Home » دینی مدارس کے طلبا نسبتا سنجیدہ کیوں ہیں؟
سماجیات / فنون وثقافت مدارس اور تعلیم

دینی مدارس کے طلبا نسبتا سنجیدہ کیوں ہیں؟

محمد آصف محمود ایڈووکیٹ
اس بات پر متعدد اہل علم کا اتفاق ہے کہ دینی مدارس کے طلباء جدید تعلیمی اداروں کے طلباء کی نسبت زیادہ سنجیدہ ہیں، ان کا علمی ذوق بہتر ہے، وہ اہم قومی امور پر غوروفکر کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں اور ان کے رویوں میں متانت اور ٹھہراؤ جدید تعلیمی اداروں کے طلباء کی نسبت بہت زیادہ ہے۔سوال یہ ہے کہ اس کی وجوہات کی ہیں؟
یہ بات کسی مفروضے پر مبنی نہیں بلکہ میرے مشاہدے کی ہے کہ دینی مدارس کے طلباء کے رویوں میں فکری پختگی زیادہ ہے۔ برادر مکرم ڈاکٹر محمد مشتاق، برادرم ڈاکٹر حسن الامین اور جناب خورشید ندیم سمیت کئی شخصیات ایسے ہی خیالات کا ظہار کر چکی ہیں کہ ان کے مشاہدے کے مطابق روایتی دینی مدارس کے طلباء جدید تعلیمی اداروں کے طلباء سے کہیں زیادہ سنجیدہ علمی رجحان اور افتاد طبع کے حامل ہیں۔ سوال وہی ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟یاد رہے کہ یہاں مثالی صورت حال اور استثناء کی بات نہیں کی جا رہی۔ یہ دستیاب رویوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
شروعات میں جب میں نے یہ فرق محسوس کیا تو اس کا اظہار کرتے ہوئے یہ احساس دامن گیر تھا کہ شاید میرے نتائج فکر ناقص ہیں۔ لیکن بعد میں اسلام آباد کی علمی محافل میں، جب متعدد جید اہل علم و فکر کے ہاں اس بات پر عمومی اتفاق پایا تو تسلی ہوئی کہ یہ میرا نقص فہم نہیں، یہ اہل علم کا اجتماعی مشاہدہ ہے۔اس کے بعد سے یہی سوال دامن گیر ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔
دینی مدارس میں وقت گزارنے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا، وہاں کے فارغ التحصیل طلباء اور علماء سے البتہ ایک تعلق رہا۔ جدید تعلیمی اداروں سے البتہ پڑھا بھی اور ملک کی بڑی جامعات میں پڑھانے کا اتفاق بھی ہوا۔ میں شرح صدر سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ جدید تعلیمی اداروں کے نوجوان، علمی ذوق، فکری افتاد طبع، مزاج کی سنجیدگی اور قومی امور پر سنجیدہ مباحث کے باب میں دینی مدارس کے طلباء سے بہت پیچھے ہیں۔ یہ انیس بیس کا فرق نہیں، بیچ میں کئی خندقیں حائل ہیں۔
ایک طرف جدید تعلیمی ادارے ہیں۔ وسائل کی بھی کوئی کمی نہیں اور ریاستی سرپرستی بھی وافر ہے۔ جدید اداروں کے مالی امکانات سے دینی مدارس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ بھاری بھرکم بجٹ ہیں جو ان جدید اداروں کو چلانے میں استعمال ہو رہے ہیں، ایکڑوں پر پھیلی اراضی ان کو سرکار نے دے رکھی ہے، انتہائی قابل اساتذہ انتہائی موزوں معاوضے پر یہاں پڑھا رہے ہیں۔
دوسری جانب دینی مدارس ہیں، بجٹ موجود نہیں، عمارت بھی وہ خود ہی بناتے ہیں۔ کوئی سرکاری سرپرستی نہیں۔ اساتذہ کے معاوضے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شاید ایک شیخ الحدیث کو ملنے والی ماہانہ رقم سے زیادہ ایک یونیورسٹی کے چپڑاسی کی تنخواہ ہو۔ ان اساتذہ کا نہ میڈیکل ہے نہ پنشن۔ مکمل سوتیلے ماحول میں، روکھی سوکھی کھا کر یہ بروئے کار آتے ہیں۔
لیکن فرق اتنا ہے کہ ہمالیہ جیسا۔ جدید اداروں کے طلباء سے آپ کسی بھی سنجیدہ قومی معاملے پر بات کر کے دیکھ لیں، چند چیزیں نمایاں ہوں گی۔ اس کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہوں گی۔وہ تاریخ سے لاعلم ہو گا۔ وہ عصری سیاسی اور سماجی معاملات سے بھی لاتعلق ہو گا۔ وہ کسی معاملے پر سنجیدہ غوروفکر کی صلاحیت سے بھی محروم ہو گا۔ کسی سنجیدہ معاملے پر اسے بات کرنا پڑ جائے تو دو چار فقرے کہہ کر ہانپ جائے گا۔ نہ علم ہے، نہ طرز گفتگو کی خبر ہے، نہ بات کرنے کا سلیقہ ہے، نہ مزاج میں ٹھہراؤ ہے، نہ مطالعہ ہے، نہ کوئی ندرت خیال ہے۔ یہ قومی مسائل سے لاتعلق ایک ایسا وجود ہے جو پوری غیر سنجیدگی ا ور کھلنڈرے پن کے ساتھ کامل مادی جستجو میں ڈکری کے تعاقب میں بھٹک رہا ہے۔
کسی نے اس کے مزاج، افتاد طبع اور اخلاقی پہلو کی تہذیب نہیں کی۔ اس کا عصری شعور دو چار فقروں پر مبنی چند اقوال زریں تک محدود ہے۔اس کی اکثرمعلومات واجبی، ناقص اور ادھوری ہیں۔ اس کی دنیا میں علم و فکر کا کوئی دخل نہیں۔ اس کا مزاج ایسا ہے یہ کسی مسئلے پر دو منٹ سے زیادہ بات نہیں کر سکتا۔ بات تو کیا اس دورانیے سے زیادہ یہ کسی معاملے پر سنجیدگی سے سوچ بھی نہیں نہیں سکتا۔ یہ پھٹ پڑے گا یا لڑ پڑے گا۔
اس کے برعکس دینی مدارس کے طلباء قومی امور کے بارے میں زیادہ غوروفکر کرتے پائے جاتے ہیں۔ اس کے ہاں کسی بھی معاملے پر اس کی سارے جہتوں کے ساتھ بات کرنے کا تحمل اور سلیقہ موجود ہے۔ وہ عصری سیاسی اور سماجی شعور میں زیادہ پختہ ہیں۔ وہ اپنی تہذیبی اور مذہبی روایات سے زیادہ آگہی رکھتے ہیں۔ ان میں تحمل کے ساتھ بات کرنے کا سلیقہ زیادہ ہے۔
ایک طبقہ وہ ہے جو ریاست اور اس کے وسائل کی سرپرستی میں آگے آ رہا ہے اور دوسرا وہ ہے جو اس سے محروم ہے۔ لیکن افتاد طبع میں اتنا فرق ہے کہ آدمی حیران ہو جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟
میں نے اس سوال پر بہت غور کیا ہے اور میرے خیال میں اس کی وجہ کتاب ہے۔دینی مدارس کتاب سے جڑے ہیں۔ مطالعے کا ذوق آپ میں ٹھہراؤ پیدا کرتا ہے۔ کتاب پڑھنے کے لیے ایک ٹمپرامنٹ درکار ہوتا ہے جو مدارس میں پروان چڑھ جاتا ہے۔ کتاب آپ اٹھاتے ہیں اور پھر پڑھنا شروع کرتے ہیں اور یہ مطالعہ کئی گھنٹوں اور بعض اوقات کئی دنوں تک محیط ہوتا ہے۔ اس دوران آپ پڑھ بھی رہے ہوتے ہیں اور آپ کے لاشعور میں ایک فکری مشق بھی جاری ہوتی ہے۔ آپ سوچتے ہیں سوالات اٹھتے ہیں اور اس سے ایک مزاج پروان چڑھتا ہے۔
دوسری جانب جدید تعلیمی ادارے ہیں۔ یہاں کتاب کا عمل دخل کم ہوتا جا رہا ہے۔یہاں ٹک ٹاک ہے، یہاں یو ٹیوب ہے، یہاں ٹوئٹر ہے، یہاں جدید ذرائع ابلاغ ہیں، لیکن یہاں کتاب نہیں ہے۔ نصاب کی کتاب بھی کم ہی پڑھی جاتی ہے، نوٹس سے کام چلایا جاتا ہے۔ تہذیبی، مذہبی اورعصری بیانیے کا، الا ماشا ء اللہ، کسی کو علم نہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ ایک عام نوجوان، ایک ہی لمحے میں جست لگا کر نتیجہ نکالنا چاہتا ہے۔ وہ ٹھہراؤ اور غوروفکر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وہ ایک فکری ہیجان کا شکار ہے۔ وہ مطالعے سے دور ہو چکا ہے۔ کتاب تو کیا اس کے لیے ایک مقالہ یا چند صفحات پڑھنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ وہ مختصر سی پوسٹ سے آگے نہیں سوچ سکتا۔ سنجیدہ بات ہو تو وہ ہانپ جاتا ہے۔
یہ کتاب ہے جو علمی رویے کو جنم دیتی ہے اور مزاج میں ٹھہراؤ اور سلیقہ پیدا کرتی ہے۔ ٹک ٹاک اور دیگر تمام ذرائع اس ٹھہراؤ کے قائل نہیں۔ چنانچہ عام نوجوان کے ارتکاز کا دورانیہ ایک منٹ ہے۔ اس کے بعد وہ ڈی فوکس ہو جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن سماج کے مزاج کی تہذیب ہو گی تو صرف کتاب سے ہو گی اور تحریر سے ہو گی۔ ٹک ٹاک یا یو ٹیوب سے نہیں ہو گی۔
(بشکریہ روزنامہ ترکش)
—————————————————
آصف محمود ایڈووکیٹ ممتاز ماہر قانون ہیں اور مختلف اخبارات میں مستقل کالم لکھتے ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں