محمدرشید ارشد
فلسفہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب مختلف انداز سے دیا گیا ہے۔سقراط کے نزدیک یہ موت کی تیاری کا عمل ہے۔(1) افلاطون کی رائے میں فلسفہ چیزوں کی تحدید و تعریف کا نام ہے۔(2)کلاسیکی روایت میں فلسفہ اصلاً مابعد الطبیعیات کا نام تھا۔ سب سے اہم سوال یہی تھا کہ وجود اپنی اصالت اور مظاہر میں کیا ہے۔ایمان کی اولین مخاطب عقل ہے ۔ انسان کا اصل شرف یہ ہے کہ وہ عقل رکھتا ہے جس کے بارے میںامام غزالی کا یہ کہنا کہ عقل ایک ایسا حاکم ہے جس کو نہ کوئی معزول کرسکتا ہے اور نہ اس کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔(3) خود نفسِ ایمان اصطلاح میں مابعد الطبیعی ہے۔ایمان نام ہی ہے الغیب پر یقین کا۔(4) لہذا اس کے اولین یا واحد مخاطب، یعنی عقل کے اندر مابعد الطبیعی حقائق اور امور کی قبولیت اور اثبات کا مادہ ایک تو خِلقی ہونا چاہیئے اور دوسرے یہ کہ اس مادہ تعقل کی بنیاد پر عقل کے ارادی استعمال سے کچھ ایسے نتائج ضرور اس کے کریڈٹ میں ہونے چاہیئیں جو اس دعوے کو محتاجِ دلیل نہ رہنے دیتے ہوں کہ عقل مابعد الطبیعیت (metaphysicality )سے ایک خِلقی مناسبت بھی رکھتی ہے اور اسے اپنے تخیلات ،تصورات اور افکار کی تشکیل میں استعمال بھی کرتی ہے۔ اسی بات کو فلسفیانہ تناظر میں بیان کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ عقل اپنے معروض( object) سے تین طرح کا تعلق لازماً رکھتی ہے: پہلا تو یہ کہ یہ اسے ایک ادراکی کل کا حصہ بناتی ہے، دوسرا یہ کہ اس کی تجرید کرتی ہے، اور تیسرا یہ کہ اس معروض کے ساتھ اپنی ماورائیت اور غیریت کو برقرار رکھتی ہے۔ یہ تینوں منہجِ تعقل، عقل کے بارے میں اس بات کو یقین سے کہنا ممکن بنا دیتے ہیں کہ اس کی تمام فعلیت ایک مابعد الطبیعی اساس رکھتی ہے، جس کی مستقل کارفرمائی کی وجہ سے عقل ،معقولات کو اشیا کی حیثیت سے اپنے باہرنہیں بلکہ تصور وغیرہ کی سطح پر اپنے اندر تشکیل دیتی ہے۔ اپنے معروضات سے ماورائیت trabscendence) (کا یہ مستقل مزاج اتنا باور کروانے کیلئے کافی ہے کہ عقل، اپنی لائقِ ادراک ساخت میں بھی ایک ایسا مابعد الطبیعی پن رکھتی ہے جس کا مصداق میسر نہ آئے تو بھی وہ تعقل کے تمام دائروں میں مرکزی حیثیت سے اپنا مو¿ثر کردار ادا کرتا رہتا ہے۔ عقل کو بدل کر اگر ذہن کی اصطلاح استعمال کی جائے تو بھی پوری بات یہی رہتی ہے کہ ذہن علم کو مسلمات میں ڈھالنے کی جو ایک مستقل اور مطلق خواہش رکھتا ہے، وہی اس کا جوہر ہے۔
دوسری طرف محسوسات ذہن کیلئے کبھی مسلمات نہیں بن پاتے کیونکہ ان کی صورت میں استقلال تو ہوسکتا ہے لیکن معنی میں نہیں۔ یعنی صورت کے ساتھ معنی بھی اگر مستقل نہ ہوجائیں تو ذہن اپنے معلومات کو مسلمات کا درجہ نہیں دیتا۔ اسی لئے حسی اور تجربی علوم ، ذہن کے اندر تسلیم کی ایسی فضا نہیں پیدا کرتے جس کی بدولت یہ کسی خاص رخ پر اپنی تفتیشی حرکت کو روک لے اور کسی خاص معاملے میں سوال کی حالت سے نکل آئے۔ ذہن کی یہ مطلوبہ حالتِ تسلیم علم کے مقابلے میں ایمان سے زیادہ سازگاری رکھتی ہے۔ اور شہود کی نسبت غیاب سے زیادہ مناسبت۔ ذہن کا یہ مادہ جو ایمان کو مفید ِشعور اور موجبِ علم بنا لیتا ہے اگر ذہن کو درکار آزادی اور مقصدیت کے ساتھ اپنی نشو و نما کے عارضی اور مستقل مراحل سے گزرتا ہے تو ایمانیات بھی شعور کے وسعت پذیر دائروں میں اپنی حتمی مرکزیت نہ صرف یہ کہ برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ یہ شعور کی متنوع فعلیتوں کی مستقل اور transcendental اساس بھی بن سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایمان کا main character یعنی خدا، معلوم ہونے اور موجود ہونے کی ذہنی اور خارجی کلیتوں کو اپنے اقرار میں، شعور کیلئے موجبِ تسکین اقرار میں، ایک کردیتا ہے۔
یہاں اقرار کا ذکر اس لئے کیا کہ ایک تو خود ایمان اقرار ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ شعور انکار کو محفوظ نہیں رکھتا، یہ کسی چیز کا اقرار کرکے ہی اپنے مو¿قف کی تعمیر کرتا ہے۔ انکار شعور کا فعل تو ہے حال نہیں، ورنہ شعور ایک خلا میں بدل کر رہ جائے۔ اس کا ہر انکار یا تو کسی اقرار کی بنیاد پر ہوتا ہے یا اس اقرار کی تکمیل کیلئے ہوتا ہے ۔ شعور کی اس بناوٹ کا، یعنی مبنی بر اقرار بناوٹ کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ اس کیلئے سب سے بڑا مسئلہ بلکہ مقصودِ واحد یہ ہے کہ اسے وہ حال حاصل ہوجائے جہاں ذہنی اور خارجی یا زیادہ واضح لفظوں میں، وجود اور شعور کی دوئی ختم ہوجائے۔ اس کیلئے یہ کوئی ایسا کلی مفروضہ یا تصور ڈھونڈنے اور تشکیل دینے میں لگا رہتا ہے جس میں پہنچ کر وجود اور علم ایک ایسی اکائی میں ڈھل جائیں کہ ایک کا نام دوسرے پر صادق آسکے۔ یہ شعور کی ایمانی ساخت ہے اور یہ مطالبہ شعور کی ایمانی ساخت کے بغیر پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ خدا کومان لینا اسی اقتضا کی حتمی تسکین اور تکمیل کردیتا ہے۔ ذہن کے پاس خدا کے سوا کوئی ایسا وحدت ساز تصور موجود نہیں ہے جو معلوم اور موجود کی حقیقی عینیت کانہ صرف یہ کہ احاطہ کرلے بلکہ وجود اور شعور کی اطلاقی کثرت کو ہم اصل بنادے۔
یہی وجہ ہے کہ علم کا کل اپنے مابعد الطبیعی جوہر پر استواری کی حالت میں جتنا بڑھتا جائے گا اتنا ہی ایمان کے محتوا (content) یعنی وجود کے کل کے ساتھ اس کی موافقت ترقی کرتے کرتے ایک ایسی عینیت تک پہنچ جائے گا جہاں ذہن موضوع و معروض کی دوئی (subject-object duality )کو خارجی اقلیم میں برقرار رکھتا ہے ، لیکن داخلی اقلیم میں یہ دوئی حاضر فی الادراک نہیں رہتی۔ ویسے بھی ذہن اور اس کے معروض میں’ © اور‘ سے تعبیر کیا جا سکنے والا فاصلہ وجودی اصطلاح میں کبھی ختم نہیں ہوتا البتہ علم کے حتمی تناظر میں اس کا استحضار نہیں رہتا۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ذہن میں حقائق کے عنوان سے ایک ایسی سطح رونما ہوجاتی ہے جس کے تجربے سے علم تصور اور تصدیق کی معروف corresepondence سے نکل جاتا ہے اور اسے ان دونوں میں امتیاز کی حاجت نہیں رہتی۔ یہ تیقن کا آخری درجہ ہے جس کے حصول کی بدولت وجود کی مابعد الطبیعیت یا مطلق ماورائیت ذہن میں محصور ہوجانے کا تاثر اور تصور پیدا کئے بغیر خود ذہن کیلئے انتہائی مرتبے پر حقیقی ہوجاتی ہے۔ یہی ذہن کا وہ انفعال ہے جس کے عمل میں آئے بغیر ذہن کو ادراک، تخییل وغیرہ کا بنیادی مادہ میسر نہیں آسکتا۔ ایمان کی علمی تشکیلات جو ناگزیر ہیں، ان کے process کو سمجھنے کیلئے علم کی اس تعریف کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے جس کے مطابق علم اپنی تکمیلی صورت اور حالت میں موضوع اور معروض دونوں کی خودورائی( self transcendence )کے شعور میں آجانے کا نام ہے۔ یعنی شے اپنے رسمی ( formal ) وجودی حدود اور ذہن اپنے معمول کے ادراکی قیود سے ورائیت حاصل کئے بغیر علم کے اتمام و کمال یعنی مذہبی اصطلاح میں تیقن اور علمیاتی اصطلاح میں اس مستقل تناظر تک نہیں پہنچ سکتا جس تک رسائی ہوئے بغیر جاننے کا عمل ماننے پر منتج نہیں ہوتا۔ ایمان اپنی ساخت ہی میں جاننے اور ماننے کی ایسی اکائی کا نام ہے جس میں پہلا عنصر مغلوب رہتا ہے اور دوسرا غالب۔ یہی ہر طرح کے علم کا بنیادی حال ہے۔ ہر طرح کے علم سے مراد حقیقت کو اپنا ہدف بنانے والے علوم ہیں۔
شعور کی مابعد الطبیعیات سے مناسبت کا بڑا اظہار چونکہ فلسفے میں ہوا ہے لہذا فلسفے کو نہ مانتے ہوئے بھی اسے جاننا ذہن کی ایمانی استعداد کو بڑھا سکتا ہے۔دینی ذہن کا فلسفے سے جو بھی مفاد ہے وہ بہت بنیادی ہوتے ہوئے بھی بس اتنا ہے کہ مابعد الطبیعی امور سے مناسبت رکھنے والے ذہن کو ایمان کی تکمیل کیلئے درکار صلاحیتِ تصور بھی حاصل ہوجائے اور قوتِ تصدیق بھی۔ ایمانی شعور کو فلسفیانہ نتائج اور نظریات سے کچھ نہیں لینا ہوتا لیکن فلسفیانہ صلاحیت کا فقدان یا اس سے بے خبری کی بنیاد پر وجود میں آنے والی بے نیازی اس کیلئے کچھ پہلووں سے مضر ہوسکتی ہے۔ ان میں سے سب سے بڑا پہلو وہی ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے کہ ’الغیب ¾ سے وہ مناسبت نصیب نہیں ہوتی جو ذہن کو اس کی فعلیت اور انفعال دونوں کے ساتھ ایمان سے متعلق رکھتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ’ الغیب ¾ اگر ذہن کیلئے بھی موجب ِ تسکین نہ ہو تو ایمان کے کئی مطالبات جو ذہنی بھی ہوسکتے ہیں اور عملی بھی ، پورے نہیں ہو سکتے۔
یہ دیکھنا بھی مفید ہوگا کی ایمان ایک بہت مرکزی جہت سے ام الشعور کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے شعور کی تمام انواع کی کفالت ہوتی ہے یا ہونی چاہیئے۔ مجموعی شعور میں اپنی مستقل faculties کے درمیان ایک وحدت خیز تعلق کا جو نظام چل رہا ہے اگر ایمانی ذہن اس سارے نظام اور mechanism کو تصرف میں نہیں لاتاتو پھر ایمان کا ام الشعور ہونا خود اس سے اوجھل رہ جائے گا، اور یہ مجموعی شعور کے ساتھ ساتھ خود ایمانی شعور کیلئے بھی نقص کی بات ہوگی۔ قدیم سے آج تک مجموعی شعور کے mechanics اور اس کے تالیفی دروبست کی تحقیق کا جو بھی کام ہوا ہے اس میں فلسفے کا حصہ دیگر علوم سے زیادہ ہے۔ تو ان معنوں میں بھی فلسفے سے بنیادی آگاہی ضروری ہے تاکہ ایمان کا بڑا مقصود یعنی شعور پر اس کی حاکمیت ، نظرانداز نہ ہوجائے۔ فلسفے کی صحت یقینا جزوی، عارضی اور مشتبہ ہے ، تاہم ایک ذہنی صلاحیت کے طور پر اس پر دسترس ہونا اس لئے بھی تقریبا ناگزیر ہے کہ اس کی مدد سے ایمانیات ذہن کیلئے اجنبی اور علم کے دائرے سے لاتعلق نہیں رہتے۔
ایک اور پہلو سے بھی فلسفہ ذہن کی ایک بنیادی استعداد کو بیدار کرنے میں بڑا کردار رکھتا ہے۔ہائیڈیگر کے بقول زبان وجود کا گھر ہے۔(5).ذہن کی ایک خاص قوت معنی کو صورت سے آزاد رکھنے یا کروانے میں صرف ہوتی ہے۔اس کی ذرا سی تفصیل یہ ہے کہ ذہن معانی کا گھر ہے، وہ معانی جو صورت سے حاصل ہوکر بھی صورت سے زیادہ کامل ہوتے ہیں۔ ویسے معنی کی تعریف ہی یہ ہے کہ ادراک میں آکر شے خود اپنے اظہار کے حدود وقیود کو توڑ دیتی ہے۔معلوم شے صورت کے قوانین کے ساتھ موجود شے سے زیادہ مکمل ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر ذہن اپنے معروضات سے ایک ایسا تعلق رکھتا ہے جس میں وہ شے سے موافقت کو ملحوظ رکھتا ہے لیکن اس میں محدود نہیں رہتا۔ شے کو اپنا موضوع بنا کر اور اس کے صحیح ادراک کو حاصل کرنے کا قصد کرکے بھی ذہن شے کے ساتھ برائیت کی ایک فعال نسبت ضرور رکھتا ہے، اور اسی نسبت کی بدولت معنی وجود میں آتے ہیں۔ یہ صورت اور معنی کا وہ تعاملی نظام (Interactive Process )ہے جو ذہن کی فطرت میں داخل ہے، اور انسان کے پیدا کئے ہوئے تمام علوم میں سے ایک فلسفہ ہی ہے جو اس نظام کو غیر شعوری نہیں رہنے دیتا بلکہ ادراک اور تصرف میں لے آتا ہے۔ فلسفے کی بیشتر روایتوں میں ایک مزاج ِعلم مشترک ہے اور وہ ہے علامتیت (Symbolism) کا مزاج۔ علامتیت (Symbolism) سے حتمی مراد یہ ہے کہ شے اپنے مراتب ِہستی کو اور اپنے حقائق ِوجود کو خود سے منکشف نہیں کرتی بلکہ یہ ذہن ہے جو شے پر عمل کرکے ان مراتب ومدارج کا انکشاف کرتا ہے۔یہ انکشاف اپنی clinical ساخت میں ظاہر ہے کہ تصور ہی ہے، لیکن یہ تصور ایسا ہے جو تصدیق سے متعلق مگر اس پر حاکم ہوتا ہے۔ علامتSymbol) (یہی ہے۔ شے سے متعلق اور اس پر حاکم۔ اس علامتیت (Symbolism) ے مانوس ہو کر شعور میں جو فضا پیدا ہوتی ہے وہ سب سے زیادہ ایمانیات کیلئے سازگار ہے۔یعنی ساراکارخانہ¿ شھود اپنے تمام تر علمی و عینی پھیلاو¿ کے ساتھ غیب پر دلالت کرتا ہے، وہ غیب جو علم اور وجود ، دونوں کی اصل ہے اور جس کا محل ذہن اور شے کے جبری تعلق سے مطلقاََماورا ہوتے ہوئے بھی اگر کہیں ہے تو وہ ذہن ہے، شے ¿ مشھود نہیں۔ فلسفے کی اصطلاح میں علامت(Symbol) کا جوہر یا مبدا ومرجع حقیقت ہے۔فلفسیانہ ذہن اس حقیقت کوتجرید، تخییل، تعقل وغیرہ کی مدد سے مجملاً لائق ِادراک اور مفصلا ً قابل ِاثبات بناتا ہے۔ اگر فلسفے کے طریقہ ¿ کار تک رہا جائے اور اس کے مقاصد سے صرف ِنظر کرلیا جائے تو حقیقت اور ذہن یا عقل کے تعلق کی دریافت کیلئے کی جانے والی تمام ذہنی کاوشیں ایمان سے مانوس کر دینے والی ایک نتیجہ خیز قوت میں ڈھل سکتی ہیں۔ جس ذہن میں معنی کی تعمیر کا عمل اس سطح پر نہ ہورہا ہو جو اوپر بیان ہوئی ہے تو وہ ذہن ایمانیات کا خود اپنے لئے قابل ِاعتبار مخاطب یا حامل نہیں بن سکتا۔ اس لحاظ سے بھی فلسفے سے اصولی طور پر باخبر رہنا ایمانی ذہن کیلئے مفید ہے۔البتہ یہ خیال رہے کہ ایمان محض ذہنی construct نہیں ہے، اس کی تقویت اور تکمیل کا سارا عمل عقلی اور ذہنی نہیں ہے، لیکن اگر مقصود یہ ہے کہ ذہن کو ایمان کا ظرف بنایا جائے تو پھر اوپر ذکر کی گئی چیزیں جواز اور افادیت رکھتی ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی ایسا دعوی نہیں کیا جاسکتا جس سے یہ تاثر ملتا ہو کہ فلسفہ دانی خود ایمان کی ضرورت ہے۔
فلسفے نے کم از کم دو ایسے علوم پیدا کئے ہیں جنہیں نظرانداز کرکے ایمان پر استدلال کرنے والا علم ِکلام وجود ہی میں نہیں آسکتا۔اوروہ دو علوم ریاضی اور منطق ہیں۔ ریاضی سے حقیقت کا موجود فی الخارج ہونا ثابت ہو سکتا ہے اور منطق سے اس کا موجود فی الذہن ہونا۔اس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ ریاضی نے لامتناہی (infinite) کو موجبِ ادراک بنادیا۔ ریاضی نے لامتناہی کو soul of all definitions کے طور پر منوالیا ہے۔ اس بنیاد پر ریاضی میں دیگرانسانی علوم کے مقابلے میں اثباتِ وجودِ باری کی استعداد زیادہ پائی جاتی ہے۔خارج کا تحقق ہی اگر غیرمتناہی کے اثبات سے مشروط ہوجائے تو اس سے خدا کے موجود ہونے پر ایمان لانا عقل کیلئے بھی ضروری ہوجاتا ہے۔جہاں تک منطق کا تعلق ہے تو منطق کلیات کو منبع ِعلم بنانے سے عبارت ہے۔کلی کی ذہن میں وہی حیثیت ہے جو لامتناہی کی خارج میں ہے۔کلیات کو مقومِ وجود اور معر ّف شے مان لینے سے اور اسے علم کی تشکیل میں لازم ٹھہرالینے سے منطق میں حق اور شعور کے تعلق کی ایک فطری عقلی بنیاد حاصل ہوجاتی ہے۔یعنی کلیات جو categories of knowledge and being دونوں ہیںاگر نظام ِشعور و وجود میں اول و آخر کی حیثیت اختیار کرلیںتو ذہن ایمان بالغیب سے بدیہی مناسبت پیدا کرلیتا ہے یا کر سکتا ہے۔گویا اثبات ِحق کی تصدیقی ضرورت ریاضی سے پوری ہوسکتی ہے اور تصوری لوازم منطق سے فراہم ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ نفس ِحق ان کا اپنا تصور اور مفروضہ نہ ہو بلکہ وحی سے پہنچا ہو۔
حقیقت کا موجود فی الخارج اور موجود فی الذہن ہونا،ایمانی مقاصد کے ساتھ حق کی تصدیقات کے ذہنی اور خارجی locales یہی ہیں۔ بہت آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خدا کو باعتبار ِتنزیہ و تشبیہ اور بلحاظ انفس و آفاق جاننے اور ماننے کے ایمانی مقاصد میںریاضی اور منطق پر تبحر کتنا مددگار ہوسکتا ہے! تاہم یہ خیال رہے کہ فلسفے سے حاصل ہونے والا علم، ذہن کے ایمانی structures کو منہدم کرسکتا ہے، اس سے علم کا مفاد نہیں رکھا جاسکتا، البتہ اسے استعدادِ علم میں اضافے کا ذریعہ ضرور بنایا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات دہرا دینا غیر مناسب نہ ہوگا کہ فلسفہ ذہن میں غیب کی قبولیت کو ابھارتا ہے لیکن خود غیب کیا ہے؟ اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ یہ معرفت وحی سے میسر آتی ہے جو ذہن میں ایمان کو علم پر حاوی رکھنے کا واحد وسیلہ ہے۔
حواشی:
(1) ۔ دیکھیے:Plato, Phaedo, The Dialogues of Plato. New York: Bentham Books, 2006
(2) ۔ دیکھیے:Plato, Apology, The Dialogues of Plato. New York: Bentham Books, 2006.
(3) ۔ دیکھیے، المستصفی ،ابو حامد غزالی،بیروت: دار الکتب العلمیة، ۰۰۰۲، ص ۳۔
(4) دیکھیے: القرآن ۳:۲۔
(5) ۔ دیکھیے: Martin Heidegger, Letter on Humanism, Basic Writings. London: Harper Perennial, 2008.
(بشکریہ الحکمۃ، Volume 35 (2015) pp. 37-43)
کمنت کیجے