Home » معجم الادباء از یاقوت حموی
تاریخ / جغرافیہ زبان وادب عربی کتب

معجم الادباء از یاقوت حموی

 

ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر

اس میں کوئی شک نہیں کہ یاقوت حموی کی معجم الادباء شعراء ،ادباء،مورخین،نحویین ،وغیرہ کے تذکرہ پر مشتمل ایک اہم تاریخی ماخذ ہے۔یہ کتاب پہلی بار آکسفورڈ سے 1908 میں شائع ہوئی، دوسری بار 1922 میں طبع ہوئ اور تیسری بار بیروت(لبنان) سے 1991میں شائع ہوئی، یہی آخر الذکر طبع میرے پاس ہے ۔ معجم 6 جلدوں پر مشتمل ہے، اس کا نام “ارشاد الاریب الی معرفتہ الادیب ” ہے لیکن معجم الادباء کے نام سے مشہور ہے ۔
یاقوت حموی 574ھج/1178ء میں بلاد روم میں پیدا ہوا، بچپن میں ہی اسیر ہو کر بطور غلام بغداد کے ایک تاجر عسکر بن ابراہیم حموی کو ملا، عسکر نے اپنا تجارتی حساب کتاب لکھنے کے لئے یاقوت کو تعلیم دلوائی ۔ابتدائی تعلیم کے بعد وہ اپنے آقا کے ساتھ تجارتی اسفار پر اس کے ساتھ جانے لگا، لیکن تجارتی مصروفیات کے باوجود یاقوت نے اپنے ادبی ذوق کو زندہ رکھا ۔اسی زمانے میں اس نے تاریخ، ادب اور نحو کی جن کتابوں کا مطالعہ کیا ان کے مصنفین کا تذکرہ اس کی معجم میں ملتا ہے ۔
سات، آٹھ سال کی خدمت کے بعد یاقوت حموی کی اپنے آقا سے ان بن ہو گئ تو عسکر نے اسے آزاد کر دیا اور یاقوت نے کتابت کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیا، وہ کتابیں نقل کرتا اور کتابوں کی خرید و فروخت کرتا۔
وہ زمانہ مطابع کا زمانہ نہیں تھا ۔آج کل کی طرح بیک وقت سینکڑوں کتب شائع نہیں ہو سکتی تھیں بلکہ پوری پوری کتاب نقل کی جاتی اور پھر وہ نقل فروخت ہوتی ۔جو کتاب دس بارہ جلدوں کو محیط ہوتی اس کی نقل میں مہنیوں لگ جاتے تب کہیں جا کر ایک نسخہ تیار ہوتا ۔ یاقوت حموی جب نقول تیار کرتا تو اس کے پاس گویا معلومات کا ایک انبار ہوتا ۔انہی معلومات کو وہ جمع کرتا رہا جو بعد میں مرتب ہو کر “معجم الادباء ” اور “معجم البلدان” کی شکل میں علمی دنیا کے سامنے ائیں۔
معجم الادباء میں یاقوت حموی نے 1068 اعلام کا تذکرہ کیا ہے، اس نے ہر ایک کے تذکرے میں اپنا ماخذ بھی بیان کیا ہے کہ فلاں کے بارے میں فلاں تذکرہ نویس یہ لکھتا ہے، اس طرح اس کی معجم مستند اور معتبر ماخذ میں شمار کی جاتی ہے ۔
کتاب کی آخری جلد اشاریہ پر مشتمل ہے ۔اس میں نو، دس طرح کے اشارئیے دیئے گئے ہیں مثلا اشاریہ اعلام۔۔۔۔اماکن۔۔۔۔قبائل و جماعات۔۔۔۔ایام العرب۔۔۔۔امثال۔۔۔۔قوافی۔۔۔۔احادیث ۔۔۔۔۔کتب۔۔۔۔وغیرہ ان اشاریوں کی مدد سے مطلوبہ مواد تک پہنچا جا سکتا ہے تاہم اس میں بھی مشکل درپیش ہوتی ہے ۔وہ یہ کہ مولف نے کتاب میں اعلام کو الف بائ ترتیب سے بیان کیا ہے، اور ایسا کرتے ہوئے اس شخص کا اصل نام اختیار کیا ہے، سب جانتے ہیں کہ عربوں میں اصل نام کا چلن نہیں تھا، لوگ اپنی کنیتوں اور القاب سے جانے جاتے تھے، بعض لوگوں کے اصل نام سے اکثریت واقف نہیں ہوتی ۔ایسے میں اس شاعر یا ادیب یا مورخ کا تذکرہ ڈھونڈنا بجائے خود ایک مشکل مشق بن جاتی ہے ۔مثلا اگر آپ اموی عہد کے مشہور شاعر “فرزدق” کو اس معجم میں تلاش کرنا چاہیں تو وہ اپ کو “ف” کے تحت نہیں ملے گا ۔بلکہ “ھ” کے تحت ملے گا کیونکہ فرزدق کا نام ھمام بن غالب تھا ۔
اسی طرح مشہور معتزلی مفسر “زمخشری ” کا تذکرہ آپ کو “ز” کے تحت نہیں ملے گا بلکہ “م” کے تحت ملے گا کیونکہ زمخشری کا نام محمود بن عمر بن احمد تھا ۔
اب کتنے لوگوں کو ان اعلام کے اصل نام معلوم ہوں گے ۔لیکن بہر حال ہر حوالہ جاتی کتاب کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں، ان کے مطابق چلنے سے ہی اس معجم سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں