ابو الحسین آزاد
“عدالتِ صحابہ کا عقیدہ قرآن اور تواتر سے ثابت ہے اس کے خلاف بخاری اور مسلم کی روایت بھی آئے تو نہیں مانیں گے۔” ردعمل کی فضا میں تشکیل دیے گئے اس مقولے کو اب اتنی شدت اور بے احتیاطی کے ساتھ پھیلایا جاتا ہے کہ ڈر لگتا ہے کہیں یہ انکارِ حدیث کا پیشِ خیمہ نہ ثابت ہو۔
آخر اس مقولے کا مطلب کیا ہے؟کیا یہ کہ ایسی روایت جس سے ثابت ہو رہا ہو کہ فلاںصحابی سے فلاں صغیرہ یا کبیرہ گناہ یا غلطی صادر ہوگئی تھی اور وہ روایت صحیح سند سے ثابت ہوتو آپ اسے قبول نہیں کریں گے؟اگر آپ کی بات کایہ مطلب نہیں ہے تو یہ جملہ مکمل طور پر بے معنی جملہ ہے۔ اور اگر یہی مطلب ہے تو پھر یہ جملہ نری گمراہی ہے۔
عدالتِ صحابہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ صحابہ کرام معصوم تھے یا اُن سے کبھی کوئی غلطی یا گناہ نہیں ہواعدالتِ صحابہ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں دی گئی برکات و بشارات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت وتربیت کی وجہ سے صحابہ ایسے بن گئے تھے کہ ان کی زندگی پر خیر غالب تھی۔ اس مقدس جماعت کا کمزور سے کمزور فرد بھی (العیاذ باللہ)گناہ یا فسق و فجور کے اس درجے تک کبھی بھی نہ پہنچاجس کے بعد اس کی خبر یا روایت قابلِ اعتماد نہ ٹھہرے۔
عدالتِ صحابہ کی بحث اپنی اصل کے اعتبار سے عقیدے کی بحث نہیں ہے۔ آپ کو عقیدے اور علم الکلام کی کلاسیکل کتابوں میں احترامِ صحابہ اور محبتِ صحابہ کی بحث تو ضرر ملے گی لیکن “الصحابة كلهم عدول” کا فقرہ یا عدالتِ صحابہ کی بحث کہیں بھی نہیں ملے گا ۔ یہ دراصل اصولِ حدیث کی بحث ہے۔ اس کامنشا اور کل حاصل یہ ہے کہ صحابہ کرام نے ہم تک دین پہنچانے میں قصدا کوئی غلطی یا ملاوٹ نہیں کی۔وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کے متعلق کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ کسی صحابی نے عمداً نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کوئی جھوٹی بات کہی ہو۔ لہذا جب کسی راوی کے متعلق یہ معلوم ہو جائے کہ یہ صحابی ہیں تو ان کی عدالت پر بحث نہیں ہو گی کیوں کہ ان کی عدالت کا مسئلہ (عربی تعبیر میں) مفرو غ عنہا ہے یعنی پہلے سے طے اور تسلیم شدہ ہے۔ امام الحرمین اس کا سبب یوں بیان کرتے ہیں:
«والسبب في عدم الفحص عن عدالتهم: أنهم حملة الشريعة، فلو ثبت توقف في روايتهم، لانحصرت الشريعة عن عصره صلى الله عليه وسلم، ولما استرسلت على سائر الأعصار». (تدريب الراوي: باب معرفة الصحابة)
سید مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں:
“فلیتبوأ مقعده من النار والی روایت کا صحابۂ کرام نے اتنا چرچا کیا تھا ۔۔۔۔اس کے ذریعہ سے قلوب میں اس جرم[یعنی آپ علیہ السلام کی طرف جھوٹی بات کی نسبت کرنے] کی اہمیت کو دل نشیں کرانے میں وہ اس حد تک کامیاب ہو چکے تھے کہ شاید قتل و زنا و سرقہ وغیرہ جرائم کی بھی اس جرم کے مقابل میں اہمیت باقی نہیں رہی تھی۔ اس عہد کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس جرم کی اہمیت سے اتنے زیادہ متاثر تھے کہ دعوی کرنے والا اگر یہ دعوی کر بیٹھے کہ گویا ان میں اس جرم کے ارتکاب کی صلاحیت ہی جاتی رہی تھی تو شاید واقعات کی روشنی میں اس کا دعوی کرنا آسان نہ ہوگا۔” (تدوینِ حدیث: 466)
اصولِ حدیث میں کسی شخص کے عادل ہونے کی بہت سی شرطیں ہوتی ہیں لیکن ان سب شرطوں کا جوہری خلاصہ اور مقصدِ اصلی یہ ہوتا ہے کہ وہ آدمی ایسا ہو کہ اس کے متعلق یہ گمان نہ کیا جا سکے کہ اس نے جان بوجھ کر نبی کریم صلی اللہ کی طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے بہت سے ایسے راویوں سے بھی روایات لی ہیں جن کے عقائد درست نہ تھے یا وہ عملاً بعض گناہوں یا غلطیوں میں ملوث تھے۔ کیوں کہ اصولِ حدیث کی اصطلاح میں ہر وہ شخص عادل ہے جس کی خیر اس کے شر پر غالب ہو۔ بھلے اس سے صغائر یا کبائر سرزد ہوں لیکن اس کی زندگی کا مجموعی رجحان خیر اور نیکی کی طرف ہو۔کیوں کہ ایسے شخص سے یہ بہت ہی بعید ہوتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جھوٹ بولے۔ علامہ محمد بن علی فاروقی تھانوی نے «كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم» میں لفظ”صحابی” کے تحت ایک جملے میں ساری بات سمیٹ دی ہے:
«واعلم أنّ الصّحابة كلهم عدول في حقّ رواية الحديث، وإن كان بعضهم غير عدل في أمر آخر»
اہلِ سنت کے شاید ہی کسی معتبر عالمِ دین نے کبھی یہ دعوی کیا ہو کہ صحابہ سے غلطیاں یا گناہ نہیں ہوئے۔ بعض صحابہ کرام سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں بھی گناہ ہوئے جن پر خود اللہ کے نبی نے انھیں تنبیہ فرمائی اور بعض سے آپ کی وفات کے بعد بھی غلطیاں ہوئیں۔ صغیرہ گناہوں کا بھی صدور ہوا کبیرہ گنا ہوں کا بھی۔ علماء نے ان روایات کو اپنی کتابوں میں نقل بھی کیا ہے اور ان کی تصحیح و تصویب بھی کی ہے۔ ونکف عن ذکر الصحابۃ الا بخیر کا یہی مطلب ہے کہ ہم ان کی غلطیوں کو اچھال اچھال کرتنقید اور طعن نہیں کرتے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ان کی غلطیوں کو غلطیاں ہی نہیں مانتے۔ مولانا سید مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں:
“غیر معصوم ہونے کی وجہ سے جس قسم کی بھی کمزوریاں اس جماعت کے بعض افراد سے سرزد ہوئی ہیں بغیر جھجک کے مسلمان ہمیشہ ان کا تذکرہ زبانی بھی اور کتابوں میں بھی کرتے چلے آرہے ہیں۔ آخر خود سوچیے حضرت ماعز اسلمی یا نعمان بن عمرو الانصاری یا مغیرہ بن شعبہ یا وحشی یا عمرو بن عاص یا خود امیر معاویہ حضرات رضی اللہ عنہم کی طرف حدیث و سیر وتاریخ وغیرہ کی کتابوں میں کون کون سی باتیں نہیں منسوب کی گئی ہیں اور یہ تسلیم کر کے منسوب کی گئ ہیں کہ واقعی ان لغزشوں میں وہ مبتلا ہوئے تھے، جرائم جنھیں ہم کبائر کہہ سکتے ہیں۔ یہ واقعہ ہے ان کی شاید ہی کوئی قسم ہوگی جو اس فہرست میں نظر نہ آتی ہو۔”(تدوین حدیث: 466، باب: صحابیت وحدیث کے خلاف پہلا ناپاک قدم) (مولانا نے حاشیے میں بھی کچھ لکھا ہے وہ آپ خود دیکھ لیں)
لہذا درست رویہ یہ ہے کہ جب کسی صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ فلاں صحابی سے فلاں گناہ یا غلطی یا فلاں جرم ہوا تھا تو اسے تسلیم کیا جائے گا ۔ آج تک اہلِ علم کا دستور یہی رہا ہے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس غلطی کو اچھالا جائے گا یا نعوذ باللہ اسے بنیاد بنا کر طعن و تشنیع یا اعتراضات داغے جائیں گے بلکہ محض امرِ واقعہ کےااظہار سے علمی نکتے کی تشریح وتوضیح کے ضمن ہی میں بات کی جائے گی۔
——————————————
ابو الحسین آزاد جامعہ دار العلوم کراچی میں شریک دورہ حدیث ہیں۔
ماشاء اللہ بہترین تجزیہ