ایرانی کردستان کی مہسا امینی کا ڈھیلا ڈھالا حجاب اس کے لیے پروانۂ اجل بن گیا جب تہران میں گشت ارشادی یعنی ’اخلاقی‘ پولیس نے درست پوشی کی خلاف ورزی پر اسے گرفتار کیا۔ ریاستی تحویل میں تشدد سے اس کی موت نے ایران کی فرقہ پرست سیاسی ملائیت کے بے پایاں جبر کو بالکل بے نقاب کر دیا ہے۔ ریاستی جبر کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک سیکڑوں لوگ گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ مہسا امینی کی مظلومانہ موت پر احتجاج کرتے ہوئے ایرانی خواتین نے حجاب کو نذرِ آتش اور اپنی زلفوں کو نذرِ مقراض کیا ہے۔ اب یہ چیز بھی سامنے آ رہی ہے کہ راہ چلتے لوگ ہاتھ مار کر علما کی دستاروں کو گرانا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ احتجاج ایران کے بڑے شہروں کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے کا قیام انقلاب کا یقیناً بڑا مقصد تھا لیکن اسلامی معاشرہ بننا تو کجا ایران ایک بارود خانہ بن چکا ہے جو چنگاری سے بھسم ہونے کو ہے۔ سعودی عرب اور کئی دیگر ممالک میں سامنے آنے والے سیاسی جبر کی نوعیت بھی اسی طرح کی ہے کیونکہ جدید مذہبی سیاسی فکر کی کل معنویت سوائے جبر کے اور کچھ نہیں۔
ایک ایسی دنیا میں جو مذہب اور ریاست کی مکمل علیحدگی پر قرار پکڑ چکی ہے اور جہاں حریت اور آزادی جدید انسان کی سب سے بڑا آرزو اور آدرش ہے، وہاں مذہب کو سیاسی جبر کا آلہ اور ذریعہ بنانا مذہب ہی کے خاتمے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ انسانی فطرت جبر اور ظلم کو قبول نہیں کرتی اور ان کے خلاف لڑتے ہوئے جوازی افکار کو بھی رد کر دیتی ہے۔ انسانی معاشروں میں عریاں طاقت کا قیام تادیر ممکن نہیں ہوتا کیونکہ سیاسی طاقت اپنی تمام اوضاع (forms) کو افکار اور قانونی اعمال سے جواز فراہم کرتی ہے۔ جدید عہد کی تمام تبدیلیاں معاشی پیداواری عمل اور نئی سیاسی اوضاع کے ذریعے سامنے آئی ہیں۔ جدید پیداواری عمل اور سیاسی اوضاع بالکل نئے تصورات سے وجود پذیر ہوئی ہیں اور جو اپنی نہاد میں مذہب سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ جدیدیت کی پیداکردہ معاشی اور سیاسی اوضاع (forms) کے محض ظاہر کو بنیاد بناتے ہوئے ان سے مذہب کی نسبتیں قائم کرنا سیکولرائزیشن کا طریق کار ہے اور آخرکار مذہب ہی کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔ اوضاع، فکر سے خاص ہوتی ہیں، یعنی ہر فکر، قانونی حکم، وجودی بیان یا علمی تصور اپنی اوضاع خود پیدا کرتا ہے جو اسی سے خاص ہوتی ہیں۔ علم اور عمل میں جدیدیت کی پیداکردہ اوضاع بالکل نئی ہیں اور اسی سے خاص ہیں۔ بنیادی تصورات سے چشم پوشی کرتے ہوئے، اسلام کو جدیدیت کی متداول اور فعال اوضاع میں ڈھالتے چلے جانا اس کے خاتمے کی تزویرات ہیں، اسی تناسب سے مذہب فرد اور معاشروں سے غائب ہوتا چلا جاتا ہے۔
اس موقعے پر کچھ بنیادی سوالات اٹھانا ضروری ہے۔ عصر حاضر میں بنیادی اہمیت کا سوال یہ ہے کہ ’سیاسی‘ (the Political) سے کیا مراد ہے؟ مغرب نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ انسانی شعور، فرد کے نفسی احوال، ارادے کی حرکیات اور اس کے عملی نتائج سب کے سب ’سیاسی‘ ہیں۔ مغرب کے علمی مباحث میں
All text is pollitical. All human praxis is political. Private is political.
وغیرہ جیسے دعاوی بالکل عام ہیں اور جدل کا میدان ہیں۔ مغربی تہذیب میں ’سیاسی‘ کی جو معنویت اور تعبیر سامنے آئی ہے اس سے مراد ہے کہ انفس و آفاق کا کوئی جز، کوئی حصہ، کوئی علاقہ غیرسیاسی نہیں ہے، ’سیاسی‘ ہے، اور ’سیاسی‘ کی منتہائی تشکیل ریاست ہے یعنی جدید انسان کافۃً ریاست کے تابع ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسانی انفس و آفاق کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جو جدید ریاست کی عملداری سے باہر ہو۔ کوئی تصور، کوئی لفظ، کوئی حال، کوئی عمل جدید ریاست کی دسترس سے خارج نہیں ہے۔ آزادی کے جدید تصور کا ہر معنی سیاسی ہے، اور آزادی کا تحقق صرف ریاست کی سیاسی اور قانونی شرائط پر ڈھل کر ہی ممکن ہے۔
اجرام پرستی (Paganism) انسان سمیت فطری اجرام میں اوتار کو دیکھتی اور مانتی ہے۔ جدیدیت اجرام پرستی (Paganism) ہی کی ایک شکل ہے جیسا کہ ریاست کے بارے میں ہیگل کے قول سے ظاہر ہے کہ
Modern State is the march of God on earth.
یعنی جدید ریاست زمین پر خدا کا متحرک اور فعال اوتار ہے۔ جدید سیاسی فکر میں جدید ریاست کو استثنا کی ریاست یعنی (State of Exception) بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ریاست اگرچہ خدا کی جگہ لے چکی ہے اور یہ بالعموم ’انسانی‘ وسائط میں کام کرتی رہتی ہے۔ لیکن جدید ریاست اپنے انسانی وسائط سے کسی وقت بھی استثنا اختیار کر کے پھر سے خدا بن سکتی ہے اور خدائی رویہ اختیار کر سکتی ہے۔ یعنی یہ کسی وقت بھی انسانی چہرہ جھاڑ کر اوتار بن جاتی ہے۔ استثنا یا اوتاری حالت میں جدید ریاست کسی بھی انسانی تحدید کی پابند نہیں ہے اور ایمرجنسی کی صورت میں وہ ہر قانون سے ماورا ہے اور صرف اپنی حاکمیت اعلی (ساورنٹی) کو ہی بروئے کار لاتی ہے اور خدا کی طرح کسی کے سامنے جوابدہ بھی نہیں ہے۔ اس وقت ایران میں بھی جدید ریاست ایک State of exception کے طور پر کام کر رہی ہے، اور مذہب کو محض جوازِ جبر کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہمارے ہاں بھی اجتماعی امور یعنی سیاسی، معاشی، ثقافتی اور علمی معاملات میں ترکِ شریعت کے بعد ایک جعلی فکر اسلامی کو فروغ دیا گیا، اور یہ فکر بھی کفار کی طرح اسلامی معاشرے کی ہر چیز کو ’سیاسی‘ سمجھتی ہے، اور اس کے ہر پہلو کو ریاستی تحویل میں لانے کا موقف رکھتی ہے۔ جدید مذہبی سیاسی فکر میں آزادی اور عدل کے تصورات، محالات میں سے ہیں۔ اور جدید مذہبی سیاسی فکر جدید دنیا کی دو اساسات یعنی سائنسی علم کی بنیاد پر سامنے آنے والا پیداواری عمل اور اس کی پاسبان جدید ریاست سے مکمل ترین حالت انکار میں ہے۔ جدید مذہبی سیاسی فکر کو صرف جبر کے جواز کے طور پر برتا جا سکتا ہے۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کی شکل میں قائم ہونے والی سیاسی ساخت یا جدید معنوں میں technology of governance یعنی فرمانروائی کی ٹیکنالوجی عبادات، مکارم الاخلاق، معاملات اور تقویٰ کے نفاذ کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں؟ کفار کے تتبع میں جدید مسلم مفکرین اس کے والہ و شیدا ہیں، اور سیاسی طاقت کی بنیادی ذمہ داری یعنی قیامِ عدل اور معاشی انصاف کی بات بھی نہیں کرتے اور تقویٰ کے ”نفاذ“ پر مصر ہیں۔ قیام عدل اس لیے ضروری ہے کہ مسلم معاشرہ ان تاریخی مؤثرات سے آزاد ہو جائے جو عبادات، مکارم الاخلاق اور تقویٰ پر مخاصمانہ اثرانداز ہوتے ہیں اور ان کے تحقق میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ عبادات اور تقویٰ وغیرہ تو دور کی بات ہے، جدید ریاست اجتماعی شرعی تعلیمات کے نفاذ کی حرکیات کو بھی سامنے لانے کی استعداد نہیں رکھتی، یعنی سود کا خاتمہ، زکوۃ کی معیشت، حدود کا اجرا، نماز کے نظام کا قیام اور جہاد کا اعلان۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بشمول جدید ریاست طاقت کی تمام جدید اوضاع (forms) جدیدیت کی پیدا کردہ ہیں اور اسی کے افکار سے مطابقت رکھتی ہیں۔ جدید ریاست جدید پیداواری عمل کے گرد بننے والے تنظیمی سانچے پر بنائی گئی ہے اور یہ معاشی استحصال، سودی نظام کے قیام اور ظلم کی ادارہ جاتی تشکیل سے ہی مطابقت رکھتی ہے۔ اپنی فعال اور واقعاتی حرکیات میں جدید ریاست اسلام کی اجتماعی اقدار سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ خلاصہ یہ کہ تقویٰ کا براہِ راست تعلق حریت انسانی سے ہے جبکہ اجتماعی عدل براہِ راست ایک سیاسی مسئلہ ہے۔
جدید ریاست ایک فعال ساختیاتی نظام ہے یعنی مستقل وجود اور عمل ہے، لیکن یہ آزادی اور حریت کے ایسے جڑواں سیاسی تصورات رکھتی ہے جو معمولاً اسے ممکن بناتے ہیں۔ مسلمان معاشروں میں جدید ریاست اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ موجود تو ہے، حریت اور آزادی کا مسلم تصور کہیں موجود نہیں ہے۔ افکارِ حریت کی عدم موجودگی نے مسلم معاشروں میں سیاسی جبر کو ایک معمول بنا دیا ہے۔
کمنت کیجے