Home » فہم زیست
تہذیبی مطالعات فلسفہ

فہم زیست

زندگی کیا ہے اور کیوں ہے؟ یہ الفاظ کے لحاظ سے تو چھوٹے سوال ہیں، لیکن اپنی اصل میں یہی سوال انسان کی سرگردانی کی وجہ ہیں. فلسفہ، مذہب، سائنس سب اسی کی کھوج میں سرگرداں ہیں.
نہ میں سائنسدان ہوں، نہ فلسفی اور نہ ہی مذہبی عالم. میں ان شعبہ ہائے علم کی ادنیٰ، کم فہم اور ابتدائی درجے کی وہ طالب علم ہوں جو علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ذاتی اطمینان کے لئے رائے “گھڑنے” کی جسارت کرتا ہے. یوں سمجھ لیں کہ میں اس خرابے میں وقت گزارنے کے لئے ذہن کو Anchorage دینے کے لئے توجیہات ڈھونڈتی ہوں، اور جو تھوڑے بہت جواب ملتے ہیں ان کی بنیاد پر کوئی رائے بناتی ہوں جو ہمیشہ بعد میں ٹوٹتی بھی ہیں اور بدلتی بھی رہتی ہیں.
میرے لئے زندگی سے متعلق مذہب کا نقطہء نظر بہت اہمیت رکھتا ہے. میں مذہبی نیریٹو (narrative) میں خرابی، کمی اور نقص دیکھتی ہوں، اور اس کی ضد میں سائنسی شواہد اور فلسفیانہ لاجک کی سینسیبیلیٹی(sensibility) کو بھی دیکھتی ہوں۔ ان سب کے باوجود بھی جو چیز مجھے مذہبی بنے رہنے پر مجبور کرتی ہے وہ قرآن میں موجود authoritative طرزِ کلام ہے. قرآن کی بہت ساری خصوصیات ایسی ہیں جو مجھے زیر کر دیتی ہیں مگر یہ سب سے زیادہ اثر کرتی ہے.
زندگی کی تفھیم میں اس کلام کے بیانیے کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے. لیکن اس کا بیانیہ ہے کیا؟ جو کچھ بچپن سے سن پڑھ رکھا ہے اس سے اطمینابِ قلب میسر نہیں ہوتا. اس میں ترتیب نہیں ہے. اس میں ایک بات اور دوسری بات کے درمیان منطق نہیں ملتی. اس میں کہانی کا سرا ہاتھ نہیں لگتا. جب سے عصرِ حاضر کے علماء کو پڑھنا شروع کیا ہے تب سے بہت کچھ واضح ہوتا جا رہا ہے. اور شاید انھیں سے قرآن کو سمجھنے کا جو زاویۂ نگاہ ملا ہے اس کی وجہ سے مجھے آج زندگی اور اس میں موجود اس امتحان کی تھوڑی بہت سمجھ آنے لگی ہے.
زندگی کی تفہیم کے لئے جو آیت مجھے بنیاد فراہم کرتی ہے وہ اللہ جل شانہ کا یہ اعلان ہے کہ: اني جاعل في الارض خليفة. مجھے جو سمجھ میں آیا،  وہ یہ ہے کہ اس آیت کی سب سے بری تفسیر اس کی سیاسی تفسیر ہے. ہم نے خلیفہ کو شرعی حکم نافذ کرنے والا سمجھ لیا. جب کہ عربی کے قواعد سے قطع نظر مجھے لگا کہ خلیفہ ایک ذمہ دار مخلوق ہونے کا اعلان ہو سکتا ہے یعنی جس کو کوئی ذمہ داری دی جائے.
مگر اس نکتہ پر آنے سے پہلے یہاں کچھ باتیں مدِ نظر رہیں تو شاید میرا مدعا بہتر طریقے سے واضح ہو جائے گا.
1. مولانا وحید الدین خاں صاحب اور ابو یحییٰ (ریحان احمد یوسفی) کے لٹریچر سے سمجھ آیا کہ انسان جنت میں عیش کے لئے نہیں بنا بلکہ وہاں اسے کائنات میں تصرف اور تخلیقیت کے اظہار کی صلاحیتوں سے نوازا جائے گا.
2. یہ کہ انسان جس جنت میں رکھا گیا تھا وہ زمین پر ہی تھی. اور یہ بھی کہ آخرت میں بھی جنت دنیا پر ہی بنائی جائے گی البتہ کائنات میں تصرف کرنے کے اختیارات اور صلاحیتیں بڑھا دی جائیں گی.
3. مولانا وحید الدین خان کے تفسیر قرآن کے مطابق اللہ انسان کو ابدی بادشاہت دینا چاہتے ہیں.
اب ان ساری باتوں کو جوڑ کر خلیفہ والی بات سے اگر ملایا جائے تو اس سے جو صورت سمجھ آتی ہے وہ کچھ ایسی بنتی ہے: اللہ نے فرشتوں اور جنات کی موجودگی میں جو تیسری مخلوق بنانے کا اعلان کیا، اس میں ان دونوں کے مقابلے میں جو صفات پائی جاتی ہیں وہ ارادہ، عقل اور اس کی بنیاد پر تخلیقیت کا ملکہ ہے. اس مخلوق کو اللہ کائنات میں تصرف کا اختیار دینے کا ارادہ رکھتے ہیں. مگر اس اختیار کے لئے اسے امتحان سے گزارنا چاہتے ہیں. امتحان کے لئے کرائیٹیریا (criterion) صرف ایک ہے: اخلاقی ذمہ داری. اس امتحان سے گزرتے ہوئے اسے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ آزادی، عقل اور تخلیقیت کے ان وسائل کے ساتھ متکبر بنتا ہے یا متواضع؟ وہ نافع بنتا ہے یا ضار؟ وہ خود آزادی دینے والا بنتا ہے یا آزادی سلب کرنے والا؟ وہ محنت کرنے والا بنتا ہے یا آرام پسند؟ وہ عیاش بنتا ہے یا ذمہ دار؟ وہ خوش گفتار بنتا ہے یا گالم گلوچ کرنے والا؟ وہ غریب کی پروا کرنے والا بنتا ہے یا ساری دولت کو اپنی خواہشات کی نظر کرتا ہے؟؟ اگر وہ ان محدود وسائل کے ساتھ مثبت کردار نبھاتا ہے تو وہ اس قابل ہے کہ اسے لامحدود بادشاہت سے نوازا جا سکے. اگر وہ ان محدود وسائل کی بنیاد پر بغاوت، سرکشی، تکبر، حرص، ظلم، غیر ذمہ داری وغیرہ کا مظاہرہ کرتا ہے تو کیا وہ اس قابل ہے کہ اسے ابدی بادشاہت سے نوازا جائے؟؟
اس سوچ سے میرے ذہن میں ابلیس کا معاملہ بھی کھل گیا حالانکہ مجھے اکثر اس سے ہمدردی محسوس ہوتی تھی. میں اب بھی کبھی اس کے لئے دعا کرتی ہوں کہ وہ توبہ کر کے پلٹ آئے تو کیا بعید ہے کہ اللہ اسے معاف نہیں کریں گے؟ خیر. ابلیس نے اس قدر معمولی بات کو انا کا مسئلہ بنا کر اور خود خدا کو چیلنج کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اگر اسے اس طرح کی بادشاہت دے دی جائے تو وہ کیا کچھ کر گزر سکتا ہے!!
انسان امتحان کے اس دور سے گزرتے ہوئے یہ ثابت کرتا جا رہا ہے کہ اگر یہ امتحان واقعی کائناتوں کے لئے بادشاہوں یا خلفاء کے چناؤ کا امتحان ہے تو یہ بہترین امتحان ہے. خدا نے انسان کے آس پاس اس کے سامان زیست کی فراوانی پھیلا دی. اسے عقل دی. مگر خود انسان کو بظاہر ننگا، بھوکا، ٹھٹھرتا ہوا دنیا میں کھڑا کر دیا. پر یہ ناتواں وجود چل پڑا تو شکاری دور سے ایگریکلچر، انڈسٹریل، ماڈرن، پوسٹ ماڈرن، گلوبلائزڈ اور اب ملٹی پلینیٹری ادوار کو لانے کے لئے دنیا کی ہر چیز تہہ و بالا کرتا گیا. زمین کھود ڈالی، پہاڑ پھاڑ ڈالے، ہوائیں قابو میں کر لیں، خلا کو آباد کرنے لگا . اس سارے سفر میں بار بار وہ اُس خدا سے بے بہرہ ہو گیا جس نے یہ سب دیا. اُس خدا نے پھر اسی کے صنف کے لوگوں کو منتخب کر کے ان کے ذریعے یاد دہانی کرائی. مثالیں قائم کی. دلائل دیے. یہاں تک کے اپنے بنائے قوانین میں مداخلت کر کے اس کے سامنے نشانیاں رکھیں. بہت سے نہ مانے. مگر بہت سے مانتے بھی رہے. جن تک بات پہنچی، ان کے لئےرسول کی بات کو ماننے یا نہ ماننے کو کامیابی اور ناکامی کا معیار بنا دیا. جن کو بات نہ پہنچی، ان کے لئے خود اپنے دروں میں پنہاں خیر اور شر کی پہچان کو معیار بنا دیا. کسی قوم، کسی قبیلے، کسی رنگ، کسی زبان، کسی مذہب کو معیار بنانے کے بجائے، اس کی بیدارئ فکر کو اس کی کامیابی کا معیار ٹھہرایا. اب جو چاہے اس امتحان کو پاس کر کے ابدی بادشاہت کا مستحق بنے. اور جو چاہے بے کار اور غیر ذمہ دار بنے.
کہنے کو یہ بات بہت سادہ ہے جب کہ آس پاس نظر دوڑائی جائے تو چیزیں اتنی سادہ نہیں. مگر یہ ایسا ہی ہے جیسے پھول درخت آسمان بارش سب اپنی ظاہری ہیئت میں حد درجے سادگی لئے ہوئے ہیں. لیکن جب غور سے اندر اتر کر دیکھا جائے تو گنجلگ، پیچیدہ اور لطیف معاملات کا مجموعہ لگتے ہیں. بس یہی حال اس حقیقت کا بھی معلوم ہوتا ہے!!
یہ کوئی علمی رائے نہیں بس ایک خیال ہے!
واللہ اعلم

ڈاکٹر سیدہ حور العین

ڈاکٹر سیدہ حور العین نے تقابل مذاہب میں ڈاکٹریٹ کی ہے اور یونیورسٹی آف پشاور کے کالج آف ہوم اکنامکس میں تدریسی فرائض انجام دیتی ہیں۔
hoor.sadiq@uop.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں