی صورت گری کررہے ہیں۔اس کا تازہ ترین مظہر عالمگیریت ہے۔ یہ معیشت، سیاست، معاشرت، سب کو محیط ہے۔

ارتقا کے اس سفر میں انسان کو دیکھنے کے لیے دو آنکھیں میسر رہیں۔ ایک الہام اور دوسری ا انسانی عقل۔ یہ دو آنکھیں دو روایات کی صورت میں آگے بڑھیں۔ ایک کو ہم مذہبی روایت کہتے ہیں اور دوسری کو عقلی۔ ان دو روایات نے دو مختلف تصوراتِ زندگی (world views) کو جنم دیا۔ ایک روایت اس مقدمے پر کھڑی ہے کہ ہمیں راہنمائی کے لیے آسمان کی طرف دیکھنا ہے۔خدا کی طرف سے نازل ہونے والی ہدایت ہمارے لیے مشعل ِراہ ہے۔ دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ عقل ہی چراغِ راہ ہے۔ اسی کی روشنی میںطے ہو گا کہ ہمارا اگلا قدم کیا ہو گا۔ فلسفہ اور علم کی سطح پر دونوں نے اپنے اپنے دلائل مرتب کیے۔ کہنے کویہ دونوں ایک دوسرے سے بے نیاز ہیںلیکن عملا ً یہ بے نیازی ممکن نہیں ہو سکی۔

مذہبی روایت پر یہ حکم لگانا کہ وہ عقل و خرد سے بے گانہ ہو کر آگے بڑھتی رہی ہے،درست نہیں ہے۔ اسی طرح عقلی روایت کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے مذہبی روایت سے کوئی اثر قبول نہیںکیا۔ مذہب کی روایت کو اہلِ علم کے ایک طبقے نے عقل کے قائم کردہ معیارات سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کی۔ اسی طرح عقل نے جس سماجی تجربے کو اساس مانا، اس کے اجزائے ترکیبی میں مذہب شامل رہا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ مذہب ہر دور کی ایک اہم سماجی حقیقت رہی ہے۔عقلی منہج سماجی تجربے کو موضوعی(subjective) مانتا ہے۔گویا اس کے مقدمات آفاقی نہیں ہیں۔دوسری طرف مذہبی روایت، الہامی ہدایت کو آفاقی مانتی ہے لیکن اس کی تفہیم کوموضوعی۔ اب اگردونوں میں کوئی فرق ہے تو بس اتنا کہ جہاں الہام اور عقل کے فیصلے میںتضاد محسوس ہوا، اہلِ مذہب نے الہام کو ترجیح دی اور غیر مذہبی روایت نے عقل کو۔

اس ارتقائی سفر میں ، انسان نے جو آر اختیار کیں،ان میں اس کے تجربات کی حیثیت بنیادی تھی اور یہ فطری ہے۔ الہام و عقل کی اس کشمکش میں، تاریخی حوالے سے آخری فیصلہ کن موڑ ،رسالت مآب سیدنا محمدﷺکی بعثت ہے۔ آپ کی تشریف آوری سے مذہب کی روایت حتمی صورت میں متشکل ہو گئی۔ ابتدا میںسر زمین عرب اس کا مرکزبنی۔ تدریجاً اس نے عالمگیر حیثیت اختیار کر لی۔

وہ علاقے جنہیں ہم جدید یورپ کہتے ہیں، ان کے پاس عقلی روایت موجود تھی اور ساتھ الہامی بھی۔ تاہم اس الہامی روایت نے خود کو اس مذہبی تجربے سے الگ رکھا جو عرب میں مشہود ہو چکا تھا۔یورپ کی الہامی ہدایت مسیحی تھی۔ سیدنا مسیحؑ کا تعلق اگرچہ سرزمینِ فلسطین سے تھا لیکن آپ سے منسوب مذہبی روایت کو عالمگیر حیثیت اُس وقت ملی جب سلطنتِ روم نے مسیحیت کو قبول کر لیا۔ یہ واقعہ حضرت مسیحؑ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد پیش آیا۔بائیبل آپ کا ورثہ ہے مگرمسیحیت اُن عقائد و افکار کا نام قرار پائی جسے سینٹ پال نے اپنی سند سے مسیحیت قرار دیا۔  مسیحیت نے کلیسا کے ایک ادارے کو جنم دیا، جس نے خدا اور بندے کے درمیان ایک واسطے کی حیثیت اختیار کر لی۔ مذہب کی یہ تفہیم خود مذہب کی روح سے ہم آہنگ نہیں تھی جوبندے اور خدا کے درمیان موجود حجابات اور واسطوںکو ختم کر دیتا ہے۔پیغمبر،خدا اور بندے کے مابین واسطہ نہیں، بلکہ راہِ حق کے مسافر کا راہنما ہے۔بائیبل اس باب میں پوری طرح واضح ہے۔

یورپ میں جب مذہب کے معاملات کلیسا کے ہاتھ میں مرتکزہو گئے اور بندے اور خدا کا براہ راست تعلق ختم ہو گیا تو الہام پر کلیسا کی حکمرانی قائم ہو گئی۔الہامی روایت انسان کی فکری حکمرانی کوقبول نہیں کرتی۔اس روایت میں پیغمبر اپنی شخصی حیثیت میں نہیں ،خدا کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کلام کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی شخصی وجاہت بھی مسلم ہوتی ہے۔ وہ لوگوں پر پوری دیانت سے یہ واضح کرتا ہے کہ یہ بات میں خدا کی طرف سے کہہ رہا ہوں اور یہ میں اپنی طرف سے ۔ تم اُس کے پابند ہو جو میں خدا کی طرف سے پیش کروں۔ یورپ میں جب اہلِ کلیسا نے اس روایت سے منحرف ہوتے ہوئے،اصرار کیا کہ مذہب کے نام پر انسان اپنے جیسے لوگوں کی حاکمیت کو تسلیم کر لیں تو انسانی فطرت نے اس سے ِابا کیا ۔ ایک بڑے طبقے نے بندے اور خدا کے مابین انسانی واسطے کو قبول کرنے سے انکار کر  دیا۔

الہام کا متبادل ظاہر ہے انسانی عقل ہی ہو سکتی ہے۔عقل پر مبنی ایک علمی روایت ، یونان سے یورپی تجربے کا حصہ بنی جو افلاطون و ارسطو وغیرہ سے منسوب ہے۔ اب ایک طرف کلیسا کی حاکمیت کو چیلنج کرتے ہوئے ،خدا اور بندے کے براہِ راست تعلق کو زندہ کرنے کی بات کی جانے لگی اور دوسری طرف ،کم ازکم اجتماعی معاملات میں،الہام ہی کو ماخذ علم ماننے سے انکار کا علم بلند ہو گیا۔ اعلان کیا گیا کہ عقل جیسے چراغِ راہ کی موجودگی میں انسان کو کسی الہام کی حاجت نہیں۔ یورپ میں جاری یہ کشمکش اس اتفاقِ رائے پر منتج ہوئی کہ اگر کوئی مذہب کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو انفرادی زندگی میں وہ اس پر عمل کرنے میں پوری طرح آزاد اور خود مختار ہے۔ رہے سیاست و معاشرت کے معاملات تو انہیں انسانی عقل پر چھوڑ دیا جائے۔ کلیسا نے بھی اس مقدمے سے اتفاق کرلیا۔

کلیسا کی اس سرافگندگی کاایک سبب اور بھی تھا۔عقل کی حاکمیت قائم ہوئی توطبیعات، مابعد الطبیعات سے الگ ہوگئی۔انسان نے کائنات میں کارفرما قوانین کو دریافت کرنا شروع کیا۔انسان کے تجربی علم(Empirical Knowledge) نے جن حقائق کی طرف اس کی راہنمائی کی،وہ کلیسا کے قائم کردہ تصورات سے مختلف بلکہ ان سے متضاد تھے۔اب اہلِ مذہب نے سائنسی اندازِ نظر پر اپنی برتری کو جبر سے قائم کر نا چاہا۔جبر کی حاکمیت چو نکہ غیر فطری ہے،اس لیے اس معاملے میں مذہب کو شکست کا سامنا کرناپڑا۔ یہاں یورپ کی تاریخ کے ایک اور پہلو کوبھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔وہاں سیاسی قوت کی ایک تثلیث سامنے آئی جس میں کلیسا،بادشاہ اور جاگیردار شامل تھے۔اس میں حاکمیت کلیسا کے ہاتھ میں تھی جہاں سے بادشاہ کی تعیناتی کے فرمان جاری ہوتے تھے۔یوں معاشرہ بحیثیت مجموعی کلیسا کی گرفت میں تھا۔جب اس تثلیث کے خلاف عوامی اضطراب پیدا ہوا تو کلیسا اس کا اصل ہدف بن گیا۔

یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس دوران میں،یورپ کے اہل مذہب نے اُس مذہبی تجربے سے استفادے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جو جزیرہ نمائے عرب میں ،کامیابی کے ساتھ انسانی زندگی کی صورت گری کرنے کے چند عشروں بعد ،یورپ کے دروازوں پر دستک دے چکا تھا۔تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ نے مسلم سلطنت کو ایک نئی ابھرتی ہوئی سیاسی قوت کے طور پر دیکھا اور اسلام کو ایک متحارب مذہبی قوت سمجھا ۔ یہ رویہ اسلام کی بطورمذہب تفہیم کے راستے میں حائل ہو گیا۔ یہی سبب ہے کہ یورپ کی مذہبی روایت کو یہودی و مسیحی تہذیبی ورثے (Judeo-Christian Civilization) تک محدود کردیا گیا اور یوں وہ دروازہ بند ہو گیا جواسلام کی شمولیت کے ساتھ، مذہبی روایت میں ایک تاریخی تسلسل کو برقرار رکھ سکتا تھا۔

دوسری طرف مسلم معاشرے میں،الہام کی بنیاد پرفروغ پانے والی علمی روایت نے دوسرے افکار کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کیے۔ اس کا ایک سبب فتوحات کاتسلسل اور اہل اسلام کے سیاسی تسلط کی توسیع بھی تھا۔ اس تاریخی عمل نے مسلمانوں کو یونان کی عقلی روایت سے بھی متعارف کرایا۔ یوں مسلم معاشرے میں ماخذِ علم کی بحث ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ یہ بحث دو دائروں میں آگے بڑھی۔ ایک دائرے میں الہام کو اصل الاصول مانا گیا اور عقل کو ایک ثانوی ماخذ کے طور پر قبول کیا گیا۔ دوسرے دائرے میں عقل اور وحی کو یکساں درجہ دیتے ہوئے ، وحی کو عقل کی روشنی میں سمجھا گیا۔ اب اس بحث میں جس ذہنی سطح کے لوگ شامل ہوئے، اس کا علمی معیار بھی اسی طرح متعین ہوا۔ معاملہ جب غزالی اور ابن رشد جیسی شخصیات کے مابین تھا تو اس کی علمی سطح بلند رہی۔ جب یہ کم درجے کے افراد کے ہاتھوں میں آئی تو ظاہر ہے اس کا معیار برقرار نہیں رہا۔

علومِ اسلامی کے باب میں جو روایت آگے بڑھی ، اس پر بھی ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے اثرات ہیں۔ تفسیر میں ایک طرف تفسیرِ ماثور کی روایت ہے اور دوسری طرف ہمیں کلامی تفاسیر بھی ملتی ہیں۔ یہی معاملہ علمِ حدیث اور اجتہاد و فقہ کے ساتھ بھی ہوا۔ علمِ حدیث میں روایت ہی نہیں، درایت کو بھی اہمیت ملی۔ فقہ میں جہاں اصحاب الحدیث سامنے آئے وہاں اصحاب الرائے نے ایک مستقل بالذات فقہی مکتب کو جنم دیا۔

اسی دوران میں مسلم سلطنت ایک بڑی سیاسی تبدیلی سے دوچار ہوئی۔ داخلی اور خارجی مسائل نے اس کی سیاسی وحدت کو منتشر کیا تو اس کے تمام سماجی ادارے زوال کا شکار ہوئے۔ اس کے نتیجے میں علمی روایت جمود کا شکار ہوئی۔مسلم سپین میں اگر چہ ہمیں زندگی کے آثار دکھائی دیتے ہیں لیکن ایک محدود وقت تک۔دوسری طرف سیاسی شکست و ریخت کا یہ عمل غیر مسلم دنیا میں بھی جاری تھا۔جب مسلم دنیا میں زوال آیا تو یورپ وغیرہ میں عروج ہوا۔ مسلم دنیا کا بڑا حصہ اہل مغرب کے سیاسی تسلط کی نذر ہو گیا۔ مغرب جس تہذیبی روایت کو لے کر آگے بڑھ رہا تھا، اس میں امورِ دنیا پر عقل کی حاکمیت کو تسلیم کیا جا چکا تھا اور مذہب کو انفرادی دائرے تک محدود کر دیا گیاتھا۔

بیسویں صدی میں انسانی تاریخ نے ایک اور کروٹ لی۔ دنیا سلطنتوں کے عہد سے نکل کر قومی ریاستوں کے دور میں داخل ہو گئی۔ سلطنتیں ٹوٹنا شروع ہوئیں تو ان کے زیر تسلط علاقے آزاد ہونے لگے۔ ان میں مسلم اکثریتی علاقے بھی شامل تھے۔ مسلم علاقوں میں اٹھنے والی آزادی کی تحریکیں دو فکری دھاروں کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ایک وہ جو قومیت کے مروجہ تصور کی حامی تھیں اور جغرافی یا نسلی اساس پر منظم تھیں۔ دوسری وہ جنہیں ہم اسلامی تحریکیں کہتے ہیں۔جنہوں نے قومیت کو اساس مانا انہوں نے سیکولر بنیادوں پر سیاسی تحریکیں اٹھائیں۔ اسلامی تحریکوں نے خود کو امتِ مسلمہ کے تصور کا نقیب بنایا اور امت کی نشاةِثانیہ کا عَلم بلند کیا۔ ان تحریکوں نے خود کو ماضی کے تسلسل میں پیش کیا اور یہ تاثر دیا کہ وہ اُس جنت گم گشتہ کی بازیافت چاہتے ہیں جو کبھی خلافت کے عنوان سے اس زمین پرآباد تھی۔

اس تصور کو عصری سیاسی حقائق سے ہم آہنگ بنانے کی ضرورت تھی۔ خلافت کا تصور ایک عالمگیر سلطنت کے تناظر میں پیدا ہوا اور جدید دور قومی ریاستوںکا دور تھا۔ ان تحریکوں نے خلافت کے تصور کو جدید قومی ریاست کا پیرہن دیتے ہوئے اسلامی ریاست کا تصور دیا۔ اِنہوں نے اگرچہ ایک عالمگیر ریاست ہی کو آخری منزل قرار دیا لیکن اس کا آغاز ایک قومی ریاست کی اسلامی تشکیل سے کیا۔ اسی دور میں چونکہ اشتراکیت بھی ایک عالمگیرنظریاتی ریاست ہی کا تصور پیش کر رہی تھی، اس لیے جو نظریاتی کشمکش برپا ہوئی وہ اسلامی تصور ِریاست اور اشتراکی تصور ریاست ہی میں ہوئی۔ مسلم دنیا میں بھی چونکہ اشتراکی تحریکیں کام کر رہی تھیں، اس لیے مسلمان معاشروں میں بھی ایک نظریاتی کشمکش برپا ہو گئی۔  اس نئی صورت حال نے مسلم دنیا میں ایک فکری انتشار کو جنم دیا۔ مسلمان جس نفسیاتی کیفیت میں زندہ تھے وہ عظمتِ رفتہ کے احساس سے عبارت تھی ۔ مشرقِ وسطیٰ سے برصغیر تک، کہیں خلافت عثمانیہ کا ماتم تھا اور کہیں مغل سلطنت کا۔ مسلمانوں کے قومی لٹریچر میں اسی کا رونا تھا اور مسلمانوں میں بیداری کے لیے شاندار ماضی کو مہمیز کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں اسلام مذہب سے زیادہ ایک سیاسی قوت کا حوالہ تھا جو اہل ِاسلام سے چھن گئی تھی۔ اسلامی تحریکوں کی فکری قیادت نے بھی جو تعبیر دین پیش کی ، اس میں بتایا گیا کہ اسلام مذہب نہیں، دین ہے اور دین سٹیٹ کے ہم معنی ہے۔ اس تصور کے مطابق اسلامی ریاست کا مقام اور اس کے لیے جد و جہد دینی فریضہ قرار پایا۔وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسلمان معاشرے کی غالب فکر بن گئی۔

مغرب میں تجربات کے بعد فی الجملہ فکری یک سوئی پیدا ہو گئی۔مذہب کو فرد تک محدود کر دینے کے بعد دنیاوی معاملات کو انسانی عقل پر چھوڑ دیا گیا اور اجتماعی دانش کے ہاتھ میں انسان کی باگ تھما دی گئی۔اس دانش نے سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کر لیا، جس کی اساس لبرل ازم پر تھی۔ اس میں انسان کو ایک آزاد فرد مان کر، اسے صرف ان حدود کا پابند بنایا گیا جن کا تعین انسانی عقل کرے گی۔ لبرل جمہوریت، کھلی منڈی کی معیشت وغیرہ اسی کے مظاہر ہیں۔  مسلم دنیا میں فکری یک سوئی پید ا نہ ہو سکی۔ مغرب نے مذہب کے سماجی کردار کو جس آسانی سے متعین کر دیا، مسلمان معاشرہ نہ کر سکا۔ اس کا ایک تاریخی سبب ہے جو بہت اہم ہے۔ مغرب میں جو مذہبی روایت موجود تھی ، اس کا آخری مظہر سیدنا مسیحؑ کی شخصیت ہے۔ سیدنا مسیحؑ کا ورثہ سیاسی اقتدار نہیں، اخلاقی تعلیمات تھیں۔ حضرت مسیحؑ کی حیثیت بنی اسرائیل کے مجدد کی ہے۔بنی اسرائیل کو سیاسی اقتدار تو مل گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ،مذہب کا جوہر ان سے کھو گیا تھا۔ یہ انسان کے اخلاقی وجود کے تزکیے کا پیغام تھا جو انسانوں کو ”خدا کی بادشاہی“ کا مستحق بناتا ہے۔ انبیاءکے بعد بنی اسرائیل کی قیادت جب علما اور فریسیوں کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے مذہب کے ظاہری لبادے پر اصرار کیا اور مذہب کے فقہی یا قانونی پہلو ہی کو بطور دین پیش کیا۔ بنی اسرائیل کو اب اس بات کی ضرورت تھی کہ کوئی انہیں مذہب کے جوہر کی طرف متوجہ کرے۔ سیدنا مسیحؑ اصلاً اسی لیے تشریف لائے ۔ حضرت مسیح ؑنے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف آئے ہیں۔ وہ تورات کو منسوخ کرنے نہیں آئے تھے بلکہ اسی کو برقرار رکھتے ہوئے ، جس میں قانونِ الٰہی اور شریعت کا بیان تھا، اخلاقی پہلو کو نمایاں کرنے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے جو دین میں اصلاً مطلوب ہے۔ انجیل جسے عہد نامہ جدید کہتے ہیں،اسی لیے تمام تر اخلاقی تعلیمات پر مبنی ہے۔ یہ معلوم ہے کہ سیدنا مسیحؑ کو یہود نے بزعم خویش جوانی میں مصلوب کر دیا اور اس وقت چندافرادہی ان پر ایمان لائے تھے۔ بعد کے ادوار میں سینٹ پال کو مسیحیت کا نمائندہ اور مجتہد مان لیا گیا اور انہوں نے شریعت کی پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ گویا مسیحیت کے ورثے میں وہ کچھ موجود ہی نہیں تھا، جو قانون یا نظمِ اجتماعی کا ماخذ بنتا۔ دوسرا یہ کہ مسیحی نفسیات میں مذہبی اعتبار سے کسی ”نشاةِثانیہ“ کا کوئی تصور بھی موجود نہیں تھا۔ یوں مذہب کو نجی زندگی تک محدود کرنا، مغرب کے لیے ایک بڑا مسئلہ نہیں بنا۔ مذہب ایک اخلاقی روایت کے طور پر ان کے پاس موجود تھا اور موجود رہا۔

اس فکری یک سوئی نے مغرب میں ایک علمی انقلاب کی بنیاد رکھ دی۔کلیسا کے اثرات سے نکل کر،مغرب میں طبعی اور سماجی علوم میں ایک انقلابِ عظیم بر پا ہوا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کے بعد انسان نے کائنات کے ان اسرار ورموز کو جانا جو صدیوں سے پردہ اخفا میں تھے۔اس نے انسانی تہذیب کی کایا پلٹ دی اور سماجی علوم کی ایک نئی اور حیران کن دنیا وجود میں آئی۔یہ انقلاب اتنا ہمہ گیر ہے کہ اس کے اثرات سے بچنا کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔

مسلمان معاشروں میں یہ یک سوئی اس لیے پیدا نہیں ہو ئی کہ ان کے لیے مذہب اور اقتدار کو الگ کرنا ممکن نہ ہوسکا۔اس کی وجہ مسلمانوںکا تاریخی تجربہ ہے ۔وہ جس مذہبی ورثے کے حامل ہیں، اس میں دونوںیک جا ہیں۔ اﷲ کے آخری رسولﷺ حاکمِ وقت بھی تھے اور ان کا ورثہ محض مذہب نہیں، ایک ریاست بھی ہے۔ چونکہ یہ ریاست ان کی حیاتِ طیبہ میں وجود میں آ چکی تھی، اس لیے مذہب کی تعلیمات ریاست کے معاملات کو بھی محیط تھیں۔ مسلم نفسیات کے لیے یہ آسان نہیں ہے کہ وہ سیدنا محمدﷺ کی حیثیت بطور رسول اور بطور حکمران الگ کر سکے۔ گویا ریاست و سیاست کے معاملات دینی ورثے کا حصہ تھے اور تاریخی ورثے کا بھی۔

تاریخ کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذہب وسیاست کی یہ یک جائی،مسلمانوں میں فرقہ واریت کی بنیاد بن گئی۔مسلمانوں میں پہلا اختلاف رسالت مآبﷺ کی سیاسی جانشینی پر ہوا۔دوسرا بڑا اختلاف سیدنا عثمانؓ کے عہد میں ہو جب ان کے خلاف ایک بڑی شورش برپا ہوگئی۔تیسرااختلاف سیدنا عثمانؓ کی جانشینی کے مسئلے پر سامنے آیا۔ ان حادثات نے مسلمانوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا،جنہیں بعد میں اہل سنت الجماعت،شیعہ اور خوارج کہا گیا۔ ابتدا میں ان مسائل کوسیاسی ہی سمجھا گیا۔بعد کے ادوار میں، جب باقاعدہ گروہ وجود میں آئے توہر گروہ نے ،مسلم نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے،پنے سیاسی موقف کے حق میں ایک دینی استدلال اختیار کر لیا۔

سیاست چونکہ مسلمانوں کے مذہبی تجربے کا حصہ تھی،اس لیے ہر گروہ کو صدرِ اوّل سے ایسا مواد میسر آگیا جسے،اُس نے اپنے حق میں مذہبی استدلال کے طور پر پیش کیا۔مثال کے طورپر اللہ کے رسولﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں سیدنا ابوبکرصدیقؓ کو نماز کی امامت کے لیے کہا ۔اہلِ سنت والجماعت نے اسے خلافتِ ابوبکرؓ کے حق میں مذہبی دلیل بنا کر پیش کیا کیونکہ یہ ایک پیغمبر کا ارشاد تھا اور قولِ پیغمبرایک دینی حجت ہے۔دوسری طرف اہلِ تشیع نے اس روایت کو اختیار کر لیاکہ غدیر میں اللہ کے رسولﷺ نے سیدنا علیؓ کو ’مولیٰ‘ کہا اور یہ ان کی خلافت کے حق میں نصِ قطعی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی دنوں میں جب یہ اختلاف پیدا ہوا،کسی نے اپنے حق میں ان نصوص کو پیش نہیں کیا۔یہ واقعات اُس وقت دینی استدلال کی بنیاد بنے جب باقاعدہ فرقہ سازی ہوئی۔  اسی تاریخی تجربے کے زیرِ اثر،مسلم دنیامیں تفہیمِ دین اور علم کی جو روایت وجود میں آئی،وہ یہی سیاسی غلبے کی نفسیات ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار کھونے کے بعد،عظمتِ گم گشتہ کی بازیافت مسلمانوں کا اجتماعی نصب العین بن گیا۔ شاعروں نے اس کی بنیاد پر جذبات میں طوفان برپا کیا اور علما نے اس کے لیے عقلی اور فقہی استدلال پیش کیا۔

اس فکر کا ناگزیر نتیجہ یہ تھا کہ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل اہلِ اسلام کی سعی وجہد کا مرکزبن جائے۔ایسا ہی ہوا۔ اس نفسیات کے ساتھ دین کو سمجھا گیا۔ تاریخ کا تجزیہ کیا گیا اور غیر مسلم دنیا کے بارے میں رائے قائم کی گئی۔مثال کے طور پر ابتدا میں دنیا کو’ دارالاسلام‘ اور’ دارالحرب‘ میں تقسیم کیا گیا۔بیسویں صدی میں اسی تقسیم کو اسلام اور جاہلیت کے عنوانات کے ساتھ بیان کیا گیا۔خود مسلم سماج کے اندر سیاست اور قیادت کی تبدیلی دین کا مقصد قرار پائی۔ یہ تعبیر اختیار کی گئی کہ اسلام دراصل ایک ریاست کا نام ہے۔ اس ریاست کاقیام مقصدِ حیات ہے۔ اقامتِ دین سے یہی مراد ہے۔ یہ بات کہ دین اس کے علاوہ بھی کچھ ہے، پسِ منظر میں چلی گئی۔ مثال کے طور پراسلام کوئی علمی مقدمہ بھی ہے جسے دورِ حاضر کے معیارات پر پورا اترنا، یا پھر انہیں چیلنج کرنا ہے، غیر اہم ہوگئی۔ اسے وقت کا ضیاع یا استعمار کی چال سمجھا گیا۔سرسید احمد خان اور محمد عبدہ‘ سے دورِ جدید تک، جنہوں نے اس کی کوشش کی، ان کے کام کو اسی زاویہ سے دیکھا گیا۔

مسلمان معاشروں میں جب دین کا سیاسی غلبہ مطمحِ نظر ٹھہرا تو پھر باہمی اختلاف، فکرکے بجائے حکمتِ عملی کے باب میں ہوا۔ کسی نے سیاسی جدجہد کا راستہ اختیار کیا اور کسی نے مسلح جدوجہد کا۔ جن کے پاس دنیا کا اقتدار ہے، انہیں دشمن اور طاغوت سمجھا گیا۔ اس نفسیات نے مسلمانوں کو ایک مسلسل تصادم کی راہ پر ڈال دیا۔ مسلمان معاشرے فتنہ اور فساد سے بھر گئے۔ انتہا پسندی، ہیجان اورفرقہ واریت، جیسے عوارض نے مسلم سماج کو گھیر لیا۔

اس کا ردِ عمل بھی ہوا۔ ایک لبرل طبقہ سامنے آیا جس نے مذہب کے وجو دہی کو چیلنج کر دیا۔ اس کے نزدیک کم از کم اجتماعی دنیا سے مذہب کو الگ کرنا ناگزیر ہے۔اس طبقے کا خیال ہے کہ مذہب کا وجود ہی فتنے کا باعث ہے۔ اس سے نجات ضروری ہے۔اس کو اگر گوارا کیا جا سکتا ہے تومحض انفرادی سطح پر ۔ یوں مسلم معاشرہ ایک تقسیم کا شکار ہوگیا۔اہلِ مذہب بمقابلہ لبرل۔ یہ فرقہ واریت کی تشکیلِ جدید ہے۔سیاست کو دینی تجربے کا حصہ قراردینے کے نتیجے میں،ابتدا میں مسلم سماج، سنی،شیعہ اور خوارج میںمنقسم ہوااوراکیسویں صدی میں مذہبی اور لبرل میں۔یہ دلچسپ بات یہ کہ قدیم فرقہ بندی آج بھی موجود ہیں لیکن اس مسئلے پر لبرل طبقے کے مقابلے میں یہ فرقے یک جا ہیں۔

نصب العین کی سیاسی تشکیل کے کچھ اورنتائج بھی سامنے آئے۔ایک تو یہ کہ ایسا ہر کام بے معنی قرارپایا جس کا کوئی تعلق سیاسی غلبے سے نہیں تھا۔مثال کے طور پر سماجی علوم میں پیش رفت یا عصری مسائل پر اجتہادی بصیرت کے ساتھ غور۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں نے امتِ مسلمہ کی جس نشاةِثانیہ کا بیڑااٹھایا،انہوں نے ابتداءً اس مقصد کے لیے تجدید ِ دین کو ضروری قرار دیا۔ اسلامی تحریکوں کی ابتدائی قیادت کا نقطہ نظر یہی تھی کہ دین کی قدیم تفہیم،نئی مسلم ریاستوں کے قیام کے لیے زیادہ مفید نہیں۔اس لیے اسلامی فکر اور فقہ کی تشکیلِ جدید ناگزیر ہے۔اس ضمن میں علامہ اقبال اور مولانا سید ابواعلیٰ مودودی کے علمی کام کو بطور حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے۔تدریجاً تجدیدِدین کا یہ کام پس منظر میں چلا گیا اور ساری توجہ سیاسی غلبے پر مرتکز ہوگئی۔اگر کبھی کسی نے اس کی اہمیت کو واضح کرنا چاہا تو اسے قبل ازوقت قرار دے دیا گیا۔اوّلیت اسلامی ریاست کے قیام کے لیے سیاسی جدو جہد کو دی گئی(۱)۔یوں مسلم معاشروں میں کوئی علمی روایت مستحکم نہیں ہو سکی۔

اگر اس باب میں کوئی قابلِ ذکر کام ہوا تو غیرمسلم دنیا میں۔مسلم معاشروں کا معاملہ تو یہ ہوا کہ ان لوگوں کے لیے آزادی کے ساتھ کام کرنا محال ہوگیا جنہوں نے تجدید کا عَلم بلند کرنا چاہا۔انہیں ہجرت کرنا پڑی یا انہوں نے اس کام سے رجوع کر لیا۔علمی ارتقا کی معاصر روایت سے مسلم معاشرے کاارتباط باقی نہیں رہا جو مسلم دنیا کا ورثہ تھا اور جس نے ایک دور  میں مسلم روایتِ علم کو توانا بنایا تھا۔ماضی میں غیر مسلم علمی روایت سے یہ ربط دو مواقع پر بطورِ خاص سامنے آیا۔ایک اس وقت جب مسلمانوں کا واسطہ یونان کی فلسفیانہ روایت سے پڑا۔دوسرا موقع بیسویں صدی میں پیدا ہواجب مغرب نے مسلم علاقوں پر قبضہ کیا اور مسلمانوں کو سیاسی تسلط کے ساتھ ،غالب قوت کی علمی روایت کے اثرات کا بھی سامناتھا۔دونوں مواقع پر ارتباط کا عمل،علمی سطح پر اقلیت تک محدود ررہا۔یہ الگ بات کہ مسلم معاشروں کا تہذیبی وجود معاصر علم کے سماجی،سیاسی اور اقتصادی اثرات سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکا۔

آج مسلمان معاشروں کے سیاسی،سماجی اور معاشی ادارے ان ہی خطوط پرقائم ہیں جو مغرب کی علمی روایت کے زیرِ اثر قائم ہوئے۔جس بات کو مسلم معاشروں نے تاریخ کے جبر کے طور پر قبول کیا،وہ شعوری سطح پران کی روایت کا حصہ نہیں بن سکی۔یوں سوچ اور عمل میں ایک تضاد پیدا ہوا۔مسلم معاشروں کی فکری قیادت نے اس تضادکو ختم کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی اور خود فریبی کا شکار ہوئی۔ اس کا لازمی نتیجہ فکری انتشار کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ مثال کے طور پر خلافت اور جمہوریت کاتعلق۔اسلام میں فنونِ لطیفہ کی حیثیت۔صنفی اختلاط اوراسلام۔بنیادی انسانی حقوق اور اسلام۔ آج مسلم معاشرے میں موسیقی سنی جارہی ہے،تصاویرسے گریز ناممکن ہو چکا لیکن ان معاملات میں فکری یک سوئی موجودنہیں ہے۔مسلمان معاشرے اس طرح کے بہت سے تضادات کے ساتھ جی رہے ہیں۔

اس تضاد کے پیدا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان معاشرے جدیدیت(Modernity)کے دور میں پوری طرح داخل ہونے سے پہلے ہی ،بعد از جدیدیت(Post Modernism)کے عہد میں داخل ہونے پر مجبور ہوگئے۔یہ تاریخ کا جبر اوراس کے سفر سے بچھڑناکا فطری نتیجہ ہے۔جب ترقی یافتہ معاشرے جدیدیت کے دور میںداخل ہوچکے تھے، مسلم معاشروں میں اس کے رد وقبولیت کی بحث جاری تھی ۔اس بحث کا نتیجہ فکری ابہام کی صورت میں سامنے آیا۔اس دروان میںترقی یافتی دنیا ارتقا کا ایک اور مرحلہ طے کر کے ما بعد از جدیدیت کے دور میں داخل ہو گئی۔یہ اس بات کا اعلان تھا کہ علم کی دنیا میں کچھ مطلق نہیں ہے۔’سچائی‘(Truth) سماجی تشکیل (Social Construct)کا نام ہے جو موضوعی ہے۔موضوعی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سچائی کی ایک سے زیادہ صورتیں ممکن ہیں۔ اسی کے ساتھ علم کوافادیت کے پہلو سے پرکھنے کی تحریک بھی اٹھی۔ عالمگیریت نے سرحدوں کو ختم کیا تو معلومات اور ٹیکنالوجی کا سیلاب دنیا بھر میں پھیل گیا۔مسلمان خود کو محفوظ نہ رکھ سکے۔وہ، جدیدیت کاتجربہ کیے بغیر ،مابعد ازجدیدیت کے دور میں داخل ہو نے پر مجبور ہوگئے۔

اس سارے معاملہ کا ایک عام آدمی کی نظر سے دیکھنابھی ضروری ہے جس کے لیے زندگی فکری سے زیادہ ایک عملی تجربہ ہے۔اسے معاشی مسائل کا سامنا ہے۔وہ بچوں کی تعلیم چاہتا ہے۔اسے پینے کے لیے صاف پانی چاہیے۔صحت کی سہولتیں اس کی ضرورت ہیں۔ اسے اپنے بڑھاپے کی فکر ہے۔اسے امتِ مسلمہ کا دکھ محسوس ہوتا ہے لیکن جو دکھ اس کے گھر بسیرا کیے ہوئے ہیں،وہ ان سے روزانہ آنکھیں چار کرنے پر مجبور ہے۔اسے ان مسائل کا حل چاہیے۔  اب زندگی کے اکثرمسائل اپنی نوعیت میں سیکولر ہیں۔ریاست سیکولر ہو یا اسلامی،عام آدمی کو دلچسپی اس سوال سے ہے کہ کون سی ریاست یہ مسائل حل کر نے پر قادر ہے۔ ساتھ ہی ٹیکنالوجی نے ہر آدمی کے ہاتھ میں سمارٹ فون دے دیا۔اب اس کی رسائی ساری دنیا سے ہے۔ٹیکنالوجی اس کے لیے محض فون نہیں ایک کلچر لے کر آئی۔عام آدمی غیر محسوس طور پر عالمی سماج کا فرد بن چکا ہے۔اس کی ایک مقامی تہذیبی شناخت ہے لیکن اس کے ساتھ اب وہ عالمی گاوں کا باسی بھی ہے۔فکری مسائل پر مستزاد عملی مسائل ہیں جو فوری حل چاہتے ہیں۔  کم و پیش تمام مسلم معاشروں کو اس وقت اسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ایک انتشارِ فکر ہے جو روز افزوں ہے۔عالمگیریت کے دور میں، مسلمان معاشروں کے لیے تنہائی میں جینا ممکن نہیں رہا۔معاشی اسباب سے ہونے والی نقلِ مکانی نے مسلمانوں پر سوچ کے نئے دروازے وا کیے ہیں۔ انہیں ترقی یافتہ دنیا میں رہنے اور وہاں جانے کے مواقع ملے ہیں۔ بدیہی طور پر ان میں سوچ پیدا ہوئی ہے کہ مسلم معاشرے ترقی یافتہ کیوں نہیں ہو سکتے۔ اس کے جلو میں اور بہت سے سوالات بھی چلے آتے ہیں۔مثال کے طور پر، کیامغرب کی اس ترقی کا سبب مذہب کو اجتماعی دنیا سے دیس نکالا دینا ہے؟ یہ سوال سامنے آتا ہے تومسلمانوں کی مذہبی حساسیت بروئے کارآتی ہے۔ ان کی نفسیاتی تشکیل چونکہ مذہبی ہے، اس لیے وہ مذہب سے دور بھی نہیں ہونا چاہتے۔ مذہب کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذہب کے نام پر فتنہ اور فساد کیوں ہے؟

مسلم معاشرے کے داخل میں بھی یہ بحث جاری ہے۔ ایک فکری پراگندگی ہے جس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشرہ تیزی کے ساتھ دو دائروں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ مسلم معاشروں کی نفسیاتی ساخت مذہبی ہے لیکن مذہب کے نام پر جاری سرگرمیوں سے انہیں اطمینان نصیب نہیں ہو رہا۔دوسری طرف وہ مذہب سے قطع تعلق کے لیے بھی آمادہ نہیں، جس کی دعوت لبرل طبقہ دے رہا ہے۔ یہ فکری پراگندگی کئی عشروں سے موجود ہے مگر ۱۱/۹ کے بعد اس میں بہت شدت آگئی ہے۔ عالمی سطح پر برپا ہونے والے سیاسی واقعات نے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے۔

اس سارے خلفشار میں یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ مسلم معاشروں میں ایسے لوگ موجود ہیں، اگرچہ کم تعداد میں، جو مسلم معاشرت کے اس مخمصے کو محسوس کرتے اور اس کا حل بھی تلاش کر رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میںشیخ محمد غزالی، شیخ یوسف القرضاوی، راشد غنوشی، جنوب مشرقی ایشیا میں نور خالص مجید، برِصغیر پاک و ہند میں مولانا وحیدالدین خان اور جاوید احمد غامدی سمیت، بہت سی شخصیات ہیں جنہوں نے مسلم معاشرے کے اس فکری خلفشارکو موضوع بنایا اور انہیں ایک سمت دینے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا میں نہضة العلما، اور محمدیہ، تیونس میں النہضہ، ترکی میں اے کے پارٹی سمیت اجتماعی تجربات بھی ہو رہے ہیں، جو دورِ حاضر کے فکری و سماجی چیلنج کا اپنے تئیں حل پیش کر رہے ہیں۔ ہم ان سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن اس بات کا اعتراف، ہم پر لازم ہے کہ ان شخصیات اور جماعتوں نے غورو فکر کے نئے دروازے وا کیے ہیں۔

مسلم سماج اور تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر، میں جب ان مسائل پر غور کرتا ہوں تو میرے نزدیک فکر اور حکمتِ عملی، دونوں میدانوں میں، ہمیں تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔ فکر کے دائرے میں تشکیلِ نو سے میری مراد اس علمی روایت پر نظر ثانی ہے جس کے زیرِ اثر علومِ اسلامی مرتب ہوئے ہیں اور بعض اہلِ علم نے دین کو ایک وحدت کے طور پرسمجھا ہے۔یعنی جس کی روشنی میں علمِ تفسیر، علمِ حدیث، فقہ اور کلام کے ساتھ ساتھ ،دین کے اجتماعی نصب العین کا تعین کیا گیا ہے۔

فکری سطح پرپہلا کام، اسلام کو بطور مذہب اور تاریخ الگ کرناہے۔ بحیثیت مذہب، اسلام وہ آفاقی ہدایت ہے جس کی تذکیر سیدنا آدمؑ سے لے کر سیّدنا محمدﷺ تک، تمام انبیاءکرتے آئے ہیں۔ تاہم پیغمبروں کے سماجی حالات یکساں نہیں تھے۔ہرنبی کو اپنی زندگی میں مختلف تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک کا تجربہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اس زمین پر اقتدار عطا کردیا۔ایک تجربہ یہ ہے کہ چند حواری ہی میسر آ سکے۔ اقتدار دین کا لازمی مطالبہ نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو ہر پیغمبر کی زندگی میں یہ مرحلہ ضرور آتا یا وہ اس کے لیے لازماً جدوجہد کرتے۔ ہم جانتے ہیں کہ تاریخ کی شہادت یہ نہیں ہے۔اﷲ کے بہت سے پیغمبر دعوت ہی کے مرحلے میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ تاہم آخری رسول سیّدنا محمدﷺ کو اپنی زندگی میں سیاسی غلبہ حاصل ہوا۔ اس طرح آپ ﷺپیغمبر ہی نہیں حکمرانِ وقت بھی تھے اور آپ کا ورثہ دین ہی نہیں ایک ریاست بھی ہے۔ریاست کا قیام اگر مذہبی تعلیم کا لازمی حصہ نہیں ہے تو پھر آپﷺ کے اس ورثے کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟

اس سوال کو فہمِ دین کے باب میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔مسلم معاشروں میں اسلام اور سیکولرزم کی بحث کا تعلق بھی اسی سوال کے ساتھ ہے۔میرا کہنا یہ ہے کہ اس بات کو سمجھنے کے لیے مذہب اور تاریخ کو الگ کرنا ضروری ہے۔ ایک ریاست اگر آخری پیغمبرﷺ کے ورثے کا حصہ ہے تو یہ واقعہ تاریخی عوامل کے تحت ہوا۔ اس تاریخی عمل کو دو طرح سے سمجھنا چاہیے۔

اس کا ایک پہلو تو وہ ہے جسے مکتب فراہی نے پہلی بار صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔امام حمید الدین فراہی نے فہم قرآن کے جس مکتب کی بنیاد رکھی اور تدبر قرآن کے جو اصول متعارف کرائے، ان سے نبی اور رسول کے منصب کی ایک نئی تفہیم سامنے آئی ہے۔ مسلم علمی روایت میں نبی اور رسول کے فرق کو ہمیشہ تسلیم کیا گیا ہے، لیکن قرآنی نظائر کی بنیاد پر اس فرق کو جس طرح مکتبِ ِفراہی میں بیان کیا گیا ہے،اس کی نوعیت جداگانہ ہے۔یہ تفہیم رسالت مآب ﷺ کی قیادت میں قائم ہونے والے سیاسی غلبے کو ایک بالکل مختلف زاویے سے دیکھتی ہے۔ اس تفہیم کے مطابق ، رسول کی بعثت ایک غیرمعمولی تاریخی واقعہ ہے۔رسول اس زمین پر اﷲ کی عدالت بن کر مبعوث ہوتا ہے۔ رسول کی مخاطب قوم کے لیے اﷲ تعالیٰ کی عدالت، اس دنیا میں اُسی طرح لگادی جاتی ہے، جس طرح وہ پورے عالمِ انسانیت کے لیے قیامت کے دن لگائی جائے گی۔ رسول کی مخاطب قوم کے لیے جزا و سزا کا فیصلہ اِسی دنیا میں کر دیا جاتا ہے، جس طرح آخرت میں ساری انسانیت کے لیے کیا جائے گا۔ رسول کی مخاطب قوم اگراپنے رسول پر ایمان لے آتی ہے تو اسے اس دنیا کے اقتدار اور انعامات سے نوازا جاتا ہے جس طرح آخرت میں اہلِ ایمان کو نوازا جائے گا۔ اور اگر انکار کر دیتی ہے تو اس پر اسی طرح دنیا ہی میں عذاب نازل ہو جاتا ہے جس طرح آخرت میں منکرین کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے۔  یہ اﷲ تعالیٰ کا قانون اتمام حجت ہے، جو قرآن مجید میں بیان ہوا اور رسولوں کے ساتھ خاص ہے۔اس کے اپنے اصول و ضوابط ہیں جن کا عمومی شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ مثال کے طور پر رسول کی براہ راست قوم اگررسول پرایمان لانے سے انکار کر دے تو اس پرلازماً عذاب نازل ہوتا ہے لیکن کسی غیر رسول داعی،کی مخاطب قوم پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہ چاہے تو انکار کر دے اور چاہے تو قبول کر ے۔ اس کی جزا و سزا کا معاملہ آخرت تک موخر کر دیا جاتا ہے۔اسی طرح نصرتِ الہی کا معاملہ ہے جو رسولوں کو بطورِ خاص حاصل ہوتی ہے۔

اس پہلو سے دیکھیں تو جزیرہ نما عرب پر رسول اﷲ ﷺکا سیاسی غلبہ ، ایک تاریخی واقعہ ہے۔ضروری ہے کہ اسے عمومی احکامِ دین سے الگ کر کے سمجھا جائے۔اس واقعے پر اس حوالے سے غور کیا جائے کہ یہ شریعت کا مستقل ماخذ نہیں بلکہ اﷲ کے ایک خصوصی قانون کا ظہور اورقیامت کے لیے ایک برہانِ قاطع ہے۔مسلم تاریخ میں جب دینی علوم وجود میں آئے اور فہمِ دین کی علمی روایت مستحکم ہوئی تواس تاریخی واقعے کو ’سنت‘ کا حصہ سمجھتے ہوئے،ایک مستقل ماخذ دین کے طور پر قبول کیا گیا۔بیسویں صدی میں دین کی جو تعبیر اختیار کی گئی، اس میں،اسی تفہیم کو آگے بڑھاتے ہوئے،یہ سمجھا گیا کہ ایک ریاست کا قیام دین کا مستقل حکم اور فریضہ ہے جیسے نماز اور روزہ ہیں۔ یوں ایک ایسی بات مقصدِ حیات قرار پائی جو دراصل دین کے مستقل مطالبات ہی میں شامل نہیں تھی۔

اس سے یہ اخذ کرنا بھی درست نہیں ہوگاکہ تفہیمِ دین کی مسلم روایت میں رسول اللہﷺ کے برپا کردہ سیاسی انقلاب کو،ہر پہلو سے ،عمومی شریعت کا حصہ سمجھا گیا۔بہت سے معاملات میں اس کے تاریخی پہلو کا ادراک کیا گیا۔جیسے ہمارے قدیم مفسرین نے سورہ توبہ میں مشرکین کے باب میں دی گئی ہدایات کو مشرکینِ مکہ کے ساتھ خاص قراردیا۔ان کے نزدیک،ان ہدایات یا احکام کاا طلاق دیگر مشرکین پرنہیں ہو سکتا۔اسی طرح سورہ توبہ میں جس غلبہ دین کا ذکر ہے،اسے شرعی اصول کے بجائے خبر اورجزیرہ نمائے عرب کے ساتھ خاص سمجھا گیا۔اس طرح کے کئی شواہد کے باوجود ،اس علمی روایت سے یہ بات پوری طرح واضح نہیں ہوتی کہ مشرکینِ عرب اور دیگر مشرکین میں یہ فرق کیوں ہے اوراظہارِ دین کی آیات عرب کے ساتھ خاص کیوں ہیں۔مکتبِ فراہی میں پہلی بار یہ بات اس طرح مبرہن ہو کر سامنے آئی ہے کہ اس باب میں کوئی اشکال باقی نہیں رہا۔اس سے اسلام کی بطور دین آفاقیت اور بطورسلطنت ایک تاریخی واقعہ ہونے کا فرق بھی پوری طرح واضح ہو گیا ہے۔

اس تاریخی واقعہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔اس کاتعلق ختمِ نبوت کے ساتھ ہے۔انبیا میں نبی ﷺ کا ایک امتیازیہ بھی ہے کہ آپ اﷲ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔آپ دنیا سے رخصت ہوئے تو وحی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ اب قیامت تک آسمان سے کوئی ہدایت نازل نہیں ہوگی۔ خود قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے دین کے مکمل ہونے کا اعلان کردیا۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ آنے والے وقت کی تمام امکانی صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے دین کے باب میں عمومی ہدایات دے دی جائیں۔  ان میں شامل ایک امکان یہ بھی ہے کہ دین کے ماننے والوں کو اس زمین پر اقتدار مل جائے۔ رسالت مآبﷺ کو اقتدار دے کرگویا یہ بتا دیا گیا ہے کہ اس صورت میں اہلِ ایمان کی ذمہ داری کیا ہو گی۔یہ قانونِ اتمام ِحجت سے الگ عمومی شریعت کا بیان ہے۔اب شریعت کے ہر حکم کی طرح،سیاسی ہدایات کااطلاق ،سماجی حالات کے تحت ہوگا۔یہ ایسے ہی ہے کہ قرآن مجید میں زکوة کے احکامات دے دیے گئے۔ اس سے یہ لازم نہیں کہ ہر صاحبِ ایمان کو لازماً صاحبِ نصاب بھی ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ اسے مال و اسباب سے نواز دے تو پھر دین اس سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔پھر وسائل کی نوعیت کے ساتھ احکام بھی تبدیل ہوتے ہیں،جیسے زکوہ ہی کے معاملے میں بارانی اور چاہی زمینوں کا فرق ہے۔ریاست کے معاملات میں بھی شرعی احکام کا اطلاق کرتے وقت،اس نوعیت کے سب پہلو پیشِ نظر رہیں گے۔

میں جب اس تفہیم کو سامنے رکھتے ہوئے ، دین کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ اصلاً فرد سے متعلق اور اس کے تزکیے کے لیے آیا ہے۔ انسان لیکن انفرادی حیثیت میں نہیں جیتا، اسے ایک سماج کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ سماج اس کے انفرادی کردار پر چونکہ اثر انداز ہوتا اور ایک فطری وجود رکھتا ہے، اس لیے دین اجتماعی طور پر سماج کو بھی مخاطب بناتا ہے۔انسان سے مذہب کا خطاب براہ راست اور سماج سے بالواسطہ ہے۔ریاست سے اس کا خطاب حسبِ ضرورت ہے۔

سماج انسانی زندگی کا ناگزیر حصہ ہے جبکہ ریاست تاریخی عوامل سے وجود میں آنے والا ادارہ ہے۔ہر سماج لازم نہیں ہر دور میں،جدید مفہوم میں، سیاسی تجسیم بھی رکھتا ہو۔پھر یہ کہ ریاست کی صورتیں بدلتی رہی ہیں لیکن سماج جوہری طور پر ایک ہی رہا ہے۔ انسان ریاست کے بغیر زندہ رہا ہے اور رہ سکتا ہے ، سماج کے بغیر نہیں۔ ریاست دراصل سماج کے سیاسی نظم کا نام ہے۔گویا سماج کا ذیلی ادارہ( By product ) ہے۔ مسلم معاشروں میں، بالخصوص بیسویں صدی میں، اسلام کو فرد کے مذہب کے طور پر پیش کیا گیا ہے یا ریاست کے دین کے طور پر۔ یہ بات کہ اسلام سماج کا دین ہے، پسِ منظر میں چلی گئی۔  آج ضرورت ہے کہ دین کو سماج کے تناظرمیں سمجھاجائے۔ جب ہم اسلام کو ریاست کے دین کے طور پر پیش کرتے ہیں تو دین ایک قانون کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست قانون سے قائم ہوتی اور قوتِ نافذہ رکھتی ہے۔اس کے بر خلاف جب ہم اسلام کو سماج کے حوالے سے سمجھتے ہیں تو وہ قانون سے زیادہ نظامِ اقدار سے وابستہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ سماج ایک نظامِ اقدار سے قائم ہوتا ہے اور اس کی تمام تر قوت اخلاقی ہوتی ہے۔

اسلام جب سماج سے متعلق ہوتا ہے تو وہ ایک توانا علمی اور تہذیبی قوت کے طور پر ظہورکرتا ہے۔ پھر یہ سماجی اداروں کی تشکیل میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔یہ فنونِ لطیفہ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ انسانی شاکلہ کومتاثر کرتا ہے۔ یہ پھر ایک تصورِ انسان پیش کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سماج جس نظامِ اقدار پر کھڑا ہوتا ہے، وہ اس کے تصورِ انسان سے وجود میں آتا ہے۔جب ہم اسلام کو ایک سماجی اور اخلاقی قوت سمجھتے ہوئے، روزمرہ کے سیاسی اور سماجی واقعات پر غور کرتے ہیں تو پھر ہماری سوچ کا زاویہ بدل جاتا ہے۔پھرہم ایک واقعے کے جو نتائج مرتب کرتے ہیں،وہ ان نتائج سے مختلف ہوتے ہیں جو اسلام کو ریاست سمجھنے والااخذ کرتا ہے۔

یہ تجزیہ اگر درست ہے تو پھر فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدیدناگزیر ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ فکری سطح پراسلام کو بطوردین اورعرب میں سیاسی غلبے کوبطورتاریخی واقعہ الگ الگ سمجھا جائے۔حکمتِ عملی کے باب میں ہماری توجہ کا مرکز اب ریاست کے بجائے فرد اور سماج ہو۔اگر ہم اپنے تصورِ حیات کو ان خطوط پر مرتب کریں تونہ صرف دین کے جوہر،فکرِ آخرت کی مرکزیت کو بر قرار رکھ سکتے ہیںبلکہ اس کے ساتھ اسلام کو ایک توانا تہذیبی قوت کے طور پر بھی پیش کر سکتے ہیں جو الہامی ہدایت کی روشنی میں نوعِ انسانی کو ایک متبادل بیانیہ فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ روز مرہ پیش آنے والے واقعات کو ایک نئے زاویہ نظر سے دیکھ جائے۔یہ ایک مسلسل عمل ہے جو استمرار کا متقاضی ہے۔جو اہلِ دانش اس سے اتفاق رکھتے ہیں،ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان خطوط پر معاشرہ سازی کریں۔ میری خواہش اورکوشش ہے کہ مسلم سماج اس فکری تبدیلی کو قبول کرے۔

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزوپوری

مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے

حواشی

(۱)  ۱۹۷٠ءمیں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے ایک مضمون ”معاصر اسلامی فکر۔۔چند توجہ طلب مسائل“،مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدے”ترجمان القرآن“ میں اشاعت کے لیے ارسال کیا۔مولانا اس پر آمادہ نہ ہوئے۔انہوں نے نجات اللہ صدیقی صاحب کے نام خط میں اس کی وجہ بیان کی۔مو لانا مودودی نے لکھا؛”آپ کا مقالہ میں نے دیکھ لیا ہے۔اس میں بہت سے ایسے مسائل چھیڑ دئے گئے ہیں ،جنہیں اس وقت پاکستان میں چھیڑدینا ہمارے لیے مزید مشکلات کا موجب ہوجائے گا۔اس لیے یہاں تو اس کی اشاعت ممکن نہیں ہے۔آپ چاہیں توہندوستان میں اسے شائع کردیں،کیونکہ وہاں اس کی حیثیت محض علمی بحث کی سی ہوگی“(”اسلام،معاشیات اور ادب۔۔۔خطوط کے آئینے میں“علی گڑھ،ایجوکیشنل بک ہاوس،اگست۲٠٠٠ء)

خورشید احمد ندیم

خورشید احمد ندیم، ممتاز دانش ور اور صحافی ہیں۔ آرگنائزیشن فار ریسرچ اینڈ ایجوکیشن (ORE) کے ڈائریکٹر ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن رہے ہیں۔
khurshid_nadeem@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں