Home » ہندوستانی تعلیم پر لارڈ میکالے کا منٹ
اردو کتب تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت

ہندوستانی تعلیم پر لارڈ میکالے کا منٹ

 

راجا قاسم محمود

انگریزوں کی وہ اہم چیز جس نے برصغیر کی تعلیمی فضا کو یکسر تبدیل کر دیا وہ اس کا نظام تعلیم ہے۔ لارڈ میکالے اس نظام تعلیم کے بانی ہیں۔ ۱۸۳۵ میں ہونے والی ایک میٹنگ جس میں لارڈ میکالے نے برصغیر کے نظام تعلیم پر بات کی اس کے منٹس کو کتاب محل نے شائع کیا ہے۔ یہ انگریزی و اردو دونوں زبانوں میں موجود ہیں اور ان کا اردو ترجمہ محمد دین جوہر صاحب نے کیا ہے۔
یہ ایک مختصر کتابچہ ہے مگر اس کا مواد بہت اہم ہے۔ کیونکہ اس نے برصغیر کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

اس کے شروع میں محمد دین جوہر صاحب کا پیش کردہ تعارف کافی اہم ہے۔ان کے تعارف سے کچھ اہم اقتباسات ملاحظہ فرمائیں

“آزادی سے پہلے کی تعلیم میں بہت سی چیزیں تھیں جو کبھی غور طلب تھیں اور ایک پہلو تو ایسا تھا جس پر سنجیدگی سے غور و فکر ہماری دینی اور ملی ضرورت بھی تھی اور وہ یہ پہلو تھا کہ ہماری تعلیم دولخت ہوئی تو ہم نے دینی اور دنیاوی کی اس تقسیم کو رد و قدح کے بغیر نہ صرف قبول کرلیا بلکہ اس کے پرجوش حامی اور عامل بھی بن گئے ہماری آج کی صورت حال اسی کسمپرسی کا نتیجہ ہے”

پھر مزید لکھتے ہیں

“استعمار کی آمد سے پہلے یہاں تعلیم دینے کی ایک معاشرتی ترتیب موجود تھی۔ ہماری شکست کے بعد استعماری نظام رائج ہوا تو ہماری تعلیم اس کے کسی کام کی نہیں تھی۔اس لیے استعمار نے اپنی تعلیم رائج کی۔ اگر ان دو تعلیموں میں بہت بنیادی فرق نہ ہوتا تو استعمار کو تعلیم کا نیا نظام بنانے کی ضرورت نہ پڑتی ہم نے تو بڑی سادہ لوحی سے اس بہت ہی بنیادی فرق کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک کو عصری اور دوسری کو دینی کہہ کے اپنی ضمیر کے بوجھ کو ہلکا کرلیا”

پھر ایک اور اہم بات لکھتے ہیں

“یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ استعماری نظام بھی تعلیم دینا چاہتا ہے اور مذہب بھی تعلیم دینا چاہتا ہے اپنی تعلیم دینے کا موقع کس کو حاصل ہوگا؟ اس بات کا فیصلہ تاریخ کرتی ہے اور تاریخ کا ذکر کرتے ہی سیاسی طاقت کا سوال کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ بات بہت سادہ ہے کہ ہمیں تعلیم وہی دے گا جس کے پاس سیاسی طاقت ہوگی جب مذہب اجتماعی اداروں سے خارج ہوگیا تو مدرسے میں جاری مواعظ سے اس کو کوئی خطرہ تو دور کی بات اعتراض بھی نہ رہا ۔فکر اور علم مذہبی مواعظ کا حصہ اس وقت بن پاتے ہیں جو تاریخ اور انسان سے متعلق رہیں۔ اگر تعلیم صرف مضامین پڑھانے تک محدود ہو جائے تو مضامین آموزی پر استعمار کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا ؟ مذہب کے خاتمے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ دینی تعلیم کو عام دھارے کی تعلیم سے الگ کر دیا جائے جب دینی تعلیم کو عام زندگی کے مذہبی دھارے سے الگ کر دیا جاتا ہے تو آگے چل کر مذہب بھی دینی تعلیم کے پیچھے چلتے چلتے زندگی کے عام دھارے سے اور عام آدمی کی فعال زندگی سے باہر چلا جاتا ہے۔ ایک آدمی کی دو تعلیمیں نہیں ہو سکتیں، بالکل ویسے ہی جیسے ایک آدمی کے دو مذہب نہیں ہوتے یا ایک آدمی دو قمیضیں اور دو شلواریں نہیں پہنتا”

محمد دین جوہر صاحب کہتے ہیں کہ اس تعلیم سے جو انسان برآمد ہوا وہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کی مانند ہے جو بیک وقت مذہبی بھی ہے اور غیر مذہبی بھی اور یہ انسان اپنی خودی سے محروم ہو چکا ہے۔

جوہر صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تک ہم استعمار کو اس کے درست تناظر میں نہیں دیکھتے ہم اپنی زبوں حالی کو نہیں جان سکتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمیں بطور مسلمان زندہ رہنے کے لیے تین کام لازمی طور پر کرنے ہوں گے
۱. دینی روایت سے زندہ اور بامعنی تعلق قائم رکھنا اور اس تعلق کو سینچتے رہنا
۲. اپنے اردگرد کی دنیا یعنی تاریخ اور معاشرے کا درست تناظر میں علم رکھنا
۳. اپنے اندر دیکھنے کی صلاحیت بہم رکھنا

لارڈ میکالے نے بہت ہوشیاری اور سوچ سمجھ کر ہمیں ہمارے زبانوں عربی اور فارسی سے بیگانہ کر دیا۔ اس سے ہم تاریخ سے غافل ہوگئے اور ہماری تہذیب ہی کھو گئی۔
اس وقت ہمارے پاس اردو رہ جاتی ہے اس کی آبیاری کرنا اپنی آبیاری کرنا ہے۔

یہ محمد دین جوہر صاحب کے اس کتابچے کے آغاز میں اپنی معروضات ہیں۔ بہت سی چیزوں پر بحث ممکن ہے مگر لارڈ میکالے کے اس نظام تعلیم اور استعمار کے تعلق اور پھر استعمار کو سمجھنا بہت اہم نکات ہیں۔

لارڈ میکالے کے اس اجلاس میں جو منٹس ریکارڈ ہوئے اس میں لارڈ میکالے کا سب سے اہم نقطہء یہ تھا کہ برصغیر کے تعلیمی نظام کو مقامی زبانوں کی بجائے انگریزی زبان میں پڑھایا جائے۔

منٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ مقامی زبان بالخصوص عربی اور سنسکرت میں تعلیم کے حمایتی تھے۔مگر میکالے نے بھرپور طریقے سے ان کی تجویز کی مخالفت کی۔

میکالے کے مطابق عربی اور سنسکرت میں کوئی جان ہی نہیں اور ان زبانوں میں لکھا ہوئی کتابیں بھی لغویات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بلکہ ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ کسی اچھی یورپی لائبریری کی ایک شیلف ہندوستان اور سارے عرب کے مقامی علوم و ادب سے بڑھ کر ہے۔

منٹس میں میکالے کا اعتراف موجود ہیں کہ وہ خود ان دونوں زبانوں سے واقف نہیں ہے مگر اس نے مستشرقین کی مدد سے ان دونوں زبانوں اور بالخصوص عربی کی کتب کے تراجم پڑھے ہیں اور کو بیکار پایا ہے۔

منٹ سے یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ برصغیر میں تعلیم پر اخراجات جیب سے ادا کرنے کا کوئی روایت ہی نہیں تھی بلکہ یہ حکومتی ذمہ داری تھی۔

یہ منٹ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ میکالے فقط یہاں پر انگریزی زبان ہی نہیں لانا چاہتا تھا بلکہ اس کے مغربی تہذیب و تمدن کو بھی یہاں لانا چاہتا تھا۔

پھر میکالے کا وہ مشہور جملے بھی ان منٹس کا حصہ ہے جس کے تحت وہ یہاں پر اپنے مقامی وفادار بندے پیدا کرنا چاہتا ہے۔میکالے کے الفاظ کچھ اس طرح تھے۔

“اس وقت ہم پر لازم ہے کہ ایک ایسا طبقہ بنانے کی بھرپور کوشش کریں جو ہمارے اور ہماری کروڑوں عوام کے درمیان ترجمان بن سکے۔ یہ ایسے لوگوں کا طبقہ ہو جو نسل اور رنگ میں ہندوستانی ہوں اور ذوق ،عمومی سوچ، اخلاقیات اور اپنی عقل میں انگریز ہوں”

منٹس سے یہ بھی معلوم کلکتہ میں قائم سنسکرت کالج اور دہلی میں عربی تعلیم کے مراکز کو حکومت امداد دیتی تھی۔ میکالے اب ان کے لیے مزید امداد کی مخالفت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہماری ان سے یہی نیکی ہے کہ ہم ان کو ختم نہیں کر رہے وہ اپنے اخراجات خود پورے کریں۔

میکالے کے دل میں یہاں کی مقامی زبانوں کے بارے میں جو ناپسندیدگی پائی جاتی ہے وہ بہت واضح ہے۔ اور آخر میں تو میکالے یہ دھمکی یا تنبیہہ بھی کرتا ہے کہ اگر تو ذریعہ تعلیم کو انگریزی کی بجائے مقامی زبانوں میں جاری رکھنے کا فیصلہ ہوتا ہے وہ اس کمیٹی کی صدارت سے ریٹائر ہو جائے گا۔

یہ مختصر کتابچہ بہت اہم ہے جس میں اس اجلاس کے ایک حصے کی روداد ہے جس نے انگریزی اقتدار کو برصغیر میں بڑے عرصے تک مستحکم کر دیا۔

باقی ‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس’ کے اصول کے تحت یہ بات تو درست ہے کہ انگریزوں کو ایسا قدم اٹھانے کا مکمل اختیار تھا جس کو اس نے استعمال کیا اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ایسے اقدامات ہر طاقت اب بھی اٹھاتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کے حالات میں یہ نظام ہمارے کام کا ہے یا نہیں؟
اور اگر نہیں جیسا کہ میرے سمیت بہت سے لوگوں کا بھی خیال ہے تو
اس کا متبادل کیا ہے؟
اس متبادل کا نفاذ کیسے ممکن ہے؟

یہ غور طلب سوالات ہیں۔ جن پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

راجہ قاسم محمود

راجہ قاسم محمود پیشے کے اعتبار سے اکاونٹنٹ ہیں اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔
rajaqasimmehmood@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں