Home » صفات باری میں مماثلت کا مدار اور علمائے عقیدہ کی رائے
اسلامی فکری روایت کلام

صفات باری میں مماثلت کا مدار اور علمائے عقیدہ کی رائے

 

شرک کا معنی ذات، صفات و افعال باری تعالی میں کسی کو اللہ کے یا اللہ کو کسی کے مماثل قرار دینا ہے۔ اس مماثلت کا مفہوم کیا ہے؟ ہمارے دور میں اس حوالے سے بعض امور (مثلا غیر اللہ سے استغاثہ) کو اس بنیاد پر “شرکیہ ” امور قرار دیا جاتا ہے کہ ان میں ماورائے اسباب مدد مانگنے کا وہ پہلو شامل ہے جو خاصہ خداوندی ہے اور اس لحاظ سے یہ عمل صفات باری میں شرک کی کیفیت لئے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس فریق ثانی کے مطابق ان میں شرک کا پہلو شامل نہیں کیونکہ صفات باری میں مماثلت کا مدار ماتحت و مافوق الاسباب کی تقسیم نہیں بلکہ قدیم و حادث، ذاتی و عطائی نیز لامحدود و محدود جیسے امور کی تقسیم ہے (وہ اور بات ہے کہ فریق ثانی استغاثہ کو بھی ماتحت الاسباب ہی سمجھتا ہے، بس اسباب کی نوعیت کا فرق ہے)۔ بسا اوقات یہ خیال کیا جاتا ہے کہ فریق ثانی کا یہ موقف شاید صرف صوفی فکر کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ معاملہ یہ ہے کہ اس حوالے سے اشعری و ماتریدی متکلمین بھی اسی رائے کے قائل ہیں۔ اس مسئلے کو ہم اس کے اصل اصول کے تحت پیش کرتے ہیں ۔

امام نسفی و صابونی کی رائے

احناف چونکہ ماتریدی روایت کی نمائندگی کرتے ہیں، لہذا  اس ضمن میں  پہلے ہم امام ابو معین نسفی (م 508 ھ) اور ان کی آراء کی نمائندگی کرنے والے ان کے بڑی شارح علامہ صابونی (م 580 ھ) کی آراء پیش کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لینا اہم ہوگا کہ ماتریدیت میں امام ابو معین نسفی کو نہایت اہم مقام حاصل ہے اور یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ آپ امام ابو منصور ماتریدی (م 333 ھ) کی آراء کے بڑے شارحین میں سے مانے جاتے ہیں۔

“اصول الدین” یعنی عقائد کی بحثوں میں اللہ تعالی صفات کی تفہیم سے متعلق متعدد مسائل ابتدا سے زیر بحث رہے ہیں جن میں سے ایک مسئلہ یہ تھا کہ کیا اللہ تعالی کی ذات کے لئے اثباتی (positive) صفات کا اقرار جائز ہے یا نہیں یا کہ درست رویہ صرف تنزیہہ ہے، یعنی یہ کہ ہمیں خدا کی بارگاہ میں صرف نفی کے انداز میں بات کرنا چاہئے (مثلا یہ کہ خدا کی ابتدا نہیں ہے، اسے حوادث لاحق نہیں ہیں یا وہ عاجز نہیں ہے وغیرہ)؟ ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ خدا کی بارگاہ میں صرف تنزیہہ ہی جائز ہے کیونکہ جونہی کسی اثباتی صفت کا اقرار کیا جائے گا تو بندے و رب کی صفت میں مماثلت لازم آئے گی۔ ان کی رائے میں خدا کو موجود کہنا بھی درست نہیں کہ بندہ بھی صفت وجود سے متصف ہے، لہذا یوں کہنا چاہئے کہ “خدا معدوم نہیں”۔ تاہم اشاعرہ و ماتریدیہ اس رائے سے متفق نہیں۔ امام ابومعین نسفی کتاب “تبصرۃ الادلۃ” اور علامہ صابونی “الکفایۃ فی الھدایۃ” میں اللہ کی ذات و صفات کے ساتھ تشبیہہ کی نفی کی بحث میں اس سوال سے بحث کرتے ہیں کہ آیا دو امور میں مماثلت و تشبیہہ کا تحقق کس اصول پر ہوتا ہے؟ آپ علمائے معتزلہ میں سے بعض کی یہ رائے نقل کرتے ہیں کہ مماثلت کا تحقق خاص ترین وصف (اخص الوصف) کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ مثلا “علم ” کی مثال لیجئے۔ علم پر تین مقولات یا کیٹیگریز کا اطلاق ہوتا ہے: وجود ہونا، عرض ہونا (جوھر و عرض والا عرض) اور “علم ہونا”۔ یہاں “وجود” اعم الوصف (یعنی سب سے جنرل کیٹیگری ) ہے، عرض ہونا درمیانی جبکہ علم ہونا اخص الوصف ہے۔ پس جب بندے و خدا کے لئے علم کا اثبات ہوگا تو یہاں اخص والوصف میں مماثلت پائی جارہی ہے لہذا یہ حقیقی مماثلت ہے جو جائز نہیں۔ امام نسفی کہتے ہیں کہ ماتریدیہ کے نزدیک دو امور میں مماثلت تب متحقق ہوتی ہے جب وہ اعم الوصف میں مماثل ہوں، اگر اعم الوصف میں اختلاف کے بعد ذیلی اوصاف میں وہ بظاہر یکساں بھی معلوم ہورہے ہوں تب بھی کوئی مماثلت نہ ہوگی۔ مثلا علم کی مثال میں خاص سے عام وصف کی جانب تقسیم یوں ہوگی: علم، عرض، وجود، حادث و قدیم، ممکن و واجب۔ یعنی

  • بندے کا علم: علم، عرض، وجود، حادث و ممکن
  • خدا کا علم: علم، وجود، قدیم و واجب

یہاں اعم الوصف واجب و قدیم بمقابلہ حادث وممکن ہونا ہے۔ جب اس سطح پر فرق متحقق ہوگیا تو اس کے بعد ذیلی سطح پر جو مماثلت نظر آرہی ہے وہ محض الفاظ کی مماثلت ہے نہ کہ معنوی و حقیقی کیونکہ حادث و ممکن علم کسی بھی طرح اس کیٹیگری سے تعلق نہیں رکھتا جسے قدیم و واجب علم کہا جاتا ہے۔ گویا خدا کا علم اور بندے کا علم، یہ دو بالکل جداگانہ یا الگ ڈبے ہیں جو صرف “علم” کے نام میں مشابہ ہیں اور ایسی مشابہت توحید کے منافی نہیں۔ حادث و ممکن کی حقیقت چونکہ محتاج ہونا ہے، یہاں سے واجب کے لئے ذاتی اور حادث کے لئے عطائی کی تقسیم سامنے آتی ہے۔ اسی اصول کے تحت اشاعرہ و ماتریدیہ ذات باری کے حق میں اثباتی صفات (جنہیں صفات ذاتیہ کہا جاتا ہے) متحقق مانتے ہیں۔

امام غزالی کی رائے

آئیے اب اسی بات کو ائمہ اشاعرہ میں سے امام غزالی (م 505 ھ) کے کلام سے ملاحظہ کرتے ہیں۔ اس کے لئے ہم آپ کی کتاب “شرح اسماء الحسنی” کی جانب رجوع کرتے ہیں جہاں کتاب کی چوتھی فصل کا عنوان آپ یہ قائم کرتے ہیں:

فِي بَيَان أَن كَمَال العَبْد وسعادته فِي التخلق بأخلاق الله تَعَالَى والتحلي بمعاني صِفَاته وأسمائه بِقدر مَا يتَصَوَّر فِي حَقه

اس حقیقت کا بیان کہ بندے کا کمال و سعادت حتی الامکان اخلاق الہیہ کا خوگر و پیکر بننے میں ہے نیز یہ کہ وہ اللہ کے اسماء و صفات کے معانی سے اپنے باطن کو منور کرے

آپ پہلے اس عنوان کا مفہوم واضح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس سے مراد اللہ کے قرب کی طلب ہے اور یہ قرب اللہ کے اسماء و صفات کے متعلقات کو اپنانے میں پنہاں ہے۔ اللہ نے اپنا تعارف اپنے اسماء و صفات کے ذریعے کروایا ہے اور ہر اسم خاص معنی و خاصیت و کمال کا حامل ہے اور تمام کمالات کا منبع اللہ ہی کی ذات ہے اور ان کمالات کے حصول کا طریقہ ان اسماء کے ان خصائص کو اپنانا ہے جو بندے سے متعلق ہیں۔ آپ نے تقریبا ہر اسم کے تحت بندے کے اخلاقی حصے کو بیان کیا ہے۔ مثلا اللہ کے اسم رحمن سے بندے کا حصہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے غافل بندوں پر رحم کرتے ہوئے نرمی کے ساتھ وعظ و نصیحت کے ذریعے انہیں حق کی دعوت دے اور نافرمان لوگوں کو حقارت سے دیکھنے سے گریز کرے۔ یہ سب تفاصیل ہمارا موضوع نہیں، آپ کی کتاب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ فی الوقت ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ صفات باری میں مماثلت متحقق ہونے و نہ ہونے کا اصول آپ کیا بیان کرتے ہیں۔ اس ضمن میں آپ کے قائم کردہ ایک سوال اور اس کا جواب اہمیت کا حامل ہے۔

سوال: اللہ کی صفات سے متصف ہونے کے اس کلام سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ اور بندے میں بایں معنی مشابہت قائم ہے کہ جب بندہ اس کے اخلاق کو اپنائے گا تو اس کے مشابہ ہوجائے گا حالانکہ یہ بات عقلا و شرعا ممنوع ہے۔

جواب: یہ گمان ٹھیک نہیں کہ کسی وصف میں شریک ہونے سے مماثلت لازم آتی ہے۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ دو ضدیں کبھی باہم متماثل نہیں ہوتیں اور ان کے مابین نہ ختم ہونے والا ایسا بعد موجود ہوتا ہے جس سے زیادہ کا تصور بھی ممکن نہیں مگر پھر بھی وہ بہت سے اوصاف میں مشترک ہوتی ہیں؟ مثلا سیاہی سفیدی کی ضد ہے مگر پھر بھی یہ دونوں عرض، رنگ اور آنکھوں سے محسوس ہونے جیسے دیگر بہت سے امور میں مشترک بھی ہیں ۔ کیا غور نہیں کرتے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ موجود فی لامکان ہے اور سمیع، بصیر، عالم، مرید، متکلم، حی، قادر اور فاعل ہے اور انسان میں بھی یہ صفات پائی جاتی ہیں تو کیا وہ خدا کو بندے کے مشابہ کرکے اس کی مثال قرار دیتا ہے؟ قطعا نہیں، اگر یہ اصول درست ہوتا تو تمام مخلوقات باہم مشابہ ہوتیں کیونکہ سب کی سب کم از کم وجود میں تو باہم مشترک ہیں۔ مماثلت کا اصل مطلب نوع و ماہیت میں شرکت ہے۔ خاصیت الہی ایسا موجود ہونا ہے جو واجب الوجود اور اپنی ذات سے قائم ہےاور جو تمام ممکنات کو عمدگی کے ساتھ احسن طریقے سے وجود بخشتا ہے۔ اس خاصیت میں کسی چیز کا اس کے مشارک ہونے کا تصور بھی نہیں ہوسکتا اور اگرچہ بندے کو حاصل بعض صفات کے نام ایسے ہیں جو خدا کی خاصیت کے نام جیسے ہیں تو اس سے مماثلت لازم نہیں آتی۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ خاصیت الہی اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کی حقیقت بھی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

اگرچہ امام غزالی نے صفات الہیہ میں مماثلت ثابت ہونے کے اصول کو امام نسفی سے کچھ الگ انداز میں بیان کیا ہے (اور کچھ غور و فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں حقیقی فرق نہیں)، تاہم یہ بات واضح ہے کہ امام غزالی کے نزدیک بھی صفات الہیہ میں مماثلت کو دور کرنے کی بنیاد واجب الوجود اور ممکن الوجود نیز قائم بالذات و قائم بہ (ذاتی و عطائی) کی تقسیم ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ فریق ثانی کا موقف صرف صوفیاء کا موقف نہیں ہے بلکہ یہ عین اس اصول پر مبنی ہے جو اصلاً ماتریدی موقف ہے۔

امام رازی اور زیارت قبور کے فوائد کی بحث

ائمہ عقیدہ کی آراء کی روشنی میں شرک کے مدار کے جس اصول کا ہم نے ذکر کیا، آئیے عقیدے کے ایک بڑے ماہر کے ہاں اس اصول کا اطلاق بھی دیکھتے ہیں۔

امام رازی (545 ھ – 606 ھ) نے علم کلام یعنی علم عقیدہ پر اپنی مبسوط کتاب “المطالب العالیۃ من العلم الہی” کی جلد 7 میں ایک باب ‘فی بیان کیفیۃ الانتفاع بزیارۃ الموتی و القبور’ کے نام سے قائم کیا ہے۔ اس میں آپ کہتے ہیں کہ مجھ سے یہ سوال کیا گیا کہ آخر زیارت قبر سے فائدہ حاصل ہونے کی کیفیت اور وجہ کیا ہے؟ آپ جواب دیتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ موت کے سبب بدن سے جدا ہونے کے بعد ارواح زندہ ہوتی ہیں نیز بدنی حدود و قیود سے آزاد ہوجانے کے بعد بعض وجوہ سے وہ زندہ نفس کے مقابلے میں زیادہ قوی ہوتی ہیں، ان پر عالم غیوب ظاہر ہوجاتے ہیں اور دنیا کی طرف راغب کرنے والی بدنی حاجات سے بھی وہ پاک ہوجاتے ہیں، لہذا ان نفوس کا اللہ کے قرب کا شوق و میلان زیادہ ہوتا ہے اور وہ روحانی طور پر قوی تر اور اثر انگیز ہوتی ہیں۔ پس یہ وہ جوھات ہیں جن کی بنا پر صاحب قبر کی زیارت کے سبب ایک روح سے دوسری روح کو فیضان حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے لئے شیشے کی مانند ہوجاتی ہیں جس کے ذریعے ان کی شبیہ ان پر پڑتی ہے۔ اس واسطے سے زندہ شخص کو میت کی روح سے اخلاق عالیہ، علوم کسبیہ نیز معارف برھانیہ وغیرہ کا حصول ہوتا ہے۔ یہ بحث کرنے کے بعد آپ کہتے ہیں:

فھذا ھو السبب الاصلی فی شرعیۃ الزیارۃ، ولا یبعد ان یحصل فیھا اسرار اخری ادق و اغمض مما ذکرناہ

یعنی یہ وہ امور ہیں جو زیارت قبور مقرر کئے جانے کی اصل و بنیاد ہیں، البتہ یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ اس معاملے کی حکمتیں اس سے بہت زیادہ گہری و باریک ہوں جو میں نے ذکر کیں۔

ملاحظہ فرمائیں کہ امام رازی کتنا فرینکلی یہ سب لکھ رہے ہیں۔

علم عقیدہ کے سنجیدہ طالب علم کے سامنے یہاں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا امام رازی کو بھی توحید تک سمجھ نہ آئی تھی؟ آپ کا یہ بحث ذکر کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ طریقہ کار اشعری (اور اسی طرح ماتریدی کیونکہ اس معاملے میں دونوں کے اصول یکساں ہیں) اصول عقیدہ کی رو سے شرک نہیں۔ ممکن ہے امام رازی سے اصول عقیدہ سمجھنے میں چوک ہوگئی ہو، اس کے بعد دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امام رازی کے بعد طویل اشعری و ماتریدی روایت میں کسی نے امام رازی کی اس بحث کو شرکیہ قرار دیا؟ یاد رہے کہ امام رازی کم از کم اشعری روایت میں نہایت اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ کیا یہ مانا جائے کہ پوری اشعری و ماتریدی روایت اپنے اصول عقیدہ سے غافل رہی؟ تیسری قابل غور بات یہ ہے کہ جس عمل کا ذکر امام رازی نے یہاں کیا، صوفیاء کی روایت میں یہ عمل آپ سے صدیوں قبل سے پریکٹس کیا جاتا تھا جن کا ذکر صوفیاء کی کتب میں مل جاتا ہے۔ کیا ابتدائی صدیوں میں صدیوں پر محیط متکلمین یعنی علم عقیدہ کے ماہرین میں سے کسی نے اسے شرک قرار دیا؟ یعنی امت میں علم کلام کی جو کتب متداول رہیں، کیا ان میں اسے شرک قرار دیا گیا؟ یاد رہے، متکلمین غلط عقائد کا رد کرنے میں کسر چھوڑنے والے نہیں تھے بلکہ ہر گمراہ فرقے کی خبر لیا کرتے تھے۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ صدیوں تک سب کے سب توحید کے تقاضوں سے غافل رہے؟

اگر کسی کے نزدیک ان سوالات کا سادہ جواب یہ ہے کہ “غزالی، نسفی، صابونی و رازی جیسی نابغہ شخصیات کو لا الہ الا اللہ تک کا مطلب سمجھ نہیں آیا اور یہ سب علمائے عقیدہ بدعتی و شرکیہ نظریات کو جواز دینے والے تھے” تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ “دین میں تجدد” آخر ایسی رائے کے سوا اور کسے کہتے ہیں؟ ایسے دوستوں کو چاھئے کہ وہ اسلام کی کوئی نئی تاریخ تلاش کریں۔

اگر یہی توحید ہے تو ھندو کیوں مشرک ہے؟

ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ذاتی و عطائی (غنا و احتیاج) وغیرہ کے اصول پر کسی شخصیت سے استعانت شرک نہیں تو پھر ھندووں کو بھی مشرک نہ کہنا چاہئے کہ وہ بھی کسی بڑے بھگوان وغیرہ کی عطا سے اپنے دیوتاؤں کو موثر مانتے ہیں۔ یہ ایک کمزور بات ہے جو اس چیز کو ظاہر کرتی ہے کہ ناقد کو مسلمان کو یہ علم نہیں کہ اہل اسلام کے نزدیک ذات باری کے بارے میں مطلوب عقیدہ کیا ہے، یعنی وہ کیا تصورات ہیں جنہیں ماننے سے توحید کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ چنانچہ اگر بالفرض ہمارے یہ ناقد ھندومت کے کسی بڑے ھندو عالم و ماہر سے وہ باتیں منوالیں جنہیں ہمارے علمائے عقیدہ الوہیت باری اور توحیدکے لئے ضروری قرار دیتے ہیں تو پھر یہ بات درست ہوگی کہ نری استعانت کی بنا پر ھندو کو بھی مشرک نہیں کہا جائے گا، ہمیں ھندؤوں سے ضد نہیں ہے کہ ہر حال میں انہیں مشرک کہیں، کسی شخص کو اسی حدتک اور اسی وقت مشرک کہا جاسکتا ہے جب وہ خصائص باری تعالی میں خلط ملط کا مرتکب ہو۔ اگر کوئی عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہ کہے اور رسول ہی مانے تو ہم کیوں اسے مشرک کہنے لگے؟

آئیے ہم ایسے ناقدین کے لئے چند خصائص و صفات کا ذکر کئے دیتے ہیں جو علمائے عقیدہ کی رو سے توحید باری تعالی کے لوازمات ہیں:

1۔ ذات باری کا وجود متحقق ماننا

2۔ اسے واجب الوجود ، قدیم و ابدی ماننا

3۔ قائم بالذات ماننا

4۔ اسے تمام قسم کے جسمانی زمانی و مکانی تقاضوں سے ماوراء ماننا ، جیسے کہ قابل تقسیم ہونا (مثلا کمیت ، مقدار، عدد)، رنگ، مکان کے اندر اور اس سے خارج ہونا، کسی شے سے متصل یا منفصل ہونا، کسی جہت میں ہونا، حرکت یا سکون میں ہونا، وغیرہ

5۔ اسے کیفیات و احساسات کے ان تمام تصورات سے ماوراء ماننا جو انسانوں کو لاحق ہیں جیسے خوشی غمی محبت غصہ وغیرہ

6۔ حلول و اتحاد سے ماوراء ماننا، حلول کا مطلب یہ کہ وہ کسی محل (مکان یا جسم) میں ہے اور اتحاد کا مطلب یہ کہ کسی دوسرے وجود سے متصل ہے

7۔ اسےجنس یا فرع سے ماوراء ماننا۔ جنس سے ماوراء ماننے کا مطلب یہ کہ اس کا کوئی باپ وغیرہ (یا اوپری اصول) نہیں جس کی وہ فرع ہو اور فرع سے ماورائیت کا مطلب یہ کہ اس کی اولاد نہیں

8۔ ذات باری کو ایک ماننا

عقیدے کے موضوع پر علامہ سنوسی (م 895 ھ ) کی کتاب “ام البراھین” میں ان تمام صفات کو چھ امور میں بند کیا گیا ہے: (1)وجود ، (2) قدم،  (3) بقا ، (4) مخالفۃ الحوادث ،(5) قیام بالنفس  اور (6) توحید ۔ پہلی صفت ان معنی میں صفت نفسی ہے کہ وجود باری تعالی عین ذات ہے، اس کے بعد پانچ صفات کو “سلبی صفات” (negative attributes) کہا جاتا ہے، یعنی وہ امور جن سے خدا کی تنزیہہ (پاکی بیان کرنا) لازم ہے۔

  • قدم کا معنی یہ ہے کہ اس وجود کی کوئی ابتدا نہیں
  • بقا کا معنی یہ ہے کہ اس وجود کو فنا نہیں
  • مخالفۃ الحوادث کا معنی یہ ہے کہ وہ ذات کسی شے کے مماثل و مشابہ نہیں (جس کی صورتیں اوپر ذکر ہوئیں)
  • قیام بالنفس کا معنی یہ ہے کہ وہ ذات کسی کی محتاج نہیں
  • وحدانیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات، صفات و افعال میں کوئی ا سکی ضد (counterpart) و ند (alternate) نہیں (اس معاملے میں صفات میں مماثلت و تشبیہہ کا تصور کیسے ختم ہوتا ہے، اس کی تفصیل ہم نے امام نسفی و غزالی کی آراء کی روشنی میں پیش کی گئیں)

ان کے سوا کچھ “اثباتی صفات ” بھی ہیں جن کا اقرار لازم ہے (جو اشاعرہ کے نزدیک 7 اور ماتریدیہ کے نزدیک 8 ہیں) اور کچھ منصوص رسوم عبودیت، لیکن ہم ان تفصیلات کو یہاں چھوڑ دیتے ہیں اور ناقد سے کہتے ہیں کہ آپ کسی ھندو عالم سے صرف انہی امور کو منوالیجئے کہ ان کے نزدیک خدا واقعی درج بالا تفصیلات کا حامل ہے۔ اس سب تفصیل کو ماننے کے بعد اگر وہ اس کا نام بھگوان رکھتا ہے تو ہمیں کیا پڑی ہے اس نام رکھنے سے اسے مشرک کہیں۔ جب آپ ھندومت کے کسی ماہر کے سامنے یہ سب تفصیلات رکھ کر اسے یہ ماننے کے لئے کہیں گے، خود بخود دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا کہ وہ بھگوان و دیوتاؤوں کے بارے میں کیا تصورات رکھتے ہیں۔

استعانت کس سے اور کس حد تک؟

ایک بھائی نے سوال پوچھا ہے کہ اگر علمائے عقیدہ کے مطابق شرک کا مدار ذاتی و عطائی، قدیم و حادث نیز لامتناہی و متناہی کی تقسیم ہے تو کن شخصیات سے نیز کن معاملات میں استعانت کی جاسکتی ہے؟

ہمارے فہم میں اس کا اصولی جواب یہ ہے کہ ایسی شخصیات یا معاملات کی کوئی لسٹ یا فہرست مرتب کرنا ممکن نہیں، اس کی حد بندی کسی چیز کے علمی طور پر ثابت ہونے یا نہ ہونے پر منحصر ہے اور اس معاملے میں علمی دلیل تین ہی طرح آسکتی ہے:

1۔  حسی یا باطنی مشاھدے سے

2۔  عقلی دلیل سے

3۔  خبر سے

پس اگر کسی شے یا شخص کے بارے میں کسی دلیل سے یہ ثابت ہوجائے کہ وہ اللہ کی عادت کی رو سے عام طور پر کسی دوسری شے کے ظہور کی علامت ہوتی ہے تو اس دوسری شے کے حصول کے لئے اس نشانی کی پیروی کرنا یا اس کو طلب کرنا جائز ہوگا اور اس جواز میں جزم کا پہلو اسی قدر ہوگا جس قدر دلیل مضبوط ہوگی۔ یہ بات یاد رہے کہ جنہیں اسباب کہا جاتا ہے، ان کی حیثیت علامات سے زیادہ کچھ نہیں اور ان کے بارے میں یہی نظریہ رکھنا توحید کا ایک تقاضا ہے۔ مثلا:

  • اگر کسی خاص اجزاء کے استعمال سے بھوک و پیاس یا درد جاتے رہتے ہوں تو ان اجزاء کی طلب جائز ہوگی، اس شرط کے ساتھ کہ انہیں موثر بالذات نہ مانا جائے۔ اگر انہیں از خود مؤثر مان لیا جائے تو یہ شرک ہوگا۔ سورہ کھف میں دو بھائیوں کا واقعہ درج ہے جہاں ایک شخص اس عالم میں جاری علامات ہی کو موثر سمجھتے ہوئے اپنی کھیتی پر بھروسا کرتا رہا اور اسے کہا گیا: وَلَا أُشْرِكُ بِرَبِّي أَحَدًا جب کہ وہ عام طور پر تحت الاسباب سمجھے جانے والے امور کے بارے میں ہی یہ تصور قائم کئے ہوئے تھا۔
  • اسی طرح اگر نص سے معلوم ہو کہ فلاں عمل اللہ کی خوشنودی یا برکت یا فلاں خیر کا باعث ہے تو اس عمل کو بطور سبب اختیار کرنا بھی جائز ہوگا کہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اللہ نے اس فلاں عمل کو خاص اثر ظاہر ہونے کی علامت مقرر کیا ہے
  • بعینہہ اگر کسی کو اپنے قلبی مشاھدات کی بنا پر یہ معلوم ہو کہ اللہ تعالی جس طرح ظاہری حواس کے پیش نظر معاملات میں عادتا بعض امور کو بعض دیگر پر مرتب فرماتے ہیں بعینہہ یہی معاملہ حواس سے پرے بھی جاری ہے، تو ان علامتی اسباب کو اختیار کرنا بھی بقدر صحت علم جائز ہوگا۔ چنانچہ اس اعتبار سے اس جملے کہ “اللہ تعالی سورج کے ذریعے روئے ارضی کو منور کرتا نیز زندگی کو قائم رکھنے کا بندوبست کرتا ہے” اور اس جملے کہ “اللہ تعالی فلاں شخص کے ذریعے روئے ارض پر موجود مخلوقات کو فلاں طرح کا (مثلا روحانی) رزق عطا کرتا ہے” کوئی فرق نہیں، سوائے اس سے کہ ایک دعوی دوسرے کے مقابلے میں زیادہ یا کم قطعی و لائق اعتبار ہوسکتا ہے۔ اگر ایک شخص ان علامتی اسباب میں سے نہ سورج کو موثر بالذات مانتا ہے اور نہ ہی اس خاص شخص کو، تو کسی شخص کے عمل پر حقیقت کے مطابق یا مخالف ہونے کی بنا پر علم و جھل کا حکم تو جاری ہوسکتا ہے، مگر شرک کا نہیں۔ مثلا اگر ایک شخص درخت کو یہ خیال کرکے چاٹ رہا ہو کہ اس سے میری پیاس بجھے گی تو ہم اپنے علم کی بنا پر زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ عمل جہالت (یعنی خلاف واقعہ) ہے، نہ یہ کہ یہ عمل شرک ہے۔

ان علامتی اسباب کی تحقیق کے بارے میں اس نوعیت کا اختلاف اہل علم کے مابین معمول کی بات ہے۔ مثلا ایلوپیتھ ڈاکٹرز کے مطابق ھومیو پیتھ ناقابل اعتبار طریقہ علاج ہے کیونکہ ان کی نظر و تحقیق کی رو سے ھیومیوپیتھ کے بیان کردہ طرق اسباب و وسائل متحقق و ثابت شدہ نہیں۔ اب ایک ایلو پیتھ زیادہ سے زیادہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ ھومیو پیتھ جھالت ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ شرک بھی ہے۔ اور اگر وہ ھیومیو پیتھی سے حسن ظن رکھتا ہے تو یہ کہے گا کہ چونکہ میرے نزدیک یہ ثابت نہیں لہذا میں اس پر عمل نہیں کرتا، البتہ جن کے نزدیک ثابت ہے وہ اس پر عمل کرسکتے ہیں۔ صوفیاء کا کہنا یہ ہے کہ بعض نصوص کے مندرجات نیز ہمارے قلبی مشاہدے سے ہمیں معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ تعالی عادتا عالم کی سلطنت علامتی اسباب (بشمول فرشتوں) کے طریقے پر سرانجام دیتے ہیں، اسی طرح بعض امور کی تقسیم بعض بندوں کے ذریعے بھی سرانجام دیتے ہیں اور اس نظام کو وہ قطب ابدال و اوتاد وغیرہ کی اصطلاح میں بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ جب صوفیاء یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص قیوم زمان ہے کہ امور اس کے واسطے سے تقسیم ہورہے ہیں، تو اس کا یہی مفہوم ہے اور رسول اللہﷺ کو واسطہ بنانے کا بھی یہی مفہوم ہے کہ “قطب واحد” آپﷺ ہی کی ذات والا ہے۔ پس اگر کوئی اپنے علم کی بنا پر ان واسطوں کو متحقق مانتے ہوئے ان کی طرف بایں معنی رجوع کرتا ہے کہ مثلا ان کا تصور باندھنے سے اللہ کی بارگاہ سے فلاں اثر یا نتیجے کا حصول ہوتا ہے تو اپنی اصل میں یہ اسی طرح ہے جیسے یہ تصور کرنا کہ پیناڈول کھانے سے اللہ تعالی کی جانب سے درد میں کمی ہوتی ہے۔

اب اگر کسی کا یہ ماننا ہے کہ اس کے نزدیک یہ اسباب متحقق و ثابت نہیں نیز اسے صوفی کے علم و کردار پر ذرہ برابر اعتبار نہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سب باتیں جہل (یعنی خلاف واقعہ) ہیں، نہ یہ کہ یہ شرک بھی ہے۔ پھر جسے صوفی کے کردار کے بارے میں حسن ظن ہو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ میرے نزدیک یہ متحقق نہیں لہذا میں انہیں نہیں مانتا مگر صوفی کو جاھل بھی نہیں کہتا۔ اور جسے صوفی پر اعتبار ہو اور ان کے طریقے پر علم حاصل کرنا چاھتا ہو تو اس کے لئے ان کی بات ماننا جائز ہوگا (بشرطیکہ اس کی مہارت و لیاقت کی تسلی کرلے جیسے کسی ڈاکٹر سے علاج کے وقت کرتے ہیں)۔ اللہ کی سنت جاریہ کے تحت علامات جاننے کے امکان کو کسی خاص طریقہ تحقیق میں محدود سمجھنا، یہ تنگ نظری کے سوا کچھ نہیں۔ درخت کو چاٹنے سے آپ کی پیاس نہ بجھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کسی کی بھی نہیں بجھ سکتی یا دنیا میں ایسا کوئی درخت ہو ہی نہیں سکتا جسے چاٹنے سے پیاس بجھ سکے نیز جو اس کا دعوے دار ہے وہ شرک کررہا ہے۔

ھذا ما عندی، واللہ اعلم بالصواب

 

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں