(بین الاقوامی اسلامیہ یونیورسٹی میں اقبال انٹر نیشنل سنٹر فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ اور جامعہ محمدی شریف کے اشتراک عمل سے منعقد تین روزہ ورک شاپ کی روداد)
انسانی معاشرت اب ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے۔ اس سفر میں جہاں انسان کے فطری مسخرات کی فہرست طویل ہے وہاں یہ سانحہ بھی پیش آیا ہے کہ انسانیت مصنوعیت کے زیر پنجہ ہے ۔ اہل علم کا کہناہے کہ کسی لمحے مصنوعی ذہانت،انسانی ذہانت کو چیلنج کر سکتی ہے۔ انسان کی خطر پسند طبیعت نے اس وجودی ، ذہنی چیلنج کو قبول کر لیا ہے۔
مسلم معاشرے اس سفر میں ترقی یافتہ معاشروں کے ہم سفر دکھائی نہیں دیتے۔جو کبھی اقوام ِعالم کی قیادت کرتے تھے اب ان کے ہم رکاب بھی نہیں رہے۔ یہ عمرِرائیگاں کے نوحہ کا وقت ہے۔ فکر و نظر کی دنیا میں ایک ہنگامہ ہمہ وقت جاری ہے۔نئے افکار وجود میں آرہے ہیں اور ایک زمانے کی صورت گری کررہے ہیں۔ یہ افکار مختلف تصوراتِ زندگی (world views) کو جنم دے رہے ہیں۔
اس عالمی صور تحال میں یہ جو اہل اسلام پر ایک انحطاطی اور اتھلی حالت مسلط ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ارادہ وشعور کی نصب العینی، کلیت و عملی یکسوئی کے ساتھ حقیقی مقصد کے حصول میں بڑی حد تک محروم ہو چکے ہیں۔
“د نیا ہماری ہے ہم خدا کے ” ایک دینی معاشرے کی ہر جہت اس غیر متغیر اصول پر استوار ہونی چاہیے ۔ لیکن عصر حاضر کا معاشرہ جو تہذیب جدید کا مرہون منت ہے وہ “دنیا ہماری ہے ” کہ اصول پر ڈٹا ہوا ہے لیکن ” ہم خدا کے ہیں ” کے دستور سے باغی ہو گیا ہے۔ اس تہذیب کا کلمہ لا الہ الا الانسان ” ہے۔ اب ترقی کی کنجی اس تہذیب کے ہاتھ میں ہے جو دست دعا بہر حال نہیں ہے۔
اس وقت دنیا علمی ، معاشی اور اقدار سازی کی جس سطح کو پہنچ چکی ہے وہاں اسلام کے نام لیوا کمیاب ہیں ۔ اہل اسلام کی یہ علمی پستی پلک جھپکنے کی کہانی نہیں ہے بلکہ صدیوں پر محیط ہے ۔ اہل دین کی ظواہر پرستی سے رسم اذان رہ گئی ہے اس میں روح بلالی نہیں رہی۔،علم وحکمت کے باب میں تلقین غزالی نہیں رہی ۔ اس سب نے اسلاف کو افسانہ بنادہا ہے اور رونا تو اس کا ہے کہ متاع کارواں نہ سہی احساس زیاں بھی باقی نہیں رہا۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
علماء و مشائخ کےنہاں خانہ دل سے یہ آواز اٹھنے لگی ہے “سنبھل جاؤ ورنہ تمہاری داستاں بھی نہ ملے گی داستانوں میں ”
ان کی کاوشوں کو دیکھ کر انسان کہہ اٹھتا ہے ۔
آج نکلا ہے کوئی دشت سے خورشید بکف
جیسے ہر ذرّے کو اندر سے اُجال آیا ہو
جن علماء و مشائخ نے کشتی امت کو فرقہ پرستی ،انتہا پسندی وغیرہ کے بھنور سے نکالنے کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے ۔ یہ لوگ جب سر جوڑ کر بیٹھے تو سمجھ آیا کہ” سچ کہا ہے مصحفی استاذ نے ”
مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
چنانچہ مدارس کےاساتذہ ،طلبہ میں شعور و آگہی ، فکری بیداری ،احساس ذمہ داری ،علم دین کے ساتھ و فاداری ، درد دل اورعمق و تطبیق پیدا کرکے ان کی زندگی میں جامعیت کی روح پھونکنے کےلیے دینی مدارس کے منتظمین اور علماء ومشائخ کی طرف سے ور کشاپسزکا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ۔ جس کےذریعے طلبہ ملک کے نامور دانشور حضرات سے مستفید ہونے کے ساتھ اپنے دینی کردار اور تشخص کو نکھار سکیں ۔
آج مسلم امہ کو اپنی تہذیب میں رہتے ہوئے دنیا کا ہم رکاب بننا ہے۔ علامہ اقبال نے ایک صدی قبل امت مسلمہ کی تعمیر نو کا ایک خواب دیکھا تھا۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کی سعی مسلسل میں کشتی امت کے نگہبان مصروف عمل ہیں۔ ان میں ایک ہمارے شیخ کریم پیر محمد معظم الحق معظمی (سجادہ نشین خانقاہ مقدسہ معظم آباد شریف) بھی ہیں۔ خانقاہ معظمیہ کے اشتراک عمل سے مختلف اوقات و مقامات پر منعقد کئی علمی سیمنارز منعقد ہوچکے ہیں۔ اسی طرح صاحبزادہ قمر الحق صاحب سجادہ نشین خانقاہ محمدی شریف ومدیر جامعہ محمدی شریف چنیوٹ(جوکہ ان تمام تر ذمہ داریوں کے ساتھ انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اسلامک شریعہ اینڈ لا کے بیدار مغز متعلم ہیں) بھی ملک کے کئی مقامات پر ورکشاپس منعقد کروا چکے ہیں۔
“علوم اسلامیہ وجدید فکری مباحث ” کے عنوان سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اقبال انٹر نیشنل ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ اور جامعہ محمدی شریف کے اشتراک عمل سے جون 21 تا 23 ،2022 کو ورک شاپ منعقد ہوئی۔ شیخ کریم کے حکم سےاس فکری نشست میں شرکت کے لئے 20 جون کو راقم اپنے چند اساتذہ کرام کی معیت میں بذریعہ گاڑی روانہ ہوا۔گاڑی قصبوں ،بستیوں کے درمیان فراٹے بھرتی دوڑ رہی تھی سیاہی اپنی کاکلیں بکھیر رہی تھی ،چاند عروس منصہ کی طرف بادلوں کی اوٹ میں کھڑا شرما رہا تھا۔ اور ہم اسلام آباد کی سر زمین پر قدم رنجا فرما رہے تھے ۔وسیع وعریض سڑکوں پر گھومتے ہم مجوزہ مقام پہ پہنچے تو سر پٹ دوڑتی گاڑی رک گئی اور ہم نے اپنی خمار آلود آنکھیں کھول دیں ۔ہمارا پرتپاک استقبال کیا گیا ۔
سب سے پہلے عجز و انکسار کے خمیر سے گوندھی شخصیت صاحبزادہ قمر الحق (سجادہ نشین خانقاه مقدسه محمدی شریف ) زیارت ہوئی ۔ معلوم ہو تا تھا کہ خدا نے انہیں عجز کے سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ سرخ و سفید رنگت ، اوسط قد ، نشیلی آنکھیں غرض اپنے جد امجد کا عکس جمیل” محمدی جو اں ” لگ رہے تھے۔ انہیں دیکھ یہ کہنے کو جی چاہتا ہے
دل کی حالت سے تو لگتا ہے کہ یہ جواں
بار کونین اکیلا یہ اٹھا لایا ہو
بعد ازیں ہم دستر خوان کے گرد ہالہ بنےاور میز پر آراستہ انواع واقسام کی اشیائے خوردونوش سے اپنے حصے کا حظ اٹھا چکے تو ہاسٹل چلنے کا ارادہ بنا ۔ رات ہر قسم کی سہولت سے آراستہ کمروں میں گزاری۔ صبح نو بجےبین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے قدیم کیپمس میں پہلی نشست کا انعقاد ہوناتھا۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا مختصر تعارف:
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد 1980ء بمطابق 1400ھ میں قائم ہوئی۔1985ء بمطابق 1405ھ میں اسے قانونی طور پر بین الاقوامی حیثیت عطا کی گئی، جس کے بعد وہ پاکستانی آئین کے تحت انتظامی طور پر مستقل ادارے کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ پاکستانی آئین کے تحت پاکستان کے صدر مملکت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے چانسلر ہیں۔ عالمِ اسلام کے جامعات کے اتحاد کے انتظامی بورڈ کے صدر اور محمدبن سعود، اسلامی یونیورسٹی، ریاض کے وائس چانسلر ڈاکٹر سلیمان عبد اللہ ابوالخیل بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے پرو وائس چانسلر ہیں، جب کہ ڈاکٹر احمدیوسف الدریویش اس کے موجودہ صدر ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا بورڈ آف ٹرسٹیز عالم اسلام کی چوالیس معروف شخصیات پر مشتمل ہے۔ فی الحال بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد 9 فیکیلٹیز، 39 شعبہ جات اور 6 اکیڈمیوں پر مشتمل ہے اور 131 تعلیمی پروگراموں میں دنیا کے پچاس سے زائد ممالک سے آنے والے 30 ہزار کے قریب طلبہ و طالبات کو زیورِتعلیم سے آراستہ کر رہی ہے۔ دار الحکومت اسلام آباد میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کو تقریباً ایک ہزار ایکڑ پر مشتمل وسیع رقبہ عطا کیا گیا ہے، تاکہ وہاں یونیورسٹی کا مستقل کیمپس تعمیر کیا جا سکے۔ اس کیمپس کی تعمیر کا پہلا مرحلہ پایہء تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ایک کامیاب تہذیبی منصوبہ ہے۔ رقبے اور دستوری حیثیت کے لحاظ سے پاکستانی یونیورسٹیوں میں امتیازی مقام کی حامل اس یونیورسٹی میں دنیا بھر کے علمی تخصصات اور شعبہ جات کا انتظام کرنے کا سوچا جا رہا ہے، تاکہ یہ یونیورسٹی باصلاحیت اہل علم کی کھیپ تیار کرنے، صلاحیتوں کو نکھارنے اور ترقی دینے، علمی تحقیق کی حوصلہ افزائی اور اس میں امتیازی مقام حاصل کرنے اور اقوام عالم میں امت مسلمہ کا مقام بلند کرنے اور انسانی معاشرے میں بحیثیت مجموعی مثبت طور پر حصہ لینے کے لیے ان تمام امور اور اسلام کی اصلی تعلیمات و اقدار کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں بھرپور کردار ادا کر سکے۔
مقررہ وقت ( (9:00 پہ محولہ بالا مقام پر بزم کا آغاز ہوا ۔ اہل علم ودانش کی علمی و فکری گفتگو کو ملفوظ کرنے سے قلم ہی نہیں ذہن بھی قاصر ہے یہ تو بس وہ عیش ہے جس کے بارے میں مرزا اسداللہ خاں غالب نے اپنے ایک خط میں فرمایا ہے۔
“سنو صاحب ! جس شخص کو جس شغل کا شوق ہواور وہ اس میں بے تکلف عمر بسر کرے اسے عیش کہتے ہیں ۔”
پروفیسر یونس صاحب نے نظامت کے فرائض سنبھالے ۔صاحبزادہ قمر الحق صاحب نے اس فکری نشست کا تعارف پیش کیا۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر حسن الامین صاحب تھے ۔
پہلا مقالہ ہمارے دیرینہ ممدوح اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سیکرٹری محترم ڈاکٹر حافظ اکرام الحق یاسین نے پاکستان میں اسلامئزایشن کے عنوان سے پیش کیا ۔مقالہ چونکہ نہایت وقیع تھا اور کئی باتیں راقم کےلیے انکشاف کا درجہ رکھتی تھیں لہذا اس مقالہ کا تفصیلی جائزہ الگ آرٹیکل کی شکل میں پیش کیا جائے گا۔
سیشن کے اختتامیہ پر چائے کے ساتھ ہم کلامی کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا
اس میں گفتگو کے لیے ،ڈائر یکٹر ابن خلدون انسٹی ٹیوٹ ، مفکر ڈاکٹر عمار خان ناصر جلوہ افروز ہوۓ۔ ان کا موضوع چارلس ٹیلر کی کتاب A Secular Age کا مطالعہ تھا۔
آپ نے کہا :
“چارلس ٹیلر، کینیڈا سے تعلق رکھنے والے معروف سماجی فلاسفر اور ماہر سماجیات ہیں ان کی نہایت اہم کتاب سیکولر ایج 2007 میں منظر عام پر آئی تھی،تب سے مغربی جامعات میں اس کتاب پر بحث و مباحثہ جاری ہے، اگرچہ یہ کتاب مغرب میں سیکولرازم اور سیکولرلائزیشن کے حوالے سے تحریر کی گئی تھی، لیکن کیونکہ سیکولرازم اور سیکولرلائزیشن کا phenomenon اب لوکل یا مقامی نہیں رہا اس لیے ہمیں اپنے اردگرد ایسے بہت سے افراد مل جاتے ہیں جو اس کتاب میں درج افکار کی تصدیق و توثیق کرتے ہیں، جیسا کہ اس کتاب میں سیکولرازم اور سیکولریٹی کو تین مختلف لیئرز یا تہوں میں ان رحجانات کو بیان کیا گیا ہے، ان رحجانات کا مرکزی خیال درج ذیل ہے:
اولا، یہ ہے کہ سیکولر یا سیکولریٹی کے تحت سیکولرلائز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی اعتقاد اور اصولوں کو سیاسی و ریاستی امور سے نہایت باریک بینی کے ساتھ علیحدہ علیحدہ کر دیا جائے، یعنی سیاسی امور اس بھید بھاؤ سے الگ کر دیے جائیں اور تمام مذاہب کو یکساں نیوٹرل(نظری) نگاہ سے دیکھا جائے یہ نہایت مقبول عام رحجان ہے۔
دوئم، سیکولر یا سیکولرلائز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس تبدیلی کو تاریخی سچائی کو مان لیا جائے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر اور اجتماعی سطح پر بھی لوگوں کی مذہب اعتقادات، طریق عبادات اور اس کے مختلف رسوماتی مظاہر میں دلچسپی کم ہو رہی ہے۔
سوئم، یہ کہ سماج اب اس سوشل کنڈیشن پر جامد نہیں رہے جس کے تحت وہ مذہبی اعتقاد یا مذہبیت و دینیت کو ایک خاص روایتی اور راسخ العقیدہ مفہوم میں بیان کریں قطعی اور غیر مبدل آفاقی حقائق متصور کریں۔
یعنی نتیجتاً اعتقاد رکھنے کا مطلب کیا ہونا چاہیے یہ چیز اب سب کے لیے ایک مفہوم کی حامل نہیں رہی، یعنی سیکولر تصور حقیقت کے تحت مذہبی ہونے کے جتنے مطلب موجود ہیں وہ سب یکساں طور پر قابل توجہ یا قابل نفرین ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مفہوم بھی کہ عصر حاضر میں مذہب مخالف نظریات کی موجودگی اور گنجائش کو ایک ناگزیر سماجی ضرورت کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے، گویا مذہبی اعتقادات کے چیلنج ہو جانے کی شرط کو وسیع المشربی، تحمل و بردباری کے نام پر قبول کر لیا گیا ہے یعنی یہ عین ممکن ہے کہ بظاہر مذہبی و سماجی معاشرے میں ملحدین، سیکولرز اور متشکیکن حتی کہ مرتدین موجود رہیں اور اپنے بدلتے ہوئے خیالات کی تبلیغ کر سکیں۔
ٹیلر کا کہنا ہے کہ تہذیب مغرب پانچ سو سال قبل ایک مذہبی روایت تھی اس وقت مسیحی تصور یہ تھا کہ پراسرار قوتیں ہیں جو اس کائنات کے نظام کو چلارہی ہیں مطلب ہم اپنی آسانی کے لیے اس وقت کے مغربی معاشروں کو توہم پرست معاشرے کہہ سکتے ہیں ۔ پندرہویں اور سولہویں صدی میں ان کو توھمات سے نکالا گیا ۔
اس مسئلہ میں اختلاف کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ کائنات علت و معلول کے اصول پر قائم ہے اگر چہ اس کا ئنات کا خدا بھی ہے ۔ لیکن اس نے اس مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اس سے تعلق نہیں رکھا اور اس نے انسان کو ایک باشعور اور عقل مند مخلوق کے طور پر اس کا ئنات میں پیدا کیا ہے اور اسے اپنے معاشرے کو منظم کرنے کے لیے عقل کی قوت دی ہے اور عقل سے بڑھ کر یا اس سے اوپر کوئی وحی اور الہام نہیں ہے جو معاشرے کو اصول زندگی فراہم کر سکے۔ بعد ازاں اشرافیہ طبقے کی طرف سے اپنی صلاحیتوں اور قدرتی وسائل کو تبدیل کرنے کے لئے معاشرے کی تنظیم نو کا بند وبست کیا گیا مثلا جمہوریت ، سیاست یا معیشت کے جدید طریقے متعارف ہوۓ ۔ اس اصول زندگی کو Deism کہتے ہیں۔ یہ نظر یہ کہتا ہے خدا کائنات سے غیر متعلق ہے ہے اگلے مرحلے میں کہا گیا کہ جو خد اکائنات سے غیر متعلق ہے اس بے بس خد ا کو ماننایانہ ماننا بھی برابر ہے انیسویں صدی میں یہ نظر اشرافیہ طبقے میں پھیل گیا کہ کہ خدا کا اقرار اور انکار خدا مساوی ہیں اس نظریے کو ہیومنزم کا نام دیا گیا یہ نظر یہ انیسویں صدی میں امراء تک ہی محدود تھا لیکن بیسویں صدی سے یہ دیگر عوامل کی وجہ سے مثلا میڈ یا ہر آدمی کی پہنچ میں آ چکا ہے اور اب معاشرے میں میں ملحد ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں رہی۔لہذا ہمارے اصحاب علم کو اس تہذیب جدید کے چیلنجز کا سامنا کرنےکےلیے ہمہ وقت کمر بستہ رہنا چاہیے ۔ ”
ایک مختصر سوالات و جوابات کے سیشن کے ساتھ یہ فکری نشست اپنے اختتام کو پہنچی ۔
بعد ازاں با جماعت نماز ادا کی گئی ۔ پرتکلف کھانا ہمارا انتظار کررہا تھا اس سے علیک سلیک کے بعد تیسرے سیشن کا آغاز ہوا جس میں مقالہ پیش کرنے اردو ادب کا درخشندہ نام معروف دانشور ،ممتاز ادیبہ محترمہ ڈاکٹر نجیبہ عارف تشریف لائیں۔
ڈاکٹر نجیبہ عارف پاکستان سے تعلق رکھنے والی مصنفہ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں کلیہ زبان و ادب کی ڈین ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ اردو کے ادبی حلقوں میں ایک کثیر الجہت علمی و ادبی شخصیت کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ ان کی شاعری کی پہلی کتاب معانی سے زیاده (2015) کو کراچی لٹریچر فیسٹول میں سال کی بہترین ادبی کتاب کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کے افسانے ، سفرنامےاور متنوع تخلیقی و تنقیدی مضامین اردو کے معتبر جرائد میں مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ان کی گفتگو کا خلاصہ یوں ہے
” ہم جس عہد میں زندہ ہیں ، اس میں ہر فرد شعور کی عمر کو پہنچتے ہیں چند سوالات سے ضرور دو چار ہو تا ہے۔ بے فارم سے لے کر پہلے سکول کے داخلہ فارم تک یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم کون ہیں ؟ ہمارا عقید ہ کیا ہے ، ہماری قومیت کیا ہے اور ہماری جنس کیا ہے ؟ جو بات ان دونوں جواب پر لکھی جاتی ہے ،وہی ہماری پہچان بن جاتی ہے۔ خواہ ان کے لکھنے اور طے کرنے میں ہماراہاتھ ہو یا نہ ہو۔ لیکن جب ہم سوچنے سمجھنے کا آغاز کرتے ہیں تو بات صرف کیا تک محدود نہیں رہتی بلکہ کیوں اور کیسے تک بھی پہنچتی ہے۔ اب سے پالیس پچاس برس پہلے تک اس سوال کا جو اب بڑوں کی ایک میٹر کی اور ڈانٹ ڈپٹ سے ملاتا تھا۔ اس زمانے کے چھوٹے بھی ڈرا مسکین سے ہوتے تھے اور خاموش ہو جاتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہو تا۔ انسان کا ذہن ارتقا کی اگلی منزل تک پہنچ گیا ہے ۔ اب ہم ڈانٹ ڈپٹ کر ان سوالوں سے پیچھا نہیں چٹر اسکتے۔ ہمیں ان کے جواب ڈھونڈ نے پڑیں گے۔
میں مسلمان ہوں کیوں کہ میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی۔ میں یقین سے نہیں کہ سکتی کہ اگر میں کسی اور مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھنے والے والدین کی اولاد ہوتی تو سبھی مسلمان ہونے کا موقع ملتا یا نہ ملتا ۔ لیکن میں نے اس مذ ہب اور اس کی سچائی کو محض موروثی مذہب کے طور پر پر نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی اور آزادانہ رائے کے تحت دل و جان سے قبول کیا ہے۔ اس کے باوجود میں محسوس کرتی ہوں کہ اسلام کا وہ مثالی تصور، جو میرے دل و دماغ میں ہے ، جس کی بنیاد پر میں مسلمان ہونے پر خوشی، اطمینان اور فخر محسوس کرتی ہوں ، اس مثالی تصور اسلام کی عملی صورت مجھے ریاست مدینہ کے علاوہ، نہ تو تاریخ کے کسی عہد میں دکھائی دیتی ہے ،نہ معاصر زمانے میں نظر آتی ہے۔ میں بہت وضاحت اور یقین سے اپنے دل میں جانتی اور سمجھتی ہوں کہ اسلام اصل میں کیا ہے ؟ لیکن ایک اسلامی معاشرے اور ایک ایسے اسلامی ملک میں ، جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، رہنے کے باوجود ، میں پورے یقین سے کہ سکتی ہوں کہ ہمارامعاشر ہ اسلام کے اصل اور بنیادی تصور کو عملی شکل دینے سے قاصر رہا ہے۔ اگر یہ محرومی صرف ہمارے معاشرے کے اندر تک محدود رہتی تو بات کچھ اور تھی مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے جو عمل بھی کرتے ہیں ،وہ صرف ہمارا نا قص عمل نہیں رہتا، وہ اسلام کا چہرہ بن جاتا ہے۔ اسلامی دنیا سے باہر موجود و نیا اسلام کو اسلام کے مثالی تصور کی مدد سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے طرز عمل سے سمجھتی ہے ۔ دنیا بھر کا مسلمان جو عمل بھی کر تا ہے ، غیر مسلم دنیا میں اسے اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے جہاں بہت سے مثبت اور منفی پہلو ہیں وہاں ایک پہلو بھی ہے کہ اب دنیا کے کونے کونے میں ہونے والا ہر عمل دنیا بھر کے سامنے پل بھر میں آشکار ہو جاتا ہے۔ اب سے سو یا پچاس سال پہلے تک ایسا نہیں تھا۔ دنیا کے مختلف علاقوں اور ان کی صورت حال کی خبر صرف انھی کو ملتی تھی جو اسے ڈھونڈنے کا اہتمام ۔ اب کسی اہتمام ، بلکہ خواہش کے بغیر ہی سب کچھ ہر ایک پر عیاں ہو جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو کچھ اسلامی معاشروں میں ہو تا ہے، وہ سب کچھ اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم بدعات وغیر ہ کی مذمت میں تو بہت مستعد رہتے تاک لیکن اسلام پر لگنے والے ان الزامات اور دھبوں کو مٹانے کی طرف سے مسلسل غافل ہیں۔
مغرب میں اسلام اور مسلمانوں پر سب سے زیادہ اعتراض جن چند باتوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے ان سے ہم صدیوں سے واقف ہیں۔ ہم نے اپنے عمل سے اب تک ان اعتراضات کو دور نہیں کیا۔
اس میں پہلی بات اسلام میں عورت کا مقام ہے۔ میں پوری دیانت داری سے یہ سمجھتی ہوں کہ اسلام میں عورت کو جو مقام دیا گیاہے وہ کسی مہذب سے مہذب معاشرے نے بھی آج تک نہیں دیا۔ مگر اس کے باوجود ہم اس اسلامی پہلو کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں کیوں کہ یہ مقام اور یہ حقوق جو اسلام نے عورت کو دیے ہیں، مسلمانوں نے ہر گز نہیں دیے۔ اسلامی معاشروں میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ، مذہبی طبقوں نے وراثت میں عورت کے حصے کے حق کے دفاع میں کبھی آواز بلند نہیں کی۔ کبھی کسی نے یہ فتوی نہیں دیا کہ عورت کو وراثت میں حصہ نہ دینے والا شخص گناہ گار ہے اور یہ اسلام کے خلاف ہے۔ قرآن نے شادی کے لیے عورت کی مرضی کو بھی اتناہی لازمی قرار دیا ہے جتنا مرد کی مرضی کو۔ کیا وجہ ہے کہ ہمار اندر ہی طبقہ عورت کے اس حق کے دفاع کے لیے اٹھنا تو در کنار اس کے خلاف کھڑا نظر آتا ہے۔ عورت کے پر دے پر اصرار بجا سہی مگر کبھی مر د کو یہ یاد کروانے کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی کہ اس کے لیے بھی دوسری نظر ڈالنا ممنوع ہے۔ چار شادیوں کی مشروط اجازت کو جس طرح اسلامی حکم بنا کر پیش کیا گیا اور اس کے نتیجے میں مسلسل عورت کا استحصال کیا گیا، اس کے خلاف کبھی مذہبی طبقے نے اصلاح کا علم نہیں اٹھایا۔ الرجال قوامون علی النساء کی من مانی تشریح و تعبیر کے ذریعے جس طرح عورت کی انسانی آزادی کو پامال کیا گیا، اس کے نتیجے میں مسلسل عورتوں کو جلا ڈالئے اور مار ڈالنے والے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور یہ ہماری اسلامی پہچان بن گئے ہیں۔ صرف ہماری نہیں، بلکہ اسلام کی پہچان۔ افسوس کہ ہم نے اسلام کی عزت کو محض اپنی غفلت سے پامال کر دیا ہے۔
دوسرا پہلو جو معترضین اور دشمنوں کے ہاتھ میں اسلام کے خلاف ایک ہتھیار بن گیا ہے ، مسلمانوں کی انتہا پسندی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمان کا عقیدہ ہے کہ یا سب کو مسلمان بنالو یا سب کو مار ڈالو۔ ہم میں سے کون یہ نہیں جانتا کہ یہ بات سراسر خلاف اسلام ہے۔ جس دین کی بنیاد اس قرآنی آیت پر رکھی گئی ہو کہ لا اکراہ فی الدین۔ اس پر اس طرح کا الزام بے معنی اور لغو ہے لیکن ہمارے ہاں مذہبی طبقات میں سے کچھ نے ایسے نعرے اور جملے ایجاد کر لیے اور جلسوں جلوسوں میں اس شدت، تکبر اور بلند آہنگی سے لگاۓ جاتے ہیں کہ اسی کو اسلام کا بیانیہ قرار دینے میں غیروں کو ذر ا برابر تامل نہیں ہو تا۔ وہ ہماری کتا بیں نہیں پڑھتے ، ہمارے لیکچر نہیں سنتے ،سوشل میڈیا پر ان جلسوں اور جلوسوں کی وڈیو دیکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں کہ یہی ہے اسلام کی تعلیم ۔ مذہبی طبقے کی طرف سے اس نعرے بازی کے مقابلے میں اٹھنے والی آواز یا تو معدوم ہے، یا اتنی دبی دبی ہے کہ خود ہمیں بھی سنائی نہیں دیتی۔ پہلے تو صرف تکفیر کے فتوے کا ڈر ہو تا تھا، اب تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ جو لوگ اسلام کا نام لے کر اس قسم کے غیر اسلامی افعال سرانجام دیتے ہیں، کیا انھیں اپنی ہی صفوں سے کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا؟ کیا انھیں روکنے یا تھامنے والا کوئی نہیں رہا کیا سب کو کلمہ حق بلند کرنے میں خوف مانع آنے لگا ہے؟
تیسرا پہلو جس پر غیر بھی معترض ہوتے ہیں اور خود ہمارے اندر بھی رد عمل پید اہو تا ہے ، اسلامی معاشرے میں عمومی انسانی تربیت اور اخلاقی پہلوؤں کا فقدان ہے۔ اخلاق صرف مردوزن کے مابین معاملات سے متعلق نہیں، حیا صرف ستر ڈھانپنے کا نام نہیں، پاکیزگی صرف جسمانی طہارت کو نہیں کہتے کردار صرف نماز روزے سے نہیں بنتا۔ سچائی، اپنائے عہد ، دیانت داری ، وقت کی پابندی، ایثار و قربانی، معاشرتی ذمہ داریاں ، قانون کا احترام و باہمی روابط میں رواداری، نرم مزاجی ، خوش خلقی اور ماحول کی حفاظت جیسے اوصاف کیوں مذہبی طبقے کی ترجیحات سے خارج ہوتے چلے گئے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ ہم بد عنوان افسر ، بے ایمان تاجر اور کام چور ملازم کے عمل کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دے کر اسے معاشرے میں نا قابل قبول قرار نہیں دیتے۔ معاشرے کے ہر طبقے میں چور بازاری خیانت، وعدہ خلافی بد کلامی ، دشنام طرازی ، غیبت، بہتان تراشی اور حق تلفی کا چلن عام ہے۔ مسجدوں کے منبروں سے ان کے خلاف کوئی صد ابلند نہیں ہوتی ۔ مذہبی حلقوں میں سے کوئی اس بات کا مطالبہ نہیں کر تا کہ راشی و مر تشی کو سزادی جائے تاکہ عوام کے حقوق کی حفاظت ہو سکے۔ کوئی پولیس کے ، عدالت کے اور وکالت کے نظام میں موجود اخلاقی برائیوں کی نشان دہی نہیں کرتا۔ کوئی دیہات اور قصبوں میں مسجد سے یہ اعلان نہیں کر تا کہ سکول جائے اور بچوں کو تعلیم دیے بغیر استاد کی تنخواہ حلال نہیں ہوتی۔
یہ سب چیزیں مل کر اسلامی شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں۔ عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات بھی اسلامی تعلیمات کا ناگزیر جزو ہیں۔ ہمارا دینی طبقہ چند مخصوص پہلوؤں کی ترویج و تبلیغ ہی کو اسلام سمجھ بیٹھا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی شخصیات ادھوری اور یک زخی ہو گئی ہیں۔ یہاں میں مذہبی حلقوں اور مدارس کے اساتذہ سے یہ مطالبہ نہیں کر رہی کہ وہ اپنی بات کے حق میں پر تشدد مظاہرے کریں۔ میری درخواست تو صرف اتنی ہے کہ مدراس میں اس بات کی تعلیم دیں کہ جمعے کے خطبے میں مسلمان عوام کو ارکان اسلام کی پابندی کے ساتھ ساتھ تہذیب و شائستگی، دیانت داری اور بلند اخلاقی کا بھی سبق پڑھائیں۔ کیا کوئی اچھا مسلمان ناشائستہ اور غیر مہذب ہو سکتا ہے ؟ کیا کوئی پانچ وقت کا نمازی نجاست پسند یا نجاست کو قبول کرنے والا ہو سکتا ہے ؟ کیا کوئی حافظ قرآن بد دیانت ، نا جائز منافع خور یا دوسرے مسلمانوں کی حق تلفی کرنے والا ہو سکتا ہے ؟ اسلام کی روح پر عمل کیا جائے تو ایسا نہیں ہو سکتا لیکن بد قسمتی سے ہمارے چاروں طرف ایسی مثالیں عام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی، مولانا اور حافظ جیسے القابات ، جو بیس تیس سال پہلے تک احترام اور عزت کی علامت سمجھے جاتے تھے ، اب طنز و تضحیک اور تمسخر کا نشانہ بن گئے ہیں۔ اب مولوی یا مولانا کہلانا کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔
میں جانتی ہوں کہ اس میں سارا قصور مولویوں کا نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ بالکل بے قصور ہوں۔ مجھے اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ زوال کی یہ علامت صرف مولویوں کے طبقے میں نہیں ، خود ہمارے طبقے یعنی سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ میں بھی اسی شدت سے نمودار ہوئی ہے اور ہم سب کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی سطح پر قصور وار ہیں اور بہت قصور وار ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہماری خامیاں ہماری ہی خامیاں سمجھی جاتی ہیں۔ یا پھر اس نظام کی خامیاں سمجھی جاتی ہیں جس سے ہم وابستہ ہیں۔ لیکن مذہبی طبقے کی خامیاں، اس طبقے کی خامیاں نہیں، بلکہ اسلام کی خامیاں سمجھی جاتی ہیں۔ یہ ہے وہ سخت ذمہ داری جو مسلمان علما اور مدارس کے اساتذہ پر عائد ہوتی ہے۔ وہ لاکھ وضاحتیں پیش کر میں، صفائیاں دیں ، دیگر اسباب و عوامل پر روشنی ڈالیں ، مگر غیروں کی نظر میں ان کی ہر حرکت ، ہر بات، اسلام کا حکم سمجھی جاتی ہے ۔ غیر تو ایک طرف خود ہمارے اندر جدید تعلیم کی پیداوار ایک بڑا طبقہ ایسا موجود ہے جو مولویوں کے طرز عمل کو ہی اسلام سمجھ کر اس سے برگشتہ ہو چکا ہے اور تیزی سے مزید بر گشتہ ہو تا جار ہا ہے۔ ”
پروفیسر ایاز افسر صاحب نے صدارتی کلمات ادا کیے یوں یہ خوبصورت مجلس اپنے اختتام کو پہنچی ۔ ان فکری نشستوں کے روح رواں صاحبزادہ قمر الحق صاحب کی معیت میں برستی بارش میں سڑکوں پر گاڑی گھماتے رہے اور شام کو ہاسٹل واپسی ہوئی ۔
دوسرے روز سب سے پہلے صاحبزادہ صاحب کی معیت میں ہم یونیورسٹی کے وزٹ کے لیے نکلے لائبریری کو دیکھ کر انسان حیران و ششدر رہ جاتا ہے ۔
پاکستان کی اس جدید ترین لائبریری میں ہزاروں کتب کاذخیرہ ہے۔ مطالعے کا ذوق رکھنے والوں کے لئے بڑے ہالز ہیں جو بیک وقت سینکڑوں افراد کو وہیں پر کتب بینی کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ شائقین علم کے لیے یہ لائبریری نعمت عظمیٰ سے کم نہیں ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا وزٹ
لائبریری وزٹ کے بعد ہم اسلامی نظریاتی کونسل پہنچے جس میں اراکین اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ ایک مختصر میٹنگ ہوئی جس میں کونسل کا تعارف کروایا گیا ۔
اسلامی نظریاتی کونسل، پاکستان کا آئینی ادارہ ہے۔ 1973ء کے آئین میں جب شق نمبر 227 شامل کی گئی جس کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن وسنت کے مخالف نہیں بنایا جائے گا تو عملاً اس کا باقاعدہ نظام وضع کرنے کی غرض سے اسی آئین میں دفعہ نمبر 228، 229 اور 230 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے 20 اراکین پر مشتمل ایک آئینی ادارہ بھی تشکیل دیا گیا جس کا مقصد صدر، گورنر یا اسمبلی کی اکثریت کی طرف سے بھیجے جانے والے معاملے کی اسلامی حیثیت کا جائزہ لے کر 15 دنوں کے اندر اندر انہیں اپنی رپورٹ پیش کرنا تھا۔ شق نمبر 228 میں یہ قرار دیا گیا کہ اس کے اراکین میں جہاں تمام فقہی مکاتب ِفکر کی مساوی نمائندگی ضروری ہوگی وہاں اس کے کم از کم چار ارکان ایسے ہوں گے جنھوں نے اسلامی تعلیم وتحقیق میں کم وبیش 15 برس لگائے ہو اور انہیں جمہورِ پاکستان کا اعتماد حاصل ہو۔
ابتدائی اراکین
اسلامی نظریاتی کونسل جب بنا اس وقت درج ذیل اراکین تھے :
جسٹس ابوصالح محمد اکرم، جج وفاقی ہائی کورٹ
جسٹس محمد شریف، سابقہ جج وفاقی ہائی کورٹ
مولانا اکرم خان
مولانا عبد الحامد
مولانا حافظ کفایت حسین،
ڈاکٹر آئی ایچ قریشی
مولانا عبد الہاشم
سید نجم الحسن
موجودہ اراکین :
ڈاکٹر قبلہ ایاز موجودہ چیئرمین ہیں
ڈاکٹر قاری عبدالرشید (تمغا امتیاز) ۔ ممبر۔ بلوچستان
ملک اللہ بخش کلیار۔ ممبر۔ پنجاب
مولاناحافظ فضل رحیم۔ ممبر۔ پنجاب
مولانا امدداللہ یوسفزئی۔ممبر۔سندھ
ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، رکن حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان
ڈاکٹر حافظ اکرام الحق یاسین جنرل سیکرٹری اسلامی نظریاتی کونسل
میٹنگ کے بعد پرتکلف کھانا کھایا اور پھر اسلامیہ یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس میں میں ایک نشست کا انعقاد ہوا جس میں جامعہمحمدی شریف کے چند اساتذہ نے اظہار خیال کیا راقم کو گفتگو کا موقع ملا میں نے “مدارس دینیہ کا نصاب تعلیم اور عصری تقاضے “کے عنوان سے گفتگو کی۔
آخر میں صاحبزادہ قمر الحق صاحب نے مغربی تصور قانون کا مختصر تعارف پیش کیا یوں یہ نشست خوبصورت مجلس اپنے اختتام کو پہنچی۔
شاہ فیصل مسجد
نماز مغرب ادا کرنے ہم فیصل مسجد میں گئے۔
اسے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ عظیم مسجد اپنے انوکھے طرز تعمیر کے باعث تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔ مسجد کا سنگ بنیاد شوال 1396ھ/ اکتوبر 1976ء کو رکھا گیا اور تکمیل 1987ء میں ہوئی۔مذہبی اور تاریخی اعتبار سے یہ خراسانی اور سندھی تہذیبوں کا سنگم ہے۔
شاہ فیصل مسجد کی تعمیر کی تحریک سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے 1966 کے اپنے دورہ اسلام آباد میں دی۔ 1969 میں ایک بین الاقوامی مقابلہ منعقد کرایا گیا جس میں 17 ممالک کے 43 ماہر فن تعمیر نے اپنے نمونے پیش کیے۔ چار روزہ مباحثہ کے بعد ترکی کے ویدت دالوکے کا پیش کردہ نمونہ منتخب کیا گیا۔ پہلے پہل نمونے کو روایتی مسجدی محرابوں اور گنبدوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں مسجد کی خوبصورت تعمیر نے تمام نقادوں کی زبان گنگ کر دی۔
سعودی حکومت کی مدد سے دس لاکھ سعودی ریال (کم و بیش ایک کروڑ بیس لاکھ امریکی ڈالر) کی لاگت سے 1976 میں مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ تعمیری اخراجات میں بڑا حصہ دینے پر مسجد اور کراچی کی اہم ترین شاہراہ 1975ء میں شاہ فیصل کی وفات کے بعد ان کے نام سے موسوم کردی گئی۔ تعمیراتی کام 1986ء میں مکمل ہوا اور احاطہ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بنائی گئی۔ سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے مزار کی چھوٹی سی عمارت مسجد کے مرکزی دروازے کے قریب واقع ہے۔
مسجد 5000 مربع میٹر پر محیط ہے اور بیرونی احاطہ کو شامل کرکے اس میں بیک وقت میں300,000 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ یہ دنیا کی بڑی مساجد میں سے ایک اور برصغیر کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ فن تعمیر جدید ہے، لیکن ساتھ ہی روایتی عربی فن تعمیر کی نمائندگی کرتا ہے جو ایک بڑا تکونی خیمے اور چار میناروں پر مشتمل ہے۔ روایتی مسجدی نمونوں سے مختلف اس میں کوئی گنبد نہیں ہے اور ایک خیمہ کی طرح مرکزی عبادت گاہ کو چار میناروں سے سہارا دیا گیا ہے۔ مینار ترکی فن تعمیر کے عکاس ہیں جو عام مینار کے مقابلے میں باریک ہیں۔ مسجد کے اندر مرکز میں ایک بڑا برقی فانوس نسب ہے اور مشہور زمانہ پاکستانی خطاط صادقین نے دیواروں پر پچی کاری کے ذریعے قرآنی آیات تحریر کی ہیں جو فن خطاطی کا عظیم شاہکار ہیں۔ پچی کاری مغربی دیوار سے شروع ہوتی ہے جہاں خط کوفی میں کلمہ لکھا گیا ہے۔
مسجد کا فن تعمیر عرصہ دراز سے ہونے والے جنوب ایشیائی مسلم فن تعمیر سے مختلف ہے اور کئی انداز میں روایتی عربی، ترکی اور ہندی طرز تعمیر کا امتزاج ظاہر کرتا ہے۔
مسجد شاہراہ اسلام آباد کے اختتام پر واقع ہے، جو شہر کے آخری سرے پر مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں ایک خوبصورت منظر دیتی ہے۔ یہ اسلام آباد کے لیے ایک مرکز اور شہر کی سب سے مشہور پہچان ہے۔
شام کو عشائیہ کے بعد ہم ہاسٹل میں محو استراحت ہوگے۔ صبح پرتکلف ناشتے کے بعد فکری نشست کا آغاز ہوا ۔ سب سے پہلے مولانا یونس قادری نے ڈاکٹر فضل الرحمان کے تصور سنت پہ مختصر گفتگو کی۔ بعد ازاں ڈاکٹر حسن الامین محو کلام ہوئے انہوں نے کہا کہ پوسٹ اسلام ازم پہ گفتگو فرماتے ہوئے 2014۔ 2006 کے عرصے میں پوسٹ اسلام ازم کے بعد اس خاموش فکری ارتقاء کو موضوع بناتے ہوئے 1999ء میں ہونے والے اس آغاز پر روشنی ڈالی ہے جس میں پاکستانی معاشرے میں جدید اسلام کے رستے پر چلتے ہوئے عورتوں، نوجوانوں اور غیر مسلم اقلیتوں کو سماجی و معاشی ترقی اور قومی دھارے میں ہم سفر بنایا گیا ہے۔ اس عمل کو ان دانشوروں کے تعاون سے ممکن بنایا گیا جوقومی سطح کی مذہبی سیاسی جماعتوں سے وابستہ نہیں تھے۔ گفتگو میں ان بنیادی سوالوں کو اٹھایا گیا ہے جو پاکستان میں جہاد، تشدد اور اقلتیوں کے حوالے سے درپیش ہیں۔
ان کے بعد معروف کالم نویس ، دانشور خورشید احمد ندیم اسباب زوال امت کے موضوع پر گفتگو کی جس کا خلاصہ یہ ہے
اسلام کے دورِ اول میں لوگ عالم اسباب کی روشنی میں واقعات کی توجیہہ کرتے تھے۔ کوئی دینی دلیل پیش کرے تو دینی ذرائع سے جواب دیتے تھے‘ جو آج ہمیں بھی میسر ہیں۔ کوئی خواب نہ کوئی الہام۔ کوئی حد سے بڑھے تو اسے آخرت میں جواب دہی کی طرف متوجہ کرتے تھے۔ وہی یاد دھانی کہ انسان اصلاً ایک اخلاقی وجود ہے۔ رہے واقعات تو ان کا تعلق اس وقت بھی عالمِ اسباب سے تھا‘ اور آج بھی عالمِ اسباب سے ہے۔
پاکستان کو اگر حالات کی گرفت سے نکلنا ہے تو اس کے لیے وہی راستہ ہے جس پر چل کر اقوامِ عالم نے اپنے مسائل حل کیے ہیں۔ علمِ نافع اور جہدِ مسلسل۔ نافع علم وہی ہے جو اخلاقی اور مادی ترقی کے راستے کھولے۔ اخلاقی ترقی اللہ کی کتاب اور اسوۂ پیغمبر کے علم میں ہے اور مادی ترقی طبیعیاتی علم (Natural Sciences) میں۔ ہمارا رشتہ دونوں سے کمزور ہے۔
ایک مدت ہوئی کہ دین کا تعلق تعمیرِ اخلاق سے ٹوٹ چکا۔ اب مذہب ہمارے لیے ایک عصبیت ہے، ہمارے گروہی مفادات کا محافظ ہے‘ یا ایک سیاسی نعرہ۔ طبعی علوم میں ہماری دلچسپی برائے نام ہے۔ یہ المیہ صرف پاکستان کے ساتھ خاص نہیں۔ مسلم نفسیات ہی کچھ ایسی بن چکی کہ وہ حقیقی مسائل کے ادراک کے قابل نہیں رہی۔ اگر کوئی اس جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرے تو معاشرہ اسے اُگل دیتا ہے۔ کوئی وجہ تو ہے کہ ہماری ذہانتیں باہر جاتی ہیں تو ان کے جوہر آشکار ہوتے ہیں۔ یہاں رہتی ہیں تو کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتیں۔
دنیا میں انسانی تجربے نے بعض صداقتوں پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ایک یہ کہ مستحکم معاشرے وہی ہوتے ہیں جو جمہوری ہوں۔ جہاں عوام کی رائے سے فیصلے ہوتے ہوں اور معاملات اہل لوگوں کے سپرد کیے جاتے ہوں۔ معاشی ترقی وہیں ممکن ہے جہاں علمِ نافع ہو اور لوگ محنت پر آمادہ ہوں۔ سماجی ترقی وہیں ہو سکتی ہے جہاں آزادیٔ عمل ہو اور عوام کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے مواقع میسر ہوں۔
پاکستان ان اصولوں سے انحراف کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ اہلِ مذہب کے تجزیے کی بنیاد کتاب اللہ کی تفہیم پر ہے نہ تاریخی عمل کے شعور پر۔ مذہب کا کام تزکیہ نفس نہیں، ایک سیاسی عصبیت پیدا کرنا ہے۔ غیر مذہبی لوگ بھی روزمرہ واقعات سے آگے نہیں دیکھ رہے۔ ہم سب اُن باتوں میں الجھے ہوئے ہیں، تاریخ کے وسیع تر تناظر میں جن کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ اس کا نتیجہ ہے کہ حکمران بزدار صاحب پر اصرار کرتے ہیں اور تعلیمی اداروں سے محقق کے بجائے مذہبی جماعتوں کے کارکن پیدا ہوتے ہیں۔ نہ جمہوریت نہ علمِ نافع۔ جدوجہد کی ہمیں ویسے ہی عادت نہیں۔
کوئی نظام کتنی دیر ان بنیادوں پر چل سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب مشکل ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ستر سال سے تو چل رہا ہے۔ اس بات سے اتفاق کے لیے ضروری ہے کہ اسے ایک چلتا ہوا نظام مان لیا جائے۔ اس کے ساتھ انسان کے سماجی ارتقا کی نفی بھی لازم ہے۔ دنیا کھلے معاشرے کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم بند معاشرے کی طرف۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سے ترقی ہو گی۔
بعد ازاں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ر یکٹر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے اختتامی کلمات کہے اور پروفیسر ضیاء الحق شکریہ ادا کیا اور ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے شرکاء اسناد تقسیم کی یوں یہ خوبصورت علمی فکری نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔ نماز ظہر کی ادائیگی بعد ظہرانہ کا حق ادا کیا ،چند کتب خریدیں اور واپسی کےلیے روانہ ہوگئے۔
کمنت کیجے