Home » ماہانہ مطالعاتی سلسلہ برائے تفہیمِ مغرب
احوال وآثار اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات

ماہانہ مطالعاتی سلسلہ برائے تفہیمِ مغرب

 

مولانا مفتی نور الوہاب

سالِ رواں میں جولائی کے آخری عشرے ميں استادِ محترم مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر کے زیر نگرانی نیپال کا مطالعاتی سفر ہوا جو مدرسہ ڈسکورسز کا باضابطہ آخری سفر تھا۔ سفر کے اختتام پر شرکاء کی جانب سے اس طرح کی مزید علمی و فکری نشستوں کے جاری رہنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ۔ استاد عمار صاحب نے اس خواہش کو سراہتے ہوئے اسے زیادہ وسیع تناظر ميں جاری رکھنے کی ضرورت کا اظہار فرمایا ۔

اس  موضوع پر پہلی علمی و فکری نشست ۱۹ دسمبر کو لاہور جوہر ٹاؤن لاہور میں ادارہ مذہبی تناظر( IRRP), انسٹیٹیوٹ آف ڈسکورسز پرسپیکٹو IDP، چیمبر آف اسلامک اسٹیڈیز CIS اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ GET کے زیرِ اہتمام محترم ڈاکٹر سمیع اللہ فراز  صاحب کی نگرانی میں منعقد کی گئی ۔ لاہور کے بہت سے  احباب غزالی ٹرسٹ میں براہ راست اس نشست کے شرکاء تھے جبکہ مجھ سمیت تقریباً پچاس کے لگ بھگ شرکاء آن لائن تھے ۔ اس علمی نشست میں بنیادی طور پر اس بات کی طرف راہنمائی کی گئی کہ تفہیمِ مغرب کے مروجہ اسالیب کون کون سے ہیں اور آج کس نئے اسلوب کی ضرورت ہے ۔

مغرب سے ہمارا برصغیر ہند و پاک کے لوگوں کا براہ راست اور پہلا واسطہ تب پڑا جب وہ یہاں تاجر بن کر آئے ۔ ليکن پھر رفتہ رفتہ وہ ہندوستان پر قابض ہوگئے، لہذا مغرب سے ہمارا پہلا واسطہ بطور ایک محکوم کے ہوا ۔ جس کا لازمی نتیجہ مغرب کے خلاف ایک ردعمل اور ناپسندیدگی کا مزاج پیدا ہوا، لہذا اسی ردعمل اور ناپسندیدگی کے زیراثر تفہیمِ مغرب کا پہلا اسلوب، مغرب سے عداوت اور مخالفت کا پیدا ہوا ۔

دوسرا اسلوب مغرب کی پسندیدگی اور سراہنے کا ہے۔ یہ تب پیدا ہوا جب مغرب نے ہندوستان سمیت دنیا کے دیگر خطوں پر اپنا تسلط قائم کرلیا، تو بطور ایک غالب قوم مغربی اقوام کی اچھائیوں اور مثبت چیزوں سے واسطہ پڑا۔ چنانچہ اس تسلط کے نتیجے میں مغربی ممالک کے منظم طور طریقوں سے ہمارے لوگ متاثر ہوئے اور اسی کے زیراثر مغرب کو پسند کیا جانے لگا ۔ چنانچہ ہندوستان میں سرسید احمد خان جیسے حضرات نے مغرب پسندی ہی کے زیراثر، ہندوستانیوں کو حسن انتظام وغیرہ جیسی صفات میں مغربی لوگوں کے مقابلے ميں کم باور کرایا ۔

الغرض تفہیمِ مغرب کے پہلے اسلوب میں ردعمل کی نفسیات کی وجہ سے مغرب کو ناپسندیدگی اور مخالفت، جبکہ دوسرے اسلوب میں پسندیدگی اور موافقت کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔

تفہیمِ مغرب کے یہ دونوں اسلوب اُس دور کے حالات اور ضرورت کے مطابق بالکل قابل فہم اور بدیہی تھے لیکن آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تفہیمِ مغرب کے ایک تیسرے اسلوب سے بھی استفادہ کیا جائے یا اسے پروان چڑھایا جائے ۔ اگرچہ کہیں نہ کہیں اس اسلوب کا آغاز ہوچکا ہے لیکن اسے مستقل مطالعے اور غور و فکر کے طور پر جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اسی ضرورت کے تحت ان نشستوں کا آغاز کیا گیا ہے ۔

اس اسلوب کا مقصد یہ ہے کہ تفہیمِ مغرب کے حوالے سے دیکھا جائے کہ خود مغرب کا انداز فکر کیا ہے؟ وہ خود اپنی فکر کو کیسے پیش کرتا ہے؟ مغرب کی سیلف انڈرسٹینڈنگ کیا ہے؟ خود مغربی مصنفین، کا اپنی تہذیب و فلسفہ کے حوالے سے نظام استدلال اور اندازِ تفہیم کیا ہے؟ اس مقصد سے ہر ماہ کی علمی و فکری نشست میں کسی مغربی مصنف کے متن کو سامنے رکھتے ہوئے، مغربی فکر کی مختلف جہات ، جیسے سماجیات، سیاسیات، اخلاقیات، تہذیب و تمدن اور فکر و فلسفہ وغیرہ پر علمی نشست کا اہتمام کیا جائے گا  جس ميں اس موضوع سے شغف اور دلچسپی رکھنے والے مختلف اہل علم کسی طے شدہ متن یا فکر پر اپنے مطالعے اور تجزئیے کا خلاصہ پیش کریں گے، ان شاء اللہ ۔

اس نشست کے انعقاد پر ڈاکٹر محمد سمیع اللہ فراز، ڈاکٹر ساجد اقبال شیخ، ڈاکٹر عمران مرزا، جناب عامر جعفری اور بالخصوص ڈاکٹر عمار خاں ناصر بجاطور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔

——————————————————————————————-

مولانا نور الوہاب، جامعہ دار العلوم کراچی کے فاضل اور گورنمنٹ کالج آف مینیجمنٹ سائنسز 2، پشاور میں اسلامیات کے استاذ ہیں۔

منتظمین

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں