Home » فحاشی اور ‘آرٹ’ کا مفہوم: سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا ناقدانہ جائزہ
سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

فحاشی اور ‘آرٹ’ کا مفہوم: سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا ناقدانہ جائزہ

پچھلے دنوں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل سپریم کورٹ کے ایک 2 رکنی بنچ نے ایک اہم فیصلہ دیا ہے جس پر اہلِ علم کی خصوصی توجہ ضروری ہے۔
مقدمے کا عنوان ہے اے آر وائی بنام پیمرا (سی پی نمبر 3506 آف 2020ء) اور اس میں تنازعہ یہ تھا کہ 2020ء میں اے آر وائی پر ایک ڈراما ‘جلن’ کے نام سے چل رہا تھا جس میں ایک بہنوئی اور سالی کے درمیان قابلِ اعتراض تعلق دکھایا گیا تھا۔ شہریوں کی شکایت پر پیمرا نے اس پر پابندی لگا دی تھی جس کے بعد تنازعہ عدالتوں میں چلا اور بالآخر سپریم کورٹ تک بات آگئی جہاں اب اپریل 2023ء میں اس 2 رکنی بنچ نے اس پر اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔
اے آر وائی کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ پیمرا نے پابندی لگانے کےلیے اس قانونی طریقِ کار پر عمل نہیں کیا جو پیمرا کے قانون میں طے کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس اعتراض کو قبول کیا ہے اور میری تنقید اس پہلو پر نہیں ہے۔ قانون میں وضع کردہ طریقِ کار کی پابندی ضروری ہے۔
تاہم سپریم کورٹ کے فاضل ججز نے اس سے آگے بڑھ کر ایسی بحث شروع کی جس کی ضرورت ہی نہیں تھی اور پھر اس بحث میں کئی اہم امور کو نظر انداز کیا جن پر بات کیے بغیر وہ بحث مکمل ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
مثلاً ان کا کہنا ہے کہ ‘برداشت’ سب سے ہم ‘آئینی قدر’ ہے اور اس معیار پر فیصلے کرنے چاہئیں، لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ برداشت سے مراد کیا ہے اور برداشت کی وسعت اسلامی اصولوں سے طے کی جائے گی یا مغربی/سیکولر/لبرل مفروضات سے؟ یہ سب سے اہم سوال ہے اور، بدقسمتی سے، اس پر بہت ہی سطحی نوعیت کی گفتگو کی گئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فاضل ججز نے یہ مانا ہے کہ ‘اظہارِ راے کی آزادی’ کے حق پر کئی قیود قانون کے تحت لگائی جاسکتی ہیں اور یہ کہ ان قیود میں وہ بھی ہیں جو ‘اسلام کی عظمت کے مفاد میں’ لگائی جاسکتی ہیں۔ (یہ ترکیب آئین کی اسی دفعہ میں مذکور ہے جس میں اظہار راے کی آزادی کے حق کی ضمانت دی گئی ہے۔) پھر کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ ان کے 20 صفحات کے فیصلے میں ایک بھی قرآنی آیت، حدیثِ نبوی یا اسلامی اصول ذکر نہیں کیا گیا!
پھر فاضل ججز نے ‘جنسی رجحان’ کا بھی ذکر کیا ہے حالانکہ ‘جنسی رجحان’ پر مقدمے کے فریقوں کی جانب سے بحث ہی نہیں کی گئی! کیا فاضل ججز نے یہ ترکیب استعمال کرنے سے قبل جنس اور صنف کے متعلق آئینی دفعات پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھا جہاں بظاہر جنس اور صنف میں کوئی فرق نہیں ہے اور جہاں جنس ہو یا صنف، اس کی بس دو ہی قسمیں ذکر کی گئی ہیں؟ جو لوگ جنس اور صنف میں فرق کرتے ہیں یا دو سے زائد جنسوں یا صنفوں کے قائل ہیں، ان کے خلاف تشدد کا عدم جواز ایک الگ امر ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان امور کو بحث میں لائے بغیر فاضل ججز یہ ترکیب کیسے استعمال کرسکتے تھے؟ ہوسکتا ہے کہ اپنی نظریاتی بنیادوں کی وجہ سے فاضل ججز نے ایسا ضروری سمجھا ہو، لیکن آئین و قانون کی رو سے ان کےلیے مناسب طریقہ یہی تھا کہ ایسے امور زیرِ بحث لانے سے قبل پوری بحث تو ہونے دیں اور پھر اس بحث کا تنقیدی تجزیہ کرکے اپنی راے دیں۔ ایسا کیے بغیر اپنی مرضی سے ادھر ادھر کی باتیں لا کر فیصلے میں شامل کرنا کسی طور درست نہیں ہے۔
فیصلے کا یہ حصہ یہ غیر ضروری اور غیر متعلق سہی، لیکن اب اسی حصے کو معاشرے کے بعض افراد سپریم کورٹ کے فیصلے کے طور پر پیش کرکے اپنے مقاصد کےلیے استعمال کریں گے اور کون اس بحث میں پڑے گا کہ آئینی و قانونی لحاظ سے اس حصے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
پس چہ باید کرد؟
چونکہ اس فیصلے میں کئی ایسے امور ہیں جو بالکل واضح طور پر غلط ہیں، اس لیے فوراً سے پیش تر اس کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی جانی چاہیے جس میں درج ذیل امر پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے:
الف۔ اظہارِ راے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حقوق کی حدود؛
ب۔ ان حقوق پر عائد ہونے والی ان قیود کی وسعت جو اسلام کی عظمت کے مفاد میں کسی قانون کے تحت عائد کی جاسکتی ہیں’
ج۔ اسلامی جمہوریہ میں فحاشی اور آرٹ کے مفہوم کا تعین اسلامی اصولوں کی روشنی میں کیونکہ اس اسلامی جمہوریہ میں تمام قوانین کی ایسی تعبیر ضروری ہے جو اسلامی احکام کے مطابق ہو؛
د۔ ‘جنسی رجحان’ کی ترکیب کا مفہوم اور اس کی حدود کا تعین اسلامی اصولوں کی روشنی میں۔
نظرِ ثانی کی درخواست تو مقدمے کا فریق ہی دائر کرسکتا ہے لیکن اگر پیمرا کو اس سے دلچسپی نہ ہو، تو پھر اس موضوع پر آئین کی دفعہ 184 (3) کے تحت باقاعدہ درخواست دائر کرنی چاہیے۔ کیا اس دفعہ کے تحت صرف سیاسی مقدمات ہی سپریم کورٹ میں دائر کیے جاتے رہیں گے یا کبھی اسلامی اصولوں کی تنفیذ کےلیے بھی اس کی طرف رخ کیا جاسکے گا؟ یہ ہے وہ سوال جس پر علماے کرام اور ملک کے اسلامی تشخص کے حوالے سے فکر مند تمام لوگوں کو غور و فکر اور بحث کی ضرورت ہے۔
ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • معلوم نہیں اس پہ زیادہ خوشی محسوس کی جانی چاہیے یا اظہار افسوس کہ معاشرے کی نظر سے بہت سے معاملات جو اس کی بنت سے متعلق ہیں، اوجھل ہیں۔ خوشی اس بات پہ ہے کہ کچھ لوگ ان معاملات کے تعاقب میں رہتے ہیں اور ہم جیسے عامیوں کو باخبر کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کو جزائے خیر دے۔