چوہدری شجاعت حسین مشہور سیاسی شخصیت اور وطن عزیز کے سابق وزیر اعظم ہیں۔ انہوں نے محمد اصغر عبداللہ سے اپنی یاداشتوں کو قلمبند کروایا ہے۔ جس کو فیروز سنز نے “سچ تو یہ ہے! ” کے نام سے شائع کیا ہے۔
کتاب کے پیش لفظ میں چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ انہوں نے کسی فرد یا ادارے کی تضحیک سے حتی الامکان اجتناب کیا ہے۔ اور ساتھ اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ اس کتاب میں درج باتیں سچ پر مبنی ہیں۔اس کتاب کا انتساب چوہدری صاحب نے اپنے تایا زاد چوہدری پرویز الٰہی کی طرف کیا ہے۔ جن کو چوہدری صاحب نے اپنا دوست، بھائی اور سیاسی ہم سفر کہا ہے۔ چوہدری برادران کا اتحاد و اتفاق مثالی تھا مگر اپریل میں آپریشن رجیم چینج کے بعد ان کے سیاسی راستوں میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں اور اس میں زیادہ کردار ان کی اولاد کا ہے۔
چوہدری صاحب نے زیادہ تر واقعات بیان کیے ہیں اور بتایا ہے کہ ۱۹۵۸ کے مارشل لاء کے وقت ان کے والد چوہدری ظہور الٰہی کو فوجی حکومت نے گرفتار کیا۔ چوہدری ظہور الٰہی پر الزام تھا کا انہوں نے میونسپل کمیٹی کی زمین پر قبضہ کیا ہے۔ اس پر ان کے گھر کی دیوار گرا دی گئی مگر بعد میں یہ مقدمہ جھوٹا ثابت ہوا تو حکومتی خرچے پر وہ دیوار دوبارہ تعمیر ہوئی۔
اپنے والد کے قتل کے بارے میں چوہدری صاحب نے بتایا ہے کہ وہ اس روز گلبرگ لاہور میں دوست کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے کہ انہیں حملے کی اطلاع ملی۔ چوہدری ظہور الٰہی کا قاتل رزاق عرف جھرنا کا تعلق الذوالفقار کے ساتھ تھا۔ اس کے ساتھ اپنی ملاقات میں چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ اس نے ناصرف بڑے پراعتماد طریقے سے قتل کا اعتراف کیا بلکہ ساتھ اس کو یہ بھی یقین تھا کہ اس کو چھڑا لیا جائے گا۔ اس بات کی تصدیق راجہ انور نے بھی کی ہے کہ الذوالفقار کے مسلح افراد کو یہ یقین دہانی کرائی جاتی تھی کہ ان کی تنظیم ان کو جیل سے رہا کروا لے گی۔ ویسے راجہ انور کے مطابق چوہدری ظہور الٰہی کا قتل بھی اتفاقی تھا کیونکہ الذوالفقار کا اصل نشانہ جسٹس مولوی مشتاق تھے جو اس ہی گاڑی میں چوہدری ظہور الٰہی کے ساتھ تھے
چوہدری ظہور الٰہی کے قتل کے بعد سیاست اور خاندان کی دیکھ بھال ان کے بڑے بھائی چوہدری منظور الہی جو کہ چوہدری پرویز الٰہی کے والد تھے نے کی۔ چوہدری شجاعت بھی اپنے والد کے قتل کے بعد مکمل طور پر عملی سیاست میں آئے۔
چوہدری شجاعت نے اپنے خاندان کے بارے میں بتایا ہے کہ ان کا جدی پشتی گاؤں نت وڑائچ ہے۔ اپنے پردادا چوہدری حیات محمد خان کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ علم دوست شخصیت تھے جن کا تصوف سے گہرا لگاؤ تھا ،چوہدری صاحب نے اپنے دادا چوہدری سردار خاں کو بھی علم دوست بتایا ہے۔
اپنے کاروبار کے بارے میں بتاتے ہیں کہ تقسیم سے قبل ان کے تایا چوہدری منظور الہیٰ کی امرتسر میں کھڈیاں تھیں۔ تقسیم کے بعد یہ کاروبار چھوڑ کر وہ پاکستان آئے۔ چوہدری شجاعت تو پہلے پاکستان آ چکے تھے جبکہ پرویز الٰہی آخری محفوظ ٹرین میں پاکستان پہنچے۔ چوہدری ظہور الٰہی پولیس میں تھے مگر جلد ہی انہوں نے نوکری چھوڑ دی اور اپنے بھائی کے ساتھ کاروبار میں لگ گئے۔ پاکستان میں انہوں نے گجرات اور منڈی بہاوالدین میں پاور لومز لگائے۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے پہلے لیلن جو اب بریزے کہلاتی ہے کو پاکستان میں سب سے پہلے انہوں نے متعارف کرایا۔ ان کا خاندان جلد ہی پنجاب کا ایک بڑا کاروباری خاندان بن کر ابھرا۔
چوہدری صاحب نے اپنے والد چوہدری ظہور الٰہی کی سیاسی زندگی کے بارے میں بھی لکھا ہے اور سب سے پہلے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ ان کے والد کی عملی سیاست میں آمد ایوب خان کی مرہونِ منت ہے اور بتایا ہے کہ ان کے والد اس سے پہلے سیاست میں تھے۔ایوب دور میں چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف ایبڈو کے تحت کاروائی بھی ہوئی جس کو انہوں نے چیلنج کیا یہ ان تین سیاستدانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اس قانون کو چیلنج کیا، اس قانون کے تحت مقدمہ کے لیے وکیل کی اجازت نہیں تھی لہذا چوہدری ظہور الٰہی نے اپنا مقدمہ خود لڑا اور کامیابی سے اپنے آپ کو الزامات سے بری کروایا ۔
چوہدری ظہور الٰہی بعد میں مسلم لیگ کنونشن میں شامل ہوئے اس وقت بھٹو صاحب پارٹی کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل جبکہ چوہدری ظہور الٰہی پارلیمانی پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے۔
چوہدری ظہور الٰہی کی نواب آف کالاباغ سے پہلے بہت دوستی تھی جو بعد میں مخالفت میں تبدیل ہو گئی اور نواب آف کالا باغ نے چوہدری صاحب پر جھوٹے مقدمات قائم کیے ان کے انتخابات پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش کی مگر چوہدری ظہور الٰہی ڈٹے رہے۔
چوہدری ظہور الٰہی اور ذوالفقار علی بھٹو کے تعلقات کے بارے میں بتایا ہے کہ ان میں بھی شروع میں دوستی تھی۔ بھٹو صاحب کا نام کنونشن لیگ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر چوہدری صاحب نے پیش کیا۔ بعد میں دونوں نے کنونشن لیگ چھوڑ دی۔ جب بھٹو صاحب نے اپنی پارٹی بنائی تو ان کی خواہش تھی کہ چوہدری ظہور الٰہی اس کے تاسیسی رکن بنیں مگر چوہدری ظہور الٰہی نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے سے معذرت کر لی۔
ستر کے انتخابات میں چوہدری ظہور الٰہی نے مسلم لیگ کونسل کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا جس کا انتخابی نشان لالٹین جبکہ ان کے مقابلے میں قیوم لیگ کے نواب اصغر علی خان تھے جن کا انتخابی نشان شیر تھا۔
لالٹین فاطمہ جناح کا بھی انتخابی نشان تھا مگر چوہدری شجاعت نے یہ نہیں بتایا کہ اس انتخاب میں ان کا گھرانہ کس طرف تھا۔ حالانکہ ان کے والد کنونشن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے تو پھر یقیناً انہوں نے ایوب خان کا ساتھ دیا۔ چوہدری صاحب اگر اس کا ذکر کر دیتے تو کم از کم اپنی شروع میں سچ لکھنے والی بات کا پاس رکھ لیتے۔ اگر انہیں احساس ہوا کہ اس الیکشن میں ان کا گھرانے درست سمت نہیں تھا تو اس کا اعتراف کرنے میں کیا ہرج ہے۔
ستر کے انتخابات کے بعد کی صورتحال پر چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب اپوزیشن میں بیٹھنے کو تیار نہیں تھے حالانکہ وہ پانچ میں سے فقط دو صوبوں میں جیتے تھے۔ دوسری جانب یحییٰ خان کی کوشش تھی کہ وزیر اعظم کوئی بھی بنے مگر صدر کے عہدے پر انہیں رہنا چاہیے۔ بھٹو صاحب اور یحییٰ خان کی لاڑکانہ میں ملاقات کا بھی ذکر کیا ہے جس نے حالات کو مزید بگاڑ دیا۔
چوہدری شجاعت کہتے ہیں کہ ان کے والد نے بھٹو صاحب کو پیشکش کی کہ اگر وہ اپوزیشن میں بیٹھنے پر راضی ہو جائیں اور اقتدار مجیب الرحمٰن کے سپرد کر دیں تو وہ بھی اپوزیشن بنچوں پر بھٹو صاحب کے ساتھ ہوں گے۔
اکہتر کے سانحہ کے روز چوہدری صاحب پنڈی میں ایک ہوٹل پر ٹی وی پر یحییٰ خان کی تقریر سن رہے تھے جس میں آخری دم تک لڑنے کا عزم تھا جبکہ دوسری جانب بنگال میں موجود ساجد حسین چھٹہ جو فوجی افسر تھے نے ان کو بتایا کہ سرینڈر کا آرڈر آ گیا ہے۔چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ یحیی خان کے قول و فعل کے تضاد کو دیکھ کر ان کا جی چاہا کہ جوتا اٹھا کر ٹی وی سکرین پر ماروں،جس کے نہ مارنے کا انہیں بعد میں بھی افسوس تھا
بھٹو صاحب کے طرزِ سیاست پر بات کرتے ہوئے چوہدری صاحب نے بتایا کہ ان کو حزب اختلاف کا ذرا سا وجود بھی گوارا نہ تھا۔ بھٹو دور میں چوہدری ظہور الٰہی اور ان کے خاندان کو سو کے قریب مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ان میں بھینس چوری ، عراقی اسلحہ اور باغیانہ تقرر والے مقدمات کو خصوصی طور پر چوہدری صاحب نے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ عراقی اسلحہ والے مقدمے میں بھٹو حکومت چوہدری ظہور الٰہی کو بلوچستان میں مروانے کا ارادہ کر چکی تھی مگر اکبر بگٹی نے ملک غلام جیلانی (عاصمہ جہانگیر کے والد) کو اس منصوبے کا بتا دیا اور بھٹو صاحب کے اس منصوبے میں رکاوٹ بن گئے اور بھٹو صاحب کو پیغام بھیجا کہ وہ کوئی اجرتی قاتل نہیں ہیں۔
بھٹو صاحب کے دور میں چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی بھی گرفتار ہو کر جیل گئے۔
بھٹو صاحب کی حکومت نے مالی طور پر چوہدری ظہور الٰہی کے خاندان کو نقصان پہنچایا اور ان کی ملوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا ان کے زمینوں پر قبضہ بھی ہوا مگر چوہدری صاحب کہتے ہیں ان انتقامی کارروائیوں سے انہیں بعد میں فائدہ ہوا کیونکہ اس زمین پر حکومت نے کچھ ترقیاتی کام کروائے تو جب اس زمین کا فیصلہ چوہدری خاندان کے حق میں آیا ان کا معاوضہ بھی حکومت کو نہ ملا ۔ اس مقدمہ بازی میں دس سال تو لگ گئے مگر جو زمین دس سال پہلے پانچ سو روپے مرلہ تھی اب اس کی قیمت کئی لاکھ مرلہ ہو گئی تھی۔ بھٹو حکومت کے خاتمے پر سرکاری تحویل میں لی گئی فلور ملز بھی چوہدری خاندان کو واپس مل گئیں ۔
بھٹو صاحب کے دور میں چلی تحریک ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں چوہدری صاحب نے لکھا ہے کہ اس میں ان کے والد نے بھرپور حصہ لیا اور بتایا ہے کہ اس تحریک سے ان کو اور چوہدری پرویز الٰہی کو بھی بہت انسیت ہے۔
چوہدری صاحب نے اپنے خاندان کے ولی خان اور باچا خان کے ساتھ قریبی تعلقات کا ذکر کیا ہے۔ جب بھٹو دور میں نیپ پر پابندی لگی اور ولی خان کو غدار کہا گیا تو چوہدری ظہور الٰہی نے ولی خان کے حق میں بات کی اور اس کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے ایک جلسے میں کہا کہ اگر ولی خان غدار ہے تو پھر میں بھی غدار ہوں۔ ولی خان بعد میں بھی چوہدری صاحب کی عزت کرتے تھے اور ان کے ڈرائنگ روم میں واحد پنجابی سیاست دان جس کی تصویر لگی ہے وہ چوہدری ظہور الٰہی تھے۔
باچا خان کے بارے میں بتایا ہے کہ ان کا رہن سہن بہت سادہ تھا انہوں نے لاہور میں چوہدری ظہور الٰہی کے گھر قیام کیا تو سختی سے ہدایت کی کہ ان کے لیے کوئی خاص کھانا نہیں پکے گا اور ایک دن میں ایک ہی کھانا پکے گا ، چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے گھر ایک سے زیادہ کھانے پکتے تھے ہمیں مشکل پیش آئی۔
چوہدری صاحب نے اپنے والد کے استاد دامن اور حبیب جالب سے قریبی تعلق کا بھی ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ جالب نے محترمہ فاطمہ جناح کے علاوہ فقط چوہدری ظہور الٰہی کی مدح میں نظم لکھی۔
۷۷ کے الیکشن کے بارے میں چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ اس میں بھٹو حکومت نے بھرپور دھاندلی کی۔ گجرات میں چوہدری شجاعت ایم پی اے کا انتخاب چوہدری اعتزاز احسن کے مقابلے میں لڑ رہے تھے جس کا بعد میں قومی اتحاد نے بائیکاٹ کیا تو اعتزاز احسن بلا مقابلہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔
پی این اے تحریک میں جاوید ہاشمی ، لیاقت بلوچ ، مجیب الرحمٰن شامی وغیرہ گرفتاری سے بچنے کے لیے چوہدری صاحب کی رہائش گاہ میں ایک ماہ تک رہتے رہے۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں اس تحریک میں ان کے گھر کی خواتین نے بھی بھرپور حصہ لیا، ان کی والدہ اور بہنوں نے جلوس کی قیادت کی۔
بھٹو دور میں چوہدری خاندان نے مشکلات کا سامنا کیا تو جب ضیاء حکومت آئی تو چوہدری ظہور الٰہی ضیاء الحق کی دعوت پر عبوری کابینہ کا حصہ بن گئے۔ چوہدری صاحب نے جنرل ضیاء الحق کے اسلام سے لگاؤ اور ان کے خلوص کی تعریف کی ہے اور لکھا کہ ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ معاشرہ اسلام کے رنگ میں ڈھل جائے۔ چوہدری صاحب ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے بھی رکن رہے۔
میاں نواز شریف سے چوہدری خاندان کا پہلا تعارف ۷۷ کے انتخابات میں ہوا جب لاہور میں چوہدری ظہور الٰہی بھٹو صاحب کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے تھے تو میاں نواز شریف نے اپنے والد کی طرف سے الیکشن مہم میں فنڈ دینے کو کہا تو پرویز الٰہی نے کہا کہ ہم الیکشن کے لیے فنڈز نہیں لیتے۔
ضیاء دور میں شیخ رشید کو ایک بار باغیانہ تقریر کی پاداش میں کوڑوں کی سزا ہو گئی تو چوہدری ظہور الٰہی نے ذاتی کوشش سے ضیاء الحق سے ملاقات کر کے اس کو رکوایا۔
۱۹۸۵ کے غیر جماعتی انتخابات میں چوہدری صاحب کا گروپ اکثریت میں تھا اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے تین نام گردش کر رہے تھے۔ پہلے ملک اللہ یار خان اٹک سے، دوسرے چودھری عبدالغفور بہاولنگر سے اور تیسرے مخدوم زادہ حسن محمود رحیم یار خان سے، اس دوران میاں نواز شریف نے اپنا نام بھی فلوٹ کر دیا۔ ادھر چوہدری صاحب کے گروپ کی طرف سے جس میں خواجہ سعد رفیق کی والدہ بھی شامل تھیں کی جانب سے پرویز الٰہی کو امیدوار بنانے کا مشورہ تھا۔ اس دوران بریگیڈیئر قیوم اور جنرل جیلانی نے چوہدری صاحبان سے ملاقات کی جس میں ان کو میاں صاحب کی وزارت اعلیٰ پر راضی کیا گیا جبکہ اسپیکر اور باقی وزارتوں پر باہمی مشاورت سے فیصلہ کرنا طے پایا۔ مطلب میاں صاحب کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے میں جنرل جیلانی اور بریگیڈیئر قیوم کا مرکزی کردار تھا۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ ہماری ملاقات جاری تھی کہ شہباز شریف نے قرآن مجید پر قسم دینے کی بات کی تو چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ ہم سیاست میں قرآن مجید کو بیچ میں نہیں لاتے۔
نواز شریف کی نامزدگی باقی ارکان کے لیے بھی حیران کن تھی،ان کے شہری پس منظر کی وجہ سے خدشہ تھا کہ دیہاتی ارکان ان سے تعاون نہیں کریں گے تو چوہدری شجاعت نے صلح صفائی کرائی اور نواز شریف کی مدد کی۔ اس کے بعد سرگودھا میں چوہدری انور علی چیمہ کے گھر میٹنگ ہوئی تو وہاں پر نواز شریف کو تقریر کی دعوت دی گئی تو وہ گھبرا گئے اور چوہدری پرویز الٰہی کو درخواست کی کہ میری جگہ آپ بات کریں۔ چوہدری پرویز الٰہی کے اصرار پر میاں صاحب بمشکل دو منٹ بولے۔
چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد نواز شریف کے تیور ہی بدل گئے انہوں نے چوہدری صاحب کے گروپ میں ہی دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مشاورت کے جو وعدے ہوئے اس کو بھی میاں صاحب نے پس پشت ڈال دیا۔ میاں صاحب کے اس طرزِ عمل کے خلاف جلد ہی چوہدری برادران نے ان سے بغاوت کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے لیے پرویز الٰہی کی ضیاء الحق سے ملاقات ہوئی ، جنرل ضیاء بھی میاں صاحب کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے انہوں نے پرویز الٰہی کو عدم اعتماد پیش کرنے کا بھی کہہ دیا مگر بعد میں جنرل حمید گل کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کا فیصلہ تبدیل ہو گیا۔ جنرل حمید گل نے جنرل ضیاء الحق کو باور کروایا کہ چوہدری پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے کی صورت میں وہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے ملکر ضیاء الحق کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔ بعد میں جنرل ضیاء الحق نے چوہدری صاحب سے کہا کہ وہ نواز شریف سے صلح کر لیں۔
چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ بعد میں جنرل جیلانی بھی نواز شریف کے طرزِ عمل پر شرمندہ ہوئے تھے اور چوہدری صاحب کو کہا کہ ہم ہی قصوروار ہیں۔
چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ جب دوبارہ ہماری نواز شریف سے اختلافات کی خبریں اخبارات میں آنا شروع ہوئیں تو جنرل ضیاء الحق نے نواز شریف اور چوہدری برادران کو پنڈی بلایا اور نواز شریف کو بہت سخت لہجے میں کہا کہ پرویز الٰہی اور ان کے ساتھیوں کو دوبارہ کابینہ میں شامل کرو تو ضیاء الحق کے اس سخت لہجے پر نواز شریف کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔
چوہدری شجاعت نے محمد خان جونیجو کی شرافت اور وضع داری کی تعریف کی ہے۔ جونیجو صاحب کی نامزدگی بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے حالانکہ الہی بخش سومرو تو وزیر اعظم بننے کی مبارک بادیں وصول کر رہے تھے۔
جونیجو اور ضیاء الحق کے اختلافات پر بھی چوہدری صاحب نے لکھا ہے جس میں جونیجو کی طرف سے مارشل لاء اٹھانے کا اعلان، پھر جونیجو صاحب چاہتے تھے کہ جنرل ضیاء الحق آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیں، جینوا معاہدے پر دونوں کے اختلافات بہت شدید ہوگئے۔ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر جونیجو صاحب نے بہت تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست سیاسی فیصلہ کیا۔ کئی وزراء کہہ رہے تھے بینظیر کو ائیرپورٹ سے باہر نہ آنے دیا جائے، بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ محترمہ کو ائیرپورٹ سے پک کر لیں گے اس تجویز کو جونیجو صاحب نے بہت برا منایا اور کہاں کہ میاں صاحب! وہ ایک بڑی پارٹی کی لیڈر ہیں آپ کیسی بات کر رہی ہیں۔ جونیجو صاحب نے فیصلہ کیا بینظیر بھٹو کو بغیر کسی رکاوٹ مینار پاکستان آنے دیا جائے گا۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کی آمد پر یہ جلسہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یہ واقعی ایک بڑا جلسہ تھا۔
جونیجو حکومت کے دوران چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی تعیناتی ہونا تھی تو نواز شریف کسی مخصوص جج کو چیف جسٹس لگوانا چاہتے تھے مگر چوہدری صاحب کے مشورے پر سینئیر ترین جج جسٹس عبدالشکور سلام کو یہ عہدہ ملا۔
جونیجو دور میں حبیب جالب کے لیے پانچ لاکھ حکومتی امداد کا چیک چوہدری صاحب ان کے پاس لے کر گئے تو جالب نے وصول کرنے سے انکار کر دیا۔
سانحہ اوجڑی کیمپ کے بارے میں چوہدری صاحب نے مختصر لکھا ہے۔
چوہدری صاحب بتاتے ہیں کہ جس دن جونیجو صاحب کو برطرف کیا گیا وہ بیرون ملک سے واپس آ کر پریس کانفرنس کر رہے تھے تو وہاں رپورٹروں کی تعداد کم تھی جس پر ان سے معلوم ہوا کہ اس وقت ایک پریس کانفرنس ایوان صدر میں بھی جاری ہے۔ صدر کی پریس کانفرنس میں اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
برطرفی والے دن چوہدری صاحب جونیجو صاحب سے ملے تو وہ پرسکون تھے انہیں ضیاء الحق نے ملاقات کے لیے بلایا تھا چوہدری صاحب نے کہا آپ کو ضرور ملنا چاہیے۔ ملاقات میں ضیاء الحق نے برطرفی کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ جونیجو صاحب جب چاہیں وزیر اعظم ہاؤس قیام کر سکتے مگر جونیجو صاحب نے ضیاء الحق کی یہ پیشکش شکریہ کے ساتھ قبول نہیں کی۔
ضیاء الحق کے طیارہ حادثہ کی اطلاع چوہدری صاحب کو ان کے بھائی وجاہت حسین نے دی تھی، چوہدری صاحب کہتے ہیں جس اطمینان سے ضیاء الحق حکومت کر رہے تھے ان کا یوں منظر سے غائب ہونا ناقابلِ یقین تھا۔ ۸۸ کے انتخابات میں چوہدری صاحب نے جونیجو صاحب کا ساتھ دیا جس پر میاں صاحب ناراض ہوئے اور انہوں نے پوری کوشش کی کہ چوہدری صاحبان اپنی نشستیں ہار جائیں مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے چوہدری صاحب کو اتحاد کی پیشکش کی اور بدلے میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے کا وعدہ کیا مگر انہوں نے انکار کر دیا ۔ میاں صاحب کے والد میاں شریف نے ملاقات کر کے چوہدری صاحبان کو یقین دلایا کہ اگلی بار اگر کامیابی ملتی ہے تو وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی ہوں گے اس بار آپ نواز شریف کی حمایت کریں، انہوں نے گلے شکوے دور کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لی یوں اس ملاقات کے بعد پرویز الٰہی نے نواز شریف کا نام بطور وزیر اعلیٰ تجویز کر دیا۔
بینظیر بھٹو نے حکومت میں آتے ہی ضیاء الحق کی فیملی کو سرکاری رہائش گاہ خالی کرنے کا حکم دیا جس پر انہوں نے پہلے نواز شریف سے مدد مانگی تو انہوں نے معاملہ ٹال دیا تو چوہدری شجاعت نے اپنی رہائش گاہ پیش کی جس میں بیگم ضیاء الحق اپنی فیملی کے ساتھ تب تک رہیں جب تک راولپنڈی میں ان کا اپنا گھر تعمیر نہیں ہوا۔
اس کے بعد چوہدری صاحب نے نواز شریف کے دونوں ادوار اور پھر بینظیر بھٹو کے دور پر سرسری تذکرہ کیا ہے۔ اس میں بھی میاں صاحب کے حوالے سے زیادہ تر تلخ باتیں ہیں، ان کی وعدہ خلافیوں اور ان کے طرزِ حکمرانی پر بھی چوہدری صاحب نے تنقید کی ہے۔ ناصرف میاں صاحب بلکہ ان کے والد میاں محمد شریف کی شخصیت کا تاثر بھی کچھ اچھا سامنے نہیں آتا ، مثلاً انہوں نے خود وعدہ اور ضمانت دی کہ وزیر اعظم نواز شریف ہوں تو وزارت اعلیٰ چوہدری خاندان کے پاس ہو گی مگر ستانوے کے انتخابات میں اپنے کیے وعدے سے انحراف کیا۔ میاں شریف نے ایک بار پرویز مشرف کو اپنا چوتھا بیٹا قرار دیا تو اس سے پہلے نواز شریف کو کہا کہ اس کو عہدے سے ہٹاؤ۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں پنجاب اسمبلی میں جب قائد حزب اختلاف کا موقع آیا تو اس پر پہلے شہباز شریف براجمان ہوئے مگر جب ان کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے کمر درد کا بہانہ بنا کر بیرون ملک جانے میں عافیت سمجھی جس پر اعجاز بٹالوی جو کہ وکیل تھے نے شہباز شریف کو کہا کہ پرویز الٰہی کو سچ بتائیں کہ آپ جیل کی صعوبتیں برداشت نہیں کر سکتے کمر درد تو ایک بہانہ ہے۔ اس کے بعد پرویز الٰہی قائد حزب اختلاف بنے۔
بینظیر بھٹو کے دور میں چوہدری صاحب کو جیل بھی جانا پڑا ، جہاں اور بھی کئی سیاست دان آئے۔ ان میں شیخ رشید کے بارے میں چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے دلیری سے جیل کاٹی ، البتہ اعجاز الحق جلد گھبرا گئے اور نواز کھوکھر نے بھی زرداری سے ڈیل کر لی۔ حمزہ شہباز بھی اس دور میں ان کے ساتھ جیل میں رہے جو اس وقت پڑھ رہے تھے ان کی فرمائش پر ان کا کھانا چوہدری صاحب کے گھر سے آتا تھا۔ جیل میں عباس شریف سے ایک عجیب واقعہ پیش آیا جو بلیوں سے باتیں کرتے تھے۔
نواز شریف کے دور میں آصف زرداری پر سیف الرحمن نے منشیات کا جعلی مقدمہ قائم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا مگر چوہدری صاحب وزیر داخلہ تھے انہوں نے سیف الرحمن سے تعاون نہیں کیا۔زرداری نے چوہدری صاحب کے اس احسان کو یاد رکھا اور جب ۲۰۱۱ میں قاف لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی کا اتحاد ہوا تو پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں کو اس پر تحفظات تھے جس پر آصف زرداری نے چوہدری صاحب کے اس نیکی کا ذکر کیا۔
میاں صاحب کے پہلے دور میں سندھ میں آپریشن ہوا جس کو بعد میں میاں صاحب نے کہا کہ یہ ان کو اعتماد میں لیے بغیر کیا گیا۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں ہے میاں صاحب اس معاملے پر آن بورڈ تھے۔ ایسے ہی کارگل کے معاملے پر بھی چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ میاں صاحب کو بریفننگ دی گئی تھی اور وہ اس آپریشن سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔
چوہدری شجاعت میاں صاحب کے دوسرے دور میں وزیر داخلہ تھے تو کہتے ہیں کہ اس وقت نادرا کا منصوبہ انہوں نے پیش کیا۔
سپریم کورٹ پر حملے کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ اس کے ماسٹر مائنڈ کوئی اور تھے مگر چوہدری اختر رسول ، میاں معراج الدین اور طارق عزیز کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ چوہدری صاحب نے نام تو نہیں لیا مگر ان کی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ماسٹر مائنڈ شریف برادران ہی تھے۔
اس سے پہلے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے فون ٹیپ بھی ہو رہے تھے اور یہ نواز شریف کے کہنے پر ہو رہا تھا۔ اس پر سجاد علی شاہ کافی برہم بھی ہوئے مگر چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ ان کو انتہائی ایکشن لینے سے انہوں نے روکا۔
پرویز مشرف کی برطرفی کے فیصلے کو بھی چوہدری صاحب نے میاں صاحب کا ذاتی فیصلہ قرار دیا ہے جس میں انہوں نے ساتھیوں سے مشاورت نہیں کی۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ اگر نواز شریف مشرف کو وطن آنے کے بعد معزول کرتے تو مارشل لاء سے بچا جا سکتا تھا۔ مگر انہوں نے عجلت سے کام لیا ۔
چوہدری صاحب کہتے ہیں میاں صاحب کو بعد میں جیل میں بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچائی گئی ان کے ساتھ بدسلوکی کی باتوں میں سچ نہیں ، وہاں ان کے کھانے کا مینیو اپنی مرضی کا ہوتا تھا۔ پھر انہوں نے مشرف سے ڈیل بھی کسی کو اعتماد میں لیے بغیر کی اور معاہدے کے بعد اعجاز بٹالوی کو مشاورت کے لیے بلایا گیا۔ اس معاہدے سے اس حد تک ساتھیوں کو لاعلم رکھا گیا کہ شہباز شریف نے غوث علی شاہ کو کہا کہ وہ دو گھنٹے کے لیے باہر کسی سے ملنے جا رہے ہیں۔ غوث علی شاہ نے یہ بات مشاہد حسین اور چوہدری صاحب کو خود بتائی۔
جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو فیصلہ ہوا کہ دوست ممالک کو اس بارے میں بریف کیا جائے تو چوہدری صاحب نے اس سلسلے میں مصر ، شام اور لیبیا کا دورہ کیا۔ جس میں لیبیا میں کرنل قذافی سے ملاقات میں قذافی کو اس بات پر غصہ تھا کہ یہ تجربہ کرنے سے پہلے انہیں کیوں نہیں بتایا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے انہوں نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کو خطوط لکھے کے اس کو ایک الگ ملک بنا دیا جائے اس کے ابتدائی طور پر مالی وسائل لیبیا فراہم کرنے کو تیار ہے۔ اس پر بھارت کی جانب سے تو جواب آیا مگر پاکستان نے جواب نہیں دیا۔ اب بھارت کا کیا جواب تھا اس بارے میں چوہدری صاحب نے کوئی بات نہیں کی۔
اس کے بعد چوہدری صاحب نے قاف لیگ کے دور حکومت کے بارے میں لکھا اور اس دور میں ہونے والے کچھ واقعات کے بارے میں لکھا ہے۔ میر ظفر اللہ خان جمالی کے وزیراعظم بننے اور پھر ان سے مشرف کے اختلافات پر بات کی ہے کہ مشرف ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے وہ گیارہ بارہ بجے دفتر آتے، پھر کئی ضروری امور ان کی سستی کی وجہ سے لٹکتے رہے۔ جس پر مشرف نے کہا کہ ان کو تبدیل کیا جائے جمالی صاحب اس شرط پر مستعفی ہونے کو تیار ہوئے کہ ان کی تذلیل نہیں کی جائے گی۔ بعد میں جمالی صاحب کو کہا گیا کہ وہ استعفیٰ کے ساتھ شوکت عزیز کی نامزدگی کا بھی اعلان کریں تو جمالی صاحب نے کہا کہ وہ چوہدری صاحب کا اعلان تو کر دیں گے مگر شوکت عزیز کا نام نہیں لیں گے اور انہوں نے ایسا ہی کیا جس پر بعد میں الگ سے پریس کانفرنس کر کے شوکت عزیز کا اعلان چوہدری شجاعت نے کیا۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان کا مسئلہ بھی اس دور میں پیش آیا اور چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے سارا الزام اپنے سر لے کر ملک کے لیے بہت بڑی قربانی دی کیونکہ اس وقت پاکستان پر بہت دباؤ تھا۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے وہ الزام اپنے سر لیا جس میں وہ بے قصور تھے۔
اکبر بگٹی کا معاملہ بھی اس دور میں پیش آیا، چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے مصالحت کی بھرپور کوشش کی حتی کہ نواب صاحب اور مشرف کی ملاقات کا بھی انتظام ہو گیا مگر بعد میں یہ طے ملاقات کینسل ہو گئی اور پھر کچھ روز بعد نواب اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن میں ان کو مار دیا گیا۔ اس پر چوہدری صاحب افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے مشرف کو کہا تھا کہ دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے کسی دن سجناں وی مر جاناں۔
قاف لیگ کے دور میں ہی ۲۰۰۵ کا تباہ کن زلزلہ آیا ، جس کی تباہ کاریوں اور اس پر ریلیف سرگرمیوں کے بارے میں چوہدری صاحب نے بتایا ہے کہ بیرونِ ملک سے رضا کار مدد کرنے آئے ۔ خود بھی چوہدری صاحب پنجاب حکومت کے ہیلی کاپٹر میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے رہے۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی بچوں کو اپنی زیر کفالت لیا۔ چوہدری صاحب نے کمبوڈیا کی حکومت کا خصوصی ذکر کیا ہے کہ انہوں نے پہلا ایمرجنسی ہسپتال ان علاقوں میں قائم کیا۔
لال مسجد کے بارے میں بھی چوہدری صاحب نے تفصیل سے لکھا ہے اور بتایا کہ یہ معاملہ زیادہ خراب اس وقت ہوا جب انہوں نے چینی باشندوں کو اغواء کیا۔ اس پر چینی سفیر اور بعد میں چینی صدر بھی معاملے میں پڑ گئے۔ بعد میں مذاکرات کا سلسلہ چلا ، جس میں عبدالرشید غازی نے محفوظ راستہ کا کہا، اس پر تقریباً اتفاق ہو ہی گیا تھا کہ بعد میں صدر مشرف نے آپریشن کا فیصلہ کر لیا ۔ اس آپریشن میں دو یتیم بچوں کی کفالت عبدالرشید غازی نے چوہدری صاحب کے سپرد کی۔ اس معاملے پر بھی چوہدری صاحب کی مصالحت کی ناکامی کی داستان بتاتی ہے کہ وہ کتنے بے اختیار تھے اور پرویز مشرف نے فقط مٹی ڈالنے کے لیے انہیں استعمال کیا۔
افتخار چودھری کے معاملے پر بھی چوہدری صاحب نے لکھا اور تسلیم کیا کہ اس معاملے کو مس ہینڈل کیا گیا۔ اس میں مشرف کے علاوہ ایک مرکزی کردار شوکت عزیز کا تھا۔ بعد میں مصالحت کی کوشش میں مشرف کو چوہدری صاحب نے یہ تجویز دی کہ شوکت عزیز مستعفی ہو جائیں تو معاملہ سنبھل سکتا ہے جس پر مشرف نے اتفاق بھی کیا مگر شوکت عزیز نے چوہدری صاحب کے سامنے حامی بھری مگر مشرف سے ملاقات میں استعفیٰ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔چوہدری صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ افتخار چودھری کے چیف جسٹس بننے سے پہلے انہوں نے پرویز مشرف سے افتخار چودھری کی ملاقات کرائی ، جس میں افتخار چودھری نے مشرف کو تعاون کی یقین دہانی کرائی کہ وہ حکومتی امور میں رکاوٹ پیدا نہیں کریں گے۔
چوہدری شجاعت نے اپنی وزارت اعظمی کے دور پر بھی الگ سے لکھا ہے اس میں اس وقت عراق فوج بھیجنے کے معاملے پر حکومت پر کافی دباؤ تھا مگر چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے امریکی وفد کو بتا دیا کہ ہم فوج نہیں بھیج سکتے۔ پہلے یہ طے پایا تھا کہ پاکستانی فوج وہاں پر فقط پرامن کاموں میں تعاون کرے گی مگر عراقی حکومت اس کو سیکورٹی کے طور پر استعمال کرنا چاہتی تھی جس کا سعودی ولی عہد شاہ عبداللہ کو بھی علم نہیں تھا۔ جب انہیں پتہ چلا تو وہ عراقی حکومت پر برہم ہوئے۔
پرویز الٰہی کے دور پر بھی چوہدری صاحب نے تفصیل سے لکھا اور ان کی کارکردگی کو کھل کر بیان کیا ہے ساتھ ہی یہ باب شہباز شریف کے اوپر ایک چارج شیٹ بھی ہے کہ چوہدری صاحب کے جاری کردہ منصوبوں کو انہوں نے سبوتاژ کیا جس میں لاہور ریپڈ ٹرانسپورٹ اور آئی ٹی پارک کے حوالے سے جو شہباز شریف نے ان منصوبوں کو مس ہینڈل کیا یہ پنجاب کے ساتھ سنگین جرم ہے۔ پتہ نہیں اب چوہدری صاحب کی یاداشت میں کوئی مسئلہ ہو گیا کہ اس ہی شہباز شریف کے بیٹے کے لیے وہ چوہدری پرویز الٰہی کے مقابلے میں اپنی جماعت کو ووٹ ڈالنے کا حکم دے رہے تھے.
قاف لیگ کے دور میں صنعت و زراعت سمیت متعدد شعبوں ہوئے کاموں کو چوہدری شجاعت نے بیان کیا ہے۔ ان میں سے ایک کٹاس راج کے مندر کا خصوصی طور پر اس لیے ذکر کروں گا کہ یہ ہمارے علاقے میں ہے اور قاف لیگ کے دور سے پہلے اس پر کوئی توجہ نہیں تھی نہ ہی کوئی سیاح یہاں پر آتے تھے۔ یہ ہندوؤں کے لیے بہت مقدس سرزمین ہے اس کے لیے بھارتی حکام نے بھی چوہدری صاحب سے کہا کہ اس پر توجہ دی جائے جس میں ایل کے ایڈوانی قابل ذکر ہیں ۔ اس کے بعد اس پراجیکٹ پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اب یہ سیاحت کا مرکز ہے اور یہاں ہندؤ مذہب کے لوگ آتے رہتے ہیں مگر اس طرف جانے والی سڑک کی حالت انتہائی خستہ اور تشویشناک ہے۔ اس جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
مشرف دور میں پیپلز پارٹی کے ساتھ این آر او پر بھی چوہدری شجاعت نے لکھا ہے۔ پرویز مشرف کی ۲۰۰۶ سے محترمہ بینظیر بھٹو سے ملاقاتیں شروع ہو گئیں تھیں۔ مشرف نے یہ ملاقاتیں عالمی دباؤ کے تحت کیں کیونکہ پیپلز پارٹی لابنگ کر کے یہ منوانے میں کامیاب ہو گئی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پیپلز پارٹی حکومت زیادہ موثر کردار ادا کر سکتی ہے اور مشرف سے جو شکایات ہیں ان کا حل پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ مشرف نے یہ مذاکرات اپنا اقتدار بچانے کے لیے کیے مگر مشرف کا اپنا اقتدار بھی قائم نہ رہ سکا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے مقدمات بھی ختم کروا لیے ۔ اس سلسلے میں دوسری طرف پیپلز پارٹی کی قیادت جس میں مخدوم امین فہیم اور راجہ پرویز اشرف شامل تھے جن سے چوہدری صاحب کے بھی مذاکرات ہو رہے تھے انہوں نے مصالحتی ڈرافٹ تیار کیا مگر بعد میں پرویز مشرف نے جو آرڈنینس پیش کیا وہ اس سے قطعاً مختلف تھا۔ مطلب یہاں بھی پرویز مشرف نے چوہدری صاحب کی آنکھوں میں دھول جھونکی ۔ چوہدری صاحب کے ساتھ مشرف نے وہی کیا جو ۶۲ کے آئین کی تیاری میں ایوب خان نے خواجہ شہاب الدین کے ساتھ کیا۔ چوہدری شجاعت کہتے ہیں کہ این آر او کے اعلان کے بعد انہوں نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور مخدوم فیصل صالح حیات نے بھی مشرف کے سامنے اس کی ڈٹ کر مخالفت کی
پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات میں وزارت عظمیٰ پر تیسری بار پابندی کا خاتمہ ایک اہم نکتہ تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کہہ رہی تھی کہ اس پابندی کو فی الفور ختم کیا جائے جبکہ قاف لیگ کی قیادت انتخابات کے بعد یہ شرط ختم کرنے کو تیار تھی کہ محترمہ اپنے کسی رکن کو مختصر مدت کے لیے وزیر اعظم بنا کر بذریعہ قانون سازی اس کو ختم کر کے وزیر اعظم بن جائیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انتخابات سے پہلے اگر یہ شرط ختم ہوتی تو نواز لیگ بھی اس قانون سے فائدہ اٹھا سکتی تھی۔
ایک اور اہم نکتہ جس پر اختلاف تھا وہ بینظیر بھٹو کی واپسی تھی۔ مشرف بھی نہیں چاہتے تھے کہ محترمہ انتخابات سے قبل پاکستان آئیں، قاف لیگ کا بھی یہ خیال تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ محترمہ کی آمد کے بعد نواز شریف کو روکنا ناممکن ہوتا اور نواز شریف کی موجودگی میں انتخابات سے نواز لیگ میں جان ڈل جانی تھی۔ جبکہ پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک محترمہ کے باہر رہنے کے باوجود ان سے جڑا رہتا۔
۲۰۰۸ کے انتخابات کے حوالے سے چوہدری شجاعت نے لکھا ہے کہ انتخابات سے پہلے ان کے پاس جو بائیڈن ، جان کیری اور چک ہیگل پر مشتمل امریکی وفد آیا تو اس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اگر انتخابات میں قاف لیگ کامیاب ہوئی تو امریکہ یہ نتیجہ نہیں مانے گا۔ پرویز مشرف نے بھی انتخابات سے ایک روز قبل فون کر کے چوہدری برادران کو شکست تسلیم کرنے کا کہہ دیا تھا۔ چوہدری شجاعت کہتے ہیں کہ انتخابات کے بعد ہم امریکی حکام سے ملے اور ان سے شکایت کی تو انہوں نے بتایا کہ قاف لیگ کو ہرانے کا منصوبہ کونڈولیزا رائس، جنرل پرویز مشرف اور طارق عزیز کا تھا۔
چوہدری شجاعت حسین نے اس کتاب میں ۲۰۰۸ کے انتخابات تک کے واقعات نقل کیے ہیں۔ بہت سے ایسے واقعات جن کے وہ گواہ ہیں انہوں نے بیان نہیں کیے، جیسے آئی جے آئی کی تشکیل ہو،پھر بینظیر بھٹو کے خلاف مہم ، ۹۳ میں ہونے والا کاکڑ فارمولا ، بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کا خاتمہ ، ستانوے کے انتخابات ، پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ ،مشرف کا ریفرنڈم اور اس کے ساتھ تین نومبر کو لگنے والی ایمرجنسی سمیت بہت سے واقعات ہیں جن کو چوہدری صاحب نے ذکر نہیں کیا۔
چوہدری صاحب کے میاں صاحب سے تعلقات تو اس کتاب میں تلخ نظر آتے ہیں مگر سمجھ نہیں آتی کہ چوہدری صاحب نے نواز شریف کا دامن اس وقت تک کیوں پکڑے رکھا جب تک وہ خود اس کو نہیں چھڑا کر جدہ گئے۔ چوہدری صاحب نے ناصرف نواز شریف اور شہباز شریف بلکہ میاں محمد شریف سے بھی دھوکے کھائے مگر وہ ان کے ساتھ رہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ سیاست میں مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جاتا ہے، یا پھر اس میں آخر وقت تک انتظار والی پالیسی کارفرما تھی۔
چوہدری شجاعت کی یہ کتاب پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک داستان ہے جس میں چوہدری شجاعت کا ایک اہم کردار رہا ہے اور کچھ واقعات کے اوپر انہوں نے اپنا موقف پیش کیا ہے۔ جس میں کئی جھول بھی ہیں مگر یہ ایک اچھی روایت ہے جس کی باقی سیاستدانوں کو تقلید کرنی چاہیے اور اپنے کردار کے بارے میں کتاب کے ذریعے وضاحت کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ حقائق سامنے آ سکیں۔
راجہ قاسم محمود
کمنت کیجے