بیسویں صدی کے افق پہ طلوع ہونے والے مفکرین ، محققین میں علامہ محمد اقبال (1877-1938) کئی وجوہ سے منفرد و یکتا ہیں۔ وہ بلاشبہ اسم با مسمی ہیں انہوں نے دین کے نظام عقائد کو بلند پایہ فکر اور جذبے سے محفوظ بنانے ایک منتہانہ کاوش کی۔
کسی بھی تہذیب کے نظریاتی و فکری مسائل کو محفوظ رکھنے کے لیے کئی افراد اپنی زندگیاں صرف کرتے ہیں ۔لیکن بعض اوقات قادر مطلق ذات ایک شخص سے اداروں اور جماعتوں کا کام لے لیتی ہے اس ایک شخص سے متنوع تاریخی اور معاشرتی اہمیت کے امور سر انجام پارہے ہوتے ہیں۔ اقبال بلاشبہ ایسے ہی شخص ہیں ۔ ان کی شخصیت کی ایک سطح نے شاعری میں اظہار پایا دوسری شخصیت کا ذریعہ نمو ان کے خطبات بنے ۔
علامہ نے اپنی شاعری میں فکر و جذبہ اور تخیل کو منتہا تک پہنچا کر دکھایا ۔علامہ اپنے شاعرانہ سحر سے قاری کے شعور و جذبے کو راہ صراط مستقیم دینے میں کامیاب ہوئے۔ وہ جتنے بڑے شاعر ہیں اسی طرح بڑے فلسفی ہیں اور اس کا اظہار ان کے خطبات میں ہوا ہے ۔ ان کے بنیادی مضامین جس طرح عقلی و علمی ہیں اسی طرح جمالیاتی اور خلاقانہ بھی ہیں۔ مقصود اس بات سے یہ ہے کہ ان کے بنیادی تصورات محض عقلی و استدلالی ہی نہیں جمالیاتی اور ذوق شعر کی اعلی سطحوں پہ فائز ہیں ۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیائے اسلام کے اس بے مثل عالم کی فکر کو مطالعہ کی ٹیبل کی زینت بنایا جائے ۔ جو شخص بھی اقبال کے کلام کی ذرا سمجھ بوجھ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ان کے فکرو فلسفہ جو نثری و منظوم کلام میں بیان ہوا ہے اس کا مقصود اعظم ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان شعور و وجود دونوں سطحوں پر قرآن سے جڑ جائیں ۔ علامہ ایسے راستے دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی منزل قرآن ہے۔
خطبات کا پہلا فقرہ ہی یہ ہے
“قرآن پاک وہ کتاب ہے جو فکر سے زیادہ عمل پر اصرار کرتی ہے”
(تجدید فکریات اسلام از علامہ اقبال ، ترجمہ ڈاکٹر وحید عشرت)
علامہ مشرق و مغرب کی علوم کی تحصیل کے بعد عظیم عارف اور صوفی مولانا روم کے حلقہ ارادے میں داخل ہوئے اور رومی کی طرح وہ اشیاء کو کلی تناظر میں دیکھتے ہیں ۔
فرماتے ہیں۔
“انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے کائنات کی روحانی تعبیر ،فرد کا روحانی استخلاص اور ایسے عالم گیر نوعیت کے اصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشوونما میں معاون ہوں۔”
دوسری طرف علامہ مغرب کے تصور علم پہ کس قدر نالاں ہیں۔
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو
ہوس کی پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بناءسرمایہ داری ہے
اقبال کے نزدیک اس تہذیب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ مادی ترقی اور کسبِ زر کو زندگی کی معراج سمجھتی ہے انسانی اخلاق اور روحانی اقدار کی ان کی نظر میں کوئی قیمت نہیں۔ چنانچہ انسانی زندگی میں توازن، اعتدال اور ہم آہنگی قائم نہ رہ سکی۔
یورپ میں بہت، روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
(بال جبریل)
آج کے روز علامہ ہم سے جدا ہوگئے تھے اور نہ جانے کتنے خواب ابھی تعبیر کے طالب ہیں ۔ آج ہمیں سپوت اقبال ہونے کا احساس اپنے اندر اجاگر کرنا ہے۔ کیونکہ اقبال نے با عزم نوجوانوں سے اظہار محبت فرمایا ہے۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
جی ہاں ، علامہ ہم سے ہی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
(بال جبریل)
ذہنی انتشار اور مادّہ پرستی کی اس شب دینور میں دینی نبوی کا چراغ جو ہمیں منزل کی طرف پہنچانے کا واحد سامان ہے وہ یورپی لادینی کے جھکڑوں کی زد میں آ کر بُجھا چاہتا تھا، یہ بادِ مسموم کس قدر مہلک اور جان لیوا ہے کہ دیں جاں بلب ہے ، اس آندھی کا زہریلا ہن دیکھیے کہ امت کی سانسی گھٹن کا شکار ہیں۔ مسلم اپنی نامراد و خاصِر نگاہیں جھکائے ویرانۂِ حیات میں تماشۂِ ہر نگاہ بنتا جارہا ہے ، امتِ محمدیہ کے شبستان کی زمین تعصُّب و مغربی تخیّلات کی حِدّت سے تمتما اٹھی تھی، آسمان کی شعلہ ریزیاں فضائے عالَم کو دہکتا ہوا انگارہ بنا چکی تھیں، پھول مرجھا چکے تھے، لالے کا رنگ اڑ چکا تھا، شاخیں پژمردہ ہورہی ہیں ۔ اپنے مذہب ، تہذیب اور روایت کے مرجھاتے گلستاں کوآب حیات دینے کےلیے علامہ کے چشمہ صافی کے پانی کی ضرورت ہے ۔
ہمیں آج علامہ کے شاہین بن کر شاخ نازک پہ آشیانہ بنانے والی تہذیب مغرب کی ناپائیداری ثابت کرنی ہے ۔ ہمیں اس بات کو عصری اسلوب میں اقوام عالم تک پہنچنا ہے کہ خدا کی بستی دکاں نہیں ہے ۔ ہمیں بتانا ہے کہ بجلی کے چراغوں سے روشن ہونے والی فکر دیرپا نہیں ہو سکتی اور نہ ہی علم و استدلال کے بالمقابل اس کی کوئی وقعت ہے ۔
یہ پیر کلیسا کے کرامات ہیں آج
بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار
اس لیے دینی ہمیت اور غیرت کے ساتھ اس دانائے روزگار کی خدمت میں حاضر ہو جائیے کیونکہ
سرود رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمے از حجاز آید کہ ناید؟
سرآمد روزگار ایں فقیرے
*دگر دانائے رازآید کہ ناید؟
علامہ کی فکر کے سنجیدہ مطالعہ کو معمول زندگی بنائیں اور ہاں اقبال کا صرف مطالعہ کر لینا کافی نہیں ہے بلکہ علامہ کے کلام سمجھیں ( چاہے وہ نظم میں ہو یا نثر میں )اور پھر اس کا ورد کریں جیسے کوئی صوفی اپنے وظیفہ کا ورد کرتا ہے ۔ اگر ہم نے یہ کرلیا۔ تو مجھے یقین ہے کہ اقبال کا ایک ایک مصرعہ اور ایک ایک فقرہ ہمارے اندر کئی نئے حقائق مذہب ، صوفیانہ معارف اور جمالیاتی شعور کے در وا کر دے گا۔
اللہ کریم کے حضور علامہ ہر دینی طالب کےلیے دعا جو دعا کی ہے اللہ عز و جل اسے شرف قبولیت عطا فرمائے۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرےبحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
(ضرب کلیم )
کمنت کیجے