مُحمد شعیب احمد
اعترافِ خطا و قصور کا اسوۂ آدم علیہ السلام:
نسلِ انسانی کا آغاز جس ہستی سے ہوا وہ ہستی انسانِ اول نبئِ اول تھی۔ آغازِ سفرِ نسلِ انسانی پوری روشنی اور نور میں (In Complete Light) ہوا۔
This Human Voyage is from Light towards Darkness not otherwise
“اناعرضنا الامانتہ” کے جواب میں جب سب سموات و الارض والجبال بھی “ناں” کہہ چکے تھے تو اسی “ظلوما جھولا” انسان نے اُس امانت کا بار اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانے کے لیے “ہاں” کہہ ڈالا تھا۔
آسماں بارِ امانت نتوانست کشید
قرعہ فال بنامِ من دیوانہ زدند
انسان ہی کو یہ شرف حاصل ہے کہ حق تعالی نے اس کی تخلیق اپنے ہاتھوں سے کی اور اس خاکی پتلے میں “و نفخت فیہ من روحی” سے حیات پھونکی۔ اسے علمِ اسماء کلھا سے مزیّن کرکے ملائکہ کے سامنے پیش کیا اور ملائکہ سے علمِ اسماء کے متعلق استفسار کیا ، جواب سے عاجز ملائکہ ،
“لا علم لنا الا ماعلمتنا” کہہ کے عدمِ علم کے معترف ہوئے تو آدم علیہ السلام نے بتایا جو انہیں العلیم نے سکھایا تھا۔ ملائکہ کو سجدہ ریزی کا حکم صادر ہوا سب سجدہ ریز ہوئے الا ابلیس۔ خلافتِ ارضی کے لیے چُنیدہ آدم عہ سے خطائے اجتہادی ہوئی اور جنت سے خروج ہوا۔
حُکمِ “ھبط” آدم کو بھی ملا اور ابلیس کو بھی لیکن آدم عہ کو ملا “خلیفتہ اللہ فی الارض” اور “کرمنا بنی آدم” جیسی عظمتوں کے ساتھ اور ابلیس کو ملا “لعنتہ الی یوم الدین” اور “انك رجیم” کی ذلتوں کے ساتھ یعنی آدم عہ اُترے “خلافتِ ارضی” اور “کرّمِیّت” کے ساتھ اور ابلیس اُترا “لعنتِ ابدی” اور “رجیمیّت” کے ساتھ۔
ایک خطا آدم عہ کی اور ایک خطا ابلیس کی اور صدورِ نفسِ خطا میں دونوں ظاہراً مشترک ناں کہ حقیقتاً لیکن ایک کو اجتبائیت اور کرمیت سے نوازا گیا اور ایک کو لعنتہ الی یوم الدین کا مژدہ سنایا گیا۔
اُس کا سبب سوائے اس کے کیا تھا کہ “آدم” کا “آدمی طرزِ عمل” تھا یعنی اعترافِ قصور ، جس کا اظہار کیا “ربنا ظلمنا انفسنا” کہہ کر اور “ابلیس” کا “ابلیسی طرزِ عمل” تھا جس کا اظہار کیا “انا خیر منہ” کہہ کر۔ ایک تو عدمِ اعترافِ قصور اور اس پر مستزاد یہ کہ “ابی واستکبر” کے بعد مصداق بنا ایک کریلا اور دوسرا نیم چڑھا کا۔ ایک راہِ محبوبیتِ الہیہ ہے اور ایک راہِ مغضوبیتِ الہیہ۔
خطائے آدم پر تو انسان کی نگاہ جاتی ہے لیکن اُس سے آگے نہیں بڑھ پاتی ، جہاں حق تعالی نے یہ فرمایا کہ “عصی ادم ربہ فغوی” اس سے اگلی آیت میں یہ بھی تو فرمایا ہے کہ “ثم اجتبہ ربہ فتاب علیہ وھدی”۔
دیکھیے حق تعالی معصیتِ آدم کے بعد اجتبائیتِ آدم کا ذکر فرمارہے ہیں اور فسقِ ابلیس کے بعد رجیمیتِ ابلیس کا ذکر فرمارہے ہیں۔ “عصی” اور “غوی” تو بنی آدم کے خمیر میں ہے لیکن اجتبائیت کی راہ “عصی” اور “غوی” کو کچلنے سے نہیں بلکہ “ربنا ظلمنا انفسنا” کے اعتراف سے کھلتی ہے اور رجیمیت کی راہ
“اناخیر منہ” اور “ابی واستکبر” سے ہموار ہوتی ہے۔
اگرچہ خطاً تو دونوں مشترک ہیں تو کون سی ایسی بات ہے جس کی بدولت دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے وہ بات ہی اصلِ بندگی ہے ، وہی کیمیا ہے قلوب کی ، وہی نسخۂ جراحتِ دل ہے۔
وہ “کیمیا” ، وہ “نسخہ” ہے اعترافِ قصور ، اعترافِ ذنوب ، اعترافِ نقص ، اعترافِ تقصیر اور اعترافِ خطا کا۔
دیکھیے حق تعالی نے فرعون کے لیے “انہ طغی” فرمایا اور آدم عہ کے لیے “فغوی”۔ وہاں “فغوی” کے بعد “اجتبائیت” ہے لیکن اُس کےبیچ اعترافِ قصور و ذنوب بھی ہے جو سبب ہے اجتبائیت کا اور فرعون کے معاملہ میں “طغی” ہی “طغی” ہے بیچ میں کہیں اعترافِقصور و ذنوب نام کو بھی نہیں ہے اسی لیے “اجتبائیّت” کی جگہ “غرقیّت” ہے۔
جہاں تک معصیت کا تعلق ہے تو ذوقِ معصیت تو انسان کے خمیر میں ہے جس کا اظہار “کلھم خطاؤن” کہہ کر کردیا گیا تو مسئلہِ بنی آدم “خطا” نہیں “قصور” نہیں بلکہ عدمِ اعترافِ خطا و قصور ہے۔ خطائیں تو ہم سے ہوتی ہی رہیں گی تو اعترافِ خطا و قصور کرکے ہم کیوں ناں حق تعالی کے ہاں اجتبائیت اور محبوبیت کا درجہ پالیں۔
آج بھی حق تعالی وہی کے وہی ہیں وہ بدلے نہیں ہیں ، “لن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا” کا وعدۂ الہی ہے جس کا تخلف محال ہے۔
اعترافِ خطا و قصور کا اسوۂ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم:
اسی اعترافِ قصور اور مغفرت طلبی کا درسِ عملی حاملِ علم الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔
رحمان کے سامنے دن میں ستر ستر مرتبہ سو سو مرتبہ استغفار کا ، اعترافِ قصور و ذنوب کے ساتھ مغفرت طلبی کا جس ہستی نے مستقل وظیفہ رکھا وہ وہی تو ہیں جن کے لیے “لیغفرلك اللہ ما تقدم من ذنبك و ما تاخر” کا مُژدۂ راحت فزا اُتارا گیا ، جو معصوم عن الخطا اور شفیع المذنبین ہیں۔
انسان کے سامنے اعترافِ خطا کا اسوۂ مُحمدی صلی اللہ علیہ وسلم کہ آج بدلہ لے لو کسی کا مالی یا بدنی جو بھی دَین میرے ذمہ ہے لے لو،
میں اپنے اللہ کے پاس کوئی بوجھ لے کر نہیں جانا چاہتا یہ کہنے والے وہ ہیں جو “وما یفعل عن الھوی” تو درکنار “وما ینطق عن الھوی” کی سند پائے ہوئے ہیں۔ وہ ہستی جو قاسمِ نعمائے ظاہری و باطنی ہے ، برزخِ کُبری ہے ، وما ارسلنك الا رحمتہ اللعالمین جیسے منصبِ جلیلہ و عظیمہ پر فائز ہے اُس سراجا منیرا اور نور مبین نے کیسا درسِ عملی دیا۔ محض درسِ قولی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ درسِ عملی سے اس عمل کی اہمیت کو قلوب میں کس قدر جاگزیں کردیا۔
اسی رنگِ مُحمدی کو صحابہ نے کیسا جذب کیا اور اُن کی حیوةِ طیبہ و مطہرہ سے کس قدر یہ رنگِ اعترافِ قصور و ذنوب حق تعالی کے سامنے بھی اور مخلوق کے سامنے بھی منعکس ہوا اور منعکس ہوتا چلا جارہا ہے۔ پہلے عملِ انجذاب ہوا اور پھر عملِ انعکاس جاری ہے۔
دلِ بیدار فاروقی دلِ بیدار کرّاری
مسِ آدم کے حق میں کیمیا ہے دِل کی بیداری
“وحئ رب” یا “وحئ مغرب” !
آج کا مسلمان بھی اگر اس روشِ آدم اور اُسوۂ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرلے تو فلاحِ حقیقی ، طمانیت و بردِ قلبی ، حیوةِ طیبہ ،
حُریّتِ کاملہ (Total Freedom) ، اجتبائیتِ الہیہ اور محبوبیتِ الہیہ کو پالے گا لیکن آج مسلمانوں نے جو راہ اختیار کرلی ہے اُس راہ پر آگے بڑھنے والا ہر قدم اُنہیں راہِ صواب سے دُور کرنے والا ہے اور
مغربیت کے غلبہ کی وجہ سے وہ “وحئِ رب” کی بجائے “وحئِ مغرب” کے منتظر رہتے ہیں اور “تجلیاتِ مغرب” نے ان کی آنکھوں کو اس قدر خیرہ کردیا ہے کہ “تجلیاتِ رب” ان سے اوجھل ہوگئی ہیں اور ہوتی چلی جارہی ہیں۔
اقبالی تشخیصِ مرض بھی سنیے
ہر دل مئے خیال کی مستی سے چور ہے
کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طور ہے
اور علاجی تجویز “علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے تیرا” پر بھی کان دھریے کیونکہ “مئے مغرب” نے “دل کے ہنگامے” خاموش کر دیے ہیں ، ان ہنگاموں کو پھر سے
بیدار کرنے کے لیے ہم ساقئِ ازل سے ملتجی ہیں کہ “لا ساقی شرابِ خانہ ساز”۔
فلسفیوں اور سائنسدانوں کی تعلیمات پر “ایمان بالغیب” !
آج ان فلسفیوں اور سائنسدانوں کی جانب سے آنے والی باتوں پر “ایمان بالغیب” لانا ایک فخریہ طرزِ عمل ٹھہرایا جارہا ہے اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر “ایمان بالغیب” کو دقیانوسیت اور backwardness کہا جارہا ہے۔
سوائے اس کے کیا کہوں کہ
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلی نظر آتا ہے
رینے گینوں Rene Geunon نے تو ان مغرب زدہ فلسفیوں کو ، جن کے اوہامِ باطلہ پر صرف “ایمان بالغیب” ہی نہیں لایا جارہا ہے بلکہ اُس کی برملا تبلیغ بھی کی جارہی ہے ، عقلی چندھے پن Intellectual Myopia کا شکار کہا تھا اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ عقلی موتیا نہیں بلکہ یہ Intellectual blindness کا شکار ہیں اور حق تعالی نے ایسوں ہی کو “قوما عمین” فرمایا ہے۔
ایک طرف آج کے مسلمانوں کی حالت ہے اور ایک وہ تھے جنہوں نے غلامئِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کبھی قیصر و کسری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھیں اور اپنی درویشی سے ان کی سلطانی کو خاک میں ملا دیا تھا ، اُن پاکیزہ نفوس اور انقلابیوں کو جو کچھ حاصل ہوا تھا وہ متابعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا اور ہم سے جو کچھ چھین لیا گیا وُہ عدمِ مُتابعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے چھین لیا گیا۔
حق تعالی تک جانے والے سارے راستے مسدود ہیں اور اگر کوئی راستہ جاتا ہے تو درِ مُحمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے گزر کر جاتا ہے۔
تُو اے مولائے یثرب!آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُناری
آئیے ہم مل کر حق تعالی سے حق کو حق اور باطل کو باطل دکھانے کی بھیک مانگیں
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ
—————————————————————
ماشاءاللہ بہت خوب انتخاب ہے۔اللہ پاک حضرت کو قائم دائم رکھے ۔ آمین ثم آمین
آمین ثم آمین۔
جزاک اللہ
یہ وہ(شعیب صاحب)خورشید ہےجو جلتا تو شاید پچھلی کئی دہائیوں سے آ رہا ہے مگر منظر عام پر اب آیا ہے اور اس سے چھوٹے چھوٹے کئی ستارے ضیاء پا رہے ہیں، اور یہ آفتاب اب جلتا رہے گا
انشاءاللہ
جزاکاللہ سرجی۔ الحمدللہ اعترافِ قصور اب دل میں جذب ہو گیا ہے۔
اللہ پاک حضرت کی حفاظت فرمائے
آمین ثم آمین