Home » تفہیمِ مغرب: تحفظات، اشکالات، معروضات
اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات

تفہیمِ مغرب: تحفظات، اشکالات، معروضات

ہمارے ہاں تفہیمِ مغرب کا مبحث جدیدیت، تہذیبِ مغرب اور اس کے مظاہر کو سمجھنے کی بظاہر ایک جاری کوشش ہے جو ایک خاص علمی شعور کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، اور ایک طرح سے مسلم ذہن کی طرف سے ہم عصر دنیا کو سمجھنے کی علمی کاوش کا عنوان ہے۔ لیکن تفہیم مغرب کے حاصلات کو علم کا کوئی زمرہ (category) قرار دینا ممکن نہیں کیونکہ یہ پوری علمی کاوش عقل اور عقلیت کے کسی رسمی تصور سے خالی ہے، اور کسی ایسے اصول سے تہی ہے جس کی پابندی کسی علم پر منتج ہوتی ہو۔ مغرب بطور تہذیب ایک واقعیت رکھتا ہے اور یہ واقعیت سسٹم کی حیثیت سے اب عالمگیر ہے۔ سسٹم اور اس کی حرکیات بدیہی نہیں اور عقل کا براہ راست موضوع ہے، اور عقلی تعیین سے قبل اس پر کوئی مذہبی ججمنٹ نہیں لائی جا سکتی۔ دوسری بات یہ کہ سسٹم اپنے مؤثراتِ ٹیکنالوجی سے افراد میں جو احوال پیدا کرتا ہے، اور معاشرے اور تاریخ میں جو حالات سامنے لاتا ہے وہ بھی اولاً عقل ہی کا موضوع ہیں۔ لیکن یہ سماجی اور معاشی حالات انسان میں جو احوال پیدا کرتے ہیں ان پر مذہبی ججمنٹ ضرور دی جا سکتی ہے بشرطیکہ ان احوال کے علمی تعین کا کوئی طریقۂ کار وضع کیا جا سکے۔ یہ سوال کہ اس مذہبی ججمنٹ کا طریق کار کیا ہو گا ابھی تک ضروری تفصیل کا متقاضی ہے اور اس کا طے ہونا ابھی باقی ہے۔ تیسری بات یہ کہ اس سسٹم کی تشکیل میں براہِ راست کھپنے والے افکار استدلال و علم کا موضوع ہیں اور جو سرتاسر اصول کی بحث ہے اور جو صرف ایک تہذیب کے لیے خاص نہیں ہو سکتے یعنی ایسے علمی اصول وضع نہیں کیے جا سکتے جو صرف مغربی تہذیب کے لیے خاص ہوں اور کسی دوسری یا اسلامی تہذیب پر ان کا اطلاق نہ ہوتا ہو۔ تفہیمِ مغرب کو تہذیبِ مغرب پر مذہبی اور اخلاقی ججمنٹ نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ یہ علم کا منصب نہیں ہے اور اس کے لیے ٹھیٹھ دینی رہنمائی کافی ہے۔
بہرحال ایک بات بہت حد تک یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ تفہیمِ مغرب کے منصوبے میں شامل تقریباً تمام افراد اور اہلِ علم مذہبی ہیں، اور مذہبی ذہن کے مالک ہیں اور تہذیبِ مغرب، ہم عصر دنیا اور جدیدیت کے پیدا کردہ علوم کو کسی نہ کسی ایسے فکری تناظر میں سمجھنے کا جائز داعیہ رکھتے ہیں جو دینی ہو۔ یہ امر بھی کافی حد تک یقینی ہے کہ تفہیمِ مغرب کی علمی کاوش ایک قابلِ جواز دینی ضرورت سے پیدا ہوئی ہے، اور اس سے مراد غالباً ایسے علم سے ہے جو مسلم معاشرے میں جدیدیت کے پھیلتے، بڑھتے اور چڑھتے غلبے کے درست فہم کو سامنے لا کر ایسے عمل کی بنیاد بنا دے جو اس غلبے کی روک تھام کر سکے یا اس غلبے کے روبرو کوئی دینی اور تہذہبی پوزیشن لینے کے قابل کر دے۔ بنیادی طور پر یہ سرگرمی ابھی تک ’علمی‘ ہے اور ایسے کسی سیاسی عمل کی بنیاد نہیں بن سکی جو تفہیم مغرب کے بڑے مقاصد کو واقعاتی تشکیل دے سکے، اور جو شاید اس لیے بھی ممکن نہیں کہ تفہیم مغرب پہلے سے ”تشکیل پائے ہوئے کچھ مقاصد“ کے تابع ہے۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ تفہیمِ مغرب سے پیدا ہونے والے انتاجات کو ان مذہبی اذہان نے پذیرائی دی ہے جو پہلے سے کسی مذہبی سیاسی عمل میں مصروف ہیں۔ یاد رہے کہ معاشرے اور تاریخ کے بارے میں جدید علوم ایسا تناظر اور سیاق و سباق پیدا کرتے ہیں جو ایک خاص نوع کے اجتماعی عمل کو ممکن بناتا ہے۔
تجزیے، تعیین اور تفہیم کے طور پر واقعاتی ’مغرب‘ یا ’مغربی تہذیب‘ یا ’جدیدیت‘ میرے لیے بھی ایک مستقل دلچسپی کا موضوع ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں کے مطالعہ اور کچھ ذاتی تجربات اور مشاہدات نے اس پورے تصور کو ازسر نو دیکھنے کی ضرورت کا احساس پیدا کیا ہے۔ ذیل کی گزارشات اسی ضمن میں پیش کی جا رہی ہیں، اور ناگزیر طور پر ایک دو جگہوں پر تکرار کو ارادتاً شامل رکھا گیا ہے:
(۱) تفہیم ایک عقلی سرگرمی ہے، اور پہلے سے کچھ علمی اصول قائم کیے بنا یہ کارِ تفہیم واقع نہیں ہو سکتا۔ کسی ایک تہذیب کو ’سمجھنے‘ کے اصول آفاقی ہی ہو سکتے ہیں، ایسے جو ہر تہذیب کی تفہیم میں بروئے کار آتے ہوں۔ تہذیبِ مغرب کے اپنے بیان (self-statement) کی معلومیت کو، جس میں اس کی خود تعارفی شامل ہے، تفہیمِ مغرب نہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے ہاں تفہیم مغرب اس تہذیب کے اپنے بیان (self-statement) اور اس تہذیب کی خود تنقیدی سے واقفیت تک محدود ہے۔ مغرب کے اندر سے اٹھائی گئی اس تفہیم اور واقفیت کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسے کسی ایسے عمل کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا جسے ہم درست تر معنی میں ”مسلم“ کہہ سکیں۔ مسلم عمل کی اساس صرف شریعت ہی ہو سکتی ہے۔ معلومیت کی طرح، تفہیم بھی لازماً کسی نہ کسی عمل پر منتج ہوتی ہے۔ عمل کی اساس کو تفہیم پر منتقل کرنا جدیدیت کے مقاصد اور اس کی پیدا کردہ حرفیت پسندی سے خاص ہے۔ برصغیر میں ہمارے ہاں گزشتہ تین صدیوں میں جو ”علم“ سامنے آیا ہے وہ ’تفہیمی‘ نوعیت کا ہے اور وہ اصلاً اندھی گلیوں کا متلاشی ہے اور جہاں کہیں ایسی گلیاں نظر آتی ہیں وہ ان میں گھس جاتا ہے، اور تیر و تفنگ کے ساتھ دبک کر بیٹھ جاتا ہے اور مسلم شعور اور معاشرے پر شبخون کی تیاری کرتا ہے۔ تفہیم مغرب بھی ایسی ہی ایک اندھی گلی ہے جو حریت اساس مسلم عمل کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہنے دیتی۔
(۲) اسلامی تعلیمات تہذیبِ مغرب پر ججمنٹ ہیں، اور ان کو علمی بنا لینا دینی احکام و تعلیمات کو ہم عصر دنیا سے غیرمتعلق کر دینے کا طریقۂ کار ہے۔ یہ امر کہ مغرب کافر اور باطل ہے ہمیں اپنے دین سے معلوم ہے، علم سے معلوم نہیں ہے۔ اس کی معلومیت کو علم پر منتقل کرنا نہ صرف ایک غیرعلمی طریقۂ کار ہے بلکہ غیر دینی بھی ہے۔ تفہیمِ مغرب ہمارے ہاں جاری مذہب کی تفہیمی روایت کا تسلسل ہے جس سے کسی خیر کے برآمد ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
(۳) تفہیم مغرب کا بنیادی سوال یہ ہے کہ مغرب یا مغربی تہذیب کیا ہے؟ لیکن ایک بنیادی سوال اس سے قبل اور اول یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کیا ہے؟ اس سوال کو اولاً موضوع بنائے بغیر تفہیم مغرب کا نام نہاد علمی منصوبہ مغرب اور جدیدیت کے ہاتھوں میں کھیلنے کے برابر ہے۔ کیا اسلامی تہذیب واقعتاً موجود بھی ہے یا نہیں؟ اسلامی تہذیب کی تشکیل میں لگنے والے بنیادی فکری وسائل کیا ہیں؟ اور ان کا مذہب سے استنباط کس منہج سے کیا گیا ہے؟ اسلامی تہذیب میں جاری علمی روایت میں عقل اور عقلیت کا تصور کیا ہے، اور ان سے پیدا ہونے والے علم کے بنیادی خواص کیا ہیں؟ اسلامی تہذیب کا بنیادی تصور/آئیڈیا کیا ہے؟ تہذیب ایک واقعاتی چیز ہے، اور اس کی تشکیل میں کھپنے والے افکار اور اقدار اس سے الگ ایک معروف اور معلومِ عام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام اور ہم عصر مسلم تہذیب کی باہمی نسبتیں کیا ہیں اور وہ علم میں کیونکر متعین کی گئی ہیں؟ اور ان کا تفصیلی بیان کہاں موجود ہے؟ مغربی تہذیب کے عالمگیر علمی اور عملی غلبے میں اسلامی تہذیب کن حالات میں باقی ہے، اور کیا یہ اپنے بنیادی اجزا محفوظ رکھے ہوئے ہے؟ ہم عصر دنیا میں اسلامی تہذیب کا self-statement کیا ہے، اور ہمارے علم کے کن شعبہ جات سے قابلِ حصول ہے؟ اور اس کی علمی توسیط کس طرح کے علم میں ہوئی ہے؟ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ مسلم دنیا میں ہم عصر اسلامی تہذیب کا کوئی تعارفی علمی مبحث ڈھونڈھے سے بھی نہیں ملتا، اور اسلامی تہذیب جس وجودی بحران سے دوچار ہے اس کی کوئی گفتگو بھی کہیں فراہم نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے ہاں اپنی ہی تہذیب کی تفہیم کے وسائل و امکانات مفقود ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم تہذیبِ مغرب کی تفہیم کے کارِ عظیم کو سرانجام دے پائیں؟ دینی ہدایت تو قطعی واضح ہے لیکن جس علم میں اس کی توسیط ممکن ہو سکتی ہے اس کا کوئی تہذیبی بیانیہ ہمارے ہاں بالکل بھی موجود نہیں ہے، اور علم میں مکمل انتشار کی کیفیت ہے۔ سادہ لفظوں میں ہمارے ہاں ایسا کوئی علمی بیانیہ موجود نہیں ہے جو ہم عصر مسلم تہذیب کو اس کے حالات و افکار سمیت بیان کرنے کے عقلی وسائل رکھتا ہو، یا ایسے علمی باب وا کر سکتا ہو جو ماقبل جدیدیت ہماری تہذیب کی تفہیم کو ممکن بنا سکیں۔ جب اپنی تہذیب ہی ہمارے لیے کسی عقلی اور فکری تفہیم کا موضوع نہیں ہے، اور اس پر بنیادی مواقف ہی فراہم نہیں ہیں تو یہ کیونکر فرض کیا جا سکتا ہے کہ ہم تفہیم مغرب کا کرشمہ سامنے لا سکیں گے؟
(۴) تفہیم مغرب سے قبل ضروری کام ہم عصر اسلامی تہذیب کا علمی تعارف اور ان سوالات کا علمی جواب ہے جو مغربی علوم اور جدیدیت نے اسلام، اسلامی تہذیب اور اس کے ورلڈ ویو پر بڑے زمانے سے اٹھا رکھے ہیں اور جن کے نتیجے میں ہمارے ہاں علم کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں۔ ہمارے ہاں تفہیمِ مغرب کا بیانیہ ان چنوتیوں کا سامنا نہ کر سکنے سے پیدا ہوا ہے۔ انسان کی وجودی اساس اقدار ہیں جبکہ تہذیب کی اساس علم ہے۔ اقدار، انسانی منشور سے گزر کر جو علم پیدا کرتی ہیں، تہذیب اسی علم پر قائم ہوتی ہے۔ یہ کہنا کہ تہذیب مغرب مطلق آزادی اور ترقی کے تصور پر کھڑی ہے، لہٰذا باطل ہے ایک قطعی غیرعلمی بات ہے۔ ہمارا بنیادی موقف یہ ہے کہ تہذیب مغرب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی باغی تہذیب ہے اس لیے کا.فر ہے، اور اس موقف پر وہ تاریخ میں غیرمعمولی طاقت حاصل کر کے بغاوت پر اپنی تشکیل مکمل کر چکی ہے اس لیے باطل ہے۔ یہ کوئی علمی بات نہیں ہے۔ یہ صرف دینی بات ہے اور علم سے ہرگز معلوم نہیں ہو سکتی اور نہ براہ راست علم کا موضوع ہے۔ تفہیمِ مغرب تہذیب مغرب کو ایسے علم کا موضوع بناتی ہے جس کے اصول اسلامی تہذیب پر وارد نہیں کیے جا سکتے۔ تہذیب ایک بیانیے کے ساتھ اصلاً معاشروں کے اجتماعی عمل کا اظہار ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں جب تہذیب کی بات ہوتی ہے تو ہم اپنی دینی تعلیمات کی تشریحات بیان کرتے ہیں جو ہماری تہذیب کا بیان نہیں ہے بلکہ ہمارے مذہب کا بیان ہے۔ اپنی تہذیب سے بے خبری اور تفہیم مغرب کی گرمجوشی دراصل ہماری گہری حالتِ انکار پر دلالت کرتی ہے۔
(۵) سادہ لفظوں میں، افکار کا موازنہ افکار سے کیا جاتا ہے، اور اعمال و حالات کا موازنہ بھی اعمال و حالات سے ہوتا ہے۔ تفہیمِ مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اسلام بطور ہدایت و احکام کا موازنہ براہِ راست تہذیبِ مغرب کی واقعیت سے کرتی ہے۔ اس طریق کار سے تفہیم مغرب دینی تعلیمات کو تشبیہی بنانے کا میلان رکھتی ہے۔ اسلام مغربی فکر پر ججمنٹ تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا فکری مخاصم (interlocutor) نہیں ہو سکتا۔ مغربی فکر کے مقابل ہمیں ایسی مذہبی فکر کی ضرورت ہے جس کی بنیادیں مذہبی ہوں اور وہ معیارات عقل پر ثقہ ہو۔ تہذیب مغرب ایک واقعاتی چیز ہے اور اس کا موازنہ صرف واقعاتی مسلم تہذیب سے کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں پہلوؤں سے تفہیم مغرب کی کارگزاری ایک جعلی علمی سرگرمی ہے اور ہماری حالت انکار کو گہرا کرتی چلی جاتی ہے۔
(۶) استعمار کے عملی غلبے نے جس طرح ہمارے طبعی/مادی، سماجی اور تاریخی حالات کو مکمل تبدیل کر دیا، اسی طرح استشراق کا علمی غلبہ ہمارے ایک ہمہ گیر تحوّلِ ذہنی کا باعث بنا ہے۔ مسلمانوں کی نہایت قلیل تعداد ماقبل جدیدیت سے قرنِ اول تک بیچ کی مسلم تاریخ کو own کرتی ہے۔ اور جس صاحبِ علم پر تجدد کا پرتو بھی پڑا ہو وہ ’مسلم تاریخ‘ نام کی کسی شے کا سرے سے قائل ہی نہیں ہوتا، اور استعمار و استشراق کی بحث میں شریک ہی نہیں ہوتا کیونکہ اپنی نادانی میں وہ مسلم تاریخ کو بھی استعمار ہی کی تاریخ سمجھتا ہے۔ لیکن ستم طریفی یہ ہے کہ بالعموم مسلمان اس تاریخ میں حاصل شدہ غلبے اور تفوق کو ذریعہ فخر ضرور بناتے ہیں۔ ہم عصر دنیا میں عمومی مسلم رویہ تاریخ اور تہذیب کو خارج کر کے قرآن و سنت سے براہ راست استنباط اور اخذ معنی کا ہے، گویا بیچ کی مسلم تاریخ اور علمی روایت نے یہ ضروری کام نظرانداز کیے رکھا ہو۔ جدیدیت کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ بھی تاریخ اور روایت کو مکمل رد کر کے اسے اپنے بنیادی تصورات کے تحت میں ازسرنو تشکیل دیتی اور ازسر نو ’لکھتی‘ ہے، اور استعماری جدیدیت نے یہ رویے ہمارے ہاں بھی راسخ کر دیے ہیں۔ پوری مسلم تاریخ کو نظرانداز کر کے ایک تہذیبی خلا میں قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور تفہیمِ جدید آج کل مسلمانوں میں ایک عمومی رویہ ہے، اور جدیدیت کی علمی اپروچ سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ اس اپروچ کی وجہ سے یہ امر قابل فہم ہے کہ ہر صاحبِ علم قرآن و سنت کی بات تو کرتا ہے لیکن فتاویٰ عالمگیری ہمارے شعور اور عمل سے مکمل خارج ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری علمی کارگزاری مکمل طور پر جدیدیت کی ترجیحات و مرادات پر ڈھل چکی ہے۔ مسلم ذہن اسلامی تہذیب کی جنگ آزمائی، توسیع اور وسیع و عریض سیاسی غلبے پر جدیدیت اور استشراق کے اٹھائے گئے سوالات کے سامنے بےبس نظر آتا ہے اور بسا اوقات شرمندہ دکھائی دیتا ہے، اور اکثر و بیشتر اپنی تاریخ و تہذیب کے بارے میں یہی سوالات اٹھاتے اٹھاتے روہانسا ہو جاتا ہے۔ ہمارے کثیر اہلِ علم مسلم تاریخ کے ویسے ہی دشمن ہیں جیسے کہ استعمار، مستشرقین، اور ہندوتوا والے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس تناظر میں اسلامی تہذیب کی بحث کیسے کھڑی کی جا سکتی ہے؟ تہذیب اور تاریخ کی بحث توام ہے، یعنی تہذیب خارج از تاریخ واقع نہیں ہوتی اور تاریخی اصولوں پر ہی جیتی مرتی ہے۔ اسلامی تہذیب کی گفتگو اسلامی تاریخ کو own کیے بغیر سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔ اور اس بحث کی عدم موجودگی میں تہذیب مغرب کی ’تفہیم‘ کیونکر ممکن ہو سکتی ہے؟ تہذیب کی بحث کے لیے کسی نہ کسی تاریخ کو ’اپنا‘ کہنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ ’اپنی‘ تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو اقدارِ ہدایت سے اخذ کردہ علم اور احکام شریعت پر استوار تھی اور ایک خاص ورلڈ ویو کی حامل تھی۔
(۷) کارِ علمی میں سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ فاعلِ علمی خود کس تہذیب سے تعلق رکھتا ہے؟ اس کا عقل اور عقلیت کا تصور کیا ہے؟ اس تہذیب میں بنیادی منہج علمی کیا ہے؟ اس تہذیب کا بنیادی تصورِ کائنات کیا ہے؟ فاعل علمی خود کس علمی روایت میں کھڑے ہو کر، اور کون سے عقلی وسائل کو بروئے کار لا کر اور کون سی علمی اساسات پر عملِ تفہیم سرانجام دے رہا ہے؟ اہم تر یہ کہ وہ اقدار/وجودی موقف/اول الاولیات کیا ہیں جو خود عقل اور عقلیت کی تشکیل اور فعلیت میں وسائل کی حیثیت رکھتی ہیں، اور اس عقل کے پیدا کردہ علم میں سرایت کیے ہوئے ہیں، اور عقل کی ایسی تحدیدات قائم کرتی ہیں جن سے وہ سرمو انحراف کی مرتکب نہیں ہو سکتی اور نہ ہوتی ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم اپنے گھر کی خبر لیں تو صورت حال اچھی نہیں ہے، اور اس کی نشاندہی کرنے اور اس کے تجزیے کا کام چند در چند دشواریوں کا شکار ہو گیا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ فرد سے اجتماع تک اپنی زندگی کی تنظیم و اجرا کے لیے ہم جو بھی تہذیبی وسائل استعمال کرتے ہیں وہ کلُّہم مغرب سے براہِ استعماری جدیدیت ہمارے تصرف میں آئے ہیں۔ مابعد آزادی استعماری جدیدیت سے متوارث وسائل میں مغرب سے افکار اور ادارے براہ راست اضافہ ہونا شروع ہوئے اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ علم اور عمل دونوں میں بحیثیت قوم ہم مغرب کے صارفین میں سے ہیں۔ تفہیمِ مغرب بھی عین اسی صارفیت کا نتیجہ ہے، اور ہمارے consumers ہونے کی حیثیت کو تبدیل نہیں کرتی، اور ہمارے ملی شعور کو حریت کا کوئی راستہ دینے کی رودار بھی نہیں ہے، اور اس علم سے ہمارے ملی عمل کو بھی کوئی اساس فراہم نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ بے ذوق صارفیت پر تعمیر شدہ تفہیم مغرب کی تہذیبی افادیت کے ہم کوئی دلائل بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟
(۸) عقل کا پیدا کردہ علم انہی اقدار/وجودی مواقف سے اپنا مزاج اور غایت کسب کرنے کا پابند ہے جو خود عقل کی تشکیل میں کھپتے ہیں۔ عقل چونکہ خودآگاہ ہے اس لیے اولاً خود کو بناتی اور ڈھالتی ہے اور پھر کوئی علم پیدا کرتی ہے۔ یعنی عقل اولاً وہ آئینہ ڈھونڈتی ہے جس میں یہ اپنی وجودی ہیئت کا خود مشاہدہ کر سکے، اور اس آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر نک سک سنوار کے یہ معرکوں پہ نکلتی ہے۔ عقل لحظہ بہ لحظہ، قدم بہ قدم یہ آئینہ ساتھ رکھتی ہے۔ یہ آئینہ اس کے حاصلات کا مقیاس بھی ہے۔ اہم تر یہ کہ عقل کا پیدا کردہ علم انسان کے ایسے انفرادی اور اجتماعی عمل ہی کا مؤید بن سکتا ہے جو عین انہیں اقدار/وجودی مواقف سے پھوٹا ہو جو خود عقل کی وجودی تشکیل کرتی ہیں۔ یعنی تشکیلِ عقل اور اساسِ عمل، اقدار/وجودی مواقف کی سطح پر ایک عینیت رکھتے ہیں۔ ہر قدر علم اور عمل میں ظاہر ہونے کا ایک جداگانہ اسلوب رکھتی ہے۔ علم میں ظاہر ہونے سے پہلے قدر، عقل کی تشکیلِ وجودی کا کام سرانجام دیتی ہے، اور عمل میں اخلاصِ نیت، غایت اور ہیئت حکمی کے طور پر داخل ہوتی ہے۔ مذہبی اقدار کی تعبیرات سے مذہبی علم پیدا نہیں ہوتا۔ اگر مذہبی اقدار عقل کی وجودی تشکیل میں کھپ جائیں تو اس کے بعد حاصلاتِ عقل مذہبی علم ہو سکتے ہیں۔ تہذیبِ مغرب نے جو علم پیدا کیا ہے اس نے ایک عمل کو بھی جنم دیا ہے جو اب عالمگیر ہے اور پوری دنیا پر غالب ہے۔ یہ علم اور یہ عمل یک منبع ہیں اور انفس و آفاق میں نتیجہ خیز ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تفہیمِ مغرب سے حاصل شدہ علم جس عمل کو راستہ دیتا ہے یا جس عمل کی بنیاد بنتا ہے اس کی شناخت کیا ہے؟ اس میں میری رائے یہ ہے کہ مغرب کا تفہیمی علم، عمل کی بند گلی میں لے جاتا ہے یا ایسے عمل کی اساس بننے کا یقینی امکان رکھتا ہے جو مسلم معاشرے کے لیے قطعی مفید نہیں ہے۔
(۹) یہ کہ مغرب باطل ہے بدیہی معلوم ہے، اور اس معلومیت کی بنیاد ہدایت ہے۔ یہ امر کسی ’علم‘ سے معلوم نہیں ہے کیونکہ یہ نہ صرف علم سے پیشیں (prior) ہے بلکہ علم کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ مغرب کا باطل ہونا صرف ہدایتی اقدار سے معلوم ہے، اور اس کو عقلی علم سے مستدل کرنا اور اس کی اساس کو علم پر منتقل کرنا سوفسطائیت کے ساتھ ساتھ مذہب دشمنی بھی ہے اور عقل دشمنی بھی۔ یہ امر کہ مغرب کا علم اور عمل باطل کی علمی اور عملی تشکیل ہے علم میں صرف اس وقت قابل رسائی ہے جب فطرت میں اس کے مؤثرات اور انسان میں اس کی تاثیرات کو کسی نظری اصول پر سامنے لایا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ تفہیم مغرب کے نظری اصول کیا ہیں؟
(۱۰) ’تفہیم‘ کے لفظ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ تفہیمِ مغرب کا پورا منصوبہ کوئی علمیاتی (epistemological) اساس اور منہاج نہیں رکھتا بلکہ مکمل طور پر تعبیری (hermeneutical) ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ اصول اور منہج کے اختلاف کے ساتھ، علمیات اور تعبیر دونوں عقلی ہیں۔ ہمارے ہاں علمیات کا تو کوئی نشان بھی باقی نہیں رہا، اور بے اصول اور بلا منہج تعبیر کا مطلق غلبہ قائم ہو گیا ہے۔ برصغیر میں تعبیری عقل کا سب سے بڑا مظہر آقائے سرسید کے افکار و خیالات ہیں، اور ہمارے علما نے بھی تعبیری عقل سے ہی ان کا سامنا کیا، اور حالات چونکہ آقائے سرسید کے لیے سازگار تھے اس لیے ان کو ہر معاملے میں تفوق حاصل رہا۔ یاد رہے کہ تعبیری کاوش بھی بغیر اصول و منہج کے ثقہ نہیں ہو سکتی۔ سوال یہ ہے کہ تفہیمِ مغرب علمیاتی ہے یا تعبیری؟ پھر یہ کہ مغرب کی تعبیری تفہیم کس اصول سے پیدا ہوئی ہے؟ اس میں اہم تر سوال یہ ہے کہ بین التہذیب جدل و مکالمے کی بنیاد علمیاتی ہے یا تعبیری؟ تہذیب کی داخلی علمی روایت میں تعبیر سے حاصل ہونے والی تفہیم کو اولیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ ہر تہذیب کے مذہبی، علمی اور جمالیاتی وسائل ’فہم‘ بن کر عمل کی بنیاد بنتے ہیں، جبکہ بین التہذیب جدل و مکالمہ کی بنیاد علمیاتی (epistemological) ہے، تعبیری (heremeneutical) نہیں ہے۔ علمیات اور تعبیر ہر تہذیب کی ضروری سرگرمیاں ہیں۔ تعبیری تفہیم ایک طرح سے تہذیب اور انسان کی داخلیت میں سفر سے عبارت ہے جبکہ علمیاتی سرگرمی معروض میں سفر کی کوشش ہے، اور بین التہذیب مکالمہ معروض میں واقع ہوتا ہے موضوعیت میں نہیں۔ برصغیر کی گزشتہ دو سو سالہ علمی روایت تقریباً مکمل طور پر تعبیری/ ہرمانیوٹکل ہے جس میں ہر اصول علم اور اصول تعبیر صوابدیدی ہے، یعنی مستند ہے صرف ان کا فرمایا ہوا۔ اس روایت میں سے علمیاتی (epistemological) کارگزاری بالکل خارج چلی آتی ہے۔ آقائے سرسید کی تفہیمات اور تفہیم مغرب کے حاصلات ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں کیونکہ دونوں اصلاً تعبیری ہیں اور صوابدیدی اصولوں کے ماتحت ہیں، اور ”میرا مطلب، تیرا مطلب“ کے تناظر میں سامنے لائے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں بلا اصول، بلا منہج تعبیری تفہیم کا آغاز تحریکِ وہابیت سے ہوا تھا جس نے عقیدۂ توحید کو صوابدیدی تفہیم کو موضوع بنایا۔ عقیدۂ توحید کی نئی تعبیر بالعموم تکفیر کی ایک بالکل نئی سیاسی فکر پر منتج ہوئی جس نے ’وہابی جہاد‘ کے ایک نئے سیاسی عمل کو جنم دیا جو شریعت، دنیاوی معروض اور عقل سے بالکل منقطع تھا۔ تکفیر کی سیاسی فکر سے پیدا ہونے والا عمل ایسے معاشروں سے مکمل حالت انکار میں ہوتا ہے جہاں عقیدۂ توحید نہیں پایا جاتا۔ بعینہٖ تفہیم مغرب پر اساس رکھنے والا سیاسی عمل تہذیب مغرب سے حالتِ انکار میں ہے اور یہ تفہیم، تکفیرِ مضمر ہے۔ اس تفہیم سے پیدا ہونے والا عمل عین اس جگہ ظاہر ہو گا جہاں تفہیم مغرب پائی جاتی ہے اور اس کا رخ مسلم معاشروں کی بیخ کنی تک محدود رہے گا۔ تفہیم مغرب کا مبحث ہمارے گزشتہ دو سو سالہ تکفیری علوم کا مؤید و معاون ہے، اور اس کا مقصد باطل مغرب کی ایسی علمی تنقید نہیں ہے جو ہمیں اس کے سامنے کھڑا ہونے کے قابل کر دے۔
(۱۱) تفہیمِ مغرب میں ’تفہیم‘ کے لفظ اور اصطلاح کو مرکزیت حاصل ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ’تفہیم‘ کیا ہے؟ مذہب کے خلاف جدیدیت کا سب سے بڑا ’علمی‘ ہتھیار تفہیم ہے، اور یہ وہ ہتھیار ہے جسے مسلم ذہن بہت خوشی خوشی اپنے عقائد، مذہب اور تراث کے خلاف استعمال کر کے فاتحانہ سرخروئی پر فائز ہوتا ہے۔ تفہیم کی بنیاد عقلی ہے، اور عقل ہر اس چیز کو رد کر دیتی ہے جو اس کے ’معیار فہم‘ پر پورا نہیں اترتا۔ تفہیم صرف اس چیز کی ممکن ہوتی ہے جو مشاہداتی، تجربی اور شہودی ہو۔ عقل کے طے کردہ شہودی معیارات پر خبر غیب کی تفہیم ممکن نہیں، اور اگر اس کو زیر عمل لایا جائے تو خبرِ غیب تشبیہ پر منتقل ہو جاتی ہے اور اس میں سے تنزیہ کا خاتمہ ہو جاتا ہے، یعنی اس کے خبر غیب ہونے کی اساس ختم ہو جاتی ہے۔ جدیدیت کے علوم میں تفہیم کے دو بڑے دائرے ہیں۔ اول دائرہ شہود ہے جو طبائع/مادیات اور مجردات سے عبارت ہے۔ اس میں عقل کا بنیادی فریضہ ریاضیاتی مجردات اور مادیات میں تساوی کو قائم کرنا اور ان کا تجربات میں اطلاق کرنا ہے تاکہ مادیات میں کارفرما قوتوں کے ریاضیاتی تعینات کر کے ان پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔ علومِ جدیدیت میں تفہیم کا دوسرا بڑا دائرہ تاریخ ہے۔ تاریخ جن واقعات، اشیا یا متون کا نام ہے وہ زمان و مکاں کی ایک ترتیب رکھتے ہیں اور autonomous ہیں کیونکہ ان کے پس منظر میں امر الہی اور انسانی ایجنسی بیک وقت کارفرما ہیں۔ جدید شعور ان کی اس autonomy کو تسلیم نہیں کرتا اور تاریخ کی ان ساری چیزوں کو خام مال سمجھتے ہوئے تفہیمی عمل سے ان کی ایک ایسی تشکیل نو کرتا ہے جو ان کی پوری وجودیات کو تبدیل کر دیتی ہے۔ جدید تفہیم بھلے epistemology یعنی علمیات میں کارفرما ہو، بھلے hermeneutics یعنی تعبیریات میں، اس کا مقصد وحی کے الوہی ہونے کے تمام امکانات اور وسائل کی بیخ کنی کرنا ہے۔ تفہیم مغرب جدیدیت کے عین اسی منصوبے کی ایک فرع ہے اور اس کا مقصد بھی ایسے عمل تک پہنچنا ہے جو اسلام دشمن ہو اور جو مسلمان معاشروں کی بیخ کنی میں بروئے کار لایا جا سکے۔
(۱۲) تفہیم مغرب کے پورے منصوبے میں حسن عسکری کی کتاب ”جدیدیت یا مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ“ ایک trigger کی حیثیت رکھتی ہے، اور ضرورت پڑنے پر اس سے علمی استشہاد بھی کیا جاتا ہے۔ میں نے کئی سال قبل تبرکاً اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔ کچھ تحفظات اور کچھ خدشات ایسے تھے جن کی وجہ سے اس کی اشاعت کی نوبت نہ آ سکی۔ یہ تحفظات اور خدشات تفہیم مغرب کے منصوبے میں مکمل طور پر ظاہر ہو چکے ہیں۔ برصغیر میں دو سو سالہ علمی کارگزاری تفہیم مرکز ہے اور یہی اپروچ تفہیم مغرب میں بھی سامنے آئی ہے۔ اگر تفہیمی عمل عقیدہ مرکز ہو تو حاصلاتِ تفہیم تکفیری علوم کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ حسن عسکری کی کتاب ”جدیدیت“ نے برصغیری مسلمانوں کے استعمار، استعماری جدیدیت اور استشراق سے تاریخی تعامل اور اس سے بننے والے تاریخی تجربے کو مکمل طور پر decontextulize کر دیا ہے اور ان امکانات ہی کا خاتمہ کر دیا ہے جن کو بروئے کار لا کر ہم ان اثرات سے نکل سکتے تھے جو استعماری جدیدیت اور اس کی آفات نے مسلم فرد، مسلم معاشرے اور مسلم تاریخ پر مرتب کیے ہیں۔ ہماری گزشتہ دو سو سالہ تاریخ ایک دوسرے کی گمراہیوں کے تعین میں گزری ہے، مکمل طور پر فرقہ وارانہ ہے اور تکفیری فکر کا سیاسی عفریت عین اسی عمل سے پیدا ہوا ہے۔ حسن عسکری نے بھی گمراہیوں کے تعین کی داخلی تکفیری کارگزاری کو گلوبلائز کرتے ہوئے ”مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ“ مرتب کرنا ضروری خیال کیا۔ لیکن افسوس کہ ان کا یہ ”خاکہ“ بھی تکفیری افکار و خیالات ہی کا ایندھن بنا۔ اگر عقل اور علم کی وجودی تشکیل اور پس منظر میں تکفیر کی سیاسی فکر کام نہ کر رہی ہو تو اپنی یا غیر کی ”گمراہیوں“ کا خاکہ مرتب نہیں کیا جا سکتا۔ حق و باطل کے تناظر کو ”گمراہیوں“ تک محدود کر دینا صرف تکفیر کے تناظر ہی میں ممکن اور مفید ہے۔ کفر کی تکفیر تحصیل حاصل ہے۔ تکفیری تناظر میں واقع ہونے والی تفہیم مغرب کا وبال اپنے ہی معاشرے پر پڑتا ہے اور یہ تفہیم ایسے مذہبی سیاسی عمل کی مؤید ہوتی ہے جو اساسِ تکفیر پر پہلے سے مسلم معاشرے کے خلاف برسرپیکار ہو۔ کیا ہم ایک لمحے کے لیے بھی یہ فرض کر سکتے ہیں کہ ہماری دینی اور تہذیبی روایت میں اس سوال کا تعین کرنے کے فقہی اور شرعی وسائل موجود نہیں تھے کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر؟ ہر گز نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو مسلم معاشرے کا قیام ہی ممکن نہ رہتا۔ فرد کے کفر و ایمان کا تعین ایک فقہی اور قانونی مسئلہ ہے جبکہ عمومی تکفیر اصلاً ایک سیاسی فکر ہے جو مسلم معاشرے کے خلاف ایک خاص نوع کے سیاسی عمل کو جنم دیتی ہے۔ اس میں مذہب صرف ایک آلے اور قوتِ محرکہ کا کام کرتا ہے۔ یعنی کفر و ایمان کا تعین افتا اور قضا کا شرعی مسئلہ ہے، جبکہ عمومی تکفیر ایک سیاسی فکر ہے اور ایک خاص سیاسی عمل کی بنیاد بنتی ہے۔ تفہیم مغرب کا فکری تناظر عمومی تکفیر کا تناظر ہے، اور تکفیر کی طرح یہ مسلم شعور و عمل اور مسلم معاشروں کے لیے مہلک ہے۔
(۱۳) مغرب اور مغربی جدیدیت کی بحث و تفہیم میں دو بڑے مسائل در آئے ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں کوئی اصولِ علم یا اصولِ تعبیر قائم نہیں کیا جا سکا۔ مغرب کی فکری تاریخ اور داخلی تنقید سے حاصل ہونے والی معلومات کو بغیر کسی علمیاتی یا تعبیراتی اصول کے ہمارے ہاں منتقل کیا جاتا رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ مغرب کی داخلی تنقید کو تفہیمِ مغرب کی بنیاد بنایا جاتا رہا ہے۔ مغرب میں جدیدیت کی داخلی تنقید کے تین بڑے دھارے ہیں۔ ایک تو وہ جو تحریک تنویر کی اقدار کو بنیاد بنا کر جدیدیت کے منصوبے کو زیربحث لاتا ہے۔ ردِ استعماری، ردِ نوآبادیاتی اور ردِ استشراقی مطالعہ جات کا بنیادی تناظر یہی ہے اور اس میں تنقید کی بنیاد یہ ہے کہ خارج از مغرب تنویری اقدار کے جو مظاہر سامنے آئے وہ نسل پرستی، سیاسی جبر، معاشی استحصال اور ثقافتی تاراج کا باعث بنے، اور یہ کہ یہ مظاہر تنویری اقدار کی درست نمائندگی نہیں کرتے۔ لہٰذا ازسر نو تنویری اقدار کی طرف واپسی ضروری ہے۔ یہ دام تزویر اب بھی ویسے کا ویسے لگا ہوا ہے کیونکہ ردِ استعماری اور ردِ استشراقی مطالعات ایسے علوم سامنے لانے میں ناکام رہے ہیں جو مغلوب اور محکوم عوام کے عمل کی بنیاد بن سکیں اور انہیں مذکورہ غلامی سے نکالنے میں معاون ہو سکیں۔ دوسرا دھارا وہ ہے جو مغرب میں مذہبی فلسفیوں کی تنقیداتِ جدیدیت پر اعتماد کرتا ہے، اور اس میں مکتبۂ روایت کی تنقیدات بھی شامل ہیں۔ یہ ساری تنقیدات آخری تجزیے میں مغربی جدیدیت کو normalize کرنے کا میلان رکھتی ہیں۔ تیسرا دھارا مارکسی تصورات ہیں جنہوں نے پوری مغربی فکر کو ایک بالکل ہی نیا رخ دے دیا۔ لیکن جدیدیت کی داخلی تنقید کے یہ دھارے جن بنیادی مسلمات پر قائم ہیں اور جو علمی نتائج پیدا کرتے ہیں وہ ہر جہت سے ضدِ دین ہیں، اور وہ ایسے علم کو سامنے نہیں لاتے جو مؤید دین ہو اور ہمارے عمل کی اساس بن سکے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان سے کوئی فائدہ اٹھائیں تو یہ صرف تفہیمی عمل سے ممکن نہیں ہے، بلکہ اس پورے عمل میں علمیاتی اصول داخل کرنے کی ضرورت ہے۔
(۱۴) تفہیمِ مغرب کے منصوبے کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تحدیدات میں ہمارے تاریخی تجربے اور انسانی ایجنسی (human agency) کے سوال ویسے ہی غیرمتعلق اور بےمعنی ہو گئے ہیں جیسے کہ غلبۂ استعمار اور منصوبۂ استشراق میں رہے ہیں۔ استعماری جدیدیت اور اس کے پیدا کردہ اداروں اور علوم کا بنیادی ترین مقصد ہی ہمارے تاریخی عمل اور تجربے کی ژولیدہ سازی اور ہماری انسانی ایجنسی کا خاتمہ تھا۔ جدیدیت ہمارا براہِ راست تاریخی تجربہ نہیں ہے، اور اب تک نہیں ہے۔ ہمارا براہِ راست تاریخی تجربہ استعماری جدیدیت اور اس کے بدلتے ہوئے روپ ہیں۔ استعماری جدیدیت نے اپنے طویل تاریخی عمل اور علم سے برصغیر کے فرد اور معاشرے کو اساسی سطح پر تبدیل کیا ہے۔ قوموں کی زندگی میں اس امر کا امکان ہوتا ہے کہ تاریخ اور تاریخی تجربہ ان کے عمل کے ساتھ ساتھ ان کے قومی شعور کو بھی روند ڈالے، اور پامال شعور تاریخ میں راستہ بنانے کے قابل نہ رہے اور عمل کے لیے بھی گلے کا ہار بن جائے۔ برصغیر میں چار تاریخی عوامل ایسے تھے جنہوں نے مسلم شعور اور عمل کو بالکل فنا کر دیا: (۱) اٹھارویں صدی کے اوائل میں بہادر شاہ اول کے زمانے سے شروع ہونے والی شیعہ سنی خانہ جنگی اور سیاسی و فکری خلفشار؛ (۲) نادر شاہ ایرانی کا مسلم برصغیر پر حملہ؛ (۳) غیرمسلم اکثریت کا بڑھتا ہوا غلبہ اور اقتدار؛ (۴) اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں استعماری حکومت کا قیام اور اس میں بتدریج توسیع، یہانتک کہ پورے برصغیر پر استعمار کا تمکن ہو گیا۔ جنگ آزادی ستاون تک ہندوستان میں اقتدار de jure مسلمانوں کے پاس تھا لیکن de facto استعمار، مرہٹوں اور سکھوں کو منتقل ہو چکا تھا۔ استعمار کے غلبے نے مسلمانوں کو برصغیر کی غیرمسلم اکثریت کے اقتدار سے محفوظ رکھا۔ استعمار کے غلبے اور استعماری جدیدیت نے مسلمانوں کو ایسے تہذیبی وسائل فراہم کیے جن کی مدد سے وہ جدید دنیا میں داخل ہوئے اور اقتدار یا خود ارادیت کی جدوجہد میں شریک ہونے کے قابل بھی ہو گئے۔ مسلمانوں میں جو نیا سیاسی عمل سامنے آیا اس میں داخل افکار جدیدیت سے حاصل ہوئے تھے، اور ان کی جواز سازی مذہب سے کی گئی تھی۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں کو ایک انتہائی پیچیدہ تہذیبی صورت حال کا سامنا رہا ہے اور ہے اور جو آج تک کسی علمی اور فکری بیانیے میں پورے اجزا کے ساتھ اظہار نہیں پا سکی۔ سوال یہ ہے کہ تفہیم مغرب کا علمی منصوبہ ہمارے تاریخی تجربے اور انسانی ایجنسی کے مسئلے کا کیونکر سامنا کرتا ہے؟ اور کیوں استعمار و استشراق سے آنکھیں بالکل بند کیے ہوئے ہے؟ اس کا علمی جواز کیا ہے؟
(۱۵) جنگ آزادی ستاون کے بعد، فرقہ واریت کے ساتھ ساتھ افکارِ تجدد بھی ہمارے ملی شعور کی کارگزاری کا حصہ بنے ہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز سے ہمارے ہاں ایسی کوئی علمی روایت موجود نہیں ہے جو استعماری جدیدیت کے روبرو فکری اور عقلی مستجابات (rational responses) کو سامنے لائی ہو، اور ہمارے تاریخی تجربے کی معنویت کو متعین کرنے میں کامیاب ہوئی ہو۔ جنگ ستاون کے بعد ہمارے ہاں صرف دو آوازیں ہیں جو استعماری جدیدیت کی پیدا کردہ صورت حال کا سامنا کرنے کی مکمل علمی اور تہذیبی استعداد کو سامنے لاتی ہیں: ایک اکبر الہ آبادیؒ اور دوسرے اقبالؒ۔ ان دو بزرگوں کے علاوہ ہمارا ملی شعور یا استعماری جدیدیت کے مطالبات پر ڈھل رہا ہے، جیسے کہ آقائے سرسید کے ہاں، یا ہمارا ملی شعور استعماری جدیدیت سے حالتِ انکار میں ہے، جیسے کہ ہمارے فرقہ وارانہ مذہبی شعور کی پیدا کردہ فکر اسلامی میں۔ تہذیب مغرب اور استعماری جدیدیت کا تجربہ، اور اس کا ادراک جس طور اکبرؒ اور اقبالؒ کے ہاں اظہار پاتا ہے اور اس کی بنیادوں میں جو مذہبی ورلڈ ویو متحرک ہے، وہ جدیدیت، استعماری جدیدیت اور تہذیب مغرب کی تفہیم و تعامل کا واحد دروازہ ہے۔ برصغیر کی حد تک، ہم عصر دنیا اور مغرب کی تفہیم ان دو بزرگوں کے ادراکات و اظہارات سے باہر کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ ایسی تفہیم کا اول داعیہ ہمارے تاریخی تجربے کا رد اور تغلیط ہے اور دوسرے ہماری ہیومن اور تاریخی ایجنسی کا خاتمہ ہے۔ گزارش ہے کہ صرف ایسی ’تفہیمِ مغرب‘ ہی بامعنی ہو سکتی ہے جو ان دو بزرگوں کے تتبع کا تسلسل ہو۔ اکبرؒ اور اقبالؒ کے ہاں ظاہر ہونے والی ’تفہیم مغرب‘ ہمارے قومی عمل کی بنیاد بن کر تہذیبی سفر کو مہمیز دیتی ہے، اور قومی عمل کے لیے حد درجہ ثمرآور ہے کیونکہ اس میں حمیت ایک تہذیبی اصول کے طور پر داخل ہے۔ اس کی ایک مثال دو قومی نظریہ اور تخلیق پاکستان ہے۔ افسوس کہ تفہیم مغرب اکبر الہ آبادیؒ اور اقبالؒ کے بارے میں تقریباً وہی مواقف رکھتی ہے جو ہماری جعلی فکر اسلامی میں رائج چلے آتے ہیں۔ تفہیم مغرب کا منصوبہ اکبر الہ آبادیؒ اور اقبالؒ کو مکمل نظرانداز کر کے ہمیں ان خانہ زاد تہذیبی وسائل سے بھی محروم کر دینا چاہتا ہے جو تاریخ میں نتیجہ خیز ثابت ہوئے ہیں۔
(۱۶) تفہیم مغرب اور تفہیم جدیدیت کا سب سے بڑا مسئلہ ہدایت اور علم کے باہمی التباسات کی وجہ سے ابھی تک نظروں سے اوجھل ہے۔ یہ کہ مغرب اور جدیدیت باطل ہے مذہبی معلوم ہے، علمی معلوم نہیں ہے اور بدیہی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ جدیدیت اساس مغرب کا.فر اور باطل ہے؟ ’گمراہی‘ اور ’حرام‘ ایک فقہی مسئلہ ہے جس سے مجتنب رہنے کا حکم ہے۔ اگر مغرب اور جدیدیت باطل ہے تو اس کے روبرو ’گمراہ‘ اور ’حرام‘ ہونے کی ججمنٹ دے کر اس سے مجتنب رہنے کا حکم دینا یا اس کا راستہ بنانا، اور جدیدیت سے فرار کے معدوم راستے تلاش کرنا بےحمیتی اور بے دینی نہیں ہے تو کیا ہے؟ اگر ہم حق پر ہیں، اور یقیناً ہیں، تو باطل سے کیونکر مجتنب ہو سکتے ہیں؟ حق کی اولین ذمہ داری باطل کے سامنے مزاحمت کی ہے، جبکہ تفہیم مغرب سے حاصل ہونے والا ’علم‘ مغرب اور جدیدیت سے اجتناب کا درس دیتا ہے، اور مسلم عمل کے سارے راستے مسدود کیے چلا جاتا ہے۔ اس میں کوئی تاریخی شعور داخل ہے اور نہ باطل کا دینی شعور۔ اگر دینِ اسلام حق ہے جو یقیناً ہے، اور مغرب باطل ہے جو یقیناً ہے، تو باطل سے اجتنابی مفاہمت کا عقلی اور شرعی جواز کیا ہے؟
دنیا اور جدیدیت کی حقیقت ایک ہے۔ جدیدیت مظہرِ دنیا کی تزئین و تشدید ہے، یعنی اول و آخر دنیا ہے۔ جس طرح دنیا سے مفر ممکن نہیں، اسی طرح جدیدیت سے بھی مفر ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ”متاع غرور“ فرمایا ہے، اور عین اسی دنیا میں اپنے انبیا بھی بھیجے تاکہ انسانوں کو بتائیں کہ زندگی کیسے گزارنی ہے۔ تو کیا اہلِ حق نے دنیا سے انزوا اختیار کر لیا؟ یہ ضرور ہے کہ انہوں نے دنیا کو مقصود نہیں بنایا۔ ایک حدیث مبارکہ میں حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام نے دنیا کو بکری کا مردہ بچہ ارشاد فرمایا ہے، اور ایک جگہ اس کے لیے ”مردار“ کا لفظ بھی آیا ہے۔ ان الفاظ سے دنیا کی حقیقت بیان ہوئی ہے، جبکہ واقعیت مختلف ہے۔ جدیدیت کی حقیقت بھی دنیا کی طرح ہے، اور واقعیت وہ ہے جو ہمارے سر چڑھ کر بیٹھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ کرامؒ نے دنیا کے مردار ہونے کے باوجود اس کو عملاً ترک کر دیا؟ ترکِ دنیا ان ہستیوں کے احوال تھے اور عمل میں وہ باطلِ دنیا سے نبردآزما رہے۔ باطل ایک لازمی دنیاوی تشکیل رکھتا ہے جس سے نبرد آزما ہونا اہل حق کی بنیادی ترین ذمہ داری ہے۔ جدیدیت کے آ جانے سے اہل حق کی یہ ذمہ داری تبدیل نہیں ہو گئی۔
(۱۷) تفہیمِ مغرب کی تصورِ پاکستان سے نسبتیں بھی غور طلب ہیں۔ برصغیر میں ریاست، معیشت، قانون، تعلیم اور کلچر کے تمام ادارے استعماری جدیدیت نے کھڑے کیے اور ان کو فروغ دیا۔ قیام پاکستان کا لازمی مطلب ان جدید اداروں کا پاکستانی ریاست اور معاشرے میں جوں کا توں منتقل ہونا بھی ہے۔ برطانوی غلبے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ جدیدیت کے سوا کسی دوسری فکر اور اس سے پیدا ہونے والے عمل کو فروغ دیں گے یا اپنی تہذیبی قوت سے مقامی فکر کو تقویت دیں گے۔ یہ محض خوش فہمی ہے۔ برصغیر میں برطانوی غلبے کا واحد مقصد مغربی تہذیب میں ظاہر ہونے والے فکر و عمل کو فروغ دینا تھا۔ تفہیم مغرب براہ راست تہذیب مغرب کے فکر و عمل کو موضوع بناتی ہے اور ہمارے تاریخی تجربے کو نظرانداز کرتے ہوئے اور استعماری جدیدیت کو براہ راست موضوع بنائے بغیر، اپنی تفہیم کے نتائج کو پاکستان پر وارد کرتے ہیں۔ تفہیمِ مغرب سے قبل ایک طاقتور مذہبی سیاسی بیانیہ پاکستان کے خلاف پہلے سے فعال چلا آتا ہے۔ تفہیم مغرب کا جدیدیت دشمن بیانیہ اور پاکستان دشمن مذہبی سیاسی بیانیہ اب باہم مدغم ہو گئے ہیں۔ اس صورت حال سے پاکستان کے مؤید فکری بیانیے کمزور ہو گئے ہیں، اور پاکستان کا تہذیبی بحران گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کانگریس انڈین نیشنلزم پر اور جمعیت علمائے ہند متحدہ قومیت کے سیاسی نظریے پر کاربند تھی۔ اس طرح دو قومی نظریے کے بالمقابل دو سیاسی نظریے تھے۔ متحدہ قومیت کا نظریہ انڈین نیشنلزم کا اردو ترجمہ نہیں ہے، بلکہ یہ مکمل طور پر ایک جعلی نظریہ ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ متحدہ قومیت کا نظریہ تحریک مجاہدین کے زیر اثر پیدا ہونے والی ”فکر اسلامی“ ہی کا تسلسل ہے۔ تفہیم مغرب کے مبحث نے پہلے سے فعال متحدہ قومیت جیسے پاکستان دشمن تصورات و اعمال کو ایک نئی کمک فراہم کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں تفہیم مغرب نے پاکستان دشمنی کو مذہبی بنیاد کے ساتھ ساتھ اب ایک فکری بنیاد بھی فراہم کر دی ہے۔ کوئی پاکستانی تفہیم مغرب اور ”فکر اسلامی“ میں سامنے لائے گئے علمی مواقف کو قبول نہیں کر سکتا کیونکہ ان کا عقل، شریعت اور تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تفہیم مغرب کا ایسا مبحث سامنے لایا جائے جو ہمارے تہذیبی عمل کی اساس بن سکے اور پاکستان کو قوت دینے والا ہو۔

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں