Home » نیپال کا سفر اور افکار تازہ ۔ 1
احوال وآثار اسلامی فکری روایت مدرسہ ڈسکورسز

نیپال کا سفر اور افکار تازہ ۔ 1

 

مولانا ڈاکٹر نعیم الدین الازہری

الحمد للہ ! 22جولائی بروز جمعہ بھیرہ شریف سے ایک تعلیمی سفر پر نیپال روانگی ہوئی ۔ اس پندرہ روزہ سفر میں ابتدائی 10 ایام نیپال کے شہر نگر کوٹ میں بسر ہوئے جہاں پاکستان اور انڈیا سے مختلف مکاتب فکر کے منتخب علماء ایک ورکشاپ میں شریک ہوئے ۔ یہ سرگرمی مدرسہ ڈسکورسز کے عنوان سے جاری ایک کورس کے اختتام پر رکھی گئی تھی تاکہ مختلف موضوعات پر باہمی تجزیہ و مطالعہ کیا جاسکے اور مدارس اسلامیہ کے علماء کو جدید چیلنجز اور موضوعات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ جدید تحقیقات میں اپنا حصہ شامل کر سکیں۔ بنیادی مقصد مدارس اسلامیہ کے فاضلین کو مستقبل کے چیلنجز سے آگاہ کرنا ، اور فلسفہ ، علم کلام ، تاریخ ، سائنس اور تحقیق و جستجو کے عنوان پر مختلف مکالموں اور ڈائیلاگ کے ذریعے افہام و تفہیم کی راہیں ہموار کرنا تھا ۔ اس کورس میں امریکہ سے ڈاکٹر  ابراہیم موسی ایک وفد کے ساتھ تشریف لائے ، جو کہ اس پروگرام کے ڈائریکٹر بھی ہیں ۔ اسی طرح پاکستان سے ڈاکٹر عمار خان ناصر لیڈ فیکلٹی کے طور پر 25 رکنی وفد کے ساتھ شریک ہوئے ، اسی طرح انڈیااور بنگلہ دیش سے بھی شرکاء شامل تھے ۔

اس سفر میں راقم الحروف کے ذمے امام غزالی رحمہ اللہ علیہ کی کتاب المستصفی سے اجتہاد اور تقلید کی مباحث کا مطالعہ، تلخیص اور ریسرچ پیش کرنا تھا۔  اس سفر کے دوران نیپال میں مختلف مذاہب کی روایات اور کلچر کے مشاہدہ کے ساتھ ساتھ بلند وبالا پہاڑی سلسلوں اور مناظر سے لطف اندوز ہونے کے مواقع بھی میسر آئے۔

ذیل کے صفحات میں اس سفر کے دوران سنے گئے لیکچرز اور مشاہدات کو روز مرہ تبصروں کی شکل میں لکھا گیا ہے۔

ان صفحات میں جو رشحات قلم لکھے گئے ہیں ، وہ راقم کے ذاتی مشاہدات ہیں، قارئین کا تمام افکار سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

23 جولائی 2022

آج نیپال کے سفر کا پہلا دن تھا ، کل پاکستان سے چلے تو معلوم ہوا کہ نیپال اگرچہ پاکستان سے قریب ہے لیکن انڈیا کی فضائی حدود پاکستان کے لیے بند ہونے کی وجہ سے ایک لمبا چکر کاٹ کر نیپال پہنچنا پڑھتا ہے ، اس لیے ہم پہلے دبئی پہنچے ، پھر وہاں سے ساڑھے چار گھنٹے کی فلائیٹ کے ذریعے کھٹمنڈو ائیرپورٹ پر لینڈ کیا ، اور وہاں سے ایک بس کے ذریعے دو گھنٹے کی مسافت طے کرتے ہوئے نگر کوٹ شہر پہنچے جو اپنے حسن و جمال ، بلند و بالا پہاڑوں ، سرد موسم اور دلکش مناظر سے مالا مال ہے ۔

اس سفر کی خاص بات یہ ہے کہ پاکستان سے 25 شرکاء اس میں شامل ہیں جن میں میرے سینیئر دوست اور اسکالر جناب ڈاکٹر محمد اکرم ورک صاحب بھی شامل ہیں ، جن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے ۔

نیپال میں ہندو آبادی کی اکثریت ہے ، اور بدھ مذھب کے لوگ دوسرے نمبر پر ہیں ، جبکہ مسلمان بھی اقلیت کے طور پر آباد ہیں ۔  ہماری اس ورکشاپ کے لیے نیپال کو اس لیے چنا گیا کیونکہ اس کا ویزا on Arrival فری ہے،  اور تمام ممالک کے لوگ آسانی سے یہاں پہنچ سکتے ہیں ، نیز موسم بھی اچھا ہے ۔

اس ورکشاپ میں  انڈیا ، پاکستان، بنگلہ دیش سے مختلف مکاتب فکر کے مسلمان علماء شریک ہیں ، جبکہ امریکہ کی نوٹرے ڈیم یونیورسٹی کے کچھ مسیحی طلباء بھی اس میں شریک ہیں ۔ یوں اس ورکشاپ میں مختلف مسالک اور مذاہب کے لوگوں سے ملاقات اور باہمی تبادلہ خیال کا موقع مل رہا ہے ۔

آج دوپہر کے کھانے پر میرے ساتھ تین مسیحی طلباء بیٹھ گئے تو انگریزی زبان میں ان سے گفتگو کا سلسلہ چل نکلا ، پہلے میں نے ان سے مذہب کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ کیتھولک عیسائی ہیں ، اور عقیدہ تثلیث کے قائل ہیں ،۔ ہفتے میں ایک دن چرچ جاتے ہیں ، اور سال میں دو تین مرتبہ پادری کے سامنے کنفیشن (اعتراف گناہ) کر کے اپنے گناہوں سے پاک ہوتے رہتے ہیں۔

انہوں نے مجھ سے اسلام کے متعلق پوچھا تو میں نے تفصیل سے اسلام کے عقیدہ توحید و رسالت ، تمام انبیاء کے احترام اور تصور توبہ کے متعلق بتایا ۔ پھر میں نے ان سے سوال کیا کہ تم کیا بائبل زبانی یاد کرتے ہو ؟ کہنے لگے نہیں، ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ بائبل کے بہت سارے نسخے اور ورژن ہیں ۔ جب میں نے ان کو قرآن کے حفاظ کے متعلق بتایا کہ لاکھوں حفاظ کرام موجود ہیں ، رمضان میں ہر مسجد میں پورا قرآن زبانی پڑھا جاتا ہے  اور تمام مسلمانوں کو قرآن آپس میں جوڑتا ہے اور وحدت پیدا کرتا ہے تو انہوں نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا ۔ مجھے إحساس ہوا کہ اسلام اور نبی اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق صحیح افکار و نظریات مغرب تک پہنچانے کے لیے دوری ، تنفر اور فتوی بازی درست نہیں بلکہ ڈائیلاگ کے ذریعے باہمی مشترکات کا بیان کر کے اسلامی نظریات کا ابلاغ کرنا چاہیے اور اس کے لیے انگریزی زبان میں مہارت بہت ضروری ہے۔

ورکشاپ کے پہلے دن کے احوال:

ہماری ورکشاپ کا عنوان درج ذیل ہے

Tridation and History ; constructing the past for the present .

یعنی روایت اور تاریخ ؛ حال کے لیے ماضی کی تفہیم و تشکیل

اس سلسلے میں ایک مستشرق ایڈورڈ شیل کی کتاب Tradition کے کچھ مندرجات زیر بحث آئے ۔

روایت اور تاریخ کے مابین تقابل اور فرق زیر بحث آیا تو بعض مستشرقین کے متعلق یہ حقیقت سامنے آئی کہ وہ تاریخ کو مستند اور مقدس مانتے ہیں  اور مذہب کو داخلی استناد پر اکتفاء اور خارجی شواہد نہ ہونے کی وجہ  سے مشکوک بناتے ہیں ۔

وقفہ سوالات میں راقم الحروف نے عرض کیا کہ تارخ اور روایت ومذہب باہم مربوط ہیں ، انکو جدا جدا کر کے نہیں دیکھا جا سکتا ، لیکن یہ یاد رہے کہ محدث اور مؤرخ کے مابین نسبت عموم خصوص مطلق ہے یعنی ہر محدث مؤرخ تو ہوتا ہے لیکن ہر مؤرخ محدث نہیں ہوتا ۔

پھر روایت میں علم حدیث کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ہر حدیث ہم تک پہنچتے ہوئے تحقیق ، تنقیح ، علم الرجال ، دراسہ الأسانید اور جرح و تعدیل کے عمل سے گذرتی ہے جس کی وجہ سے اسے حجیت ، واقعیت اور تثبت کا درجہ حاصل ہوتا ہے  اور صحیح و موضوع میں فرق کیا جاتا ہے ۔ اس کے مقابلے  میں علم تاریخ میں واقعات وحوادث کی تفصیلات تو مذکور ہوتی ہیں لیکن ان کو جانچنے اور پرکھنے کا کوئی خاص اصول موجود نہیں ہوتا ، جس کے سبب بہت رطب و یابس اور من گھڑت چیزیں بھی اس میں در کر آتی ہیں اور فتنوں کا باعث بنتی ہیں ۔  عصر حاضر میں بہت سے مسلکی فتنوں کو انہی تاریخی روایات کو بنیاد بنا کر ہوا دی جا رہی ہے ۔

نیز یہ بھی یاد رہے کہ یورپی اور استشراقی تہذیب و روایت کو دیکھتے ہوئے اسلامی علوم اور تاریخ پر وہی حکم لگانا جو یورپی تہذیب پر لگایا جاتا ہے یہ درست عمل نہیں ہے ۔ بقول علامہ محمد اقبال :

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

اس ضمن میں ایک شریک کورس نے حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی عمر کے مسئلے پر محدثین اور مؤرخین کی روایات کا جائزہ پیش کیا اور یہ موقف اپنایا کہ صحیح بخاری شریف میں نکاح کے وقت ان کی عمر سات سال اور رخصتی کے وقت 9 سال بتائی گئی ہے ، بعض لوگ علم تاریخ کو بنیاد بنا کر اس امکان کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور سیدہ عائشہ کی عمر نکاح کے وقت 17 یا اٹھارہ سال بتاتے ہیں۔  آسٹریا میں کچھ مستشرقین نے اس روایت کو بنیاد بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازیبا کلمات کہے اور آپ کی شان میں گستاخی کی تو آسٹریا کی عدالت نے ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا اور یہ موقف اپنایا کہ مقدس شخصیات کے متعلق ایسے کلمات کہنا درست عمل نہیں ہے ۔

اس پر راقم نے یہ عرض کیا کہ تاریخی روایات کو بنیاد بنا کر امام بخاری کی روایت کو جھٹلانا بھی درست نہیں ہے ، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امور اور فیصلے اللہ کے حکم سے سرانجام دیے اور ان کی حکمتیں ہر ذہن نہیں سمجھ سکتا ، اس میں امت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی زندگی کے متعلق تعلیم دینا ، سیدہ عائشہ کا اپنی اوائل عمر میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے امور دین کا سیکھنا اور ابلاغ کرنا شامل ہے ۔ نیز عرب کے ہاں چھوٹی عمر میں نکاح اور شادی کا طریقہ رائج بھی تھا ، اور انکے عرف اور معروضی حالات میں معیوب نہیں تھا جس پر بہت سے شواہد موجود ہیں ۔

ظہرانے کے بعد دوسرے سیشن میں ڈاکٹر فضل الرحمن کے افکار و نظریات کا تنقیدی جائزہ لینا ہمارا موضوع تھا ۔ مولانا محمد یونس قاسمی نے ان کے افکار کا خلاصہ پیش کیا ۔

ڈاکٹر فضل الرحمن کی وفات 1988 میں ہوئی ، وہ ضیاء الحق کے دور میں طویل عرصہ تک ادارہ تحقیق اسلامیہ کے چیئرمین رہے ۔ انگلینڈ میں مشہور مستشرقین  کے شاگرد تھے  اور متجددین کے افکار و نظریات سے بہت زیادہ متأثر تھے ۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں اسلام اور ماڈرن ازم ، جدیدیت ، اسلام کے سیاسی نظریات کو موضوع بنایا اور بہت سارے معاملات میں امت مسلمہ کے جمہور علماء و فقہاء کے نظریات سے انحراف کر کے الگ راہ اپنائی ۔

ان کے افکار و نظریات کے متعلق اپنے کمنٹس میں راقم نے عرض کیا کہ ڈاکٹر فضل الرحمن نے تحقیق کے نام پر تحریف کی ،  اور اسلام کی بعض نصوص و احکام میں تغیر و تبدل کرنے کو اسلام  کی تعبیر جدید کا نام دیا ۔

بقول اقبال :

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق

ڈاکٹر فضل الرحمن نے اپنی کتابوں میں یہ موقف اپنایا کہ امت کے جمہور فقہاء اور ائمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اسکے دائرہ کار کو ویسے نہیں سمجھ سکے جیسی ان کو سمجھ آئی ہے ۔  لہذا انہوں نے سنت جاریہ کے نام پر سنت کی تعریف کو وسعت دی اور صحابہ و تابعین کے اقوال و افعال بلکہ بعد کے علماء کے اجتہادات کو بھی سنت کے دائرے میں داخل کرنے کی بات کی ۔ حدود و تعزیرات میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی کو ممکن قرار دیا ، اور شرح زکوۃ میں ٹیکس پر قیاس کرتے ہوئے کمی یا زیادتی کو بھی جائز لکھا ۔  بینکاری نظام کے سود کو جائز قرار دیا ، خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں دلائل دیے اور قرآن حکیم کی نصوص میں وقت اور ضرورت کے تحت تغیر و تبدل کے طریقے وضع کیے (نعوذ باللہ )

یورپی معاشرے کی تقلید میں تعدد ازواج کو بھی ممنوع قرار دیا اور اس کی علت یہ بیان کی کہ قران حکیم نے وقتی ضرورت و غایت کے تحت تعدد ازواج کی اجازت دی تھی ، اب کے حالات میں عدل  و انصاف ممکن نہیں لہذا اسکی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔  اسکے علاوہ بھی انکے بہت سے تفردات موجود ہیں جو زیر بحث آنے چاہیں کہ انہی چیزوں سے متجددین کو تقویت مل رہی ہے اور نئے نئے موقف سامنے آ رہے ہیں ۔

خیر ان موضوعات پر آج خوب گرما گرم بحث ہوئی اور گروپ ڈسکشن کے بعد سب نے اپنے نتائج فکر سے آگاہ کیا۔  یوں آج کا سیشن اپنے اختتام کو پہنچا ۔

24 جولائی

ایک مسیحی نوجوان سے مکالمہ :

نیپال میں شرکاء کو کمرے یوں الاٹ کیے گئے ہیں کہ مختلف کلچرز کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تبادلہ خیال کر سکیں اور ایک دوسرے کے کلچر کو سمجھنے میں مدد ملے ۔  میرے ساتھ ایک امریکن نوجوان مقیم ہے ، جس کا نام کونرڈ ہے ۔ یہ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں بی ایس کا اسٹوڈنٹ ہے اور عربی زبان و ادب سے بھی دلچسپی رکھتا ہے ۔  آج کمرے میں ہونے والی ڈسکشن میں مجھے عیسائیت کے موجودہ حالات کے متعلق عجیب و غریب چیزیں جاننے کو ملیں اور نعمت اسلام پر اللہ رب العزت کا کروڑہا مرتبہ شکر ادا کیا ۔

گفتگو کے دوران کونرڈ نے  بتایا کہ امریکہ کے سکولوں میں بہت سارے نوجوان طلباء نشہ آور اشیاء کے رسیا بن جاتے ہیں ، یا سگریٹ نوشی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ میں نے بتایا کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں اور جدید یونیورسٹیز میں بھی یہ رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے ، جس کے معاشرے پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔   کونرڈ نے مجھ سے شراب نوشی کے متعلق اسلام کا نقطہ نظر پوچھا تو میں نے تفصیل کے ساتھ شراب اور نشہ آور اشیاء کی حرمت سے آگاہ کیا ۔

یہ بات سن کر حیرت ہوئی کہ کیتھولک عیسائیوں کے چرچ میں شراب کو بطور برکت پلایا جاتا ہے اور اس کو blood of Jesus قرار دے کر مقدس شے سمجھا جاتا ہے اور چھوٹے بچوں سے لے کر بڑوں تک سب کو چند گھونٹ دی جاتی ہے ۔ اسی طرح چرچ میں کیک کے ٹکڑے بانٹے جاتے ہیں جن کو باڈی آف گاڈ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ علم و فن اور سائنس کے اس دور میں بھی عیسائیت بطور مذہب کس سوفسطائیت اور سطحی پن کا شکار ہے ۔میں نے کونرڈ کو جب شراب نوشی کے عواقب اور نتائج سے آگاہ کیا تو وہ خود بول اٹھا کہ زیادہ مقدار میں شراب پینا انسان کے جگر اور صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے  اور انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے ۔   اس نے اپنے گھر کا ایک واقعہ بھی سنایا کہ اسکے دادا بہت زیادہ مقدار میں شراب پیتے تھے ، ایک دن اسی نشے کی حالت میں گاڑی چلاتے ہوئے ان کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ اس دنیا سے چل بسے ۔

ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام ہی مذہب حق ہے ، اور اسلام کی تعلیمات فطرت سے بہت قریب ہیں ۔ لہذا تعلیمات اسلام پر عمل پیرا ہونے والا شخص خطرات اور بے راہ روی سے محفوظ رہتا ہے ۔

الحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات ۔ رضینا باللہ ربا و بالاسلام دینا و بسیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نبیا و رسولا

25 جولائی

آج ہماری ورکشاپ میں گفتگو کا مرکزی موضوع ڈاکٹر فضل الرحمن کے ہاں اجتہاد اور تاریخ کے متعلق افکار کا تنقیدی جائزہ لینا تھا ۔  ابتدائی گفتگو اور پریزینٹیشن ڈاکٹر ابراہیم موسی نے دی ۔ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن کے تصور تاریخ اور تصور سنت پر تفصیل سے بحث کی ۔

سوالات کے وقفے میں ہماری طرف سے اہم سوالات اٹھائے گئے جن پر سیر حاصل بحث ہوئی۔

1- سنت جاریہ کا تصور :

ڈاکٹر فضل الرحمن نے اپنی کتابوں اور مقالات میں سنت جاریہ کا تصور پیش کیا ہے ، جس سے وہ یہ مراد لیتے ہیں کہ سنت ایک مسلسل عمل کا نام ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال افعال اور تقریرات کے ساتھ ساتھ قرون اولی میں صحابہ و تابعین کے افعال و احوال اور اصلاحات بھی سنت کے دائرے میں آتی ہیں ، وہ اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ انکے نزدیک بعد میں آنے والے مصلحین اور ریفارمرز بھی اس عمل میں اضافہ کر سکتے ہیں ، اسی کو وہ سنت جاریہ کا نام دیتے ہیں ۔

ہم نے یہ گذارش کی کہ سنت کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اسکا مفہوم سلف صالحین اور اکابرین امت کے ہاں مسلم اور طے شدہ ہے ، اور لفظ سنت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال ، افعال اور تقریر ہے ، لہذا اب اس مفہوم کی اپنی من مانی تشریح اور تفہیم درست نہیں ۔ اس لیے سنت کے مفہوم میں یہ توسع اور تصرف علمی و اصولی اعتبار سے ناقابل قبول ہے  اور اسکی بنیاد پر جو خرابیاں لازم آتی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔ جب آپ سنت کے مفہوم کو کھلا چھوڑ دیں گے تو پھر ہر کس و ناکس دین میں اپنی من مانی تعبیرات کو داخل کرنے کی کوشش کرے گا اور دین متین کی مستحکم عمارت اور ڈھانچہ بدلنا شروع ہو جائے گا ۔

2- تاریخ ، تاریخیت اور تاریخانیہ :

موجودہ دور میں استشراقی فکر کے حامل اسکالرز تاریخ کے عمل کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ۔

history, Historicity , Historicism

تاریخ سے مراد ماضی میں ہونے والے واقعات ، تاریخیت سے مراد وہ مصادر اور کتب جن میں یہ واقعات بیان ہوئے ، اور تاریخانیۃ سے مراد یہ ہے کہ تاریخ بذات خود ہی انسانیت کے احوال اور اطوار میں مؤثر ہے اور اسکو دین یا کسی اور شے کے ماتحت رکھ کر سمجھنے کی ضرورت نہیں ۔

یہ نظریہ ڈیڑھ صدی پہلے مستشرقین نے ہی پیش کیا اور اب بعض استشراقی فکر کے حامل مسلمان اسکالرز بھی اس کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔   ڈاکٹر فضل الرحمن نے اپنی فکر اور نظریہ میں تاریخانیہ کا یہی فلسفہ استعمال کیا اور یہ نتیجہ نکالا کہ عہد رسالتماب صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کے دور میں اسلام میں تطور اور ترقی کا عمل جاری تھا ، یہ عمل ابتدائی تین سو سال تک جاری رہا ، لیکن جب امام ابو حنیفہ ،  امام شافعی اور دیگر ائمہ نے علوم کی تدوین شروع ، احادیث کی کتب کو مرتب کیا ، امور دین کی تعریف اور حدود و ضوابط بیان کیے  تو گویا انہوں نے ایک جاری عمل کو روک دیا ، تاریخ کے سفر اور ارتقاء کو جامد کر دیا اور اجتہاد کا دروازہ بند کر کے سوچنے سمجھنے کے امکانات مسدود کر دیئے ۔یوں تقلید محض رواج پکڑتی چلی گئی  اور تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑ گئیں ۔

یہ فلسفہ بیان کر کے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی تین سو سال کے بعد والے ادوار میں مسلمان علماء جمود کا شکار ہوتے چلے گئے ۔   وہ تمام جید علمائے کرام ، محدثین ، فقہاء ، ائمہ دین کی کوششوں کی اہمیت کم کرتے ہوئے اپنے آپ کو  پہلے تین سو سالوں کا تسلسل بتاتے ہیں ۔ گویا ان کے نزدیک اسلام کے ابتدائی ادوار کو جیسے وہ سمجھے ہیں ویسے امام ان حجر عسقلانی ، شیخ الاسلام زکریا أنصاری ،امام اشعری ، ماتریدی کوئی بھی نہیں سمجھ سکا ۔

ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے!

اس عجیب و غریب فلسفے پر نقد کرتے ہوئے راقم نے عرض کیا کہ تاریخانیۃ اور تاریخیت کا راگ الاپ کر یہ لوگ تاریخ کو نصوص قرآن و سنت ، روایت اور دین سے مقدس و مقدم سمجھنے لگتے ہیں ، انکے نزدیک تاریخی واقعات  دین کی روایت سے بڑھ کر اہم ہو جاتے ہیں ۔  یوں وہ عجیب سے تناقض اور تضاد کا شکار یوتے ہیں کہ تاریخ کی کتب میں آنے والی خرافات اور عجیب داستانوں کو آنکھ بند کر کے تسلیم کر لیتے ہیں ، جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اور مرویات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔  اس لیے بطور مسلمان ہمیں مستشرقین کی ان من گھڑت مصطلحات کے مطابق اپنے دین کو ڈھالنے کے بجائے قران و سنت اور ائمہ کرام کے مستنبط کردہ اصول و ضوابط کے مطابق اپنے دینی احکامات کو سمجھنا چاہیے ۔

یہ بڑی دقیق اور اہم ابحاث ہیں ، ابھی صرف دو نکات  کی طرف اشارہ کیا ہے ، امید ہے علمائے کرام اور اسکالرز ان موضوعات کی جانب توجہ دیں گے تاکہ مستقبل میں اس نہج کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے ۔

26 جولائی

ورکشاپ کے ذیل میں مختلف ثقافتوں اور روایات سے تعلق رکھنے والے حضرات سے گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے ۔ کل شام کھانے کے دوران انڈیا کے کچھ علماء کے ساتھ نشست ہوئی ۔  یہ دیکھ کر  بہت خوشی ہوئی کہ الحمد للہ میرے شیخ کریم حضرت ضیاءالامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازھری کا احترام یہاں  تمام مکاتب فکر میں یکساں طور پر موجود ہے ۔ جونہی تعارف میں آپ کا نام نامی آتا ہے سب کے چہرے کھل اٹھتے ہیں  اور حضرت کی علمی و روحانی خدمات کا سب کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں۔

ایک مصباحی عالم دین جناب علامہ ناظم اشرف صاحب سے جب تعارف ہوا تو پیر صاحب کا نام سن کر ان پر عجیب کیفیت طاری ہوئی ، خود ہی کہنے لگے کہ آپ میری کیفیت ملاحظہ فرمائیں ، پھر آبدیدہ ہو کر بولے ، کچھ باتیں ایسی ہیں جنکا اظہار ممکن نہیں لیکن ہمیں انڈیا میں بیٹھ کر بھی حضرت ضیاء الامت کا روحانی فیضان پہنچ رہا ہے ۔

ایک بزرگ ولی کامل کا تعارف :

ایک نشست میں دوست احباب سے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت و افکار پر بات ہو رہی تھی کہ انہوں نے دین کو ایک ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا اور دین کے تمام احکامات کے اسرار و رموز اور حکمتیں اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں ذکر فرمائیں ، لہذا وہ اس تجدیدی کام  میں سبقت لے گئے ۔ یہ سن کر ندوۃ العلماء کے ایک صاحب بولے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے کئی صدیاں پہلے ہندوستان میں اسرار شریعت کے بیان کا کارنامہ حضرت مخدوم علی المھائمی رحمۃ اللہ علیہ  نے سرانجام دیا ، انکی کتاب کا نام ہے ” انعام الملک العلام باحکام حکم الأحکام ” اس کتاب میں انہوں نے شرعی احکام کی حکمتیں اور اسرار ذکر فرمائے ہیں اور خود شاہ ولی اللہ نے ان کی بہت تعریف فرمائی ہے ۔

مخدوم علی المھائمی کا نام سن کر اشتیاق ہوا کہ ان کے بارے میں جاننا چاہیے ، کمرے میں آ کر جب انٹرنیٹ کے ذریعے تلاش شروع کی تو انکے متعلق 350 صفحات کی ایک کتاب مل گئی  جس کو پڑھ کر پتہ چلا کہ حضرت کا تعلق ہندوستان کے سرحدی قصبہ مھائم سے تھا ۔ انہوں نے آٹھویں صدی ہجری میں بہت بڑی خدمات سرانجام دیں ، وہ عظیم صوفی بزرگ تھے ، حضرت خضر علیہ السلام کے علوم سے فیض یاب ہوئے اور لگ بھگ اٹھائیس کتابیں تصنیف فرمائیں جن میں تبصیر المنان کے نام سے قرآن حکیم کی تفسیر سر فہرست ہے۔ اس تفسیر میں جہاں انہوں نے قرآن حکیم کی سورتوں اور آیات کا باہمی نظم بیان کیا ہے ، وہیں ہر مرتبہ بسم اللہ شریف کا ترجمہ نئے انداز میں کیا اور حروف مقطعات کے معانی پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ نیز انہوں نے عقیدہ  اور علم کلام پر قلم اٹھایا اور حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی نظریہ وحدۃ الوجود اور فصوص الحکم کی تشریح فرماتے ہوئے سیر حاصل بحثیں فرمائ ۔ ہمارے علماء و فاضلین اور محققین کو انکے کام پر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیے ۔

بختاپور شہر کا وزٹ :

گذشتہ روز سہ پہر خصوصی بس میں سوار ہو کر نیپال کے ایک شہر بختاپور گئے جہاں دربار اسکوائر کے نام سے ایک سیاحتی مقام ہے ۔ یہ درحقیقت ان کا مذہبی مقام ہے جہاں مختلف مندر ، مورتیں ، بت اور مذہبی رسومات کے سلسلے ہیں ۔  یہ دیکھ کر دلی رنج ہوا کہ عقل و شعور اور فہم و ادراک کے اس دور میں بھی جگہ جگہ بت تراش کر رکھے ہوئے ہیں ، اور دور جاہلیت کی طرح یہ لوگ بت پرستی کے مظاہر سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ وہاں زیادہ ٹھہرنے کے بجائے جلد واپسی میں غنیمت سمجھی اور اداسی و رنج کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ہوٹل واپس پہنچے ۔ اللہ کریم کا شکر ہے کہ شرک اور اسکے جملہ مظاہر سے اس نے  ہمیں محفوظ رکھا ہے اور عقیدہ توحید و رسالت کی برکتیں ہمیں عطا فرمائی ۔ اللہ کریم ان لوگوں کو بھی ہدایت عطا فرمائے ۔

مسیحیت کی اصلاحی تحریک کا ایک جائزہ :

ورکشاپ کا چوتھا روز مذہب عیسائیت کی روایت اور تجدید کے جائزے کے لیے خاص تھا ، اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے عیسائیت کے ایک ماہر ڈاکٹر ٹال ہاورڈ کو مدعو کیا گیا تھا ، جو عیسائی مذہب کی تاریخ پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں اور خود کیتھولک عیسائی ہیں ۔

انہوں نے اپنے طویل لیکچر میں پاور پوائنٹ کے ذریعے عیسائی مذہب کی روایت اور اسمیں آنے والی تبدیلیوں پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ مارٹن لوتھر نے اصلاحی تحریک کیسے شروع کی ، مارٹن لوتھر نے کن چیزوں پر تنقید کی ، اور پھر کنیسہ اور بادشاہ اس کے خلاف ہو گئے اور کیسے  یہ تحریک پروان چڑھی اور پروٹیسٹنٹ کے نام سے پورا مذہب وجود میں آیا  ۔

وقفہ سولات میں اس حوالے سے بہت سے سوالات کیے گئے ۔ میں نے سوال کیا کہ مارٹن لوتھر نے جہاں بہت ساری اصلاحات کیں، وہاں عقیدہ تثلیث پر بھی کوئی اعتراض اٹھایا یا نہیں؟ تو وہ بولے کہ ان چیزوں کو اس نے نہیں چھیڑا بلکہ وہ بھی عقیدہ تثلیث پر یقین رکھتا تھا ، یعنی تین خداؤں کا قائل تھا ، میں نے دل میں سوچا کہ یہ کیسی اصلاحات ہیں کہ اصل بنیاد کو سیدھا نہ کرسکا ۔

بقول علامہ محمد اقبال :

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

لیکچر کے دوران پتہ چلا کہ مارٹن لوتھر کی نام نہاد اصلاحات نے جہاں دین اور سیاست کو جدا جدا کر دیا ، مسیحیت کو کنیسہ تک محدود اور مقید کر دیا ، وہیں اس کے ماننے والوں نے عورت کی آزادی کے نام پر یہ طے کر لیا کہ عورت بھی ان کے مذہب میں پادری یا مذہبی راہنما بن سکتی ہے ۔

اس ضمن میں عورت کی امامت کی بات چلی تو ہم نے بتایا کہ اسلام میں عورت کے لیے مردوں کی امامت ناجائز ہے ۔ بعض حالات میں وہ عورتوں کی امامت کروا سکتی ہے لیکن اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے ۔  اس دوران راقم الحروف نے کنیڈا میں ایک نام نہاد مسلمان گروہ کی طرف بھی اشارہ کیا جن کے متعلق یہ پڑھا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور نعوذ باللہ ہم جنس پرستی کو جائز سمجھتے ہیں ، اور جمعہ سرکل کے نام سے اکھٹے ہوتے ہیں اور ایک ہم جنس پرست عورت کی اقتداء میں جمعہ کی باجماعت نماز بھی پڑھتے ہیں ۔

یورپی معاشروں میں اسلام پر یلغار کرنے کے لیے ایسے منحرف افراد کو تحفظ دیا جارہا ہے ۔ اس سلسلے میں علمائے کرام اور ہماری مذہبی تعلیمی اداروں کو ان نئے پیش آمدہ مسائل پر اپنا دو ٹوک علمی موقف پیش کرنا چاہیے تاکہ ان فتنوں کا سد باب ہوتا رہے ۔

المختصر : آج کی گفتگو میں یہ ثاثر ابھرا کہ عیسائیت ایک قدیم اور بڑا مذہب ہونے کے باوجود فلسفیانہ بحثوں میں الجھ کر اپنی مقصدیت کھو رہا ہے ۔ عیسائی مذہب کو ماننے والے صرف چند رسومات اور روایات کی حد تک اس سے جڑے ہوئے ہیں ، لیکن انکی سیاسی ، عائلی اور اقتصادی و معاشی زندگی مذہب کی حدود و قیود سے آزاد ہو کر اپنی مرضی سے چل رہی ہے ۔ اور ان کا  مذہب انہیں  مکمل ضابطہ حیات اور تمام مسائل کا حل عطا کرنے سے قاصر ہے۔

یہ خوبی ، جامعیت اور ہمہ گیریت اللہ رب العزت نے اسلام کو عطا فرمائی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو عائلی نظام بھی عطا کرتا ہے ، سیاسی ، معاشی و معاشرتی اصول بھی متعین کرتا ہے اور اخلاقی و روحانی زندگی کے تمام راستوں کو بھی منور فرماتا ہے ۔  اسی لیے اللہ رب العزت نے فرمایا :

ان الدین عند اللہ الاسلام

بے شک دین حق اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے ۔

(جاری)


ڈاکٹر نعیم الدین الازہری، جامعۃ الازہر قاہرہ سے فارغ التحصیل ہیں اور دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف میں دینی علوم کے استاذ ہیں۔
naeem_freed@yahoo.com

منتظمین

فیصد کمنٹس

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • کراک انسٹیٹیوٹ ، نوٹرے ڈیم یونیورسٹی، امریکا کے زیر اہتمام مدرسہ ڈسکورسز پراجیکٹ کی نیپال میں منعقدہ حالیہ علمی سرگرمی سے متعلق تاثرات پر مبنی ڈاکٹر نعیم ازہری کی یہ رپورٹ ایک قابل قدر اور لائق تحسین کوشش ہے۔ چند ایک چیزوں کی وضاحت ضروری ہے جیسا کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے ایوب خان کے دور میں ادارہ تحقیقات اسلامی کے سربراہ کی حیثیت سے کام کیا تھا نہ کہ ضیاء الحق کے دور میں۔ ایڈورڈ شلز مستشرق نہیں بلکہ بشریات اور سماجیات کے ماہر ہیں۔ ڈاکٹر ٹال ہاورڈ کیتھولک نہیں بلکہ ایک پروٹسٹنٹ اسکالر ہیں۔ تاریخ، تاریخیت اور تاریخانیہ کی تقسیم مستشرق اسکالرز نے نہیں بلکہ تاریخ کے ماہرین نے کی ہے۔
    اسی طرح روایت اور تاریخ کے فرق کو واضح کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ نے بھی اپنی گفتگو میں یہ وضاحت دی تھی کہ روایت کے مسلم تصورات میں تاریخ شامل ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ روایت کے بارے میں ہمارا تصور کچھ معاملات میں روایت کے مغربی تصورات سے مختلف ہے۔