مولانا بدر الحسن القاسمی
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلفا اور حضرت امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری کے تلامذہ کو اللہ تعالیٰ نے خاص طرح کے شرف و امتیاز سے نوازا ہے، اسلامی علوم و فنون میں مہارت اور علمی تحقیقی کاموں کا ذوق ہو یا رشد و ہدایت کے مراکز اور اصلاحِ قلب اور تزکیہئ نفس کا میدان ہو، یہی لوگ سیاسی توڑ جوڑ اور منصب و اقتدار کے لیے مکر و فریب سے دور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی علمی وراثت اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تعبیر و تقسیم کے مطابق آپ کی باطنی خلافت کی ذمہ داریوں کو پورے اخلاص کے ساتھ سنبھالے ہوئے ہیں۔
حضرت علامہ کشمیری کے نامور شاگردوں میں علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ، مولانا بدر عالم میرٹھیؒ، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ، حضرت مفتی اعظم محمد شفیع دیوبندیؒ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ یہ سب اپنے زمانہ کے ممتاز عالم ہی نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک مستقل ایک متحرک کتب خانہ اور دائرہئ علم کی حیثیت رکھتا ہے۔
دوسری طرف حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بلند پایہ خلفاء پر نظر ڈالئے تو وہ سب بھی اپنی اپنی جگہ پر رشد و ہدایت کے مراکز اور اصلاح و تربیت کا نشان نظر آتے ہیں، وہ خود بھی فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے وابستگان میں عقلاء ہی رکھے ہیں اور ان کی حکمت مآب شخصیت نے علمائے کبار اور عقلائے روزگار کو ان کے گرد اکٹھا بھی کر لیا تھا۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ایک طرف فقہ و افتاء میں حضرت کے معتمدخاص اور ساری دنیا کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتے تھے، تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت علامہ کشمیری کے علوم کا بھی وارث بنایا تھا اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے سر چشمہئ رشد و ہدایت اور تربیت و تزکیہئ نفس کا نمائندہ بھی۔
وہ بلا شبہ اکابر علمائے دیوبند کی خصوصیات کے وارث و امین تھے، ان کے اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے ایک لاکھ سے زائد فتوے اور ان کی تالیف کردہ سیکڑوں اردو اور عربی کی کتابیں اور رسائل ان کی عظمت کی گواہ ہیں، ان کی اردو تفسیر ”معارف القرآن“ ہو یا عربی تفسیر ”أحکام القرآن“ کے اجزاء سبھی بے مثال ہیں۔
اللہ رب العزت نے ان کو اولاد بھی ایسی عطا کی جو ایک سے بڑھ کر ایک باکمال اور علم و عمل سے آراستہ نظر آتی ہے، خاص طور پر ان کے دو صاحب زادے: حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا محمد تقی عثمانی کو اللہ رب العزت نے ایسا علمی مقام عطا فرمایا اور ایسا عملی امتیاز بخشا جس کی نظیر بر صغیر ہی نہیں عالم اسلام میں بھی مشکل سے مل سکتی ہے، آج جبکہ حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اپنے جان آفریں خالق حقیقی کی آغوشِ رحمت میں پہنچ گئے ہیں تو یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش ۵۵۳۱ھ، مطابق: ۹۳۹۱ء کو دیوبند میں ہوئی تھی، باپ کا نام حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے رکھا تھا اور بیٹے کا نام حضرت حکیم الامت حضرت تھانوی نے۔
دار العلوم میں زیر تعلیم ہی تھے کہ اپنے والد ماجد اور اہل خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ تقسیم ہند کے بعد کراچی پہنچ گئے، اساتذہئ کرام میں خود مفتی محمد شفیع صاحب، مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب، مولانا سبحان محمود صاحب اور مولانا سلیم اللہ خان صاحب جیسے باکمال رہے، علمی استفادہ علامہ ظفر احمد عثمانی اور علامہ محمد یوسف بنوری سے بھی کیا اور دیگر اہل علم سے بھی اور اپنے والد بزرگوار کی ہدایت پر اصلاحی تعلق حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفیؒ سے قائم کیا اور اس طرح شیخ کی ہدایت کی پابندی کی کہ تقریروں سے روکا گیا تو دس سال تک تقریر سے باز رہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا کہ جس پر ساری دنیا آج رشک کرتی نظر آتی ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی شخصیت بڑی خوبیوں کی حامل تھی، آپ ایک بلند پایہ اور بالغ نظر فقیہ اور مفتی تھے، ہزاروں فتوے آپ کی یادگار ہیں، آپ کو حدیث اور دیگر علوم سے بھی بھرپور مناسبت تھی، آپ نے ”عصر رسالت میں کتابت حدیث“ پر گراں قدر رسالہ تحریر فرمایا ہے۔
صحیح مسلم شریف کے درس کا خلاصہ یا اس کی مختصر اردو شرح بڑے شگفتہ انداز پر تحریر فرمائی ہے؛ جس کی ۲/ جلدیں انہوں نے مکہ مکرمہ کی ملاقات کے دوران عطا کی تھیں، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی شہرہئ آفاق کتاب ”فتح الملہم“ پر عربی زبان میں تعلیقات بھی تحریر فرمائی ہیں، فقہی کتابوں کے ضمن میں آپ نے علامہ ابن عابدین کی ”شرح عقود رسم المفتی“ پر بھی عربی زبان میں تعلیقات اور حواشی قلم بند کیے ہیں۔
”المقالات الفقہیہ“ کے نام سے عربی زبان میں ان کے تحقیقی مقالات دو جلدوں میں شائع شدہ ہیں، ان کے چند عربی زبان کے مختصر رسائل کانفرنس کے لیے لکھے گئے تھے جن میں سے ”الأخذ بالرخص، بیع الوفاء، ضابط المفطرات، الصوم في المذاہب الأربعۃ“ بین الاقوامی فقہ اکیڈمی جدہ کی طرف سے شائع کیے گئے ہیں۔
اردو کتابوں میں کتابت حدیث کے علاوہ ”تین معاشی نظام“، ”نوادر الفقہ“، ”احکام زکاۃ“، ”جناب مفتی اعظم اور میرے مرشد حضرت عارفیؒ“وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
صحیح امام مسلم اور بعض دوسری حدیث کی کتابیں وہ ہمیشہ پڑھاتے رہے ہیں اور روایتی تعلیم کے علاوہ ان کو اپنے والد ماجد، مولانا ظفر احمد عثمانی، شیخ حسن المشاط مکی، مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب سے روایت حدیث کی خصوصی اجازت بھی حاصل تھی۔
حضرت مفتی صاحب سے میری پہلی ملاقات تو دار العلوم کراچی میں اس وقت ہوئی تھی جبکہ میں لیبیا کے سفر سے ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب کے ساتھ کراچی آیا تھا، دار العلوم کراچی میں ہی حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی صاحب سے ملاقات ہوئی پھر مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کی معیت میں ان کی بعض مجلسوں میں حاضری کی بھی سعادت حاصل ہوئی اور عارفی صاحبؒ کی روحانی شخصیت کا گہرا نقش دل پر قائم ہوا۔
مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب سے بیشتر ملاقاتیں مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کی کانفرنسوں کے موقع پر ہوتی رہی ہیں اور مفتی صاحب کی عظیم شخصیت کے جلوے دیکھنے کی سعادت بھی حاصل ہوتی رہیں، اپنی بیشتر تصنیفات بھی انہوں نے انہیں ملاقاتوں میں عنایت فرمائی تھیں۔
مزید کرم یہ فرمایا کہ حضرت مفتی صاحب نے رکن یمانی اور حجر اسود کے سامنے اسی جگہ بیٹھ کر اپنی طرف سے روایت حدیث کی اجازت بھی مجھے عطا فرمائی، جہاں بیٹھ کر ان کو شیخ حسن المشاط مالکیؒ نے اجازت دی تھی۔
پھر حضرت مفتی صاحب نے اپنے دستخط کے ساتھ اپنی اسانید کا مجموعہ بھی ڈاک سے ارسال فرمایا جس پر ان کے دستخط ثبت ہیں اور وہ ”الفضل الرباني في أسانید محمد رفیع العثماني“ کے نام سے شائع شدہ ہے، حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کی اسانید کا مجموعہ الگ سے چھپا ہوا ہے۔
آج حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کے انتقال کے حادثہ پر اسی طرح کا احساس ہو رہا ہے، جس کا اظہار حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب نے ان کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کے انتقال پر دار العلوم دیوبند کے ”نو درے“میں اساتذہ اور طلبہ کے سامنے اپنے تعزیتی بیان میں کیا تھا۔
مفتی صاحب اور حضرت حکیم الاسلام کی تعلیم کا زمانہ تقریباً ایک ہی تھا اور دونوں ہی اکابر کے علوم کے امین اور علم و فضل کی دنیا کے بے تاج بادشاہ رہے اور ایک عالم ان کی صداقت و امانت اور نفاست کا گرویدہ رہا ہے، ایک ”فتویٰ“ کی شان اور وقار تھے تو دوسرے کو خطابت اور حکمت بیانی کی بے مثال قدرت حاصل تھی اور دونوں میں سے کسی کی نظیر ان کے ہم عصروں میں سے پیش نہیں کی جاسکتی، یہ رخصت ہو گئے۔
ان کے بعد اسی طرح آج حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کا جانا بھی عجیب المناک حادثہ محسوس ہوتا ہے۔
مصائب اور تھے، پر ان کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب ؒ کی زندگی کے کئی جلوے میں نے مکہ مکرمہ میں دیکھے، اکثر ہوٹلوں کے بجائے سرکاری دار الضیافہ میں قیام کو ترجیح دیتے تھے، جہاں سے حرم میں آمد و رفت کی سہولت زیادہ ہوا کرتی تھی۔
بعض مسائل میں ذہنی اشکال کا بھی کبھی اظہار فرماتے تھے، مثال کے طور پر ”صفا پیلس“ میں شرکائے کانفرنس کے لیے نماز کی مخصوص جگہ اور حرم کی نماز کی صفوں سے اتصال کا مسئلہ۔
دوسرا مسئلہ ریاض میں مقیم مفتیِ مملکت کی چار یا پانچ دن کے لیے مکہ مکرمہ آمد میں نماز کی امامت، حنابلہ و شافعیہ وغیرہ کے مسلک پر قصر کے بجائے اتمام کا مسئلہ۔
مسائل کا ذکر تو کر دیتے تھے؛ لیکن ان میں الجھتے نہ تھے اور ہم سبھوں کے ساتھ وہ بھی جماعت میں اسی طرح شرکت فرمایا کرتے تھے، جس پر وہاں کا عمل تھا۔
مفتی صاحب سے ڈاکٹر سعد الشہرانی اور دوسرے بہت سے اصحاب علم و ذوق نے روایت حدیث کی اجازت لی۔
حضرت مفتی صاحب میں ہمدردی کا وصف بے پناہ تھا، دوسروں کے ساتھ دکھ درد میں شرکت کو اپنی شان کے خلاف نہیں سمجھتے تھے۔
میرے لخت جگر محمد بدر القاسمی کا اردن میں جوانی میں انتقال ہو گیا تو میں غم و الم کی تصویر بن گیا تھا، حضرت مفتی صاحب اور ڈاکٹر محمود غازی مرحوم دونوں نے میرے قلم سے لکھی ہوئی غم کی داستان پڑھ کر گہرے تأثر کا اظہار فرمایا، غازی صاحب تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے؛ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد وہ خود بھی اللہ کو پیارے ہو گئے، بڑی خوبیوں کے آدمی تھے۔
کئی سال بعد جب میری شریک حیات ام احمد نے بھی زندگی سے منھ موڑ لیا اور کرونا کی نذر ہو گئیں تو حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دونوں نے ٹیلیفون کرکے تعزیت فرمائی، تسکین دلایا اور صبر کی تلقین فرمائی۔
حضرت مفتی صاحب ویسے بھی کبھی کبھی ٹیلی فون فرمایا کرتے تھے اور گفتگو کا موضوع رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس ہی ہوا کرتے تھے۔
حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اپنے علم و فضل کے ساتھ ساتھ غیر معمولی اخلاقی عظمت اور قائدانہ اوصاف و خصوصیات کے حامل انسان تھے، بہت جلد گھل مل جانے والے، تواضع کے پیکر اور دنیا کے احوال پر گہری نظر اور زیر بحث مسائل پر واضح اور دو ٹوک رائے رکھتے تھے۔
مکہ مکرمہ میں ”فتویٰ“ سے متعلق عالمی کانفرنس رابطہ عالمی اسلامی نے منعقد کی تو حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا تقی عثمانی دونوں ہی موجود تھے اور افتتاحی اجلاس میں شرکائے کانفرنس کی طرف سے نمائندگی مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے ہی کی، اس اجلاس میں مکہ کے گورنر شاہزادہ خالد الفیصل بھی موجود تھے۔
کانفرنس کے بعد مدینہ جاتے ہوئے ریاض میں تمام مہمانوں کو ملک عبد اللہ بن عبد العزیز سے ”قصر الیمامۃ“ میں ملاقات کرائی گئی؛ لیکن مفتی صاحب مکہ مکرمہ میں ہی رہ گئے تھے۔
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی وفات کا سانحہ میرے نزدیک اس لحاظ سے بھی نہایت المناک ہے وہ اکابر دیوبند حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، علامہ شبیر احمد عثمانی اور علامہ انور شاہ کشمیری کے ذہن و مزاج سے قریب اور شرعی نصوص کی ان کی بیان کردہ تشریح سے اپنے نامور برادرِ خورد کے ساتھ پور طور پر آگاہ تھے، ان کا مزاج اپنے والد بزرگوار کی تربیت، حضرت تھانوی کے افادات پر عبور اور مولانا محمد یوسف بنوری اور مولانا ظفر احمد عثمانی کی کتابوں سے شغف اور حضرت عارفیؒ کی کیمیا اثر نظر اور عملی تربیت نے ایسا بنا دیا تھا کہ اس میں فکری ناہمواری کے در آنے کی کہیں سے گنجائش ہی باقی نہیں رہ گئی تھی؛ چنانچہ دونوں ہی ایک اکائی کی طرح اکابر کے علم، کتاب و سنت کی روح اور علمائے دیوبند کے ذوق و مزاج اور صحیح مسلک کے محافظ اور امین بن گئے تھے، اب حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کی ذات تنہا رہ گئی ہے۔
چند سال پہلے جب مولانا تقی عثمانی صاحب ہندوستان آئے اور دار العلوم دیوبند میں ان کے لیے استقبالیہ جلسہ کا اہتمام کیا گیا تو دار العلوم کے مدرس مولانا ریاست علی بجنوری صاحب نے ان کا تعارف کراتے ہوئے جو بات کہی تھی، اس کا ایک جملہ یہ بھی تھا کہ پہلے زمانے میں دار العلوم کا مسلک جاننے کے لیے لوگ یہاں آتے تھے اور اکابر دار العلوم سے رجوع کرتے تھے؛ لیکن آج صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ دار العلوم دیوبند کا صحیح مسلک جاننے کے لیے ہمیں مولانا محمد تقی عثمانی صاحب سے رجوع ہونے کی ضرورت ہے، جملہ اسی مفہوم کا تھا جو مجلہ ”البلاغ“ بھی میں شائع ہوا تھا۔
حقیقت یہی ہے کہ قریبی عہد کے بعض اساتذہ نے دار العلوم کے مسلک کو مشتبہ کرکے رکھ دیا ہے اور اپنی مزاجی بے اعتدالی اور ذہنی تہور اور کم علمی کی وجہ سے ایسے ایسے دعوے صحیح بخاری اور سنن ترمذی کے اسباق میں کر ڈالے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
ابھی چند سال پہلے بعض خلیجی ملکوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور پٹرو ڈالر کو اپنی جماعت تک محدود رکھنے کے لیے بر صغیر میں چھوٹا سا ایک ایسا گروہ سر گرم ہو گیا جس کی خاصیت ہی بدگمانی اور بدزبانی ہے، فقہائے کرام کو نشانہ بنانے کے بعد اکابر علمائے دیوبند سے عرب نوجوانوں کو ان کی ناواقفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بدظن کرنے کی مہم شرع کردی اور اسلم پاکستانی کے رسالہ میں جس فتنہ کی بنیاد ڈالی گئی تھی اب کبھی ”القول البلیغ فی جماعۃ التبلیغ“ اور کبھی ”الدیوبندیۃ“ کے نام سے اس کو ہوا دینے کی کوشش زور و قوت سے شروع ہو گئی۔
حضرت شیخ الہند پر قرآنی آیت میں تحریف کا الزام، علامہ انور شاہ کشمیری کو نئے مدرس قرار دے کر ان پر تعصب کا الزام اور حضرت شاہ اسماعیل شہید کی ”عبقات“ جو خالص کشفی علوم، وحدۃ الوجو اور وحدۃ الشہود کے موضوع پر ہے اس کو مجددانہ کار نامہ کتاب پڑھے اور سمجھے بغیر ہی قرار دے ڈالا۔
اس زمانے میں غلط فہمیوں کے ازالہ اور غلط بیانیوں کے تدارک کے لیے میں نے ایک چھوٹا سا عربی رسالہ ”وجہ جدید“ کے نام سے لکھا تھا، تو بڑا سوال یہی سامنے تھا کہ ”دیوبندیت“ کیا ہے؟ اور مسلک دیوبند کی حدودِ اربعہ کی تعیین کس طرح کی جائے؟ اور اس میں مرجعیت کس کو حاصل ہے؟ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کا رسالہ بے حد قیمتی ہے؛ لیکن وہ مناظرانہ انداز کا ہے اور احمد رضا خان صاحب کی کفر ساز فیکٹری پر قدغن لگانے کے لیے لکھا گیا ہے۔
حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب کی کتاب مسلک کے معتدل ہونے کے بیان میں بے مثال ہے؛ لیکن فکری اور اعتقادی الرجی میں مبتلا گروہ کی شفایابی اس کے ذریعہ شاید ممکن نہ ہو، بالآخر مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اکابر دیوبند کے فتاویٰ کے جو مجموعے شائع شدہ ہیں، ان میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے لے کر حضرت الاستاذ مفتی محمود حسن گنگوہیؒ تک کے فتاوے ہی سند کی حیثیت رکھتے ہیں، ورنہ خوابوں کے مجموعے اور کرامات کی بھول بھلیوں میں ارشد القادری کے ”زلزلہ“کا سارا مواد موجود ہے۔
مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مرحوم اور مولانا محمد تقی عثمانی کی شخصیت ایک اکائی طرح تھی، ان دونوں نے اپنے والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی علمی و ذہنی تربیت اور حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی صاحب کی روحانی تاثیر کے ساتھ حضرت تھانویؒ کے علوم و معارف کو جس طرح ہضم کیا ہے کہ ان کا مزاج ایک خاص سانچہ میں ڈھلا ہو، معلوم ہوتا ہے؛ جس میں فکری بے اعتدالی کی گنجائش ہے اور نہ مسلکی رجحان میں کتاب و سنت کی تعلیمات اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے جلووں سے دوری کا امکان، جس نے ان کو صحیح مسلک کا چلتا پھرتا ترجمان بنا دیا تھا، نہ تو اس وقت صحیح مسلک کی باریکیوں کا ادراک کرنے والا اور نہ بالغ نظری سے ان کی تشریح کرنے والا کوئی اور ہے۔
صحابہ کرامؓ اور ائمہئ دین، فقہائے مسلمین کا یا جمہور اہل سنت کا جو مسلک ہے، علمائے دیوبند اسی پر قائم اور اسی کے محافظ ہیں اور اسلام، ایمان اور احسان کے تقاضوں پر مضبوطی سے قائم ہیں اور ہر طرح کی بدعت اور فکری انحراف کے شدت سے مخالف۔
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اور مولانا محمد تقی عثمانی دونوں بھائیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی شخصیت کی تعمیر کی طرف حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کی خاص توجہ رہی۔
دینی علوم کا سرمایہ تو خود اپنے گھر میں موجود تھا، پھر بھی اچھے اساتذہ سے تعلق، تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی خاص نظر، پھر خود اپنی تربیت میں رکھنے کے بجائے حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی سے اصلاحی تعلق قائم کرانا بھی حضرت مفتی صاحب کی حکیمانہ تدبیر تھی کہ باپ کی شفقت شاید اس درجہ کی نگرانی میں رکاوٹ ہو، اس لیے دوسرے ولیِ کامل کی مدد لی جائے اور انہوں نے بھی ان کو مانجھنے اور سنوارنے کا روحانی فریضہ پوری توجہ سے انجام دیا۔
ذرا سے خدشہ کی بنیاد پر شہرت و مقبولیت کے باوجود تقریر کرنے پر مکمل پابندی لگادی جو دس سال تک جاری رہی اور دونوں بھائیوں نے اسے نہ صرف گوارہ کیا؛ بلکہ مکمل پابندی کی مثال قائم کردی۔
ایسی شخصیت جس کی فقہی بصیرت اور علمی قابلیت کا لوہا عالم اسلام کے علمی مراکز اور فقہی اکیڈمیاں مان رہی ہوں وہ اپنے شیخ کی ہر ہدایت کو بے چوں چرا تسلیم کرنے میں کوئی حرج محسوس نہ کرے، اسے خود ہی ولایت کا اعلیٰ مقام قرار دیا جا سکتا ہے۔
مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کے شاگر اور فیض یافتگان دنیا کے ہر ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، انہوں نے بھی دنیا کے بہت سے ممالک دیکھے ہیں۔
انہوں نے دار العلوم کے انتظام و انصرام کا کام بھی بڑے اعلیٰ پیمانہ پر انجام دیا ہے، دار العلوم کی عمارت جس سلیقہ سے تعمیر کی گئی ہے، درس گاہوں اور خاص طور پر دار الحدیث کا جو نظام رکھا گیا ہے، دیوبند کا دار العلوم تو ”پدرم سلطان بود“ کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہے؛ لیکن دار العلوم کراچی کے یہ ذمہ داران بنفس نفیس موجودہ زمانہ کے پیچیدہ مسائل کا حل پیش کرنے میں عرب علماء سے آگے ہیں۔
”تکملہ فتح الملہم“، ”فقہ البیوع“، ”المدونۃ الجامعۃ“ یہ سارے علمی کارنامے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے ہیں۔
مالی معاملات کے لیے شرعی معیار کی تدوین کا ادارہ دسیوں سال سے مولانا کی صدارت میں کام کر رہا ہے، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کے وجود سے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کو بھی بڑی حد تک یکسوئی تھی۔
موجودہ زمانہ میں کس طرح کے عالم دین کی ضرورت ہے، اس سوال کا اب تک ایک ہی جواب ہے کہ موجودہ زمانہ کے عالم دین میں مولانا محمد رفیع عثمانی اور مولانا محمد تقی عثمانی کی علمی اور عملی خصوصیات ہونی چاہئیں، اب تک اس کی کوئی دوسری مثال خال خال ہی پیش کی جا سکتی ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب اور مولانا محمد تقی عثمانی اپنے علمی کمالات اور بعض مزاجی خصوصیات میں فرق کے باوجود ساری زندگی دو قالب ایک جان کی طرح رہے، باہم عظمت اور شفقت نے ایسا توازن پیدا کردیا تھا کہ وفات کے حادثہ پر مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کی زبان سے اپنے ایک بازو کے علاحدہ ہو جانے کا اظہار اس طرح ہوا کہ”طالب علمی کے زمانہ سے ہم ساتھ رہے، آج پچھتر سال کا ساتھ یکدم چھوٹ گیا“۔
اللہ تعالیٰ مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب کوفردوس میں جگہ دے اور مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے دست و بازو کو مضبوط کرے اور انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے، ان سبھوں کا علمی فیض ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔
مولانا کو بلا شبہ یہ کہنے کا حق ہے کہ:
وکنا کندمانی جذیمۃ حقبۃ
من الدہر حتی قیل لن یتصدعا
فلما تفرقنا کأني و مالکا
لطول اجتماع لم نبت لیلۃ معا
وفي اللّٰہ عزاء وہو المستعان
———————————————————————-
مولانا بدر الحسن قاسمی کویت میں مقیم ہیں اور الموسوعۃ الفقہیۃ کویت کے ساتھ بطور باحث فقہی وابستہ ہیں۔
کمنت کیجے