تالیف: ڈاکٹر حافظ محمد سعد اللہ
ناشر :دار الکتاب، اردو بازار لاہور
ڈاکٹر حافظ محمد سعد اللہ صاحب موجودہ زمانے کے ایک معتبر سیرت نگار ہیں۔ سیرت مقدسہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موضوعاتی مطالعے کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے ایک چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عائلی و ازدواجی زندگی کے بارے میں ہے جس کو “نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عائلی زندگی” کے نام سے دارالکتاب نے شائع کیا ہے۔
سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عائلی و خانگی زندگی کے موضوع پر یہ اردو میں لکھی جانے والی اولین کتب میں سے ہے بلکہ اس کے دیباچے میں مصنف نے لکھا ہے کہ عربی میں بھی اس موضوع پر کوئی معیاری و قابل ذکر کتاب موجود نہیں ہے۔ لہذا سیرتی ادب میں یہ خلا حافظ صاحب نے پورا کیا ہے جس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔
سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسوہ حسنہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے اس لیے اس کا مختلف پہلوؤں سے مطالعہ ناصرف ہمیں راہنمائی عطا کرتا ہے ساتھ ہی ہمارے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیار ومحبت میں اضافے کا بھی باعث بنتا ہے جو بالآخر رب تعالیٰ کی حمد کی طرف لیکر جاتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رب العالمین کی تخلیق کا سب سے بہترین مظہر ہیں۔
اپنے پیش لفظ میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل جو لوگ خدا پرست مشہور تھے وہ گھریلو مسائل سے گھبرا کر تارک الدنیا ہو جاتے تھے کیونکہ ان کے لیے بیک وقت روحانی اور گھریلو تقاضوں کو پورا کرنا آسان نہیں تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں دونوں معاملات کو بحسن وخوبی ساتھ نبھا کر انسان کی اس مشکل کو عملی طور پر آسانی عطاء کی۔
دراصل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عملی طور پر رہبانیت اور ربانیت میں تفریق قائم کی۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق رب العالمین سے ہر دم قائم رہا وہاں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عائلی امور بھی بہترین انداز میں سر انجام دئیے۔
ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کو چھے ابواب میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا باب نکاح کے اوپر ہے۔ جس میں مصنف نے بتایا ہے کہ خاندان کی اہمیت قوم کی تخلیق و تعمیر میں بنیادی پتھر کی سی ہے۔ اس کی بقاء اور تحفظ کا ہر انسانی معاشرے میں اہتمام کیا جاتا ہے۔خاندان کی اساس رشتہ ازدواج ہے۔ یہ انسان سے براہ راست تعلق رکھتا ہے اس لیے اسلام سمیت ہر مذہب نے خاندان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ازدواج کے بارے میں تعلیمات دی ہیں۔ نکاح کے بنیادی مقاصد میں اولاد کا حصول اور پھر اس کی تربیت ، تسکین و راحت اور اخلاق کی پاکیزگی اور احساس ذمہ داری نمایاں ہیں۔
اولاد کی تربیت پر زور دیتے ہوئے مصنف نے بتایا ہے کہ یہ والدین کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ذہنی و اخلاقی اور دینی تعلیم و تربیت کا انتظام کریں۔ شریعت کا مطلوب یہ ہے کہ والدین تربیت سے اپنی اولاد کو ناصرف ملک و ملت کا ایک اثاثہ بنائیں بلکہ اپنے لیے صدقہ جاریہ بنائیں۔
مصنف نے آگے لکھا ہے کہ نکاح احساس ذمہ داری والا کام ہے یہ انسان کی بے ہنگم آزادی پر قدغن لگا کر اس کو ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کا شعور بخشتا ہے۔
اس باب میں مصنف نے انبیاء کرام علیہم السلام کی ازدواجی و عائلی زندگی پر بھی سرسری نظر ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ کیسے یہ مقدس نفوس اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی عائلی زندگی میں بھی سب انسانوں کے لئے ایک مثال ہیں۔ جہاں ہمیں یہ مقدس نفوس تبلیغ دین کرتے نظر آتے ہیں وہاں قرآن کریم و احادیث میں ان کے عائلی معاملات کا بھی بیان آیا ہے۔ جیسے حضرت سیدنا زکریا علیہ الصلٰوۃ والسلام کا اولاد طلب کرنا اور اس کے ساتھ دیگر انبیاء علیہم السلام کے اہل کے متعلق گفتگو قرآن مجید کا حصہ ہے۔
اس کے بعد خصوصی طور پر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عائلی زندگی کے اوپر اجمالی طور پر یہاں گفتگو کی گئی ہے کیونکہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام صاحب قرآن ہیں اس لیے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عائلی زندگی کے حوالے سے متعدد امور کا قرآن مجید میں بیان آیا ہے۔یہاں مصنف نے بتایا ہے کہ سیدی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس اور تنہائی دونوں پاکیزہ تھیں، آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زندگی میں ایک توازن تھا جہاں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام وحی اور اس متعلقہ امور بہترین انداز میں سر انجام دے رہے تھے تو ریاستی امور پر بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام راہنمائی فرماتے تھے ان سب کے ساتھ عائلی امور میں بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام ہی نمونہ عمل تھے بلکہ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے عائلی امور میں کوئی مسائل ہوتے تو ان کو بھی حل فرماتے تھے۔ پھر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کو بھی ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ انہوں نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی گھریلو زندگی کو محفوظ رکھا اور اس کو پوری امانت و دیانت کے ساتھ آگے لوگوں تک پہنچایا۔
دوسرا باب حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادیوں کے بارے میں ہے۔ اس باب میں چند پست اور بیمار ذہن کے مالک لوگوں کے اس طعن کا جواب دیا گیا ہے جو وہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادیوں پر کرتے ہیں۔ حافظ صاحب نے اس باب میں مختلف شادیوں کی حکمت بیان کی ہے کہ ان کے پیچھے دین کی حفاظت اور ترقی مقصود تھی۔ ان میں کوئی شادی بھی شہوت پرستی کے جذبہ کے تحت نہیں تھی۔
عرب کی معاشرت میں سسرالی رشتے داروں کی اہمیت کے پیش نظر کچھ شادیاں ہوئیں جیسے حضرت سیدہ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا بنو نضیر سے تعلق رکھتی تھیں، بنو نضیر کو اسلام دشمنی کے سبب مدینہ منورہ سے بے دخل کیا گیا مگر اس نکاح کے بعد یہود کا یہ باوسائل قبیلہ کبھی مسلمانوں کے خلاف میدان جنگ میں نظر نہیں آیا۔ ام المومنین حضرت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے بعد ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ جو پہلے کافر سردار تھے کی مخالفت میں غیر معمولی کمی آئی۔ حضرت سیدہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد بنو مخزوم کی مخالفت میں کمی آئی اور یہ نرمی بعد میں حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے اسلام کا سبب بنی۔ ام المومنین حضرت سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بعد نجد کے علاقے میں صلح ہوئی اور وہاں اسلام داخل ہوا ۔ ام المومنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ان کا قبیلہ جو پہلے ہر اسلام مخالف مہم میں صف اول میں ہوتا تھا پھر کسی جنگ میں شامل نہیں ہوا ۔ اس قبیلے نے قزاقی چھوڑ کر متمدن زندگی کو اختیار کیا ۔
ان شادیوں میں اصلاح امت بھی مقصود تھی جیسے کہ ام المومنین حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کے معاملے میں ہوا۔ اس کے علاوہ بیوہ عورتوں سے نکاح کی ترغیب دلانے کے لیے، یتیموں کی کفالت، حسن معاشرت کا قیام بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے متعدد نکاح کی وجوہات ہیں۔
سیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثرت ازدواجی کو مستشرقین اور دیگر بیمار ذہن کافی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے اس اعتراض کی کمزوری اور کھوکھلے پن کو اہل اسلام نے واضح کیا ہے۔ حافظ صاحب نے اس باب میں ان دلائل کو یکجا کر دیا ہے جس سے اس موضوع سے متعلق شکوک وشبہات کا تسلی بخش جواب موجود ہے۔
اس باب میں ایک جگہ حافظ صاحب نے امام بوصیری رح کا ایک خوبصورت شعر لکھا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے
“آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے بارے میں علم کی انتہا یہی ہے کہ آپ بشر ہیں مگر انسانوں سے ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات الہی سے افضل ہیں”
تیسرا باب “کاشانہ نبوی کا نظم و نسق” کے نام سے ہے جس میں سیدی ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاشانے کے انتظامی معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ گھر کی حیثیت ایک معاشرتی ادارے اور ایک چھوٹی سی ریاست سی ہے، اس کو چلانے کے لیے اسلام نے کچھ قواعد و ضوابط عطاء فرمائے ہیں۔سب سے پہلے اس کی سربراہی مرد کے ذمے ڈالی گئی ہے۔ گھر کو چلانے کے لیے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ نمونہ عمل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر کی سماجی، معاشرتی، معاشی اور مادی و روحانی ہر قسم کی ضروریات کے ذمہ دار تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاشانے میں سادگی پائی جاتی تھی۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے غیر ضروری تعمیر، شان و شوکت والی عمارات اور گھروں کی ضرورت سے زائد تزئین و آرائش کو ناپسند فرمایا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے گھر میں سامان بھی قلیل تعداد میں تھا جو فقط ضرورت کی اشیاء پر مشتمل تھا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بعد اس سامان میں سے کچھ چیزیں حضرت عمر بن عبدالعزیز رح کے گھر میں تھیں، جن کی وہ روز زیارت کیا کرتے تھے اور اپنے پاس آنے والے وفود کو بھی اس کی زیارت کراتے اور فرماتے
“یہ اس ذات کی متاع دنیا (پونجی) ہے جس کی برکت سے اللہ کریم نے تمہیں دنیا میں عزت و اقتدار نصیب فرمایا”
حضرت عمر بن عبدالعزیز رح کے پاس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر مبارک بھی تھی۔ ایک مریض کو اس کے بھگوے ہوئے چند قطرے پلائے گئے تو وہ صحتیاب ہو گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد حضرت سیدنا اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر چارپائی بھیجوائی۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام تا وقت وصال اس چارپائی پر ہی آرام فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جنازہ بھی اس چارپائی پر پڑھا گیا۔ اہل مدینہ حصول برکت کے لیے اپنے مردوں کو اس چارپائی پر اٹھایا کرتے تھے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا جنازہ بھی اس چارپائی پر اٹھایا گیا۔
کھانے پینے کے معاملات میں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبعیت صابر و قانع تھی حتیٰ کہ کئی دفعہ آپ آب زم زم پیتے تو پورا دن کھانے کی حاجت نہ پیش آتی۔ اس کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گھر میں کوئی چیز بنتی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کرتے تھے۔
مکہ مکرمہ میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام سے والد ماجد کی طرف سے حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا سے ترکہ میں آئیں ، ان کا سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خصوصی پیار تھا اور ان کو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنی ماں کے بعد ماں فرماتے تھے۔
مکہ مکرمہ میں سیدہ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد معاشی طور پر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو کسی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جبکہ مدینہ منورہ میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذرائع معاش پر بھی حافظ صاحب نے مختلف صورتوں کا ذکر کیا ہے جس میں جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے اپنی زمینوں کو ہبہ کرنا، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زراعت پیشہ تھے وہ اپنی زرعی پیداوار میں سے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ہدیہ بھیجا کرتے تھے۔ پھر آپ علیہ الصلٰوۃ نے کچھ اونٹنیاں اور بکریاں ذاتی طور پر خریدیں اور کچھ لوگوں نے بطور ہدیہ پیش کی تھیں۔ حضرت سیدنا مخریق رضی اللہ عنہ جو پہلے یہودی عالم تھے، جب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے سات باغات کی وصیت کی کہ اگر وہ شہید ہو گئے تو یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہوں گے چنانچہ وہ شہید ہوئے تو حسب وصیت یہ باغات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت میں آ گئے یہ باغات آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنی طبعی جود و سخا کے باعث غرباء کے لیے وقف کر دئیے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذرائع معاش میں سے ایک اور ذریعہ اموال فئے بھی تھا، ان میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام جیسے چاہتے تصرف فرماتے تھے۔ ایک اور ذریعہ بادشاہوں اور وفود کے جانب سے پیش کیے گئے تحائف کی صورت میں تھا۔
اس باب میں سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہمان داری کا بھی ذکر ہے، یہ بھی ایسا وصف ہے جس میں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام باقی معاصرین سے ممتاز نظر آتے ہیں۔ ویسے بھی مہمان نوازی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا خاندانی وصف تھا۔ اس لیے کاشانہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسا مہمان خانہ تھا جس کے دروازے ہر اجنبی غریب الدیار، مسافر اپنے اور پرائے سب کے لیے دن اور رات کھلے ہوتے تھے، حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں صبح وشام جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے پر تشریف لاتے تو مہمانوں کی بھیڑ لگ جاتی۔ یہاں حضرت سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا ایمان افروز واقعہ بھی بیان ہوا کہ جب فقر و فاقہ نے ان کو آ لیا تو مختلف جگہوں سے مایوسی کے بعد سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی چار بکریاں دیں کہ ان کا دودھ خود بھی پیو اور آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو پلاؤ، حضرت سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کئی دن تک حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر رہے اور خوب سیر ہو کر دودھ پیا۔
آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام گھریلو امور بھی خود سر انجام دیتے تھے۔ گھر کے کام کاج کرتے ہوئے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کا ہاتھ بٹاتے ان سب چیزوں کو بھی مصنف نے اس باب میں بیان کیا ہے۔
چوتھے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بےمثال شوہر ہونے کے بارے میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نیک بیوی کو دنیا کی بہترین متاع فرمایا ہے اور حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کو اللہ تعالیٰ امت کی مائیں قرار دیکر ان کی عظمت پر دائمی تصدیق ثبت کر دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے ساتھ رویہ مثالی تھا اور ان کے درمیان توازن اور انصاف کو ہمیشہ قائم رکھا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کا اپنی ازواج کے ساتھ سلوک بھی مثالی تھا آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام ان سے ہر اہم کام میں تعاون فرماتے اور ان سے مشاورت بھی فرماتے تھے۔ مصنف نے صحیح بخاری اور مجمع الزوائد کے حوالے سے یہ بھی بیان کیا آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام رات کو اپنی ازواج کی دلجوئی کے لیے ان کو قصص بھی سنایا کرتے تھے۔
اپنی ازواج کے مختلف امور میں مشوروں کو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اہمیت دی، ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مشورے سے اپنی بیٹی حضرت سیدہ زینب بنت محمد رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت سیدنا ابوالعاص بن الربیع رضی اللہ عنہ سے کیا جو کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کے بھانجے لگتے تھے۔
حدیبیہ کے مقام پر جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ملال تھا اور وہ حلق نہیں کروا رہے تھے ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے مشورے سے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے قربانی کر کے حلق کرایا تو سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فوراً اتباع میں قربانی کر کے حلق کرایا۔
آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنی ازواج رضی اللہ عنہم سے خوش طبعی اور مزاح بھی فرماتے تھے۔
ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی بابت ایک عمدہ جملہ شیخ محمد علی صابونی کے حوالے سے مصنف نے لکھا کہ
“یہ عقل کی عقل سے شادی تھی”
بوقت بعثت ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو سب سے پہلے حوصلہ دینے والی تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحیثیت نبی اور شوہر اپنی ازواج کی اخلاقی و روحانی تربیت بھی کی، جہاں ان کا طرزِ عمل ان کے منصب سے مختلف ہوا وہاں آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ان کی حکیمانہ طریقے سے اصلاح فرمائی۔
آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کی محبت یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ تھی۔ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے ہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کامل محبت پائی جاتی تھی۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم نے دینی احکامات پر ناصرف خود عمل کیا بلکہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سیرت طیبہ کو بھی لوگوں کے سامنے رکھا تاکہ وہ اپنی زندگی کے خانگی امور میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع و اطاعت کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے باہمی تعلقات اور ان کی مابین محبت، دوستی و ہم آہنگی کو جاننے کے لیے اس باب میں کافی کچھ ہے۔
جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بہترین شوہر تھے ایسے ہی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام ایک عظیم اور مشفق والد بھی تھے۔ پانچویں باب میں سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس بابت مزید بات کرنے سے پہلے یہ چیز ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ زمانہ جاہلیت میں کچھ عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیا کرتے تھے، وہاں اپنی بیٹیوں کی تربیت اور ان سے پیار کرنا اور باقیوں کو بھی بیٹیوں سے محبت کی ترغیب دلانا غیر معمولی بات ہے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ناصرف بیٹیوں کی تربیت کی ترغیب دلائی بلکہ ان سے پیار و محبت کرنے اور ان کو آداب سکھانے پر بشارت بھی دی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے بڑی بیٹی حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا خَلق اور خُلق کے اعتبار سے اپنے عظیم والد کی واضح تصویر تھیں۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وجہ سے مشکلات بھی کاٹیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ رضی اللہ عنہا سے خصوصی پیار تھا اس کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہا کی اولاد حضرت سیدہ امامہ بنت زینب اور بیٹے حضرت سیدنا علی زینبی رضی اللہ عنہم سے بھی خصوصی پیار تھا۔ حضرت سیدہ امامہ رضی اللہ عنہا کو آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام دوران نماز بھی اپنے سے جدا نہیں فرماتے تھے، حضرت سیدنا علی زینبی رضی اللہ عنہا کی تربیت و کفالت بھی سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی، فتح مکہ والے دن یہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ ناقہ پر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پیچھے سوار تھے۔
آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دوسری بیٹی سیدہ رقیہ بنت محمد رضی اللہ عنہا سے بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو بہت پیار تھا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام ان کے گھر کھانا بھیجا کرتے تھے۔ حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر میں تھے وآپسی پر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام ان کی قبر پر تشریف لے گئے ساتھ حضرت سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا بھی تھیں جن کے رونے پر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنے مقدس ہاتھوں سے سیدہ پاک رضی اللہ عنہا کے آنسو صاف کیے۔
ایسے ہی تیسری بیٹی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی محبت کے بارے میں لکھا اور ان کے وصال پر جو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیفیت غم تھی کتب سیر و احادیث اس پر شاہد ہیں۔
حضرت سیدہ نساء العالمین رضی اللہ عنہا سے محبت کے واقعات کثرت سے مل منقول ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کے استقبال کے لئے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوتے تھے۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بھی سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں سیدہ پاک رضی اللہ عنہا سے ملتے اور واپسی پر سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا سے ملتے۔ اپنے وصال کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ پاک رضی اللہ عنہا کو دی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے بیٹوں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم سے بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام بہت پیار کرتے تھے، یہ نماز میں اپنے نانا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفلانہ شوخیاں کرتے جس پر کبھی بھی آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ان کو نہیں روکا۔ ایسا نہیں کہ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام بے جا لاڈ پیار کرتے تھے بلکہ اگر کہیں بھی کوئی اصلاح طلب بات ہوتی تو چشم پوشی نہیں فرماتے، جیسے کہ ایک دفعہ غلط فہمی میں حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے صدقے کی کھجور منہ میں ڈالی تو فوراً نکالنے کا حکم فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے اولاد سے محبت کی مزید مثالیں اس باب میں موجود ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
غلام اور خدام عرب گھرانے کا ایک اور جزو تھے اس لیے آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی گھریلو زندگی میں اس پہلو کو چھٹے باب میں موضوع بنایا گیا ہے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام محبت کرنے والے شوہر، شفقت فرمانے والے والد ہونے کے ساتھ ہمدرد آقا بھی تھے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر حضرت سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے اور آزاد ہونے کو قبول نہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے سید الوری صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھی مثالی تھی، لوگ اپنے باتیں منوانے کے لیے حضرت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے سفارش کروایا کرتے تھے۔
جاہلی عرب میں غلاموں کو فقط زندہ رکھنے کے لیے ان کو کھلایا پلایا جاتا تھا ان کے حقوق کا کوئی پاس نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضابطہ بیان فرما دیا کہ غلام ہمارے بھائی ہیں ان کو وہی کھانا کھلاؤ جو خود کھاتے ہو۔ یہ ضابطہ اتنی بڑی انقلابی تبدیلی تھی کہ جس نے اس نظام کی قباحت پر کاری ضرب لگائی۔
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جو تقریباً نو سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم رہے گواہی دیتے ہیں کہ ان سے کبھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت گفتگو نہیں فرمائی۔
حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا سے پیار ومحبت کا پہلے بھی ذکر ہو چکا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام ان کے گھر تشریف لیکر جاتے تھے پھر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے وصال کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی آپ رضی اللہ عنہا سے ملنے جایا کرتے تھے۔
کتاب کے آخری تینوں ابواب میں ایک تعلق ہے کیونکہ عرب کے جاہلی معاشرے میں بیویوں کے حقوق، بیٹیوں کے حقوق اور غلاموں کے حقوق کا تصور اجنبی تھا۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ان تینوں رشتوں سے بہترین حسن سلوک کر کے ایک عظیم الشان روایت قائم کر دی جس سے بیٹی اور بیوی کو عزت ملی اور غلاموں سے حسن سلوک نے اس نظام میں اصلاح کر دی۔اپنی آخری وصیت میں حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سے زیر دست لوگوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی تلقین کی۔ اس کی تشریح مصنف نے کتاب کے اختتام پر خوب کی ہے۔وہ لکھتے ہیں
“دفاتر میں ہر چھوٹا بڑے کا زیر دست ہے۔ کار خانوں میں مزدور مالک کا زیردست ہے، زمینوں میں مزارع زمیندار کا کا زیر دست ہے، غریب آدمی سرمایہ دار اور جاگیر دار کا زیردست ہے، بیوی شوہر کی سیرت ہے، گویا ہر مسلمان کے لئے وصیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کے وہ اپنے زیر دست اور ماتحت کا خیال رکھے۔ ہم اپنے جسمانی باپ کی وصیت کو ہر قیمت پر پورا کرنا اپنا فرض اور ضروری خیال کرتے ہیں۔ کاش! اپنے عظیم روحانی اور ایمانی باپ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت کو بھی پورا کر سکیں”
اپنے موضوع کے لحاظ سے حافظ صاحب نے اہم اور قیمتی مواد جمع کیا ہے اور اپنے موضوع اور مضامین سے مکمل انصاف کیا ہے۔ کتاب کی خصوصی بات یہ ہے کہ تقریباً ہر بات بحوالہ درج کی ہے۔ یہ کتاب کے مستند ہونے کے ساتھ مصنف کے خلوص، ذمہ دار اور محنتی ہونے کا بھی ثبوت ہے۔ اللہ کریم مصنف کو اس کارخیر پر خصوصی اجر عظیم عطا فرمائے۔
کمنت کیجے