Home » جاحظ کے “رسالہ فی نفی التشبیہ ” کا تعارف
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار عربی کتب کلام

جاحظ کے “رسالہ فی نفی التشبیہ ” کا تعارف

 

[رسالہ فی نفی التشبیہ،  جاحظ کا ایک مکتوب ہے جو مشہور معتزلی مناظر احمد بن ابی دواد  کے صاحبزادے  ابو الولید محمد بن احمد  کو لکھا گیا ہے۔ احمد بن ابی دواد مامون اور معتصم کے دور میں قضا کے فرائض سرانجام دیتے رہےہیں۔تاہم واثق کے دور میں ان کے مفلوج ہوجانے کے بعد ان کی جگہ ان کے صاحبزادے کو قاضی تعینات کیا گیا تھا۔ البتہ جاحظ کا ان کی طرف یہ مکتوب معتصم کے دور میں لکھا گیا ہے جیسا کہ انہوں نے مکتوب کے آخر میں صراحت کی ہے۔ رسالے کے نام سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس میں تشبیہ  کے رد پر علمی محاکمہ اور استدلال سے کام لیا گیا ہے، تاہم ایسا نہیں ہے۔بلکہ  اس موضوع پر جاحظ کا ایک اور رسالہ ہے  جس کا نام ہے “کتاب الرد علی المشبہہ”۔ رسالہ فی نفی التشبیہ  دراصل کتاب الرد علی المشبہہ  کی تالیف کے پس منظر  اور اس کی اہمیت  پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس رسالے میں جاحظ قاضی زادہ موصوف سے الرد علی المشبہہ کی نشرو اشاعت کی فرمائش بھی کررہے ہیں۔ یوں رسالہ فی نفی التشبیہ کی حیثیت ان کے اصل رسالے کے مقدمے کی سی ہے۔ اس کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔]

رسالے کے آغاز میں جاحظ تشبیہ کی حقیقت اور اہلِ تشبیہ کے گروہ کی مذمت بیان کرتے ہیں کہ ان کا موقف بہت بڑا گناہ اور خدا پر بہتان ہے۔ اہلِ تشبیہ  ایسا گروہ ہے جو اپنے تئیں قوت اور غلبہ رکھتا ہے تاہم ان کا وجود اور اجتماع مضرت سے خالی نہیں ۔  ان کے شر سے سلف نے پناہ مانگی ہے جس  پرانہوں نے  مختلف اقوال اور اشعار پیش کیے ہیں۔

جاحظ کے بقول اس موقف کی اشاعت کا بڑا سبب علمِ کلام سے دوری اور لوگوں کو متکلمین سے ڈرانا ہے۔ حالانکہ علم کلام ایسا علم ہے جس کے ذریعے خدا کے دین کا اثبات ہوتا ہے، موحد اور ملحد کی پہچان ہوتی ہے، حق اور باطل میں فرق کیا جاتا ہے،  نبی اور متنبی میں خط کھینچا جاتا ہے،  نیز دلیل اور حیلے کے درمیان  پہچان پیدا ہوتی ہے۔ علم کلام کی فضیلت اور امتیاز پر خاصی گفتگو فرماتے ہیں۔

اہلِ تشبیہ کی مذمت پر گفتگو کرنے کے بعد وہ بتاتے ہیں کہ کیسے اہلِ حق کی محنت رنگ لائی اور حالات نے پلٹا کھایا۔ اس گروہ کا زور ٹوٹا (شاید سیاسی طور پر اپنے گروہ کے غلبے کی بات کررہے ہیں) ۔ قاضی زادہ محمد بن احمد کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس ساری صورتِ حال کا سہرا آپ کے اور ہمارے شیخ (احمد بن ابی دواد) کے سر سجتا ہے۔ جن کی استقامت، جدوجہد اور عزم وہمت کے باعث (محنۃ)آزمائش  کا رخ ہماری طرف سے پلٹ کر اہلِ تشبیہ کی طرف ہوگیا۔ جاحظ بہت شاندار اسلوب میں قاضی صاحب کو  خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

تاہم  جاحظ اپنے گروہ یعنی اہلِ توحید اور اس کی طرف نسبت کرنے والےکچھ  لوگوں کا شکوہ کر رہے ہیں جو اس ساری صورتِ حال میں کوتاہ ہمتی کا شکار ہیں۔ انہیں خطیبانہ اسلوب میں تحریض کرتے ہیں۔ ان کے بقول اس قضیے میں لیت ولعل سے کام لینے والا  تقیہ باز اورخدا کے دشمنوں سے دوستی رکھنے والے کے مترداف ہے۔یہ لوگ حق کے اظہار میں بزدلی سے کام لے رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ فریقِ مخالف کا تجزیہ کرتے ہیں کہ ہم حق کے معاملے میں اپنے ہی دورِ اقتدار میں اتنے طاقتور نہیں ہوسکے جس قدر قوت اہلِ تشبیہ کو ان کےدورِ اقتدار میں  باطل موقف پر حاصل رہی۔جاحظ کہتے ہیں کہ  اہلِ تشبیہ اگرچہ اس وقت کمزور اور آزمائش زدہ دکھ رہے ہیں مگر ان کی کثرت نہیں ٹوٹ سکی،  نیز ان  کی فکری حالت میں بھی کچھ کمزوری نہیں آئی۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ہم سیاسی طور پر اپنا تسلط کھو چکے ہیں تو اپنی شناخت کے بقا کے لئے انہوں نے نظریاتی مباحثوں اور مناظروں  میں شرکت ضروری سمجھی۔ جس کلام اور مناظرے کو وہ اب تک  حرام قرار دے رہے تھے اب اسی کا سہارا لینے لگے۔

اس پس منظر کو بیان کرنے کے بعد وہ اپنی تصنیف کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے  مشبہہ کے رد پر لکھی ہے۔ان کے بقول یہ اس موضوع پر نہایت مستند اور جامع تحریر ہے۔ اس میں نے آیات کی درست تاویل پیش کی ہے اور صحیح اشعار، دلالات اور ضرب الامثال سے استدلال قائم کیا ہے۔ تاہم یہ کتاب نہایت مختصر ہے۔ اس لئے کہ میرے پیشِ نظر ابلاغ تھا۔ بہترین ابلاغ وہی ہوتا ہے جس میں سامع اور قاری کو بلاوجہ کی اکتاہٹ میں نہیں ڈالا جاتا۔

پھر قاضی زادہ موصوف سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں آپ اس کتاب کو پڑھیں، اس کی تدوین کا اہتمام کریں، اس کی  زیادہ سے زیادہ  نشرواشاعت میں تعاون فرمائیں۔ یہ کام میں خود بھی کرسکتا ہوں، مگر آپ کی عظمتِ شان کی وجہ سے آپ سے درخواست کررہا ہوں کیوں کہ بڑا آدمی جب کچھ کرتا ہے تو اس کام کی قدر ومنزلت بھی بڑھ جاتی ہے۔

جاحظ اس کے بعد قاضی زادہ (محمد بن احمد بن ابی الولید) کے فضائل و خصائص پر گفتگو کرتے ہیں کہ انہیں نوعمری کے باوصف خدا نے کیسی کیسی خوبیوں سے نوازا ہے۔ جاحظ کہتے ہیں کہ علم وحکمت کا تعلق بڑی عمر کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ذاتی شغف، محنت، علمی تجسس اور دلچسپی کے ساتھ ہے۔ یہ اوصاف کسی نوعمر میں بھی لیاقت پیدا کردیتے ہیں۔ چنانچہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت معاذؓ کو اٹھارہ سال کی عمر میں گورنر بنا کر بھیجا، حضرت اسامہؓ کو نوعمری میں لشکر کا امیر بنایا۔ نیز عتاب بن اسیدؓ کو مکے کا والی بنایا جبکہ ان سے کہیں زیادہ معمر اور تجربہ کار وہاں موجود تھے۔

تاریخ میں بکثرت ایسی مثالیں موجود ہیں۔ خالد بن یزید پندرہ سال کی عمر میں لشکروں کے قائد بنے۔ یزید بن المہلب اور محمد بن قاسم کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ان سب کو چھوڑ دیں،  اکیلے عبد اللہ بن عباسؓ کی مثال ہی کافی ہے کہ کیسے ایک نوعمر لڑکے سے حضرت عمرؓ مشورہ لے رہے ہیں اور حضرت عثمانؓ کے مشیروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

اگر کثرتِ عمل، مجاہدہ اور ریاضت ہی  فضل کا باعث ہوتے تو شاید عثمان بن مظعونؓ ابوبکرؓ سے افضل ہوتے اور بلال بن رباح ؓ عثمان بن عفانؓ سے بہتر قرار پاتے۔

جاحظ اس بات کی وجہ بھی بیان کرتے ہیں کہ آپ کے والد گو زیادہ بلند مرتبہ ہیں مگر آپ کو مخاطب اس لئے کیا ہے کہ آپ جوان ہونے کے باعث زیادہ متحرک اور پر جوش ہیں اور آپ کے پاس فرصت بھی زیادہ ہے۔

نیز میں نے امیر المومنین معتصم باللہ کو بھی مخاطب نہیں کیا اور ان کی تمام تر جلالتِ شان کے باوجود یہاں  ان کا تذکرہ نہیں  کیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کی الگ تعریف کی حاجت نہیں۔ آپ انہی کے چنیدہ افراد میں سے ہیں۔ سو آپ کی صفات میں بالواسطہ انہی کی تعریف ہے۔ قاصد کی عقلمندی درحقیقت اسےبھیجنے والے کے عقل وشعور کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اللہ تعالی ان کی خلافت کو دوام عطا کرے۔

مولانا ڈاکٹر امیر حمزہ

ڈاکٹر امیرحمزہ جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے فاضل ہیں اور 2015 سے گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں بطور لیکچرار خدمات انجام دے رہے ہیں۔
amirhamzagrw@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں