Home » پنجابی زبان سے بے اعتنائی
زبان وادب سماجیات / فنون وثقافت

پنجابی زبان سے بے اعتنائی

پنجابی میری مادری زبان ہے۔ بچپن سے تاحال گھر میں پنجابی بولی جاتی ہے۔ جن دنوں میں آٹھویں جماعت کا طالب تھا تو انھی دنوں اباجان مرحوم پنجاب یونیورسٹی سے بطور پرائیویٹ امیدوار ایم اے پنجابی کا امتحان دے رہے تھے۔ دن بھر ملازمت اور گھر کے کام کاج میں مصروفیت کے باعث تیاری نہ کر پاتے البتہ رات بستر پر ایم اے پنجابی کی کوئی ایک کتاب پکڑ لیتے اوربلند آواز میں ہم سب بہن بھائیوں کو بھی ایم اے پنجابی کے سلیبس میں شامل پنجابی اشعار اور قصے سناتے ۔ بالخصوص مزاحیہ اشعار زیادہ سناتے کیونکہ اس میں ہم دلچسپی لیتے  تھے۔ ایم اے بائی ڈانس کا تصور بھی اباجان کے ایم اے پنجابی سے پختہ ہوا۔

پنجابی زبان میں کچھ سننے کا دوسرا ذریعہ دادی اماں مرحومہ تھیں جن کی سکول کی تعلیم تو واجبی سی تھی لیکن پنجابی و اردو بہت اچھی طرح پڑھنا لکھناجانتی تھیں۔ وہ ہمیں اکثر حضرت یوسف علیہ السلام کا منظوم پنجابی قصہ پڑھ کرسنایا کرتی تھیں جسے ہم بڑے شوق سے سناکرتے تھے۔ اس کے بعد علاوہ اسکول ، کالج ،مدرسہ ،یونیورسٹی میں کہیں پنجابی کی کوئی کتاب پڑھنے یا سننے کا موقع نہیں ملا،
خانوادہ کے ادبی شخصیات اور ان کی تصنیفات کا آمنا سامنا ہر دن رہتا تاہم ہمیں زبان و ادب کی ہوا تک نہیں لگی تھی اس لیے کبھی دلچسپی پیدا نہ ہو سکی ۔

چچاجان ڈاکٹر عادل صدیقی مرحوم کی وفات سے 6 مال قبل ان کی صحبت میں کچھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا تو اس دوران ان کی پنجابی شاعری سننے کے بعد اسے پڑھنے کی طرف راغب ہوا ، ڈاکٹر صاحب ؒ کے 13 پنجابی شعری مجموعوں میں سے کوئی ایک پکڑ لیتا اور پھر ان کے رُوبرو اسے پڑھتا وہ سن کر خوش بھی ہوتے اور میری پنجابی تکلم کی اغلاط کی درستی بھی فرماتے ، پنجابی پڑھنے کا پہلا باقاعدہ آغاز ڈاکٹر صاحب کی صحبت میں ہی ہوا۔

اس کے بعد خانوادہ کی دیگر ادبی شخصیات کے کلام کو کھنگالا تو معلوم ہوا محترمہ زاہدہ صدیقی صاحبہ کے بھی دوعدد پنجابی شعری مجموعے ، سویرے دی تاہنگھ اور ماں میری ماں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر عادل صدیقی مرحوم کے پنجابی شعری مجموعوں پر محترم حفیظ صدیقی مرحوم اور محترم اطہر صدیقٕی مرحوم کے پنجابی دیباچے پڑھ کر ان ہر دو حضرات کی اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان پر عبور کی صلاحیت و لیاقت کا علم ہوا ۔ یوں پنجابی زبان و ادب کے ساتھ تعلق پیدا ہوا ، مگر آج بھی بہت سارے پنجابی الفاظ و اصلاحات پڑھنے اور سمجھنے میں تشنگی محسوس ہوتی ہے ۔
ڈاکٹر عادل صدیقی مرحوم کی وفات کے بعد ان کی تصنیفات کی ترویج و اشاعت اور ایم فل مقالہ جات میں معاونت کے باعث پنجابی ادب میں دلچسپی پیدا ہوئی ہے ۔ اسکول میں بھی اپنے تلامذہ کو پنجابی زبان کی اہمیت بارے بتلاتا رہتا ہوں اکثر ڈاکٹر صاحب ؒ کے اشعار سناتا ہوں تو بچے سن کر خوش ہوتےہیں ۔

پنجابی زبان و ادب کے ساتھ پنجاب کی خوبصورت تہذیب وابستہ ہے۔ ہمیں اپنے بچوں اور شاگردوں کو پنجابی زبان سے مانوس کرنا ہو گا تبھی یہ انمول خزانہ محفوظ رہ سکتا ہے ۔ ماہرین لسانیات کا کہناہے کہ کسی بھی زبان کو باقی رکھنے کے دو طریقے ہوتے ہیں پہلی بات یہ کہ وہ کسی مذہب سے جڑی ہو اور دوسرا یہ کہ اس سے لوگوں کو معاش کے مواقع میسر ہوں ۔ پنجاب میں پنجابی زبان کے صوفی شعراء کا کلام زبان زد عام ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو قرآن کریم اور احادیث کا منظوم پنجابی ترجمہ اورانبیاء علیہم السلام کے قصص پنجابی شعروں کے صورت میں آج بھی دستیاب ہیں۔

ہمارے صوفی شعراء میں سے بارھویں اور تیرھویں صدی میں بابافریدالدین گنج شکر، سولہویں صدی میں شاہ حسین ،اورسلطان باہو، سترہویں صدی میں بابابلھے شاہ ، اٹھارویں صدی میں خواجہ غلام فرید، انیسویں صدی میں بابورجب علی ،میاں محمدبخش ، بیسویں صدی میں استاد دامن اوران کے علاوہ بیسیوں غیرمعروف صوفی شاعرہیں جنہوں نے اپنے صوفیانہ پنجابی شاعری سے جہاں پنجابی زبان کو زندہ وجاوید رکھا وہیں دین اسلام کی تبلیغ کا فریضہ بھی انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سرانجام دیا۔

غرض پنجابی زبان ہمارے رگ وپے میں شامل ہے اورکیوں نہ ہو کہ وہ تو ہماری ماں بولی ہے بھلا ماں بولی کو کوئی بھلا سکتا ہے؟ جس زمانہ میں مدرسہ میں پڑھتا تھا اس مدرسہ میں کچھ پٹھان لڑکے بھی ہماری جماعت میں پڑھا کرتے تھے جوآپس میں پشتوزبان میں ہی بات کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کی اردو زبان خاصی کمزورتھی اوراستاد محترم ان کو اس بات پرسرزنش کرتے ہوئے اکثر کہا کرتے تھے کہ مادری زبان تمہیں کبھی نہیں بھولے گی لیکن اردو بغیر بولے نہیں آئے گی ۔

پنجابی زبان کے مایہ نازشاعر استاددامن نے پنجابی زبان کے حوالہ سے کہا تھاکہ

ایہدے لکھ حریف پئے ہون پیدا
دن بدن ایہدی شکل بن دی رہے گی
اوہدوں تیک پنجابی تے نہیں مر دی
جدوں تیک پنجابن کوئی جن دی رہے گی

پنجابی ہماری ماں بولی زبان ہے اور پاکستان ہمارا وطن ہونے کے ناطے ماں کے قائم مقام ہے توماں اپنی زبان سے سوتیلی ماں سا سلوک کرے تو یہ کچھ مناسب نہیں ۔

پنجابی زبان کے ساتھ قیام پاکستان کے بعد سرکاری سرپرستی نہ ملنے کہ وجہ سے بہت زیادتی ہوئی ہے اور مزید المیہ یہ ہے کہ صوبہ پنجاب میں پنجابی علاقائی زبان ہونے کے باوجود بھی ہمارے تعلیمی نصاب میں بطورلازمی مضمون کے نہیں پڑھائی جاتی جس کی وجہ سے پنجابی زبان وادب پڑھنے والوں کو ملازمت سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔ سکول کی سطح پر پنجابی کی سرے سے بھرتی ہی نہیں کی جاتی جبکہ کالجوں میں بھی نا ہونے کے برابر سیٹیں ہیں جس کی وجہ سے پنجابی پڑھنے کے خواہشمندبھی اس کی تعلیم سے محروم ہیں ۔

پنجابی کے فروغ کے لئے اس میں ملازمت کے مواقع فراہم کرناحکومت وقت کا فریضہ ہے ۔ اس سے جہاں لوگوں کو روزگار ملے گا وہیں ہم اپنی ہزارہا سال پرانے تاریخی ورثہ کو بھی محفوظ کر سکیں گے جنہیں پڑھ کر ہماری نسل اپنے درخشندہ ماضی سے سبق حاصل کرکے اپنے مستقبل کو تابنا ک بنا سکے گی ۔ لیکن ایک بہت ضروری بات کہ اردووپنجابی دونوں کی اہمیت مسلمہ ہے کسی ایک کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے ان دونوں کو ہی تختہ مشق بنا دیا گیا ہے

اردوزبان کے نفاذمیں پنجابی تو پنجابی کے نفاذ میں اردو سے کدورت بھرتی جاتی ہے جس کا فائدہ انگریزی زبان نے اٹھایا اوراب وہ دفتری زبان بنی بیٹھی ہے اور اردو و پنجابی باہم دست وگریبان ہیں۔ ایک تنظیم کہتی ہے کہ اردو ہی ہو دوسری کہتی ہے پنجابی ہوحالانکہ ان دونوں زبانوں سے متعلقہ ادبی تنظیموں کا باہمی مشاورت سے چلناچاہئے اور ان کی ترویج میں ایک دوسرے کادست وبازو بننا چاہیے تاکہ ان دونوں زبانوں کوان کا جائز مقام مل سکے ۔

زاہدہ صدیقی صاحبہ کا پنجابی کلام ملاحظہ کیجیے ۔

جو سبھناں دے سُکھ دی خاطر لڑدے نیں
ہر ساہ اندر اوہو ای سولی چڑھدے نیں

سڑدی ، بلدی ، دھرتی اُتّے دوجیاں نوں
چھانواں دیون والے دُھپّے سڑدے نیں

سچّے تھوڑا بول کے جھوٹے ہو جاندے نیں
چَتّر زباناں والے جھوٹھ تے اَڑدے نیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر عادل صدیقی مرحوم کا کلام ملاحظہ کیجیے

جیہڑے لوکی لیکھاں نال ای لڑ دے گھلدے رہندے نیں
رکھ توں ڈگے پتراں وانگوں رلدے کھلدے رہندے نیں

اوہنوں پھر انصاف ترازو دسو کسراں من لئے
جس تکڑی وچ پھل تے کنڈے سانویں تلدے رہندے نیں

جیہڑے باغاں دی رکھوالی رکھدے نیں
پھل دی آس وی اوہو مالی رکھدے نیں

مینوں جوٹھ دی پوجا کرنی آوندی نئیں
سچ دے ساویں سیس نواندا رہنا واں

جھوٹھیاں آگے، بچے سیس نوا گئے نیں
ساڈے دور اچ سادھ وی چور اکھوا گئے نیں

سانوں چچ نہیں آیا چھاواں مانن دا
رکھ تے ساڈے وڈ وڈیرے لا گئے نیں

صہیب فاروق

صہیب فاروق نے یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی سیالکوٹ کے شعبہ اسلامی فکر وتہذیب سے ایم فل کیا ہے اور بچوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق مسائل پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

sohaibsiddiqui.pk@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں