مولانا سید عبد الرشید
مدرسہ ڈسکورسز پروگرام میری دانست میں ایک اہم پروگرام ہے، فارغین مدارس اور اسلامیات سے وابستہ افراد کے لئے یہ پروگرام کئی اعتبار سے مفید ہے، مثلا:
- اس کورس میں عصر حاضر کے ان مسائل پر گفتگو ہوتی ہے جنھوں نے جدیدیت کے نتیجہ میں تیار ہونے والی عقل کو متاثر کیا ہے۔ ہم طالب علموں کو یہ کمی محسوس ہوتی ہے کہ جدید سوالات کا جائزہ لینے کے لیے ہم کوئی موقع نہیں نکال پائے، اگر کوئی پلیٹ فارم ایسا مہیا ہوتا جہاں ان مسائل کا براہ راست مطالعہ کرنے اور ان پر نقد وتبصرہ کا موقع ملتا تو بہتر ہوتا۔ مدرسہ ڈسکورسز ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو اسلام اور سائنس، اسلام اور جدیدیت، اسلام اور تکثیری سماج، اسلام اور سیکولرزم، اسلام اور جمہوریت وغیرہ مسائل پر علمی انداز میں سوال اٹھاتا ہے اور گفتگو کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
- مدرسہ ڈسکورسزکا ایک مقصد اسلامی فلسفہ اور علم کلام سے واقف کرانا بھی ہے جس کی طرف بر صغیر کے مدارس اور یونیورسٹیز دونوں جگہ بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ معلمین اسلامی تراث سے منتخب کرکے جدید موضوعات سے میل رکھنے والی تحریریں سامنے لاتے ہیں اور ان کا تجزیہ کراتے ہیں۔ جن علماء ومحققین کی تحریریں بنیادی نصاب کے طور پر شامل کی گئی ہیں، ان میں امام ابو الحسن اشعری، امام غزالی، ابن حزم، امام رازی، امام ابن تیمیہ، ابن خلدون، ابو الحسن عامری، فارابی، شاہ ولی اللہ اور مولانا قاسم نانوتوی شامل ہیں۔
- استعماری دور سے پہلے لکھی جانے والی تحریروں میں مابعد استعماریت کی تحریروں سے نمایاں فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر شاہ ولی اللہ کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کلچر سے کس طرح تعامل کرتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ مقامی عرف وعادت اور رواجات کو بالکل ختم نہیں کرتا، بلکہ اس کے ان عناصر کو علیحدہ کرتا ہے، جو مضر اور فاسد ہوں، یا ان میں شرک کی آمیزش ہو۔ جب کہ استعماریت کے بعد والی تحریروں میں ہمیں اسلام اور مقامی کلچر ہمیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے نظر آتے ہیں۔ متقدمین کی تحریروں کو پڑھنے سے فکر میں نمایاں تبدیلی آتی ہے۔
- اس کورس کے ذریعے سے مغربی مفکرین کی تحریروں کو براہ راست پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ ہم جیسے فارغین مدارس کے لیے جو عربی یا اردو کے ذریعہ بالواسطہ طور پر مغربی مفکرین کی تحریروں کا مطالعہ کرتے ہیں، ان کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے۔
- اس کورس میں مغربی طریقہ فکر کی تفہیم ہوتی ہے، ان کے تحقیقی منہج سے واقفیت ہوتی ہے۔ مغربی منہج تحقیق کے مثبت اور منفی پہلووں کو زیادہ پیچیدگی اور گہرائی سے سمجھاجا جاتا ہے۔
- شرکاء کو قدیم یورپی فلسفہ کی تاریخ اور جدید سائنس سے واقف کرانے کے لیے چند کلاسوں کا نظم کیا گیا ہے۔ انٹنسیو میں بھی فلسفہ اور سائنس کے موضوع پر ماہرین کے دو محاضرات ہوئے جو بہت مفید معلوم ہوئے۔
- محسوس ہوا کہ مدرسہ ڈسکورسز کے منتظمین اپنے طلبہ کے اندر چار عناصر کو دیکھنا چاہتے ہیں، ایک اتنی عربی استعداد، جس کے ذریعہ اسلامی تراث کا صحیح فہم ممکن ہو، دوسرے اپنے اختصاص کے دائرے میں اسلامی تراث سے بہتر واقفیت، تیسرے انگریزی زبان پر عبور، چوتھے اسلام کے بارے میں تیار شدہ جدید لٹریچر کا مطالعہ۔ مدرسہ ڈسکورسز کے منتظمین ابتدائی دوچیزوں کو سامنے رکھ کر طلبہ کو منتخب کرتے ہیں اور پھر ان کو بقیہ دو چیزوں سے روشناس کراتے ہیں۔
- اس کورس میں چند ایسے انگریزی داں افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے جو غیر عربی داں یا غیر اردو داں ہیں، اس کی وجہ ان کا اسلامیات کا پس منظر ہے۔ ان کو عربی سے واقف کرانے کے لیے کلاس بھی دی جارہی ہے۔ نیز عربی تحریروں کے انگریزی خلاصے بھی دیے جاتے ہیں تاکہ وہ مفہوم کو سمجھ کر مباحثہ میں شریک ہوسکیں۔
- اس کورس میں خواتین کو بھی شامل کیا گیا ہے، لیکن کورس کے منتظمین کو مذکورہ اوصاف رکھنے والی مدارس سے فارغ شدہ خواتین کو تلاش کرنے میں دشواریاں پیش آئی ہیں جس کی وجہ سے خواتین کی حصہ داری اس میں کم ہے۔
- اس کورس کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس کورس کے منتظمین مدرسہ ایجوکیشن سسٹم کو ایک نعمت تصور کرتے ہیں، اس کی افادیت کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر میں ڈاکٹر عمار ناصر کا وہ جملہ نقل کروں گا جو انہوں نے قطر انٹینسیو کی الوداعی نشست میں کہا تھا۔ انہوں نے کہا: ’’مدرسہ اسلامی تہذہب کا واحد ادارہ ہے جو باقی بچ گیا ہے، اس کی حفاظت وترقی امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ادارے یوں ہی نہیں بنتے، کسی ادارہ کو شکل لینے اور اعتبار حاصل کرنے میں صدیوں لگ جاتے ہیں۔ یہ ادارہ آج بھی باقی ہے، اور اس کا اعتبار بھی باقی ہے‘‘۔ مدرسہ کے تئیں مدرسہ ڈسکورسزکے منتظمین کی سنجیدگی اس طرح بھی نظر آتی ہے کہ انہوں نے مدرسہ کے نظام میں خلل ڈالنے یا ان کے تعلیمی نظام میں تبدیلی کا مشورہ دینے کے بجائے فارغین کو مخاطب کیا، فارغین میں سے بھی جید استعداد رکھنے والے علماء اور تدریس سے وابستہ افراد کو منتخب کیا۔ ان سے گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ ان کا ماننا ہے کہ جدید علم کلام کی تشکیل کے لیے جن مہارتوں کی ضرورت ہے، وہ فارغین مدارس کے اندر زیادہ پائی جاتی ہیں۔
- جدیدیت نے مذہب پر اعتراضات کرتے کرتے اس کو زندگی سے علیحدہ کردیا ہے، اور اجتماعی زندگی سے کھدیڑ کر انفرادی زندگی تک محدود کردیا ہے۔ اس صورتحال نے تمام مذاہب کے پیشواؤوں کو فکر مند بنادیا ہے، اور سب محسوس کرتے ہیں کہ مذہب کو زندگی میں اس کا بنیادی مقام واپس دلانا وقت ایک اہم تقاضا ہے جس کے لیے ہم سب کو مل کر فکر کرنی چاہیے۔ مدرسہ ڈسکورسز کی کلاسوں میں شریک ہوکر مجھے اندازہ ہوا کہ عملی زندگی میں مذہب کی بازیافت کے لیے جو مسائل درپیش ہیں، یہ پروگرام ان کو سمجھنے کی ایک اہم کوشش ہے۔
کمنت کیجے