Home » حدیث میں بیان کردہ امور: فرائض نبوت  یا احسان نبوت؟ مولانا فراہی و اصلاحی صاحبان کی رائے
اسلامی فکری روایت فقہ وقانون کلام

حدیث میں بیان کردہ امور: فرائض نبوت  یا احسان نبوت؟ مولانا فراہی و اصلاحی صاحبان کی رائے

 

محترم غامدی صاحب نے قرآن و حدیث کے باہمی تعلق پر گفتگو کرتے ہوئے حالیہ ویڈیوز میں فرمایا ہے کہ احادیث میں بیان شدہ قرآن کی شرح و فرع آپﷺ پر فرض نہیں تھا بلکہ یہ امور آپﷺ نے امت کے حق میں بطور رافت و وحمت اور احسان کئے (تاہم یہ سب امور امتیوں کے لئے واجب الاتباع ہیں)۔ ان کا کہنا ہے کہ یہی رائے مولانا فراہی صاحب (م1930 ء)  کی بھی ہے جس کے لئے وہ “تعلیقات فی تفسیر القرآن الکریم الفراھی” کے درج ذیل اقتباس سےدلیل لاتے ہیں:

(لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)  المراد من التبین ههنا البلاغ المبین کما جاء فی سورۃ آل عمران (وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ)۔ ولیس المراد به الشرح والتفسیر، فان ذلک لم یکن فرضا علی النبی ﷺ۔ فکل ما بینه النبیﷺ علی سبیل التفسیر فمن جهة النصیح و رافته۔ والقرینة علی هذا التاویل ان النبی ﷺ لم ینقل عنه فی التفسیر الا نزر یسیر [1]

مفہوم:(آپ لوگوں پر واضح کردیں جو ان کے لئے نازل کیا گیا ہے)، یہاں تبیین سے مراد “بلاغ مبین” ہے جیسے کہ سورہ آل عمران میں آیا (اور یاد کرو جب اللہ نے پختہ عہد لیا ان سے جنہیں کتاب دی گئی کہ تم ضرور بیان کرنا اسے لوگوں سے اور چھپانا مت)۔ یہاں تبیین کا مطلب شرح و تفسیر نہیں کیونکہ وہ آپﷺ پر فرض نہیں تھی۔ پس تفسیر کے ضمن میں آپﷺ نے جو بیان فرمایا وہ بطور نصیحت و رافت و احسان تھا۔ اور اس تاویل کے درست ہونے کا قرینہ یہ ہے کہ آپﷺ سے کوئی (مفصل) تفسیر منقول نہیں بلکہ چند اجزاء کا بیان ہی منقول ہے

تعلیقات فراہی کے بارے میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ یہ قران مجید پر مولانا فراہی کے مطالعاتی نوٹس تھے جنہیں آپ چھپوانے کے حق میں نہیں تھے۔ اس کی ممکنہ توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ چونکہ یہ محض غیر مربوط مطالعاتی نوٹس تھے لہذا یہ بات قرین از قیاس ہے کہ مولانا اس پر نظر ثانی کرنے کے خواہش مند ہوں گے۔ اس لحاظ سے اس میں مذکور بات زیادہ قابل اعتبار نہیں رہتی۔ تاہم اگر اس بات کو اگنور بھی کردیا جائے تب بھی ہمارے فہم کے مطابق غامدی صاحب نے مولانا کی بات سے جو مفہوم اخذ کیا ہے وہ محل نظر ہے ۔ چنانچہ جب مولانا فراہی یہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی تفسیر آپﷺ پر فرض نہیں تھی تو اسکے دو امکانی مفہوم ہوسکتے ہیں:

  • ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ہر ہر تفصیل کو بیان کردینا آپﷺ پر فرض نہیں تھا۔ مثلا یہ کہ تمام آیات کی اس طرح تفسیر کرنا جیسے مفسرین کرتے ہیں یا سارے قیاسی احکام بیان کردینا، یہ آپﷺ پر فرض نہیں۔ اس معنی میں یہ بات درست ہے اور فراہی صاحب کی عبارت سے بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اسی تناظر میں یہ بات کہی ہے اور اس کی دلیل بھی یہی پیش کی کہ آپﷺ سے پورے قرآن کی کوئی تفسیر مذکور نہیں
  • دوسرا یہ کہ (مولانا فراہی کے بقول) قرآن اگر اصل ہے اور حدیث فرع ، تو آپﷺ پر یہ سکھانا فرض نہیں تھا کہ قرآن سے احکام کیسے سمجھے جاتے اور کیسے اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس مفہوم کی رو سے گویا اللہ کے رسول پر یہ سکھانا بھی فرض نہیں تھا کہ اصول و فرع کا تعلق کیسے بنتا ہے نیز نہ ہی اس کے نظائر پیش کرنا فرض تھا تاکہ علماء اس منہج و نظائر پر مزید اجتہاد کرکے احکام اخذ کرسکیں۔ اگر ان کی بات اس معنی میں مراد لی جائے تو یہ محل نظر ہوجاتی ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا فراہی کی بات کا  مفہوم  کیا ہے؟ اس کے لئے جب ہم مولانا فراہی کی اصول فقہ  کے موضوع پر کتاب “احکام الاصول باحکام الرسول ﷺ” کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں رسول کے مقاصد بعثت سے متعلق یہ عبارت ملتی ہے:

ان الله تعالی کما بعثه لتعلیم الشرائع المکتوبة فذلک بعثه  لتعلیم الحکمة و سر الشرائع حتی نکون مجتهدین مستعملین عقولنا، مستدلین بایاته الظاهرة۔ وهوﷺ فی ذلک امامنا وهادینا۔ قال تعالی (وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ)۔ فکان ﷺ یبین لنا الکتاب لیتضح لنا طریق التفکر والتدبر[2]

مفہوم: اللہ نے جس طرح آپﷺ کو شریعت کی تعلیم کے لئے مبعوث کیا اسی طرح حکمت اور شریعت کے اسرار و رموز کی تعلیم کے لئے بھی مبعوث فرمایا تاکہ امتی اجتہاد کرنے لائق ہوسکیں اور ہم اپنی عقلوں کو استعمال کرکے آیات کے ظاہر و باطن سے استدلال کریں۔ پس آپﷺ اس معاملے میں بھی ہمارے امام اور رہبر ہیں۔ اللہ نے فرمایا (ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں پر واضح کردیں جو ان کے لئے نازل کیا گیا ہے)۔ پس آپﷺ ہمارے لئے کتاب اللہ کی تبیین کرتے تاکہ ہمارے لئے اس پر تفکر و تدبر کا راستہ واضح ہو

چنانچہ اس عبارت سے واضح ہے کہ تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ ساتھ احکام اخذ کرنے کا طریقہ سکھانا بھی آپﷺ کے مقاصد بعثت یعنی فرائض نبوت میں شامل تھا اور مولانا اس کے لئے باقاعدہ سورہ نحل کی اسی آیت (لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ) سے استدلال فرمارہے ہیں جسے غامدی صاحب صرف “بعینہ قران و سنت پہنچا دینے” کے معنی میں مراد لے کر حدیث میں بیان کردہ امور (یعنی شرح و فرع) کو اس سے الگ کرتے ہیں۔ پس یہ بات واضح ہوگئی کہ تعلیقات فراہی سے منقول عبارت پہلے معنی سے متعلق ہی ہوسکتی ہے نہ کہ دوسرے۔ یہ نتیجہ مولانا فراہی کے دیگر متعدد حوالہ جات سے بھی واضح مترشح ہوتا ہے  جن میں آپ حدیث کو بھی حکمت کے مفہوم میں شامل کرتے ہیں۔ مولانا فراہی  کو امام شافعی (م 820 ء ) کی اس رائے سے اختلاف ہےکہ  قرآنی آیت   يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ میں حکمت کا مصداق صرف حدیث ہے، آپ کے مطابق کتاب سے مراد شریعت یا احکام جبکہ حکمت سے مراد عقائد واخلاق ہیں۔  [3]تاہم آپ کہتے ہیں کہ یہ حکمت قرآن و حدیث  دونوں میں موجود ہے،   آپ کے الفاظ یوں ہیں: ان القرآن والسنة کلیهما ملآن  من الحکمة۔ [4] اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ سورہ نحل کی آیت 44 (لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ) کی طرح سورہ بقرۃ کی آیت  يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ کی رو سے بھی مولانا فراہی کے نزدیک احادیث میں بیان شدہ امور آپﷺ کے فریضہ نبوت  میں شامل تھے۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بارے میں مولانا فراہی کے شاگرد خاص نیز غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی صاحب (م1997 ء) کی رائے بھی معلوم کی جائے۔ آپ اپنی کتاب “مبادی تدبر حدیث” کے باب دوئم میں قرآن، سنت و حدیث کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں بیان کردہ احکام نقشے کی صورت ہوتے ہیں جن میں رنگ بھرنے کا کام اللہ کے رسولﷺ کے سپرد کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں آپ لکھتے ہیں:

“یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ہرحکم کے فہم کے لئے سنت کی ضرورت ہے، لیکن یہ بات یاد رہے کہ اگر کسی پہلو سے ایک حکم کی توضیح کی ضرورت پڑے گی تو حدیث و سنت بھی ممد و معاون بنیں گی۔ قرآن مجید کی رو سے زندگی کے نقشے مین رنگ بھرنے کا کام نبی ﷺ نے محض بطور احسان کے نہیں کیا ہے بلکہ بطور فریضہ نبوت کے کیا ہے، یہ آپﷺ کی نبوت کا جزو لاینفک ہے۔ “[5]

پس مولانا فراہی و اصلاحی صاحبان کی رائے کی رو سے حدیث میں بیان شدہ شرح و فرع بھی فریضہ نبوت میں شامل تھی، اگرچہ ” طریقہ استنباط کی تعلیم”  کے طور پر ہو۔ الغرض اس تفصیل کے بعد غامدی صاحب کو وضاحت فرمانا چاہئے کہ وہ درج بالا دو میں سے کس معنی  کو مراد لیتے ہیں۔ اگر ان کی رائے میں فراہی صاحب دوسرے معنی میں یہ مفہوم مراد لیتے تھے تو یہ ان کا سہو ہے۔

حواشی

[1] تعلیقات فی تفسیر القرآن الکریم الفراھی (348)

[2] احکام الاصول باحکام الرسول فی “رسائل فی علوم القرآن للفراھی” (109)

[3] مفردات القرآن للفراھی( 175)

[4] احکام الاصول (110)۔ آپ مزید لکھتے ہیں: انه ﷺ لما کان مبیناً للکتاب ومفسرا له علی االطلاق فی الشرائع والعقائد، کلتیهما صار العلم بطریق تاویله اوثق اصل للمفسر احکام الاصول (110)

[5] مبادی تدبر حدیث (35)

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں