ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
يہاں انگلينڈ كى ايك مسجد ميں امامت كى جگه خالى ہوئى تو مسجد كے ذمه داروں نے ہمارے ايك دوست كى خدمات حاصل كيں۔ انہوں نے كچھ دنوں تك وہاں نماز پڑھائى، بچوں كو تعليم دى اورتقريريں كيں۔ جب مسجد كى شورى ان كى صلاحيتوں سے مطمئن ہوگئى تو ان سے كہا گيا كه آپ اس پوسٹ كے لئے درخواست دے ديں۔ انہوں نے درخواست دے دى، اور ہم سب كو خوشى ہوئى كه اس مسجد ميں ايك ايسے امام كى تقررى ہوگى جو بجائے نفرت پھيلانے كے مسلمان جماعتوں اور گروہوں كو ايك دوسرے سے قريب كرنے كا كام كرے گا۔ مسجد كى كميٹى نے انہيں انٹرويو كے لئے بلايا، مختلف سوالات كرنے كے بعد انہيں ايك كاغذ ديا گيا كه اس پر دستخط كرديں۔ انہوں نے اس پر لكھى تحرير پڑھى تو ان كے پيروں تلے سے زمين نكل گئى۔ اس ميں لكھا تھا كه “رشيد احمد گنگوہى اور اشرف على تھانوى كافر ہيں”۔ انہوں نے كہا كه ميں كسى مسلمان كو كافر نہيں كہتا، اور اس پر دستخط كرنے سے انكار كرديا۔ يوں ان كو نا اہل قرار دے ديا گيا، اور ہمارا خواب پورا ہوتے ہوتے چكنا چور ہوگيا۔
ہندوستان اور انگلينڈ ميں ہمارى ملاقات ايسے بہت سے لوگوں سے ہوئى ہے جن ميں سے كچھ ديوبنديوں كو كافر كہتے ہيں، كچھ بريلويوں كو كافر كہتے ہيں، كوئى اہل حديث اور سلفيوں كو گمراه باور كرتا ہے، كوئى صوفيه كو اساس ضلال وسفه بتاتا ہے، بہت سے لوگ اشاعره وماتريديه كو گمراه ٹھہراتے ہيں، كچھ لوگ جماعت اسلامى كو ايك الگ فرقه گردانتے ہيں، غرض مسلمانوں ہى كى طرف سے مسلمانوں كى ہر جماعت پر كفر وضلال كى مہر لگادى گئى ہے۔
ہم نے مسلم معاشروں كى تاريخ پر نظر ڈالى تو صورت حال ميں بڑى مماثلت نظر آئى۔ انيسويں صدى كے آخر اور بيسويں كے شروع ميں ہندوستان ميں تكفير كا بازار بہت گرم تھا۔ مولانا محمد اسماعيل شہيد كو ڈنكے كى چوٹ پر كافر كہا گيا اور يه سلسله آج تك جارى ہے۔ سرسيد احمد خان كى تكفير پر اصرار كيا گيا، مولانا قاسم نانوتوى اور مولانا گنگوہى پر بار بار كفر كے فتوے لگائے گئے، علامه شبلى نعمانى اور مولانا فراہى كو بھى نہيں بخشا گيا، بلكه ان سب سے پہلے امام ابو حنيفه كو منكر حديث قرار ديا گيا۔ كچھ لوگوں نے يه كہا كه انہيں صرف ستره حديثيں معلوم تهيں، اس سے بڑھ كر يه ہوا كه بعض حضرات نے انھيں ابليس سے زياده منحوس ٹھہرايا۔ اس وقت بر صغير ميں تكفير وتفسيق وتضليل كى جو روايت ہے اس كى جڑيں بہت گہرى ہیں۔ نتيجه يه ہے كه تمام ادارے، مدرسے، جماعتيں اور تنظيميں ايك دوسرے كو مطعون كرنے كو دين كا سب سے بڑا فريضه سمجھتى ہيں۔
حاصل اس سعى نا مبارك كا يه ہے كه كه سارے مسلمان كافر ہيں، اور اگر يه لقب ناگوار ہو تو اسے ہلكا كركے يوں كہہ سكتے ہيں كه امت مسلمه كے ہر فرد كے اندر كفر كى كوئى نه كوئى علامت ضرور موجود ہے، كيونكه كسى كو كافر قرار دينا بہت سنگين مسئله ہے، جب تك قطعى دليل نه ہو تو كسى كو كافر نہيں قرار ديا سكتا، ظاہر ہے كه جن لوگوں نے تكفير كى جرأت كى ہے وه علمائے كرام اور مفتيان عظام ہيں۔ انہوں نے جب يه فتوے ديے ہيں تو ان كے پاس كوئى نه كوئى قطعى دليل ضرور ہوگى۔
كچه علماء اور عوام تكفير كى اس مہم سے دور ہيں، شايد اس بنا پر كفر سے ان كے استثناء كى توقع ہو، مگر ہمارے پاس ان كے كفر كى بھى ايك ٹھوس دليل موجود ہے، اور وه يه كه بعض علماء نے تصريح كى ہے كه جو كافر كو كافر نه سمجھے وه بھى كافر ہے، اس طرح اس حكم ميں حتمى استغراق اور عموم ہے، جس سے استثناء اور تخصيص ممكن نہيں۔
شايد كوئى يه احتمال پيدا كرے كه ان بزرگوں سے تكفير ميں جلد بازى يا خطا ہوگئى ہوگى۔ اولاً قطعيات ميں اس قسم كا احتمال نہيں پايا جاتا، اگر ادنى احتمال ہوتا تو وه كسى كى تكفير نه كرتے۔ اہل علم كا اصول زريں ہے كه اگر كسى كے اندر ننانوے وجوه كفر كے ہيں اور ايك وجه اسلام كى ہو تو اسے كافر نہيں كہا جائے گا۔ ثانيًا بفرض محال اگر ان سے تكفير ميں غلطى ہوگئى ہو تب بھى كوئى فرق نہيں پڑتا، كيونكه صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى ايك حديث ميں ہے كه جب كوئى كسى كو كافر كہتا ہے تو دونوں ميں سے ايك كافر ہوتا ہے، يا تو جسے كافر كہا گيا، يا جس نے كافر كہا۔ اس حديث كى رو سے بھى سب لوگ كافر ہوگئے۔ مكفرين نے جن لوگوں كو كافر كہا ہے اگر وه كافر نہيں ہوئے تو مكفرين خود كافر ہوگئے۔ چونكه ہر ايك نے ايك دوسرے كو كافر كہا ہے اس لئے سب كافر ہوگئے۔
سوال يه ہے كه كفر سب سے بڑا گناه ہے، پھر يه سارے لوگ اپنے اپنے كفر سے توبه كيوں نہيں كرتے؟
يه اشكال بہت قوى ہے، اور اس نے ہميں بھى ايك مدت تك پريشان كيا۔ پھر اس كا جواب يه سمجھ ميں آيا كه استنجا كرتے وقت ہر شخص اپنى گندگى كو چھوتا ہے اور اسے دھوتا ہے، اگر اس سے كہا جائے كه دوسرے كى گندگى چھوئے تو بہت گھن آئے گى اور وه اسے نجس قرار دينے كے لئے ايڑى چوٹى كا زور لگا دے گا، اس كى بدبو اور غلاظت پر سيكڑوں دليلیں قائم كرے گا، جبكه وه سارے دلائل خود اس كى گندگى پر بھى بعينه قائم ہوتے ہيں۔ پھر بھى وه اپنى غلاظت كو نجاست خفيفه اور معفو عنہا قرار دينے پر بضد رہتا ہے۔ اسى طرح ہميں اپنا كفر آسان لگتا ہے، ہم اس كى كوئى نه كوئى تاويل كرليتے ہيں، البته دوسرے كا كفر ہميں بہت كريه المنظر اور كريه الرائحة معلوم ہوتا ہے، اور اسے ہم ہر پہلو سے مخرب دين وايمان اور مفسد عقيده واسلام سمجھتے ہيں۔
كفر كى حالت ميں موت كا آنا بے انتہا خطرناك ہے، اور اس سے انسان خلود في النار كا مستحق ہو سكتا ہے، پھر اس كفر سے نجات كا طريقه كيا ہے؟
اس كا جواب يه ہے كه جو لوگ خاتمه بالخير كے خواہاں اور مغفرت ورحمت الہى كے جويا ہيں، ان پر فرض ہے كه دوسروں كے كفر كى تاويل كريں، ان سے چشم پوشى كريں، اور سارى توجه اپنے كفر پر مركوز كريں۔ اس ميں ہرگز كسى مداہنت سے كام نه ليں،اپنے گناہوں كى كوئى تاويل نه كريں، صدق دل سے توبه كريں، اور مرتے دم تك ترساں رہيں كه پته نہيں ہمارى توبه قبول ہوئى كه نہيں۔ جو لوگ ايسا كريں گے ان كے متعلق اميد ہے كه الله تعالى انہيں معاف كردے گا اور ان كے درجات بلند كرے گا۔
يہى رويه سلف سے منقول ہے۔ وه خود كو مورد الزام ٹھہراتے تھے اور دوسروں سے حسن ظن ركھتے تھے۔ امام بخارى نے الجامع الصحيح كى كتاب الايمان ميں امام حسن بصرى كا يه قول نقل كيا ہے كه نفاق سے صرف مؤمن ڈرتا ہے، اور نفاق سے صرف منافق نڈر ہوتا ہے۔ نيز ابن ابى مليكه كى يه روايت نقل كى ہے كه ميں نے تيس صحابۂ كرام كو پايا ہے، ان سب كو اپنے متعلق نفاق كا انديشه تھا۔ حضرت عمر بن الخطاب رضي الله عنه جيسا جليل القدر صحابى بھى ڈرتا تھا كه كہيں ميرے اندر نفاق تو نہيں۔ نيز حضرت عمر بن الخطاب رضي الله عنه سے مروى ہے كه اگر آسمان كا منادى اعلان كرے كه صرف ايك شخص جہنم ميں جائے گا تو مجھے ڈر ہوگا كه كہيں وه شخص ميں نه ہوں۔
حضرت حسن بصرى سے پوچھا گيا كه آپ اس قدر كيوں روتے ہيں؟ فرمايا كه مجھے ڈر ہے كه كہيں كل مجھے جہنم ميں نه ڈال ديا جائے۔ امام ذہبى نے سير اعلام النبلاء ميں بكر المزنى كا يه قول نقل كيا ہے كه “اگر عرفات ميں ميں نه ہوتا تو كہتا كه سب كى مغفرت ہوگئى” يعنى وه شدت خوف سے خود كو مغفرت كا اہل نہيں سمجھتے تھے۔
اگر اس موضوع پر سلف كے احوال واقوال جمع كئے جائيں تو پورى جلد تيار ہو جائے۔ خلاصه ان سارى باتوں كا يه ہے كه سلف صالح عام مسلمانوں كے ساتھ حسن ظن ركھتے تھے، اور اپنے اوپر نفاق وكفر كا انديشه ركھتے تھے۔ يہى وه طريقۂ سنيه ہے جسے زنده كرنے كى ضرورت ہے۔ ہم مسلمانوں كے ساتھ اچھا گمان ركھيں، اور خود كو مورد الزام ٹھہرائيں، الله تعالى ہميں اپنے گناہوں كى بصيرت دے، اپنى فكر كرنے والا بنائے، توبه وانابت كى توفيق دے، اور تمام مسلمانوں كے لئے خير خواہى كرنے والا بنائے، آمين۔
————————————————————————————————————
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، عالمی شہرت رکھنے والے ممتاز اسکالر اور السلام انسٹی ٹیوٹ برطانیہ کے سربراہ ہیں۔
(3) Shaykh Mohammad Akram Nadwi (Official) | Facebook
(3) Shaykh Mohammad Akram Nadwi (Official) | Facebook
کمنت کیجے