اللہ تبارک وتعالی نے امام الانبیا ٕ ﷺ کو کاٸنات کے لیے رحمة للعالمین بنا کر مبعوث کیا۔ جوہستی خودرحمة للعالمین ہے ان کی نظررحمت جس ذرہ کائنات پر پڑ گئی اس کامقام ومرتبہ اوج ثریا کو پہنچ گیا تو سوچیے کہ صُلب رحمة للعالمین ﷺ سے جلوہ افروز ہونے والے نفوس کی عظمت ومرتبہ اورمقام کتنا اونچا ہوگا۔ اس کا اندازہ شاید کائنات میں کسی کو نہ ہو بہرحال اتنا ضرور ہے کہ ربِّ محمدﷺ نے اپنے محبوب ﷺ پردردووسلام میں ان کی آل واولاد کو بھی لازم وملزوم کردیا ۔
”اللہم صلّ علی محمد وعلی اٰل محمد “
دنیا میں کائنات کے سردار امام الانبیإ ﷺ کی لخت جگرو چہیتی اورجنت کی عورتوں کی سردارہ لونے کا شرف جس عظیم المرتبت ہستی کو حاصل ہے انہیں عرشی و فرشی حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام سے جانتے ہیں ۔
آپ کی ولادت باسعادت بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ سال قبل 20 جمادی الثانی بروز جمعةالمبارک مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ مروہ پہاڑی کے دائیں ہاتھ ایک اونچا بازار تھا، اس بازار کی ایک گلی میں جہاں کسی زمانے میں صرّافوں کی دکانیں ہواکرتی تھیں، حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنہا کا مکان تھا ہوئی۔ اسی مبارک مکان میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر شہزادیوں (صاحبزادیوں ) کی پیدائش ہوئی اورہجرت کے زمانہ تک ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سکونت اسی مبارک مکان میں تھی۔ اسی لئے علماء کرام نے لکھا ہے کہ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام اوربیت اللہ کے بعد سب سے متبرک گھر یہی ہے۔ اورکیوں نہ ہو کہ اس کائنات کی سب سے عظیم ہستی امام الانبیاء جن کی نظرمبارک جس چیز پر پڑ جائے تو اس کی شان بڑھ جاتی ہے تو جس مکان میں آپ کا ایک عرصہ تک قیام رہا اس کی کیا شان ہوگی ۔
الحمدللہ حرمین شریفین کی حاضری کے دوران بہت جستجو کے بعد اللہ تعالی نے اس مقام کی بھی زیارت کی توفیق دی لیکن یہ مکان اب اپنی اصلی حالت میں موجو د نہیں بلکہ مروہ پہاڑی کے دائیں ہاتھ یہ اب ایک اونچے چٹیل میدان کی صورت میں واقع ہے جو کہ توسیع کی نظر ہوگیا۔ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک ادھیڑ عمر شخص سے جوکہ عرصہ تیس سال سے مکہ مکرمہ مسجد جن کے مضافات میں رہائش پذیر تھے انہوں نے ہمیں بتلایاکہ آج سے کچھ عرصہ قبل جب میں نوجوان تھا تو تب تلک اس مکان کے کچھ آثار باقی تھے اور میں نے خود اس مکان کی زیارت کی تھی۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے اس مبارک جگہ کی یاد تازہ ہو گئی تو اس کا بھی میں نے ذکر کر دیا۔
حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک ابھی صرف پانچ سال ہی کی تھی کہ آپ کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت سیدّہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا اوریوں آپ رضی اللہ عنہا نے شفقت پدری کے علاوہ شفقت مادری بھی اپنے پیارے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی اور یقینا آپ چونکہ سب سے چھوٹی اورچہیتی تھیں تو آپ کا اکثر وقت منبع برکات و تجلیات کی آغوش رحمت میں گزرتا تھا ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اپنے ابا جان سے محبت دنیا کے کسی پیمانےسے جانچی نہیں جاسکتی یہ محبت بڑی ہی والہانہ اوربیان سے باہر ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اس چاند سی شہزادی سے اتنا پیار تھا کہ آپ علیہ الصلوة والسلام جب بھی کسی سفر پر روانہ ہونے کا قصد کرتے تو پہلے اپنی چہیتی بیٹی کے گھرجاتے اوران سے ملاقات کرکےاپنی آنکھوں کو اپنی لخت جگر کی زیارت سے ٹھنڈا کرتے اورپیار سے ان کی پیشانی مبارکہ پر بوسہ دیتے اوربے مثال بیٹی فرط محبت میں اپنے پیارے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کا شرف حاصل کرتی۔ ایسا معلوم ہوتا کہ باپ بیٹی کی محبت انتہائی جذباتی اور غیر معمولی تھی۔پھر جب آپ علیہ السلام سفر سے واپس لوٹتے تو سب سے پہلے اپنی لخت جگر کے ہاں جاتے اوردونوں باپ بیٹی اپنی پاکیزہ محبتوں کا تبادلہ کرتے اور یوں اپنی اداسی کو دور کرتے ۔
عظیم المرتبت باپ پیغمبرآخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی لخت جگرسے اس قدر محبت تھی کی ایک موقع پر انتہائی جذباتی انداز میں ارشاد فرمایا۔
“فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ جو چیز اسے اذیت دے اس سے مجھے اذیت ہوتی ہے اورجوبات اسے پریشان کرے وہ مجھے بھی پریشان کرتی ہے”
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے ابا جان سے غیر معمولی محبت تھی۔ نبوت کے ابتدائی دورمیں ایک دن حضورصلی اللہ علیہ وسلم بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک بد بخت گستاخ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سراقدس پر نعوذباللہ مٹی ڈال دی۔ رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں واپس گھر لوٹے چہیتی بیٹی نے جب اپنے کریم اباصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت دیکھی تو پھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔ وہ اپنے ابا جان کا سردھوتی جاتیں اورفرط غم میں آنکھوں سے آنسو بہاتی جاتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری لخت جگر صبر کر۔اللہ رحمٰن و رحیم تمہارے باپ کا حامی و مددگار ہے۔وہ تمہارے والد کو قریش کی دست درازیوں اورایذارسانیوں سے محفوظ رکھے گا۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےجانثار صحابہ رضی اللہ عنہم نے ہر کٹھن موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا مگر آپ کی اس چہیتی و لاڈلی شیر خداحضرت علی کرم اللہ وجہ کی زوجہ نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر اپنے پیارے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا ہے ۔
جو ماں خود اتنی جانثاراورباوفا ہو تو اس کے بطن سے جنم لینے والے شہزادے کس قدر اعلی وارفع شان والے ہوں گے! اللہ تعالی نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہا جیسے ایسے شجاع اورقابل فخر فرزند عطا کیے کہ جنہوں نے اپنے ناناعلیہ السلام کے دین کی آبیاری کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کردئے اوریہ ثابت کیا کہ ان کی رگوں میں سیّدة النساء اور حیدرکرارجیسی عظیم المرتبت ہستیوں کا خون دوڑتاہےاوریہ وہ عظیم شہزادے ہیں جن کی اماں جنت کی عورتوں کی سرداراوریہ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی بیماری کے ایام میں اپنی پیاری لخت جگر کو پاس بٹھا کر سرگوشی میں کچھ فرمایاجسے سن کر وہ رونے لگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ آہستہ آواز میں ان سے کچھ فرمایا جسے سن کر وہ مسکرانے لگیں ۔ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کو اپنے وصال کی خبر دی تھی جسے سن کر وہ روپڑیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلّی دینے کے لئے ارشاد فرمایا فاطمہ بیٹی میرے گھر والوں میں سے تم سب سے پہلے مجھ سے ملو گی اور میں تمہارے لئے کتنا بہترین پیش رو ہوں۔اورکیاتم اس بات پر راضی نہیں کہ تم تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار بنو؟ تو اس پر مجھے تسّلی ہوئی اور میں ہنس پڑی۔
باپ بیٹی کی یہ محبت اتنی شدید تھی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف چھ ماہ کا قلیل عرصہ زندہ رہیں اور پھر ہمیشہ کے لئے اپنے پیارے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عالم برزخ میں چلی گئیں ۔
آپ رضی اللہ عنہا کی وفات ہجر ت کے گیارھویں سال رمضان المبارک میں رات کے وقت ہوئی اور آپ کی وصیت کے موافق آپ رضی اللہ عنہا کو رات کےاندھیرےمیں مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن کردیاگیا۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں باب السّلام سے داخل ہوکر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر درود وسلام پڑھنے کے بعد جونہی ہم باب جبرائیل علیہ السلام سے باہر نکلیں تو بالکل سامنے کچھ ہی فاصلے پر جنت البقیع کا تاریخی قبرستان ہے جس کے داخلی دروازے کی دائیں جانب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری لخت جگر حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا اوران کے بیٹے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ حضرت عقیل بن ابی طالب رضی للہ عنہ اوردیگر اہل بیت کی قبور ہیں۔
اللہ تعالی نے ان تمام مبارک ہستیوں کے مزارات کی زیارت کی محض اپنے جناب سے توفیق عطا فرمائی ۔وما توفیقی الا باللہ
اللہ تعالی ان قدسی صفات ہستیوں کے درجات کو مزید بلند کرے اورہمیں ان کی سچی محبت اوراطاعت کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین
کمنت کیجے